اسلام دین متین ہے جس کے جملہ افکار و اعمال فطرت سلیمہ کے اصولوں پر استوار کیے گئے ہیں۔ انسانی زندگی انفرادی اور اجتماعی امور سے عبارت ہے۔ ایک مثالی اور کامیاب معاشرے کی تکمیل میں اخوت و محبت، ایثار و قربانی، صلہ رحمی و فیاضی، دیانتداری و سخاوت اور عدل و انصاف جیسے عوامل شامل ہیں۔ کوئی قوم خواہ تہذیب و تمدن کے کسی درجے میں ہو عدل و انصاف سے بے نیاز نہیں رہ سکتی۔ آج تک کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس نے ابتری اور انتشار کی حالت کو اپنے لئے سرمایہ افتخار سمجھا ہو۔ اختلافات اور تنازعات انسانی طبع کا لازمی جزو ہیں اگر کوئی ایسی طاقت کارفرماں نہ ہو جو طاقتور کو کمزور کا حق دبانے سے محفوظ رکھ سکے تو اس کا نتیجہ یقیناً آپس کے انتشار اور ملکی بدنظمی کی صورت میں نکلے گا اور فتنہ و فساد قومی زندگی کے ہر عضو میں سرائیت کر جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے وحدت امت، ملکی سا لمیت اور آپس میں ہم آہنگی کے لئے عدل و انصاف پر بہت زور دیا ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس کی وضاحت کی گئی ہے اور نبی کریم ﷺ نے بھی ہمیشہ عدل و انصاف کو بہت اہمیت دی ہے۔ علاوہ ازیں ہر مہذب قوم اور معاشرے میں عدلیہ کے وجود کو ضروری سمجھا گیا ہے۔
آج سے چودہ سو سال قبل جب دنیا کفر و ضلالت اور جہالت کی تاریکیوں میں گھری ہوئی تھی تو بطحا کی وادی سے رشد و ہدایت کا ایک سورج نمودار ہوا جس نے اپنے نور سے پوری دنیا کو منور کر دیا اور انسانیت کو عروج کے اس مقام پر فائز کر دیا جس کی نظیر تاریخ عالم میں کہیں نہیں نظر آتی۔ بنی نوع انسان ایک پرامن اور اصلاحی معاشرہ اس وقت تک قائم نہیں کر سکتے جب تک دین اسلام کی تعلیمات کو سیکھ کر اپنی حیات کو اللہ تعالیٰ کے حبیب ﷺ کی حیات طیبہ کے سانچے میں نہ ڈھال لیں کیونکہ حضور نبی اکرم ﷺ کی اتباع ہی میں انسان کی اصلاح کا راز مضمر ہے۔ دنیا کے نظام کو بہتر اور صحیح خطوط پر استوار کرنے کے لئے عدل و انصاف کا قیام نہایت ضروری ہے اور اگر اس سے منہ موڑ لیا جائے تو معاشرتی، سماجی، معاشی، مذہبی اور سیاسی زندگی دشوار ترین ہو جائے گی جس سے ہر طرف انارکی پھیلے گی۔ دنیاوی نظام میں ایک دوسرے کے حقوق کے تحفظ اور فرائض کی ادائیگی کے لئے نظام عدل و انصاف متعارف کرایا گیا ہے۔ اگر معاشرے کا ہر فرد اپنی حیثیت اور ذمہ داری کے لحاظ سے عدل و انصاف کو اپنا لے تو معاشرہ کی اصلاح ممکن ہے کیونکہ فرد سے ہی معاشرہ کی تکمیل ہوتی ہے۔
کتب لغت میں اہل علم نے عدل کے معنی انصاف، نظیر، برابری، معتبر جاننا، موازنہ کرنا، دو حصوں کو برابر کرنا، سیدھا ہونا، دو حالتوں میں توسط اختیار کرنا اور استقامت کے ہیں۔ جبکہ عام اصطلاح میں قضاء کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس سے مراد روز مرہ کے معاملات میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کرتے ہوئے جج یا قاضی عدل و انصاف کے ساتھ حقوق عامہ کا یوں تحفظ کرے کہ کسی ایک کی بھی حق تلفی نہ ہو۔ دین اسلام نے عدل کو بنیادی اہمیت دی ہے کیونکہ اس کے بغیر ایک صالح معاشرے کا قیام عمل میں نہیں آ سکتا۔ کسی بھی معاشرے میں خوشحالی، امن اور ارتقاء کے مراحل اسی وقت طے ہو سکتے ہیں جب وہاں عدل و انصاف موجود ہو۔
امام غزالیؒ عدل سے مراد برابری کرنا بیان کرتے ہیں۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ عدل کا پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے نفس اور خالق و مالک کے درمیان عدل کرے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ انسان خود اپنے نفس کے ساتھ عدل کرے اور تیسرا درجہ یہ ہے کہ اپنے نفس اور دنیا کی تمام مخلوقات کے درمیان عدل کرے۔
عدل و انصاف کواسلامی تعلیمات میں نہایت اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے اس کے قیام پر زور دیا گیا۔ عدل کا دائرہ بے حد وسیع ہے جس کا اطلاق فرد واحد سے لے کر معاشرہ بلکہ پوری انسانیت تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ ایک ایسی صفت ہے جس سے رب کائنات خود متصف ہے یعنی وہ عادل ہے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت کا فرمان عالیشان ہے:
والله یقضی بالحق.
اللہ حق کے ساتھ فیصلہ فرماتا ہے۔
ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمْ.
(الشوریٰ، 42: 15)
ارشاد ربانی ہے:
وَ اِنْ حَکَمْتَ فَاحْکُمْ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ.
(المائدة، 5: 42)
ارشاد خداوندی ہے:
اِنَّ اللهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ.
(النحل، 16: 90)
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
وَ مَنْ یَّاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَهُوَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ.
(النحل، 16: 76)
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ انصاف ہی پر دین ودنیا کی فلاح کا دار و مدار ہے اور بغیر عدل کے فلاح دارین کا حصول ناممکن ہے۔ سیاست شریعہ کی عمارت دو ستونوں پر قائم ہے ایک ہے مناصب اور عہدے اہل تر لوگوں کو دنیا اور دوسرا ہے عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کرنا۔ معاشرے میں عدل و انصاف کی فضا کو پروان چڑھانے کے لئے انسانوں کے جملہ پیشہ ہائے زندگی کو شامل کرنا ازحد ضروری ہے۔ معاشرے میں قانونی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی عدل کو یکساں اہمیت دی جانی چاہیے۔
قانونی عدل سے مراد ہے کہ قانونی طور پر ہر شخص کو بلا رنگ و نسل اور مذہب کے عدل فراہم کیا جائے۔ اگر قانون عدل فراہم کرنے میں ناکام ہو جائے تو اسے قانون نہیں کہا جا سکتا۔ قانون بنانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایک حد بندی کر دی جائے جس میں افراط و تفریط نہ ہونے پائے۔ اسلام کے قانون عدل کی بنیاد قرآن و سنت کے بتائے گئے ابدی اور لازوال اصولوں پر ہے۔ ان قوانین کے ذریعے عوام کو عدل فراہم کرنا ہے تاکہ ایک پرامن معاشرہ قائم ہو سکے۔ قانونی عدل یہ ہے کہ ہر انسان کو یکساں طور پر قانونی تحفظ میسر ہو۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ.
(النساء، 4: 58)
اسلامی نظریہ حیات انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں کو اس طرح مربوط و اہم آہنگ کرتا ہے کہ ایک دوسرے سے الگ کرنا ناممکن ہے۔ زندگی کی مادی ضرورتوں میں عدل برقرار رکھنے کے لئے یہ تعلیم دی گئی ہے کہ مال کے خرچ کرنے میں افراط و تفریط اور اسراف و بخل کی بجائے اعتدال سے کام لیا جائے اور تمام لوگوں کو برابر کے معاشی مواقع فراہم کیے جائیں اگر کسی ملک میں معاشی عدل نہ ہو تو بد امنی، نفرت و بغض کے جذبات پیدا ہوتے ہیں جو وحدت امت اور ملکی سا لمیت کے لئے خطرہ ہو سکتے ہیں اس لئے اسلام نے معاشی عدل پر بہت زور دیا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
وَاَوْفُوا الْکَیْلَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ.
(الانعام، 6: 152)
ایک اور مقام پر ارشاد ربانی ہے۔
اور ترازو رکھی کہ ترازو میں بے اعتدالی نہ کرو اور انصاف کے ساتھ تول قائم کرو اور وزن میں کمی نہ کرو۔
زکوٰۃ اور بیت المال کا نظام اسلام میں معاشی مساوات اور عدل قائم کرتا ہے۔ دولت کی تقسیم مساوی لحاظ سے کرنے کے لئے قرآن پاک میں ارشاد ہے: تم سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں تم فرماؤ جو کچھ مال نیکی میں خرچ کرو تو وہ ماں باپ اور قریب کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور رہگیروں کے لئے ہے۔
اسی طرح معاشرتی زندگی میں افراد کے انفرادی اور اجتماعی حقوق کو متوازن رکھنے کی ضمانت حاصل ہونی چاہیے۔ معاشرتی زندگی کے مقاصد کے حصول کے لئے کی جانے والی باہمی تعاون و اشتراک کی جدوجہد میں اگر کسی فرد کو اس کے بنیادی حقوق سے محروم کر دیا جائے تو وہ اپنے فرائض کی تکمیل نہیں کر سکتا۔ یوں معاشرے میں توازن برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے جس کے باعث ملکی سالمیت، وحدت ملی اور آپس میں ہم آہنگی کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔
کسی بھی مملکت کا کام معاشرے میں توازن و اعتدال قائم کرنا ہے اور یہ عدل کے بغیر ممکن نہیں۔ سیاسی عدل یہ ہے کہ ریاست کے سیاسی اداروں میں ہر شخص کو برابری کے حقوق حاصل ہوں اور سیاسی امور میں حصہ لینے کا حقدار ہو، سیاست کا شعبہ حکومت قائم کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے حکومت اللہ تعالیٰ کی نیابت ہے اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو اس نیابت کا حق مساوی طور پر تفویض کیا ہے۔ اس لئے ہر شخص کو سیاسی عدل فراہم ہونا چاہیے لہٰذا اسلام نے زندگی کے کسی شعبے کو اپنی تعلیمات سے محروم نہیں رکھا اس لئے زندگی کے ہر معاملے میں خواہ وہ معاشی ہو، معاشرتی ہو، سیاسی ہو، قانونی ہر حال میں عدل و انصاف کو ملحوظ رکھنا چاہیے تاکہ ایک پر امن معاشرے کا قیام ممکن ہو سکے جس میں امن و سلامتی وحدت امت، باہمی ہم آہنگی اور ملکی سا لمیت کو تحفظ حاصل ہو۔