مغل حکمران اورنگ زیب عالمگیر کے انتقال 1707ء کے بعد ہی مغلوں کا سیاسی زوال شروع ہوگیا۔ اس دورِ زوال میں ایک طرف جاٹوں اور مرہٹوں کے مقامی قوتوں نے شمالی ہند پر حملے شروع کردیئے تو دوسری طرف ایران کے بادشاہ نادر شاہ نے 1739ء میں دہلی پر حملہ کرکے لوٹ مار کا بازار گرم کردیا۔ اب مسلمان بطور سیاسی قوت بہت کمزور ہوچکے تھے لیکن سیاسی زوال کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی مذہبی، علمی، معاشی اور معاشرتی زندگی بھی انحطاط کا شکار ہوچکی تھی۔ اس فکری و علمی دورِ زوال میں حضرت شاہ ولی اللہؒ ایک ایسے مجدد اور مصلح کے طور پر ابھرے جن کا مقصد تجدیدِ دین اور اصلاحِ معاشرت تھا۔ آپ کی مذہبی، علمی اور معاشرتی اصلاحی تحریک اس قدر جامع اور ہمہ گیر تھی کہ اس کی بو قلموں حیثیت نے مابعد کے ادوار میں مثبت اثرات مرتب کیے اور مسلم نشاۃ ثانیہ میں اہم کردار ادا کیا۔
اس ہمہ گیر تحریک کا آغاز آپ نے اپنی تصنیف تفہیماتِ الہٰیہ سے کیا۔ آپ نے اصلاح معاشرہ کا دائرہ سیاست، اخلاقیات اور اقتصادیات پر پھیلادیا۔ اس کے لیے آپ نے ایک ٹھوس پروگرام بنایا اور اپنی تمام تر زندگی اس پر وقف کردی۔
شاہ ولی اللہؒ اپنی تصنیف تفہیماتِ الہٰیہ میں تحریک کے آغاز کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میری راتوں کی نیندیں حرام تھیں سمجھ نہیں پاتا تھا کہ اس معاشرے کی اصلاح کس طرح کی جائے کیونکہ مسلم معاشرہ بے شمار برائیوں میں گھرا ہوا تھا۔ آخر کار وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ مسلمان خواہ ان کا تعلق حکمران طبقے سے ہو یا خود علما سے وہ دین سے بیگانہ تھے اور انہوں نے تمدنی اعتقادات اور رسوم و رواج کو ہی دین سمجھ لیا تھا۔ یہاں تک کہ ایک طبقہ دوسرے پر الزامات لگاتا اور اسے مسلمان ہی نہ سمجھتا۔ مسلم طبقات نہ آپس میں معاشرتی تعلق قائم کرتے اور نہ رواداری سے پیش آتے۔ ان کی تمام تر زندگی مذہبی تصنع سے عبارت تھی۔ شاہ ولی اللہؒ کے نزدیک مسلمانوں کی اس مذہبی بیگانگی کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ مسلمان مفہومِ قرآن سے نابلد تھے چنانچہ انہوں نے اپنی مذہبی و علمی تحریک کا آغاز ترجمہ قرآن سے کیا۔
قرآن مجید کا فارسی ترجمہ آپ کا سب سے اہم اور بڑا کارنامہ ہے۔ اس سلسلے میں آپ نے اس دور کے نظریہ کی نفی کی قرآن مجید کا ترجمہ کرنا بدعت ہے۔ آپ کی رائے میں قرآنِ کریم اسلامی تعلیمات کی بنیاد ہے مگر لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ عام مسلمان عربی زبان سمجھ نہیں پاتے جس کی وجہ سے قرآن کریم کے احکامات کے مطابق اپنے اعمال کا جائزہ نہیں لے سکتے۔ اُن کے اعمال صرف دوسروں کی سمجھائی ہوئی راہ سے وابستہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان گمراہی کا شکار اور مذہبی گمراہی کی بنا پر سیاسی انحطاط سے ہمکنار ہیں۔ شاہ ولی اللہؒ نے فتح القرآن فی ترجمان القرآن میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا۔ قرآن کریم پیغامِ عمل ہے اور عمل بغیر ادراک کے ممکن نہیں۔
ہندوستان کے مسلمانوں نے ابتدا میں قرآن کریم کے ترجمے کو جائز نہ سمجھا مگر آہستہ آہستہ اس کی مخالفت کم ہوگئی۔ بعد ازاں آپ کے بیٹوں نے اردو زبان میں قرآن کریم کے تراجم کیے۔ شاہ ولی اللہؒ کی اس کاوش نے قرآن کریم اور اس کی تعلیمات کو ہندوستان میں عام فہم بنانے میں مثبت کردار ادا کیا۔
ترجمہ قرآن کریم کے بعد شاہ ولی اللہؒ نے تفسیرِ قرآن کی طرف توجہ دی۔ اُن کی تصنیف ’’الفوز الکبیر فی اصول التفسیر‘‘ اسی موضوع سے متعلق ہے۔ اس میں آپ نے جہاں تفسیرِ قرآن کے اصول بیان کیے ہیں وہاں سابقہ مفسرین کی تفاسیر کا تقابلی جائزہ بھی لیا ہے۔ اس سلسلے میں آپ نے یہ وضاحت کی کہ تفسیر قرآن کے دو اصول ایسے ہیں جو ہمیشہ مدنظر رکھنے چاہئیں۔
1۔ قرآنی آیات کو ان کے واقعات کے پسِ منظر میں سمجھا جائے۔
2۔ وہ تمام آیات جن کا تعلق واقعاتی نوعیت کا نہیں، ان کے شان نزول کے اعتبار سے سمجھنے کی کوشش کی جائے۔
آپ نے اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا کہ اب تک لکھی جانے والی تمام تفاسیر میں ان اصولوں کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ اس لیے ان اصولوں کے پیشِ نظر ایک نئی تفسیرِ قرآن لکھنے کی ضرورت ہے۔
آپ کی مذہبی تحریک کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ آپ مسلمانوں کی اخلاقی اور روحانی اصلاح کے لیے علم حدیث کی اشاعت ضروری سمجھتے تھے۔ علم حدیث کی تدریس کے لیے آپ نے ایک درس گاہ بھی قائم کی۔ آپ امام مالکؒ کے مرتب کردہ مجموعہ حدیث موطا شریف کو مستند سمجھتے تھے۔ آپ کے نزدیک اس میں موجود آسان احادیث کے ذریعے طلبہ اسلامی تعلیمات کو بہتر انداز سے سمجھ سکتے ہیں۔ آپ نے موطا شریف کی شرح فارسی اور عربی دونوں زبانوں میں لکھی۔ جن کے نام المسویٰ اور المصفیٰ ہیں۔
آپ نے عوام الناس کی رہنمائی کے لیے مختصر احادیث کی کتابیں بھی مرتب کیں جن میں ایک کتاب ’’چہل حدیث‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ ’’انوادر من الحدیث‘‘ میں غیر معمولی احادیثیں جمع ہیں۔ ’’الدرالثمین فی مبشرات النبی کریم‘‘ میں ایسی اہم چالیس حدیثیں ہیں جو حضرت محمد رسول اللہa نے آپ کو خواب میں بتائی تھیں۔ اس کے علاوہ آپ نے اپنی تصنیف ’’حجۃ البالغہ‘‘ میں علم حدیث پر بحث کی۔ ان کتب کو تحریر کرنے کے علاوہ آپ نے ایسے علما کی تربیت بھی کی جنھوں نے درس حدیث کا سلسلہ آپ کے بعد بھی جاری رکھا اور یہ فیض ملک میں عام ہوا۔
اس کے علاوہ آپ کا ایک کارنامہ دینی ید بھی ہے کہ آپ نے اجتہاد کی ضرورت پر زور دیا۔ آپ کے نزدیک اس دور کے تمام دینی، معاشرتی اور اخلاقی مسائل کا حل اجتہاد میں مضمر تھا۔ آپ اجتہاد کرنے والے یعنی مجتہد کے لیے علم قرآن، علم حدیث، علم تفسیر پر عالمانہ دسترس ضروری سمجھتے تھے۔ مجتہد کو تمام ائمہ کی تعلیمات کا ادراک ہونا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت ہونا بھی ضروری ہے۔ شاہ ولی اللہؒ نے فقہ اور اس سے منسلک اختلافی مسائل میں میانہ روی اور اعتدال کا راستہ اختیار کرنے پر زور دیا۔ اس میانہ روی کو مسلکِ شاہ ولی اللہی کہا جاتا ہے۔
اسی طرح آپ نے علم تصوف پر بھی خامہ سرائی کے سلسلہ میں ایک رسالہ ’’فیصلہ وحدۃ الوجود والشہود‘‘ لکھ کر ابن العربی کے نظریہ وحدۃ الوجود اور امام ربانیؒ کے نظریئے وحدت الشہود کے مسئلہ پر مصالحت پیدا کرنے کی کوشش کی اور تصوف میں علماء سو کی غلط رہنمائی کی نشاندہی کی۔ آپ کے نزدیک علم کو رہنما بناکر ہر انسان راہنمائی اور معرفتِ الہٰی حاصل کرسکتا ہے۔
شاہ ولی اللہؒ کی تحریک کا راستہ میانہ روی اور اعتدال کا راستہ تھا، آپ نے اسی راستے کے ذریعے مسلمان فرقوں کے باہمی اختلافات کو ختم کرنے اور مفاہمت کی ابتدا کی۔ اس سلسلے میں آپ نے کئی کتابیں لکھیں مگر خاص طور پر ازالہ الخفا میں سیر حاصل بحث کی اور شیعہ سنی کو قریب لانے کے لیے مقام اہل بیت اور مقام صحابہؓ کو اس طرح متعین کیا کہ کسی فرقے کو اعتراض کا موقع نہ مل سکا۔ آپ نے فرمایا کہ اہل بیت کی محبت از روئے قرآن واجب ہے، ان کا علمی کام اور مقام بھی وجہ تنازعہ نہیں۔ اسی طرح خلفاء راشدین اور صحابہ کرامؓ کی عظمت، کردار اور قربانیاں بھی سب مسلمانوں کے لیے قابلِ تعظیم ہیں۔
آپ کا اہم ترین کارنامہ اسلامی معاشرے کی اصلاح اور تنظیم نو کی کوشش تھی۔ اصلاحِ معاشرت میں آپ کے اقتصادی اور معاشی نظریات قابلِ ذکر ہیں جن کو بنیاد بناکر آپ اسلام کو ہندوستان میں ایک غالب قوت بنانا چاہتے تھے۔ یہ مقصد اسی صورت میں پورا ہوسکتا تھا کہ دولت کی منصفانہ تقسیم ہو اور ہر شخص کو سماجی انصاف ملے۔
اصلاح معاشرت کے لیے آپ نے تفہیماتِ الہٰیہ لکھی۔ اس میں بادشاہوں اور امرا کے طبقے کی نااہلی عیاشی اور بدعنوانی پر تنقید کرتے ہوئے انہیں احساس دلایا کہ انہیں صرف عمدہ لباس اور اچھی غذا ہی نہیں کھانی چاہیے بلکہ محروم و غریب طبقے کے حقوق کا پاس کرتے ہوئے مکمل طور پر اسلام میں داخل ہوجانا چاہیے۔ آپ نے فوج اور سپاہ کی گرفت کرتے ہوئے انہیں خبردار کہ ان کا اولین منصب جہاد ہے جسے انہوں نے فراموش کردیا ہے۔ تاجروں اور صنعت کاروں کو دیانت اور امانت کا راستہ دکھاتے ہوئے انہیں احساس دلایا کہ وہ ذاتی خوشحالی کی بجائے ملک کی اقتصادی خوشحالی پر توجہ دیں۔ عوام الناس پر زور دیا کہ وہ دینی اور اعلیٰ اخلاقی قدروں کو اپناتے ہوئے کارآمد شہری بنیں۔ آپ نے اسبابِ زوال معاشرت پر بھی بحث کی اور اس کے دو بڑے اسباب بیان کیے۔
1۔ امیر طبقے نے سرکاری خزانے کی لوٹ کھسوٹ شروع کررکھی ہے۔
2۔ کسان، تاجروں اور محنت کشوں پر ناجائز ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔
چنانچہ ان مسائل پر بحث کرتے ہوئے آپ نے اسلامی معاشرے کی معاشی خوشحالی کو جن امور سے وابستہ کیا وہ شاہ ولی اللہؒ کے جدید اقتصادی و معاشی نظریات کہلاتے ہیں۔ ان میں سے چند ایک اہم اصول قابلِ ذکر ہیں۔ مثلاً ہر شخص کو اپنی محنت کا مناسب معاوضہ ملنا چاہیے۔ معاشرے میں مزدوروں اور کسانوں جیسے محنت کش طبقات کا خوشحال ہونا بہت ضروری ہے۔ ان سے کم معاوضے پر کام نہایت بہت بڑی بے انصافی ہے۔ محنت کشوں کے اوقاتِ کار مقرر ہونے چاہیے۔ دولت کے ناجائز طریقوں کا خاتمہ ہونا ضروری ہے۔ مثلاً سٹے بازی، جوا اور عیاشی کے اڈے ختم ہونے چاہیے۔ سرمائے پر چند خاندانوں کا قبضہ نہ ہو بلکہ سرمایہ پورے معاشرے کے لیے ہوتا ہے اور اسے معاشرے میں گردش کرنا چاہیے۔ آپ نے تاجروں پر زور دیا کہ وہ ذخیرہ اندوزی اور چور بازاری نہ کریں بلکہ عوام کی ضروریات بہترین طریقے سے پوری کریں۔ آپ نے عدل و انصاف قائم کرنے، سادہ زندگی بسر کرنے اور دولت کے ارتکاز سے بچنے کی تلقین کی۔
شاہ ولی اللہؒ کی اس جامع اور ہمہ گیر تحریک کے ہندوستانی معاشرے پر بڑے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ آپ کے بعد آپ کی قائم کردہ صالح جماعت نے آپ کی مذہبی و اخلاقی تجاویز کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی۔ آپ کے بیٹے شاہ عبدالعزیز اس نوعیت کا کام علمی بنیادوں پر کیا۔ سید احمد شہید اور شاہ اسماعیلی شہید نے تحریک جہادکے ذریعے آپ کے اس نصب العین کو پانے کی کوشش کی جس کا مقصد ہندوستان میں ایک مثالی اسلامی ریاست کا قیام تھا۔ تحریک جہاد کے بعد بھی یہ کوشش شمال مغربی سرحد پر جہاد کی صورت میں جاری رہی جس کے تحت انگریزوں کو بار بار شکست دی گئی اور سیاسی خودمختاری قائم رکھی گئی۔ مذہبی وعلمی بنیادوں پر محمد قاسم نانوتوی نے مدرسہ دیوبند قائم کیا جو پوری اسلامی دنیا میں ایک مرکزی علمی ادارے کی حیثیت حاصل کرگیا۔ آپ کی تحریک کے اثرات انیسویں اور بیسویں صدی میں کامیابی سے آگے بڑھے۔ وسیع تر معنوں میں سرسید احمد خان، علامہ اقبال، مولانا شبلی نعمانی اور مولانا مودودی کی علمی و اسلامی کاوشیں شاہ ولی اللہؒ کی اسی تحریک کا براہ راست اثر ہیں۔
الغرض اٹھارویں صدی عیسوی میں اسلامی معاشرہ جس مذہبی، معاشرتی و معاشی المیہ سے دوچار تھا عصر حاضر میں بھی ہمارا معاشرہ اسی فکری و عملی زوال اور اخلاقی گراوٹ کا شکار نظر آتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس فکری و عملی جمود کی جگہ اخلاقی، فکری و عملی انتشار و افتراق نے لے لی ہے اور قوم شاہ ولی اللہؒ کی طرح کسی حقیقی مصلح اور حکیم الامت کی منتظر نظر آتی ہے۔