روح انوار الہٰی کا نورانی ظہور ہے، روئے کائنات اول الاولین روح محمد مصطفی کریم ﷺ تخلیق ہوئی یعنی کہ روح محمد نظام مشیت ایزدی میں اول و آخر ہے جبکہ ابھی لفظ کُن بھی تخلیق پذیر نہ ہوا تھا۔ جس کی حقیقت فقط خدا اور اس کے رسول محمد مصطفی ﷺ جانتے ہیں۔ جان جایئے کہ روح امر الہٰی کا ایک لطیف نورانی اظہار ہے جس کو کبھی فنا نہ ہے۔ قرآن عظیم روح کی بابت مخاطب ہوا:
قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا.
(بنی اسرائیل، 17: 85)
’’فرما دیجیے: روح میرے رب کے امر سے ہے اور تمہیں بہت ہی تھوڑا سا علم دیا گیا ہے۔‘‘
قارئین محتشم! روئے بشریت بشری قالب انسانی میں سب سے پہلی روح حضرت آدمؑ کے جسم خاکی میں مقید کی گئی اور قلبِ آدم علیہ السلام منور ہوگیا اور سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے آسمان کی طرف دیکھا اور فرمایا:
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.
(الفاتحة، 1: 1)
سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہے۔
روح آدم کی اہمیت تھی کہ روح کے جسمِ آدمؑ میں متحرک ہونے پر خالق عظیم رب العالمین نے اشرف المخلوقی کے تحت فرشتوں کو سجدہ آدم علیہ السلام کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَةِ اِنِّیْ خَالِقٌ م بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ. فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَنَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَـهٗ سٰجِدِیْنَ.
(ص، 38: 71-72)
’’(وہ وقت یاد کیجیے) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں (گیلی) مٹی سے ایک پیکرِ بشریت پیدا فرمانے والا ہوں۔پھر جب میں اس (کے ظاہر) کو درست کر لوں اور اس (کے باطن) میں اپنی (نورانی) روح پھونک دوں تو تم اس (کی تعظیم) کے لیے سجدہ کرتے ہوئے گر پڑنا۔‘‘
قارئین ذی قدر! روح ایک ملکوتی ارفع و اعلیٰ مرتبت لطیف ترین عرشی تاہم شعور کی وسعتوں سے بلند و بالا پاکیزہ و منزہ حقیقت عالم ہائے ہفت ہے۔ روح کی پیمائش کے لیے عالم اجسام (دنیا فانی) میں کوئی پیمانہ نہ ہے، روح ایک مسرور کُن ظہور اور فقط ایک نورانی احساس ہے۔ عالم ارواح کی سردار روح روحِ محمد ﷺ ہے اور عالم ارواح کا افتتاح (آغاز) روح محمد کریم ﷺ سے ہوا کیونکہ لفظ کُن سے بھی پہلے روح محمد ﷺ تخلیق پذیر ہوچکی تھی، تاہم لفظِ کُن کی وجہ تسمیہ یعنی کہ نام کے وجود میں آنے کی وجہ فقط تخلیق روح محمد ﷺ ہے۔ سرِ روح (روح کا بھید اور راز) تخلیق روح محمد ﷺ کا جلوہ فگن ہونا تھا۔ عالم ارواح کی تمام روحوں کی سردار روح اقدس مصطفی ﷺ ہے اور لاریب روح محمد ﷺ عالم ارواح کی امام اور مخدوم روح کامل ہے۔ باقی قیامت تک اول تا آخر تمام ارواح روحِ محمد ﷺ کی مقتدی ٹھہرائی گئی ہیں۔
قارئین گرامی قدر! جسم روح کے بغیر ادھورا اور نامکمل ہے۔ اس کی حیثیت کچھ نہ ہے، جب تک روح جسم میں کارفرما ہوتی ہے تو انسان، بندہ عبد اور آدم کہلاتا ہے اور جب جسم خاکی سے روح پرواز کرجاتی ہے تو وہی عظیم و معروف شخص فقط میت اور لاش کہلاتا ہے، وہی عظیم اور ناقابل فراموش رشتے ناطے تھوڑی دیر پہلے جن پر اپنی جان نچھاور کررہے تھے جب میت ہوگئے آوازیں آنے لگیں فوری سپرد خاک کریں۔ روح ایک نفیس حقیقت ہے اور جسم اس کی ضرورت ہے اور جسم یعنی قلب انسانی روح کی عارضی قیام گاہ ہے۔ ارشاد قرآنی ہے جس سے لفظ روح کی فضیلت اور حقیقت سمجھ میں آئے گی۔
فَاَرْسَلْنَـآ اِلَیْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّا.
’’تو ہم نے ان کی طرف اپنی روح (یعنی فرشتہ جبریل) کو بھیجا سو (جبریل) ان کے سامنے مکمل بشری صورت میں ظاہر ہوا۔‘‘
(مریم، 19: 17)
یاد رکھیں یہاں خالق ارض و سماوات نے جبرائیل امین کو اپنی روح قرار دیا ہے اور جبرائیل امین کا لقب روح القدس اور روح الامین بھی گردانا گیا ہے۔
وَاٰتَیْنَا عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنّٰتِ وَاَیَّدْنٰـهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ.
(البقرة، 2: 87)
’’اور ہم نے مریم (علیہا السلام) کے فرزند عیسیٰ (علیہ السلام) کو (بھی) روشن نشانیاں عطا کیں اور ہم نے پاک روح کے ذریعے ان کی تائید (اور مدد) کی۔‘‘
روح القدس (جبرائیل علیہ السلام) کے بارے میں قرآن ارشاد فرماتا ہے:
قُلْ نَزَّلَهٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّکَ بِالْحَقِّ.
(النحل، 16: 102)
’’فرما دیجیے: اس (قرآن) کو روحُ القدس (جبریل علیہ السلام) نے آپ کے رب کی طرف سے سچائی کے ساتھ اتارا ہے۔‘‘
خالق رب عظیم نے روح الامیں امانت دار روح (یعنی جبرائیل علیہ السلام) کے بارے حکم دیا ہے کہ
یَوْمَ یَقُوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلٰٓئِکَةُ صَفًّا.
(النباء، 78: 38)
’’جس دن جبریل (روح الامین) اور (تمام) فرشتے صف بستہ کھڑے ہوں گے، کوئی لب کشائی نہ کر سکے گا۔‘‘
قارئین گرامی قدر! لفظ روح کی قرآنی فضیلت اور اہمیت سمجھ آنے کے بعد گزارش ہے کہ یاد رکھیں کہ قلب مومن کو اللہ کا گھر بھی کہتے ہیں۔ اس لیے کہ اس میں نورانی تحفہ خداوندی روح کو مفید کردیا گیا ہے۔ اپنی مایہ ناز تصننیف منہاج العقائد کے صفحہ نمبر73 پر شیخ الاسلام نے ایک سوال کہ مرنے کے بعد روح کا جسم سے تعلق رہتا ہے یا نہیں؟ کے جواب میں فرمایا کہ جی ہاں مرنے کے بعد روح کا جسم سے تعلق باقی رہتا ہے (جو اذیت و راحت) روح پر گزرے گی بدن ضرور آگاہ اور متاثر ہوگ، ثواب ملے گا تو جسم کو راحت ہوگی اور اگر روح پر عذاب الہٰی ہوگا تو جسم کو بھی تکلیف ہوگی جسم اور روح کا تعلق لازم و ملزوم ہے۔
قارئین گرامی قدر! نیکی بدی، گناہ و ثواب کی طرح روح کی بھی تین اقسام ہیں:
1۔ نیک روح: جو متقی مومن مسلمان کی روح ہوتی ہے۔
2۔ روح کامل: صاحبِ علیین امامِ صالحین انبیاء و مرسلین، شہداء، غوث، قطب، ابدال کی روحیں روح کامل کہلاتی ہیں۔
3۔ بدروحیں: فاسق فاجر مسلسل گناہ کبیرہ کا مرتکب اور ظالم، جابر بدروحوں کے زمرے میں آئے گا۔ جب کافر کی روح کو شیخ الاسلام نے منہاج العقائد میں خبیث روح کا نام بھی دیا ہے۔ شیخ الاسلام مزید فرماتے ہیں کہ مومنین و صالحین و شہداء حق اور انبیائے کرام کی روحیں ساتویں آسمان تک اور اس سے بھی زیادہ بلندیوں پر محو پرواز اور قیام پذیر رہتی ہیں جبکہ عام مسلمانوں کی روحوں کے حسب مراتب الگ الگ مقامات متعین کیے گئے ہیں، کئی روحیں قبر میں مقیم رہتی ہیں باقیوں کا قبر سے تعلق ہمہ وقت رہتاہے کیونکہ جب مسلمان قبرستان سے گزرتے ہوئے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہتے ہیں تو قبر میں روح جواب دیتی ہے جو کہ ہم نہیں سن سکتے کاملین صالحین سنتے ہیں۔
چند مقربین کی ارواح چاہ زم زم شریف میں رہتی ہیں اور چند روحیں زمین و آسمان کے درمیان پرواز کرتی رہتی ہیں جبکہ فاسق و فاجر اور کافر کی خبیث روحیں تحت الثریٰ زمین کے ساتویں طبق میں رہتی ہیں۔ جو سانپوں اور اژدھاؤں کا مسکن اور شیطان ابلیس کا ہیڈ کواٹر بھی ہے اور بعض خبیث روحیں زمیں کے ساتویں طبق سے بھی نیچے رہتی ہیں کیونکہ روح کا فنا نہ ہے اس کا تعلق دونوں جہانوں پر محیط ہے۔
قارئین گرامی قدر! یہ درست ہے کہ متقی اور پرہیزگار روحیں آزاد اور مقرب مقامات پہ رہتی ہیں تاہم صراط مستقیم پر گامزن مقربین صالحین، شہداء اور کاملین کی روحیں اور فاجر و فاسق کافر اوربدبخت روح کا ٹھکانہ کیا ہے۔ قرآن کریم سے پوچھتے ہیں۔ اس کے لیے قرآن کی رو سے عربی الفاظ علیین اور سجین کو سمجھا ہوگا۔
کَلَّآ اِنَّ کِتٰبَ الْاَبْرَارِ لَفِیْ عِلِّیِّیْنَ.
(المطففین، 83: 18)
’’یہ (بھی) حق ہے کہ بے شک نیکوکاروں کا نوشتۂ اعمال علّیین (یعنی دیوان خانۂِ جنت) میں ہے۔‘‘
قارئین گرامی قدر! اذھان میں یہ سوال گردش کرنے لگا کہ یہ علیین کیا ہے؟ قرآن نے جواب عطا فرمادیا کہ علیین کیا ہے؟
کِتٰبٌ مَّرْقُوْمٌ.
(المطففین، 83: 20)
’’(یہ جنت کے اعلیٰ درجہ میں اس بڑے دیوان کے اندر) لکھی ہوئی (ایک) کتاب ہے (جس میں ان جنتیوں کے نام اور اعمال درج ہیں جنہیں اعلیٰ مقامات دیے جائیں گے)۔‘‘
یَّشْهَدُهُ الْمُقَرَّبُوْنَ.
(المطففین، 83: 21)
’’اس جگہ (اللہ کے) مقرب فرشتے حاضر رہتے ہیں۔‘‘
إِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِیْ نَعِیْمٍ.
(المطففین، 83: 22)
’’بے شک نیکوکار (راحت و مسرت سے) نعمتوں والی جنت میں ہوں گے۔‘‘
قارئین گرامی قدر! قرآن سے سجین کے متعلق پوچھتے ہیں؟
کَلَّا ٓاِنَّ کِتٰبَ الْفُجَّارِ لَفِیْ سِجِّیْنٍ.
(المطففین، 83: 7)
’’یہ حق ہے کہ بدکرداروں کا نامۂِ اعمال سجین (یعنی دیوان خانۂِ جہنم) میں ہے۔‘‘
قرآن کریم سے پوچھتے ہیں سجین کیا ہے؟ جواب دیا گیا:
کِتٰبٌ مَّرْقُوْمٌ.
(المطففین، 83: 9)
’’(یہ قید خانۂِ دوزخ میں اس بڑے دیوان کے اندر) لکھی ہوئی (ایک) کتاب ہے (جس میں ہر جہنمی کا نام اور اس کے اعمال درج ہیں)۔‘‘
قارئین کرام! ثابت ہوا کہ روح علیین اور روح سجین کا مقام آخری کیا ہوگا۔ لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ روح کا مسکن اور رہائش قلب انسانی ہی ہے۔ قرآن سے پوچھتے ہیں کہ قلب انسانی کیا چیز ہے:
وَاعْلَمُوْآ اَنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَةٌ لا وَّاَنَّ اللهَ عِنْدَهٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌ.
(الانفال، 8: 28)
’’اور جان لو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد تو بس فتنہ ہی ہیں اور یہ کہ اللہ ہی کے پاس اجرِ عظیم ہے۔‘‘
آگے چل کر رب تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں صاحب ایمان لوگوں کو ہدایت سے نواز دیتا ہوں۔ حکم قرآنی ہے کہ
وَ مَنْ یُّؤْمِنْ م بِاللهِ یِهْدِ قَلْبَهٗ.
(التغابن، 64: 11)
’’اور جو شخص اللہ پر ایمان لاتا ہے تو وہ اُس کے دل کو ہدایت فرما دیتا ہے۔‘‘
یاد رکھیں قلب مومن کو (دل مومن کو) ہدایت یعنی علاج کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے، جب وہ فساد اور فتور قلب میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ منہاج الافکار جلد سوم کے صفحہ نمبر 51 پر فساد قلب کی دو خاص صورتیں بتائی ہیں:
1۔ اللہ سے تعلق بندگی کٹ جانا
2۔ حضور اقدس سے تعلق غلامی کا عملاً اور واقعتا معدوم ہوجانا اور فساد قلب کے علاج کے لیے اللہ سے دو ہدایتیں طلب فرمائی ہیں۔
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ.
(الفاتحة، 1: 5)
’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔‘‘
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ.
(الفاتحة، 1: 6)
’’اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے اِنعام فرمایا۔‘‘
غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلاَ الضَّآلِّیْنَ.
(الفاتحة، 1: 7)
’’ان لوگوں کا نہیں جن پر غضب کیا گیا ہے اور نہ (ہی) گمراہوں کا۔‘‘
قارئین گرامی قدر سورہ فاتحہ شریف میں دعائیہ انداز میں خالق عظیم سے دو ہداہات طلب کی گئی ہیں۔
ہدایت نمبر1: صراط مستقیم یعنی سیدھا راستہ دیکھانا اور ان لوگوں کا راستہ جن پر انعام کیا گیا۔
ہدایت نمبر2: دوسری ہدایت طلب کی گئی کہ اللہ ان لوگوں کے راستہ سے بچا اور محفوظ فرما جن گمراہوں پر تیرا غضب کیا گیا۔
قارئین گرامی! ہمیں اس کے لیے سب سے پہلے صراط مستقیم اور صراط مغضوبین (گمراہین) کی منازل کا علیحدہ علیحدہ تعین کرنا ہوگا۔
صراط مستقیم اور اس کی منازل ارتقائی:
سب سے پہلے جاننا ہوگا کہ صراط مستقیم جو سیدھا راستہ ہے خدا اور اس کے رسول ﷺ کا، انبیاء و صالحین اور شہداء کا اس کے بارے قرآن کیا فرماتا ہے؟
نمبر 1: صراط معروف (نیکی کا راستہ)
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ.
(آل عمران، 3: 104)
’’اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں۔‘‘
نمبر 2: صراط ہدایت (ہدایت کا راستہ)
وَاللهُ یَدْعُوْٓا اِلٰی دَارِالسَّلٰمِ ط وَیَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ.
(یونس، 10: 25)
’’اور اللہ سلامتی کے گھر (جنت) کی طرف بلاتا ہے، اور جسے چاہتا ہے سیدھی راہ کی طرف ہدایت فرماتا ہے۔‘‘
نمبر 3: صراط محسنین (نیکو کاروں کا راستہ)
اِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ.
(البقرة، 2: 195)
’’بے شک الله نیکوکاروں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
نمبر 4: صراط مطاہرین (پاک دامن طہارت والوں کا راستہ)
وَاللهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِرِیْنَ.
(التوبة، 9: 108)
’’اور الله طہارت شعار لوگوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
نمبر 5: صراط توابین (توبہ کرنے والوں کا راستہ)
اِنَّ اللهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ.
(البقرة، 2: 222)
’’بے شک الله بہت توبہ کرنیوالوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
نمبر 6: صراط متوکلین (توکل اختیار کرنے والوں کا راستہ)
اِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ.
(آل عمران، 3: 159)
’’بے شک اللہ توکّل والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘
نمبر 7: صراط المقسطین (انصاف قائم کرنے والوں کا راستہ)
اِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ.
(الحجرات، 49: 9)
’’بے شک الله انصاف کرنے والوں کو بہت پسند فرماتا ہے۔‘‘
نمبر 8: صراط الصابرین (صبر کرنے والوں کا راستہ)
وَاللهُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیْنَ.
(آل عمران، 3: 146)
’’اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘
نمبر 9: صراطِ نور (نور آفشانی کا راستہ)
اللهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ.
(البقرة، 2: 257)
’’الله ایمان والوں کا کارساز ہے وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے۔‘‘
قارئین گرامی قدر! اب ہمیں قرآن کی روشنی میں مغضوبین کا راستہ سمجھنا ہوگا۔
نمبر 1: صراط آمادہ (سرکشی، ظلمت اور بے راہ روی کا راستہ)
اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌ م بِالسُّوْٓءِ.
(یوسف، 12: 53)
’’بے شک نفس تو برائی کا بہت ہی حکم دینے والا ہے۔‘‘
نمبر 2: صراطِ منکر (انکار کرنے والوں کا راستہ)
وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ.
(آل عمران، 3: 104)
’’اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں۔‘‘
نمبر 3: صراط ظالمین (ظلمت کا راستہ)
وَاللهُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ.
(آل عمران، 3: 57)
’’اور الله ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
نمبر 4: صراط مفسدین (فساد و شر انگیزی کا راستہ)
وَاللهُ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ.
المائدة، 5: 64)
’’خداوند فساد بپا کرنے والوں سے قطعی محبت نہیں کرتا۔‘‘
نمبر 5: صراط معتدین (حد سے بڑھنے والوں کا راستہ)
اِنَّ اللهَ لَایُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ.
(المائدة، 5: 87)
’’بے شک اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔‘‘
نمبر 6: صراط متکبرین (سرکشوں کا راستہ)
اِنَّهٗ لَایُحِبُّ الْمُسْتَکْبِرِیْنَ.
(النحل، 16: 23)
’’بے شک وہ سرکشوں متکبّروں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
نمبر 7: صراط جحیم (جہنم کا راستہ)
وَمَنْ یَّعْصِ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ فَاِنَّ لَهٗ نَارَجَهَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْهَآ اَبَدًا.
(الجن، 72: 23)
’’اور جو کوئی اللہ اور اُس کے رسول ( ﷺ ) کی نافرمانی کرے تو بے شک اُس کے لیے دوزخ کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
نمبر 8: صراط کاذبین (حد سے گزرنے والے جھوٹوں کا راستہ)
اِنَّ اللهَ لَا یَهْدِیْ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ کَذَّابٌ.
(المؤمن، 40: 28)
’’بے شک الله اسے ہدایت نہیں دیتا جو حد سے گزرنے والا سراسر جھوٹا ہو۔‘‘
نمبر 9: صراط گمراہین (بھٹکے ہوئے لوگوں کا راستہ)
وَمَنْ یُّضْلِلِ اللهُ فَمَا لَهٗ مِنْ سَبِیْلٍ.
(الشوریٰ، 42: 46)
’’اور جسے اللہ گمراہ ٹھہرا دیتا ہے تو اس کے لیے (ہدایت کی) کوئی راہ نہیں رہتی۔‘‘
نمبر 10: صراط مرتدین (دین سے پھرنے والوں کا راستہ)
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا ثُمَّ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا ثُمَّ ازْدَادُوْا کُفْرًا لَّمْ یَکُنِ اللهُ لِیَغْفِرَلَهُمْ وَلَا لِیَهْدِیَهُمْ سَبِیْلًا.
(النساء، 4: 137)
’’بے شک جو لوگ ایمان لائے پھر کافر ہوگئے، پھر ایمان لائے پھر کافر ہوگئے، پھر کفر میں اوربڑھ گئے تواللہ ہر گز (یہ ارادہ فرمانے والا) نہیں کہ انہیں بخش دے اور نہ (یہ کہ) انہیں سیدھا راستہ دکھائے۔‘‘
نمبر 11: صراط طاغوت (شیطنت کا ابلیسی راستہ)
وَّ لَاتَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط اِنَّهٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ.
(البقرة، 2: 208)
’’اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔‘‘
نمبر 12: صراط فحشا والمنکر (گناہ و فجور، بدکاری اور بے حیائی کا راستہ)
وَیَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ.
(النحل، 16: 90)
’’اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے۔‘‘
نمبر 13: صراط فجار (بدکاروں کا راستہ)
وَالَّذٰنِ یَاْتِیٰـنِهَا مِنْکُمْ فَاٰذُوْهُمَا ج فَاِنْ تَابَا.
’’اور تم میں سے جو بھی کوئی بدکاری کا ارتکاب کریں تو ان دونوں کو ایذا پہنچاؤ، پھر اگر وہ توبہ کر لیں۔‘‘
قارئین گرامی قدر! ہم نے قرآن مجید فرقان حمید کی روشنی میں فساد قلب سے شفا یابی کی دو ہدایات کے تدریجی مراحل پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ رب کائنات روز محشر ہدایت یافتگان میں اٹھائے۔ آمین۔
معزز قارئین محتشم! آپ کی طبع وجدانی اور ذوق آگہی کے لیے چند باطنی پوشیدہ امراض قلب اور ان کا روحانی منطقی علاج تجویز کیا گیا ہے۔ آپ کے قلوب و بصارتوں کی نظر۔
باطنی امراضِ قلب اور ان کا روحانی علاج:
مرض: شرک اللہ۔ علاج: رجوع الی اللہ اور ورد لا الہ الا اللہ
مرض: حیوانیت۔ علاج: انسانیت،
مرض: گمراہی و بے راہ روی۔ علاج: طلب ہدایت
مرض: بت پرستی۔ علاج: خدا پرستی
مرض: شکستگی ارادہ۔ علاج: پختگی ارادہ
مرض: عادت فحش گوئی۔ علاج: طویل خاموشی کی عادت اپنانا
مرض: بے حیاء اور فحشگی۔ علاج: شرم و حیاء اور رجوع الی القرآن
مرض: وعدہ خلافی۔ علاج: ایفائے عہد
مرض: آتش انتقام۔ علاج: آب معانی
مرض: غلبہ شیطان۔ علاج: رجوع الی الرحمٰن
مرض: دروغ گوئی اور غلط بیانی۔ علاج: عادت حق گوئی
مرض: نفرت۔ علاج: محبت
مرض: حق تلفی۔ علاج: جذبہ اخوت اور رواداری
مرض: رغبتِ غیرے۔ علاج: رجوع الی اللہ
مرض: علم ظنی۔ علاج: علم یقینی (قرآن اور حدیث کا علم)
مرض: بدکاری اور شہوانی بے راہ روی۔ علاج: دشمنی نفس آمارہ
مرض: عادت گناہ کبیرہ۔ علاج: توبۃ النصوح (دائمی توبہ)
مرض: ظلم و ستم گری۔ علاج: عطوفت مہربانی
مرض: احساس کمتری اور احساس برتری۔ علاج: تعین نصب العین اور ضرورت محنت شاقہ
مرض: نافرمانی والدین۔ علاج: اطاعت گزاری والدین
مرض: احسان فراموشی۔ علاج: فقط بے لوث احسان گزاری
مرض: کفران نعمت۔ علاج: احساس ندامت اور احساس شکر گزاری
مرض: شک۔ علاج: یقین
مرض: فساد فی الارض۔ علاج: فرمان قرآن کہ خدا زمین پر فساد بپا کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔
مرض: صراط ناراضگی خد۔ علاج: صراط مستقیم
مرض: خصومت و عداوت۔ علاج: محبت اور فقط دوستی
مرض: افراط و تفریط (کمی بیشی)۔ علاج: اعتدال و میانہ روی
مرض: تکبر۔ علاج: عجز و انکساری
مرض: غلامی نفس سرکش۔ علاج: تزکیہ نفس و تطہیر بطن
مرض: بےحیائی۔ علاج: شرم و حی
مرض: بخل تنگدلی۔ علاج: سخاوت و فیاضی
مرض: غاصبی و حق تلفی (جبر سے حق مارنا)۔ علاج: خداخوفی اور ایثار و قربانی
مرض: غضبناکی (جہنم کی علامت)۔ علاج: تحمل و بردباری
مرض: فرعونیت۔ علاج: عمل پیرائے اوصاف موسویؑ
مرض: قارونیت۔ علاج: طریق فقیری اور رغبت مساکین
مرض: حب دنی۔ علاج: ترک رغبت دنی
مرض: بدمزاجی۔ علاج: شگفتگی اور خوش خلقی
مرض: حاکمیت طاری ہونا۔ علاج: خدمت خلق کا جذبہ اجاگر کرنا
مرض: عیب جوئی کی عادت۔ علاج: پردہ پوشی کی عادت
مرض: غیبت چغلی۔ علاج: نیک گمانی
مرض: رنجیدگی و غمگینی۔ علاج: شگفتگی اور نرم دلی
مرض: فقط تنقید کرنا۔ علاج: اصلاح اور دل جوئی
مرض: عشق مجازی۔ علاج: عشق حقیقی
مرض: یذیدیت۔ علاج: حسینیت اور محبت اہل بیت
مرض: من کے کنوئیں کی پلیدگی۔ علاج: من کے کنوئیں سے بغض و عناد اور فتور کا مردہ کتا نکال باھر پھینکنا لازم ہے۔
مرض: عشق حقیقی۔ علاج: فنا کے دروازے سے گزر کر بقا کی چوکھٹ چوم لینا
مرض: خواہشات کی بنیاد پر ہوائی قلعے تعمیر کرنا۔ علاج: حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرنا اور مشکلات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا۔
مرض: عادت قرض لین۔ علاج: فکر ادائیگی کرنا
مرض: قرض دین۔ علاج: حکمت و دانش سے لین
مرض: نجاست باطنی۔ علاج: طہارت باطنی
مرض: عادت کم ظرفی۔ علاج: عادت اعلیٰ ظرفی
مرض: خوشامد۔ علاج: خوشامد سے نفرت
مرض: شک و وہم۔ علاج: توکل، بھروسہ، اعتماد اعتبار
مرض: اندھا اعتبار کرنا۔ علاج: توکل و بھروسہ کے ساتھ اعتبار قائم رکھنا۔
مرض: جرم۔ علاج: شرمندگی ندامت
مرض: تعصب پسندی۔ علاج: حقیقت پسندی
مرض: ظلم۔ علاج: رحم فقط معافی
مرض: کنجوسی۔ علاج: استغنا و سخاوت
مرض: خوفِ جہنم۔ علاج: اطاعت خدا اور رسول ﷺ
مرض: بےادبی۔ علاج: تعظیم و اطاعت والدین
مرض: انتہاپسندی۔ علاج: اعتدال پسندی
مرض: ناشکرئ خدا۔ علاج: شکر گزاری خدا
مرض: رغبت برائی۔ علاج: عادت نماز پنجگانہ راسخ کرنا (پکی کرنا)
مرض: منافقت۔ علاج: خوف حکم الہٰی دل میں رکھنا کہ منافق دوزخ کے سب سے نچلے درجہ میں ہوں گے۔
مرض: مکر وفریب۔ علاج: حکم خداوندی کہ مکرو فریب کرنے والے لوگوں کے لیے ذلت ناک عذاب شدید ہوگا۔
مرض: غیبت و چغلی۔ علاج: حکم قرآنی کہ مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ہے توبۃ النصوح کرنا
مرض: بدگمانی۔ علاج: نیک گمانی
مرض: غصہ۔ علاج: عفو و درگزر اور معافی
مرض: عجلت جلد بازی۔ علاج: صبر و حوصلہ مندی
مرض: رزق حرام۔ علاج: طلب رزق حلال
مرض: حسد۔ علاج: فقط محنت اور شکر
مرض: حرص و لالچ۔ علاج: فقط صبر و قناعت
مرض: غفلت۔ علاج: فکر مندی
مرض: خیانت۔ علاج: امانت داری
مرض: تہمت و بہتان تراشی۔ علاج: قرآنی حکم کہ ایسا کرنے والے پر لعنت اللہ اور عذاب الہٰی ہے فقط شرمندگی اور معافی
مرض: بغاوت (سرکشی)۔ علاج: فقط اطاعت گزاری اور فرمانبرداری
مرض: تکبر و رعونت۔ علاج: عجزو انکساری اور تقویٰ
مرض: سود خوری۔ علاج: مطابق حکم قرآنی پرہیز کرنا کہ سودخوری خدا سے کھلی جنگ ہے فقط توبہ اور رجوع الی القرآن
مرض: شراب نوشی۔ علاج: قرآنی حکم ملحوظ رکھنا کہ ممانعت اور حرمت شراب۔
مرض: حرام۔ علاج: فقط حلال
مرض: فسق و فجوری۔ علاج: تزکیہ نفس اور طہارت قلبی
مرض: بغض و عناد، کینہ پروری۔ علاج: معافی، درگزر اور دوسروں کے لیے ہمیشہ دعائے خیر کرنا۔
مرض: کذب، دروغ گوئی۔ علاج: قرآنی حکم کی تعمیل کرنا کہ خدا تعالیٰ جھوٹے کو ہدایت نہیں دیتا تاہم جھوٹ سے توبہ کرنا۔
مرض: فضول خرچی۔ علاج: فضول خرچی شیطانی عمل ہے اس سے پرہیز کریں اور میانہ روی اختیار کریں۔
مرض: نامعقول فیشن اختیار کرنا۔ علاج: فقط سادگی اختیار کرنا
مرض: قطع رحمی۔ علاج: صلہ رحمی کیونکہ حکم قرآنی ہے کہ قطع رحمی کرنے والوں پر خدا کی لعنت ہے۔
مرض: بداخلاقی۔ علاج: اسوہ رسالت مآب کی پیروی کرنا۔
مرض: گمراہی۔ علاج: ہدایت قرآنی
مرض: بت پرستی۔ علاج: فقط خدا پرستی
مرض: حیوانیت۔ علاج: انسانیت
مرض: طنز و تنقید صرف۔ علاج: فقط اصلاح
مرض: شکوہ۔ علاج: فقط شکر
مرض: بسیار خوری۔ علاج: بھوک رکھ کر کھانا کھانا۔
مرض: زخم دین۔ علاج: فقط زخم سینا
مرض: دوسروں کے عیوب پر نظر رکھنا۔ علاج: فقط دوسروں کی خوبیوں پر نظر رکھنا۔
مرض: کسی کی حق تلفی کرنا۔ علاج: اپنے حق سے دست بردار ہونا
مرض: بدی و سیاہ کاری کی عادت۔ علاج: پاکدامنی
مرض: تاریکی۔ علاج: روشنی
مرض: اندھیر۔ علاج: فقط اجال
مرض: سود۔ علاج: قرض حسنہ دین
مرض: قتل عمد۔ علاج: قصاص فقط مطابق حکم قرآنی عملدرآمد کرن
مرض: قتل سہو۔ علاج: فقط معافی اور خون بہ
مرض: غلامی۔ علاج: آزادی، مرض: عادت گناہ، علاج: کثرت استغفار
مرض: گداگری۔ علاج: خیرات و فراخدلی
مرض: غلبہ نفس امارہ۔ علاج: فقط نفس مطمئنہ
مرض: گفتار۔ علاج: فقط کردار
مرض: شیخی بگھارنا اور خودنمائی کرنا۔ علاج: فقط کسر نفسی
مرض: عادت قرض لین۔ علاج: فقط قناعت
مرض: جہالت۔ علاج: فقط علم اور طلب علم
مرض: کفر۔ علاج: ایمان
مرض: بداعمالی۔ علاج: اعمال صالح
مرض: ذخیرہ اندوزی۔ علاج: صدقہ و خیرات
مرض: غربت۔ علاج: فقط محنت اور محنت
مرض: بذدلی۔ علاج: شجاعت
مرض: سفاقی اور خون ریزی۔ علاج: رحم دلی اور خدا خوفی
مرض: حماقت۔ علاج: تدبر و دانش
مرض: زہر۔ علاج: تریاق
مرض: چوری۔ علاج: فقیری و فیاضی
قارئین گرامی قدر! قلب انسانی عمومی طور پر فسد قلب کے باعث جن امراض قلبی میں مبتلا ہوسکتا ہے اپنی بصیرت کے مطابق کسی حد تک احتیاط کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ امید واثق ہے کہ ہم عمل پیرا ہوکر قلوب انسانی کو امراض قلب سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔