اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰـتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّهِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ.
(الانفال، 8: 2)
’’ایمان والے (تو) صرف وہی لوگ ہیں کہ جب (ان کے سامنے) اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے (تو) ان کے دل (اس کی عظمت و جلال کے تصور سے) خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ (کلامِ محبوب کی لذت انگیز اور حلاوت آفریں باتیں) ان کے ایمان میں زیادتی کر دیتی ہیں اور وہ (ہر حال میں) اپنے رب پر توکل (قائم) رکھتے ہیں (اور کسی غیر کی طرف نہیں تکتے)‘‘۔
دنیا میں کوئی بھی کام اچھی اور بھرپور تیاری کے بغیر نہیں ہوسکتا جس کام کی تیاری اچھی نہ ہو یا تو وہ کام پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتا اور اگر وہ پہنچ بھی جائے تو معیاری نہیں ہوتا اقامت دین اور غلبہ اسلام کا عظیم انقلابی کام کئی گنا بڑھ کر بھرپور تیاری کا تقاضا کرتا ہے۔ تیاری کی دو سطحیں ہیں۔ ایک اپنی ذات کی سطح اور ایک معاشرے کی سطح۔
انقلاب کی ایک ترتیب ہے جب تک ذات میں انقلاب نہیں آئے گا اس وقت ملک میں انقلاب نہیں آئے گا۔ جب تک ملک میں انقلاب نہیں آئے تو اس وقت تک بین الاقوامی سطح پر انقلاب نہیں آئے گا۔
نتیجہ خیزی پیدا نہ ہونے کی وجہ
معاشرے کی اصلاح کے لیے جو ضابطہ اور ترتیب قرآن مجید اور سیرت طیبہ سے ملی ہے ان بنیادی قدروں کو کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے مگر ہم کچھ اہم چیزوں کو سنتے اور سمجھتے نہیں اور اگر سمجھتے ہیں تو صرف ذہنی سطح پر سمجھتے ہیں قلب میں نہیں اتارتے۔ اگر دل میں بھی اتر جائے مگر عمل کے سانچے میں نہیں ڈھالتے اس طرح ان چیزوں کو ہم خود نظر انداز کرتے چلے جاتے ہیں اور پھر سوچتے ہیں کہ نتائج پیدا کیوں نہیں ہوئے؟ بات بالکل واضح ہے کہ جب ہم نے ابتدائی شرط پوری نہیں کی تو نتائج کا پیدا ہونا کیسے ممکن ہے؟
نتائج کب پیدا ہوتے ہیں؟
وَاَطِیْعُوا اللهَ وَرَسُوْلَهٗٓ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ.
’’اور اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کیا کرو اگر تم ایمان والے ہو‘‘۔
(الانفال، 8: 1)
یعنی اللہ تعالیٰ نے نتیجہ خیزی کے لیے یہ شرط لازمی رکھی کہ تم سچے اور پکے مومن بن کر کوشش کرو مزید فرمایا: کوئی شخص بھی اس وقت تک مومن نہیں بن سکتا جب تک اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اتباع کا رنگ اپنے اوپر نہ چڑھا لے لہذا نتیجہ خیزی کے لیے مومن بننا ضروری ہے اور مومن کے لیے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اتباع لازمی ہے اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے مومنین کی علامات بھی بتائی ہیں۔
مومن کی پہلی علامت
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ.
’’ایمان والے (تو) صرف وہی لوگ ہیں کہ جب (ان کے سامنے) اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے (تو) ان کے دل (اس کی عظمت و جلال کے تصور سے) خوفزدہ ہو جاتے ہیں‘‘۔
(الانفال، 8: 2)
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے انما لاکر حصر اور تاکید پیدا کی ہے۔ اے انقلاب کی راہ پر چلنے والو! مومن وہ لوگ ہیں جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل خشیت الہٰی، محبت الہٰی اور ادبِ الہٰی سے کانپ جاتے ہیں۔ ان کے اندر لذت، حلاوت اور کیف و سرور کے جذبات مچل جاتے ہیں۔ خوف و رجاء اور ادب کی اس کیفیت کا نام ایمان ہے۔
مومن کی دوسری علامت
وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰـتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا.
(الانفال، 8: 2)
’’اور جب ان پر اس کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ (کلامِ محبوب کی لذت انگیز اور حلاوت آفریں باتیں) ان کے ایمان میں زیادتی کر دیتی ہیں‘‘۔
مومن کی دوسری علامت یہ ہے کہ جب اس کے سامنے آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو اس کا ایمان بڑھ جاتا ہے، کمزور یقین پختہ ہوجاتا ہے، شمع ایمان کی جو ٹمٹما رہی ہوتی ہے اور بجھنے کے قریب ہوتی ہے۔ دوبارہ بھڑک اٹھتی ہے، اندھیروں کو منور کرنے لگتی ہیں اور مایوسیوں کو امیدِ نو بہار کا مژدہ سنانے لگتی ہیں۔
مومن کی تیسری علامت
وَّعَلٰی رَبِّهِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ.
(الانفال، 8: 2)
’’اور وہ (ہر حال میں) اپنے رب پر توکل (قائم) رکھتے ہیں (اور کسی غیر کی طرف نہیں تکتے)‘‘۔
مومنین کی تیسری علامت بتلاتے ہوئے فرمایا کہ ظاہری حالات سازگار ہوں یا نہ ہوں انہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی راہ پر چل رہے ہیں وہ خود ہی اسباب پیدا کردے گا لہذا مومنین ظاہری اسباب کو بروئے کار لاتے ہیں مگر بھروسہ اسباب پر نہیں بلکہ مسبب الاسباب پر کرتے ہیں۔
مومن کی چوتھی علامت
اَلَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ.
(الانفال، 8: 3)
’’(یہ) وہ لوگ ہیں جو نماز قائم رکھتے ہیں ‘‘۔
یعنی مومنین اللہ کے احکام اور فرائض کی پابندی کرنے والے ہوتے ہیں ان سے صرفِ نظر یا غفلت نہیں برتتے۔
مومنین کی پانچویں علامت
وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ.
(الانفال، 8: 3)
’’اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے (اس کی راہ میں) خرچ کرتے رہتے ہیں‘‘۔
جو ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ گویا مومن کنجوس نہیں ہوتا بلکہ وہ سخی ہوتا ہے اور حسب استطاعت اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے۔
انعامات کے مستحق مومنین
اُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا ط لَهُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌ.
(الانفال، 8: 4)
’’(حقیقت میں) یہی لوگ سچے مومن ہیں، ان کے لیے ان کے رب کی بارگاہ میں (بڑے) درجات ہیں اور مغفرت اور بلند درجہ رزق ہے‘‘۔
اللہ رب العزت ایک بار پھر ذہن کے اندر پائے جانے والے مغالطے کی اصلاح اور من گھڑت تصور کو رد کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ سچے مومنین تو فقط وہ لوگ ہیں جن کے اندر درج بالا علامات پائی جاتی ہیں کہ جن کے دل اللہ کے ذکر سے لرز جاتے ہیں۔
جن کے ایمان اللہ کی آیات سننے سے بڑھ جاتے ہیں وہ اللہ پر توکل کرتے ہیں، وہ کامل مومنین ہیں جن کے لیے اس دنیا میں بھی درجات ہیں اور آخرت میں درجات اور انعامات ہیں۔ اس کے بعد اللہ رب العزت غزوہ بدر میں حق و باطل کے درمیان پیش آنے والے پہلے معرکہ کا ذکر فرماتا ہے۔
انقلابی اور غیرانقلابی میں فرق
کَمَآ اَخْرَجَکَ رَبُّکَ مِنْ م بَیْتِکَ بِالْحَقِّ ص وَاِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَکٰرِهُوْنَ.
(الانفال، 8: 5)
’’(اے حبیب!) جس طرح آپ کا رب آپ کو آپ کے گھر سے حق کے (عظیم مقصد) کے ساتھ (جہاد کے لیے) باہر نکال لایا حالاں کہ مسلمانوں کا ایک گروہ (اس پر) ناخوش تھا‘‘۔
جیسے آپ کے رب نے آپ کو آپ کے گھر سے حق کی خاطر نکالا اور بے شک مومنین کی ایک جماعت اس کو ناپسند کررہی تھی۔ جب ہم نے آپ کو غزوہ بدر کا حکم دیا تو مسلمانوں کی ایک جماعت اس کو ناپسند کررہی تھی۔ اس میں ایک بات توجہ طلب ہے کہ جب تک مکہ میں تھے تو اور طرح کا ماحول تھا۔ ہجرت کرکے مدینہ میں آئے توجو زمانہ مدینہ میں گزرا۔ اس میں مسجد نبوی تھی۔ نمازیں، آقا علیہ السلام کا وعظ، زیارتیں، محبت اور روحانیت تھی۔ اسلام کی سلطنت تھی تو سب خوش تھے مگر اچانک حکم آیا کہ گھروں سے نکلو، تلواریں اٹھالو اور معرکہ بدر برپا کرو تو قرآن کہتا ہے کہ مسلمانوں میں سے ایک جماعت اور طبقہ ایسا پیدا ہوگیا جو اس سمت جانے پر رضا مند نہ تھا وہ طبقہ انقلابی نہیں تھا۔ وہ سب کام کرنے پر خوش تھا مگر انقلابی جدوجہد اور باطل کے ساتھ معرکہ آرائی سے دور رہنا چاہتا تھا۔ آج بھی یہی سوچ معاشرے کے اندر پائی جاتی ہے کہ لوگ معرکہ آرائی سے کتراتے ہیں لہذا قومی سطح پر جدوجہد اور باطل سے معرکہ آرائی سے پہلے من کے اندر ایمانی انقلاب پیدا کرنا ضروری ہے پھر اللہ کی نصرت شامل حال ہوتی ہے۔
جو طبقہ معرکہ آرائی سے دور رہنا چاہتا تھا وہ آپ ﷺ سے اعتراض کرنے لگا کہ آپ ہمیں موت کے منہ میں دھکیلتے جارہے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے اس بات کو رد کردیا کہ اس انقلابی جدوجہد پر جانے کا فیصلہ رسول ﷺ کا ذاتی نہیں بلکہ یہ تو اللہ کا امر ہے اور وہ حق ہے۔
وَیُرِیْدُ اللهُ اَنْ یُّحِقَّ الْحَقَّ بِکَلِمٰتِهٖ.
’’اور اللہ یہ چاہتا تھا کہ اپنے کلام سے حق کو حق ثابت فرما دے ‘‘۔
(الانفال، 8: 7)
خدا کی مشیت اور ارادہ یہ ہے کہ حق ہمیشہ غالب رہے مگر آج اگر حق مغلوب ہے اور باطل غالب ہے تو اس کی یقینا وجہ یہ ہے کہ ہمارے اندر ایمانی انقلاب نہیں رہا جب صحابہ کرامؓ اپنے اندر ایمانی انقلاب برپا کرکے چلے تھے تو باطل سرنگوں ہوگیا جبکہ ہم اپنی ذات پر محنت کرنے، اپنی اصلاح کرنے اور اپنے اندر بندگی کا نور پیدا کرنے کے لیے تیار نہیں مگر جو لوگ اپنے اندر ایمانی انقلاب پیدا کرلیتے ہیں اور بندگی کانور پیدا کرلیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی التجا سنتا اور ان کی مدد کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی خاطر قانون بھی بدل لیتا ہے
غزوہ بدر کے موقع پر صحابہ کرامؓ نے جب کفار کی کثرت دیکھی تو اللہ کے حضور دعا کی جس کو قرآن نے یوں بیان کیا۔
اِذْتَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ اَنّیْ مُمِدُّ کُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓـئِکَۃِ مُرْدِفِیْنَ.
(الانفال، 8: 9)
’’(وہ وقت یاد کرو) جب تم اپنے رب سے (مدد کے لیے) فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری فریاد قبول فرمالی (اور فرمایا) کہ میں ایک ہزار پے در پے آنے والے فرشتوں کے ذریعے تمہاری مدد کرنے والا ہوں‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آج تم میرے بن کر اپنی زندگیاں میری راہ میں لٹانے کے لیے آئے ہو لہذا آج میں تمہاری خاطر قانون بدلتا ہوں۔ میں نے فرشتے جنگ کے لیے پیدا نہیں کیے اور نہ ہی یہ میرا معمول ہے کہ ان کو تلواریں دے کر زمین پر جنگ کے لیے بھیجوں کیونکہ انہوں نے تخلیق آدمe کے وقت یہی اعتراض کیا تھا کہ یہ خون بہائے گا مگر آج ان کی سرشت سے ہٹ کر انہیں تلواریں تھماتا ہوں اور انہیں بھیجتا ہوں کہ جائو! میرے محبوب اور اس کے لشکر کے ساتھ مل کر خون بہائو تاکہ میرے محبوب کے ساتھی پریشان نہ ہوں۔ یعنی اللہ تعالیٰ اگر فرشتے نہ بھی بھیجتا تب بھی مدد کرنے پر قادر تھا مگر فرشتوں کو اس لیے بھیجا تاکہ وہ تمہیں نظر آئیں اور انہیں دیکھ کر تمہارے حوصلے بلند ہوں۔
غیبی مدد کے تقاضے
غیبی مدد حاصل کرنے کے لیے کچھ غیبی کیفیات پیدا کرنی پڑتی ہیں اور غیبی کیفیتیں ایمانی انقلاب کا نام ہے اور ایمانی انقلاب مصطفوی انقلاب کی بنیاد ہے لہذا جب تک ایمانی انقلاب نہیں آئے گاتب تک معاشرے میں مصطفوی انقلاب نہیں آسکتا جبکہ موجودہ صورتحال میں معاشرہ تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے۔
معاشرے کی زبوں حالی
آج معاشرے کی حالت انتہائی نازک ہے رذائل اخلاق اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ ہر ایک کے اندر برائی کی آندھیاں بپا ہیں۔ فحاشی اور عریانی بڑھ چکی ہے، مادیت پرستی غالب آچکی ہے۔ دین سے دوری، بے حسی اور بے ضمیری اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ احساس ضیاع ختم ہورہا ہے۔ ہم لٹ رہے ہیں اور تباہی کی منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ قوم برباد ہورہی ہے، ہماری نسلیں بے ضمیر اور دین سے دور ہورہی ہیں۔ آج ہر شخص الا ماشاء اللہ اس طوفان کی زد میں ہے۔ بڑی خاص بات یہ ہے کہ جو لوگ براهِ راست اس طوفان کی زد میں نہیں ہیں مگر ان پر اس کی گرد ضرور پڑ گئی ہے جس طرح حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تھا: ’’ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ کم و بیش ہر شخص سود خور ہوجائے گا بالواسطہ یا بلاواسطہ‘‘ اشارہ اس طرح کیا گیا ہے کہ جب ریاست کا پورا نظام سود پر استوار ہوگا تو سود کی لعنت سے کون بچ سکے گا؟
ایسے ماحول، معاشرے اور وقت میں احیائے اسلام، اقامت دین اور حفاظت ایمان کی تحریک منہاج القرآن اٹھی ہے۔ اگر تحریک کے لیے جدوجہد کرنے والے ہی کمزور ایمان لے کر چلیں گے تو اس بڑے طوفان کا مقابلہ کیونکر کرسکیں گے؟ جبکہ اللہ تعالیٰ تو ایمان کا یہ معیار چاہتا ہے کہ تمہارا ایک آدمی دس پر غالب ہو یا کم از کم ایک آدمی دو پر غالب ہو جو ایمان کی پختگی کے بغیر ممکن نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ.
(الانفال، 8: 65)
’’اگر تم میں سے (جنگ میں) بیس (2۰) ثابت قدم رہنے والے ہوں تو وہ دو سو (2۰۰ جنگ جُو کفار) پر غالب آئیں گے ‘‘۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تخفیف فرمادی ہے۔ تخفیف کا معنی یہ نہیں کہ حکم منسوخ کردیا ہے بلکہ درجے مقرر فرمادیئے کہ ایک دس پر غالب ہو یا کم از کم دو پر غالب ہو یعنی ایک کمزور ایمان رکھنے والے مسلمان کا ایمان سے خالی دو آدمیوں پر غالب آنا حق ہے۔ اس کے بعد ایمان کی آئیڈیل صورت یہ ہے کہ ایمان بڑھتے بڑھتے اس حد تک طاقتور ہوجائے کہ ایک مومن دو سو پر غالب آجائے۔
اہم نکتہ
زوالِ ایمان، مادیت اور لادینیت کی چلتی ہوئی تیز رفتار آندھیوں کے دور میں اگر ہم مصطفوی انقلاب کی اس تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنا چاہتے ہیں تو مصطفوی انقلاب کے وہ سپاہی جو فرنٹ پر ہیں یعنی جو عہدیداران ہیں ان کو چاہیے کہ ایمان کو اس قدر پختہ کرلیں کہ ایک، ایک دو سو پر غالب ہو، کچھ لوگ ایسے ہوں کہ جو ایک، ایک دس، دس پر غالب ہو، کچھ ایسے ہوں کہ جو ایک، ایک دو، دو پر غالب ہو۔ وگرنہ معاشرے کے اندر جتنی بدی پھیل چکی ہے اس کو مٹانا ممکن نہیں ہوگا۔
دوسو پر غالب ہونے کے لیے غیبی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے
باطل، طاغوتی شیطانی اور دین دشمن طاقتیں ہر سمت سے حملہ آور ہوکر اہل اسلام کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ ایمان اور روحانیت کی قدریں مٹتی چلی جارہی ہیں۔ وقت بڑی تیزی سے گزر رہا ہے۔ اس میں محنت کرنی چاہیے اور محنت کا آغاز اپنی زندگیوں سے کرنا چاہیے کیونکہ اللہ کی غیبی طاقت کے بغیر ایک شخص دو سو پر غالب آنے کی طاقت نہیں رکھ سکتا اور غیبی مدد اس وقت نصیب ہوگی جب اللہ کے لیے غیبی عمل کرنے والے نہ بنا جائے۔
مصطفوی انقلاب کے سپاہی اور قرونِ اولیٰ کے نوجوان
آج ہمیں اپنے اندر قرونِ اولیٰ کے نوجوانوں کے سیرت و کردار کو سمونا ہوگا۔ وہ نوجوان جن کی راتیں مصلوں پر گزرتی ہیں اور دن گھوڑوں کی پیٹھ پر، وہ نوجوان جو رات کو اللہ کے حضور سجدے کرتے، شب بیداری کرتے اور رو رو کر اللہ کو مناتے اور دن ہوتا تو جان ہتھیلی پر رکھ کر اللہ کے دین کی خاطر جہاد کرتے۔ جب تک ہمارے معاشرے میں لاکھوں جوان اللہ کے لیے رونے والے اور اللہ کے دین کے لیے باطل اور کفر سے ٹکرا جانے والے نہیں بن جاتے اس وقت تک آگے بڑھنا بڑا مشکل ہے۔ اگر لاکھوں گھروں میں آج بھی پچھلی رات جوان مصلے پر کھڑے ہوں اور رات کے اندھیرے میں آنسو گر رہے ہوں، التجائیں کررہے ہوں کہ اے مولا! ہمیں معاف کردے اور اپنے دین کو سر بلند کردے اگر یہ کیفیتیں پیدا ہوجائیں تو اللہ رب العزت آج بھی اپنی مدد و نصرت فرمائے گا اور اپنی برکتوں اور رحمتو ںکے دروازے کھول دے گا۔
مصطفوی انقلاب اور حسینیؑ کردار
آج مصطفوی انقلاب کے لیے حضرت امام حسینؑ کے تقویٰ و طہارت اور کربلا والوں کے کردار کی ضرورت ہے کہ خیمے کے اندر جائیں تو اللہ کے حضور سجدوں میں رونے والے بن جائیں۔ باہر آئیں تو یزیدیوں کو للکارنے والے بن جائیں یہ آئیڈیل کردار ہو۔ اسی کردار کو اپنانا ہوگا کیونکہ جب جنگ کے پیچھے سجدوں اور آنسوئو کی طاقت ہوگی، تعلق باللہ اور عشق رسول ﷺ کی طاقت ہوگی تو معاشرہ میں بہتری آئے گی۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’آخری زمانے میں اسلام اس طریقے سے غالب ہوگا جس طریقے سے میری امت کے اوائل دور میں غالب ہوا تھا‘‘۔
اشارہ اس امر کی طرف تھا کہ اسلام کو سربلند کرنے والے لوگ اس کردار کی طرف پلٹ آئیں گے جو کردار قرونِ اولیٰ کے لوگوں کا تھا، ان کی زبانیں لغویات سے پاک ہوں گی، فکر اور سوچ پاک ہوں گی، جسم اور روحیں پاک ہوں گی، ان کی پیشانی سجدے سے آشنا ہوجائے گی، دل اللہ کی یاد میں تڑپنے والے اور حضور ﷺ کے عشق میں تڑپنے والے ہوں گے جن کی ایسی زندگیاں ہوں گی جو اللہ کو پسند ہیں کیونکہ اللہ کا وعدہ ہے کہ ایسے لوگوں کے ذریعے اپنے دین کو سربلند کرتا ہوں۔