ہم لوگ چراغوں کی طرح ظلمتِ شب میں
جل جل کے زمانے کو جلادیتے رہیں گے
طوفاں اٹھیں، آندھیاں راہوں کو مٹادیں
ہم لوگوں کو منزل کا پتہ دیتے رہیں گے
انقلاب مارچ اور اسلام آباد دھرنے کی بات تو اب تقریباً ڈیڑھ سال پرانی ہوچکی ہے مگر اپنے اثرات و نتائج کے اعتبار سے تا امروز نئی اور تازہ ہے۔ حکمران آئے روز اپنی تقریروں میں اس واقعہ کی مذمت میں بیانات داغتے ہیں ’’ہم نے دھرنا سیاست کو ختم کردیا ہے‘‘، ’’ہم نے دھرنے والوں کے عزائم کو کچل دیا ہے‘‘۔، ’’ہم دوبارہ اس طرح کا واقعہ نہیں ہونے دیں گے‘‘۔ وغیرہ وغیرہ اپنی طرف سے تو وہ مذمت کرتے ہیں لیکن درحقیقت اپنے اندر انقلابیوں کے مخفی خوف کا بھی اظہار کرتے ہیں۔
انقلابیوں کا 70 روزہ تاریخی دھرنا پاکستان کی سیاسی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے۔ اس تاریخی مارچ کے دوران انقلابیوں کو کئی آزمائشوں کا سامنا رہا۔ طویل ترین دورانئے میں کبھی بارشیں ہوتی رہیں، کبھی حکومتی جبرو بربریت، شیلنگ، گرفتاریاں، گولیاں، مقدمے اور کریک ڈاؤنز مگر انقلابیوں نے صبروتحمل اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے پورے 70 دن اپنے محبوب قائد کے ساتھ گزارے۔ اس تاریخی مارچ کے طویل ترین دورانئے میں جہاں کارکنان نے صبروتحمل اور جرات و بہادری کا مظاہرہ کیا وہاں قائد تحریک قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کی بے مثال استقامت، صبر اور جرات رندانہ بھی پوری دنیا نے ملاحظہ کی۔ یہ ایک لازوال تاریخ ہے جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔
ذیل میں اس تاریخی اور انقلابی دھرنے کے اثرات و نتائج کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس کے بنیادی اور اہم نکات حسب ذیل ہیں:
- ڈاکٹر طاہرالقادری کا بطور انقلابی لیڈر تعارف
- تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کی انقلابی جدوجہد کی عالمگیر شہرت
- کارکنان تحریک کی استقامت کے لازوال مظاہرے
- سانحہ ماڈل ٹاؤن کی FIR کا اندراج
- تحریک اور قائد تحریک کے انقلابی پیغام کی ترویج
- اسٹیبلشمنٹ (فوج) تک انقلابی ایجنڈے کی رسائی
- ملک کے نامور کالم نگاروں اور دانشوروں کو قائد تحریک کے افکار سے آشنائی
- سسٹم میں موجود خامیوں کی نشاندہی
- کمزور اور مایوس لوگوں کو ظالموں کے خلاف ہمت اور جرات نصیب ہوئی
- لفظ ’’دھرنا‘‘ کی پذیرائی
- تفہیم آئین پاکستان
- حکومتی رویوں میں تبدیلی
- صدارتی نظام یا پارلیمانی نظام۔۔۔ نئی بحث کا آغاز
ذیل میں مندرجہ بالا نکات کی تفصیل حوالہ قرطاس کی جاتی ہے:
ڈاکٹر طاہرالقادری کا بطور انقلابی لیڈر تعارف
میں چاہتا ہوں کہ سرزمین پاک احیائے اسلام کے لئے عالمی انقلاب کا مرکز بنے۔ یہاں زندگی کے ہر شعبے میں انقلاب بپا ہوجائے۔ فکرو عمل کے پیمانے بدل جائیں۔ یہاں امن و سلامتی اور خوشحالی کا دور دورہ ہو۔ تعیش و آرام پرستی کا نام و نشان تک باقی نہ رہے۔ محنت و مشقت ہر فرد کا زیور ہو۔ دیانت و خلوص ہر بشر کی پالیسی ہو۔ پھر پوری دنیائے اسلام متحد ہوکر اسلامک بلاک یا اسلامک کامن ویلتھ کا قیام عمل میں لائے۔
میں غریب، مظلوم، بے کس اور افلاس زدہ انسانیت کی فلاح و نجات اور عروج ترقی صرف اور صرف اسلام کے ذریعے ممکن سمجھتا ہوں اور اسلام کا احیاء ایک زبردست ہمہ گیر ’’انقلاب‘‘ کے بغیر ممکن نہیں۔ انقلاب پر میرا ایمان ہے اور عظیم عالمی انقلاب میری زندگی کا واحد مقصد ہے۔
(محمد طاهرالقادری، قرآنی فلسفه انقلاب، ضميمه نمبر1، تحرير قائد انقلاب محرره 1973ء)
اس دھرنے کی وجہ سے الیکٹرانک اور پریس میڈیا کے ذریعے ملکی اور غیر ملکی سطح پر حضور شیخ الاسلام کا تعارف بطور انقلابی لیڈر کے ہوا۔ لوگوں کو براہ راست روزانہ کی بنیاد پر 70 دن تک آپ کے خیالات و افکار سے آشنائی ہوئی۔ روزانہ دو دو گھنٹے لائیو کوریج کے ذریعے خطابات نشر ہوئے۔ بڑی اور ادھیڑ عمر کے لوگ جنہوں نے آپ کو PTV کے پروگرام ’’فہم القرآن‘‘ کے ذریعے سنا ہوا تھا انہیں پہلی بار لائیو ایک سیاسی مدبر اور انقلابی راہنما کے طور پر سننے کا موقع ملا۔ اسی طرح وہ لوگ جنہوں نے کبھی بھی آپ کو نہ کبھی سنا تھا اور نہ کبھی پڑھا تھا انہیں بھی آپ کو جاننے کا موقع ملا۔
کوئی کتنا بھی آپ سے اختلاف کرے مگر آج تک کسی نے آپ کے پروگرام اور ایجنڈے سے اختلاف نہیں کیا۔ اس حقیقت کا اعتراف ملک پاکستان کے عظیم کالم نگار تنویر قیصر شاہد صاحب نے اپنے کالم میں یوں کیا تھا:
’’سینکڑوں چھوٹی بڑی کتابوں کے مصنف، سیرت نگار یورپ اور امریکہ میں دہشت گردی اور خونخوار دہشت گردوں کے خلاف پہلی بار باقاعدہ فتویٰ مرتب اور پیش کرنے والے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری پاکستان بھر کے میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں۔ کوئی ایسا نمایاں نجی ٹی وی نہیں ہے جس نے ان کا انٹرویو نشر نہ کیا ہو۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی شخصیت اور ان کے افکار، خواہ وہ جیسے بھی ہیں کو نظر اندازکرنا اور ان سے اغماض برتنا ہمارا میڈیا افورڈ نہیں کرسکتا۔ ان کا کہا اور لکھا گیا کتاب ہے۔ کئی جوانب سے مخالف اور مخاصمت کے باوجود یہ واقعہ ہے کہ قادری صاحب کے مکالمے اور مکاشفے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
(روزنامه ايکسپريس. شائع شده 5 اگست 2014ء)
بستی میں یہ کس نے درد بکھیرے تھے
روشن دن تھا، چاروں سمت اندھیرے تھے
یا پھر شہر میں دھول تھی کچے رستوں کی
یا پھر شہر میں سارے سانپ سپیرے تھے
علاوہ ازیں محترم اصغر عبداللہ صاحب نے اپنے کالم میں لکھا:
’’ڈاکٹر طاہرالقادری کا مطالبہ اس کے سوا کیا ہے کہ پاکستان کے موجودہ سیاسی اور انتخابی نظام کو ایک انقلاب کی ضرورت ہے۔ آج سے 23 سال پہلے جب انہوں نے PAT قائم کی، تب بھی ان کا یہی مطالبہ تھا اور آج بھی ان کا یہی مطالبہ ہے۔ یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان کی اڑسٹھ سالہ تاریخ میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری پاکستان کے پہلے مذہبی راہنما ہیں جنہوں نے اپنی سیاست کی بنیاد اسلام کے سماجی مساوات کے تصور پر رکھی ہے۔‘‘
(روزنامه ايکسپريس. شائع شده 7 ستمبر 2014ء)
تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کی انقلابی جدوجہد کی عالمگیر شہرت
’’وقت کی اہم ترین ضرورت کے پیش نظر تحریک منہاج القرآن کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ عالمگیر سطح پر غلبہ دین کی بحالی، اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور ملت اسلامیہ کا احیاء و اتحاد اس کی منزل ہے جبکہ ہر سطح پر باطل اور طاغوتی طاقتوں کے خلاف غیر مصالحانہ انقلابی جنگ اس کا لائحہ عمل ہے۔ عالمگیر اسلامی انقلاب کا یہی وہ تصور ہے جو حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ نے ہمیں مہیا کیا ہے‘‘۔
(محمد طاہرالقادری، ڈاکٹر، قرآنی فلسفہ انقلاب، ص431)
اسی طرح ایک اور خطاب میں حضور شیخ الاسلام مدظلہ نے تحریک منہاج القرآن کے قیام کی غرض و غایت بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: تحریک منہاج القرآن ملکی، گروہی اور فرقہ وارانہ تعصبات سے بالاتر ہوکر محبت و اخوت کا علمبردار ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس کے دروازے ہر اس شخص کے لئے کھلے ہیں جو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتی ہونے کا دعویدار ہے، جس کا دل فرقہ واریت اور گروہ بندیوں پر خون کے آنسو روتا ہے جو ملت کو ایک شیرازے سے منسلک دیکھنا چاہتا ہے جو منافقانہ اور اجارہ دارانہ ذہنیت کے تعفن سے دور انس و محبت کی پرمہک فضاؤں میں سانس لینا چاہتا ہے۔
آیئے غلبہ دین حق کی بحالی اور ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کے اس عظیم مشن کے لئے اپنی تمام تر فکری توانائیاں اور عملی صلاحیتیں تحریک منہاج القرآن کے سپرد کردیں، تحریک کا یہ پیغام لے کر گلی گلی، کوچہ کوچہ پھیل جائیں اور ملت اسلامیہ کے احیائے کی تڑپ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیں۔
تحریک منہاج القرآن اپنے قیام سے لے کر تاامروز اپنے اسی پروگرام پر آگے بڑھ رہی ہے اسی طرح پاکستان عوامی تحریک بھی قیام سے لے کر اب تک اپنے اسی ہدف کے حصول کے لئے کام کررہی ہے۔ تحریک منہاج القرآن محض ثوابی یا تبلیغی جماعت نہیں ہے۔ اسی طرح پاکستان عوامی تحریک محض انتخابی یا سیاسی جماعت نہیں ہے بلکہ اس کی منزل انقلاب ہے۔ اس کی سعی و کوشش کا مقصد نظام کی تبدیلی ہے۔ محافل میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا انعقاد، سلسلہ ہائے درورس قرآن، عرفان القرآن کورسز کا اجراء، عوامی تعلیمی مراکز کا قیام، منہاج القرآن ماڈل سکولز، کالجز کی بنیاد، جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن اور منہاج یونیورسٹی لاہور کا قیام، مرکزی گوشہ درود کی اساس، حلقہ ہائے درود ہوں یا حلقہ ہائے ذکرو فکر، ماہانہ شب بیداری ہو یا سالانہ روحانی اجتماع ان سب کا مقصد مصطفوی انقلاب ہے۔
دھرنے سے قبل تحریک اور قائد تحریک کا پیغام محدود ذرائع ابلاغ کے ذریعے دعوت و تبلیغ کا کام جاری تھا تاہم دھرنے اور انقلاب مارچ کے ذریعے اس پیغام کو عالمگیر شہرت ملی۔ تمام عالمی اخبارات و جرائد اور میڈیا پر اشاعت ہوئی۔ CNN اور BBC پر خصوصی رپورٹس نشر ہوئیں۔ دھرنے کے دوران کئی عالمی چینلز نے حضور قائد انقلاب مدظلہ کا انٹرویو کیا۔
محترم موسیٰ رضا آفندی نے اس حقیقت کا یوں اعتراف کیا: ’’ان دھرنے والوں نے دنیا بھرمیں پاکستان کی ایسی دلکش تصویر دکھائی ہے جسے مہذب دنیا دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ مذہب اسلام کی خوبصورت، پرامن اور پاکیزہ ضوابط کی پابندی کا نمونہ پیش کیا‘‘۔ (روزنامہ ایکسپریس۔ شائع شدہ 7 ستمبر 2014ء)
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
کمالِ صدق و مروت ہے زندگی اُن کی
معاف کرتی ہے فطرت بھی ان کی تقصیریں
قلندرانہ ادائیں، سکندرانہ جلال
یہ امتیں ہیں جہاں میں برہنہ شمشیریں
حکیم میری نواؤں کا راز کیا جانے
ورائے عقل ہیں اہلِ جنوں کی تدبیریں (اقبال)
کارکنانِ تحریک کی استقامت کے لازوال مظاہرے
انقلاب انقلاب۔۔۔۔ مصطفوی انقلاب
جوانیاں لٹائیں گے۔۔۔ انقلاب لائیں گے
طاہر تیرا اک اشارہ۔۔۔ حاضر حاضر لہو ہمارا
جب سے تحریک کا آغاز ہوا یہ نعرے تحریک کے اجتماعات میں زبان زدِ عام ہیں۔ گذشتہ 33 برس کی تحریکی زندگی میں کارکنان ہر اجتماع میں یہ نعرے لگاتے تھے اور اپنے جذبات کا اظہار کرتے تھے مگر حقیقت میں کبھی جانیں دینے اور اپنے محبوب قائد کے اشارے پر جانیں قربان کرنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ تاہم انقلاب مارچ اور دھرنے کے دوران کارکنان نے ثابت کردیا کہ ہم صرف زبانی کلامی نعرے ہی نہیں لگاتے بلکہ ہم ان الفاظ کو حقیقت کا معنوی لباس پہناسکتے ہیں۔ کروڑ بار سلام عقیدت ہو ان پاکباز اور جانباز کارکنوں کو جنہوں نے استقامت اور خلوص و محبت کی اک نئی تاریخ رقم کردی۔
دولت کی تمنا ہے نہ انعام کا لالچ
بس کام کئے جاتے ہیں اخلاص و وفا سے
14 اگست کے انقلاب مارچ سے قبل بھی کارکنان تحریک نے جرات، عزیمت، تحمل، برداشت، صبر اور قربانی کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ ماضی یا حال کی کسی تحریک یا جماعت کے ہاں ملنا مشکل ہے۔ 17 جون 2014ء کو ریاستی جبر اور پولیس گردی کے ہاتھوں تحریک کے 14مردو زن کی جانی قربانیاں اور 100 کے قریب شدید زخمی ہوئے۔ 23 جون جس دن قائد انقلاب نے وطن واپس آنا تھا، ان کے طیارے کو اسلام آباد اترنے نہ دیا گیا اور اس کا رخ لاہور کی طرف موڑ دیا گیا۔ اس دن بھی پولیس نے کارکنان پر بہت ظلم ڈھائے۔ اس کے بعد یوم شہداء (10 اگست) منانے کا اعلان کیا گیا تو پھر پورے ملک میں کارکنان کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا گیا اور ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ مگر راہ حق کے عظیم مجاہد اپنے مشن، تحریک اور قائد تحریک کے ساتھ صبرو تحمل کے ساتھ جڑے رہے۔
ہماری استقامت سے تو ساری دنیا واقف ہے
ہم نے منزلیں بدلیں نہ ہم نے یار بدلا
ہے
انہی کارکنان کی حقیقت کو پہچانتے ہوئے محترم ظہیر اختر بیدری نے لکھا تھا: ’’قادری کے ساتھ بیٹھے ہزاروں مرد عورتیں، بچے بچیاں کرائے پر لائے گئے کارکن نہیں بلکہ پختہ نظریاتی طاقت ہیں اور کارکن جب نظریاتی طاقت میں بدل جاتے ہیں تو ریاستی مشینری ان کی جان تو لے سکتی ہے ان کے نظریات نہیں لے سکتی‘‘۔
اسی طرح محترم ایاز امیر صاحب یوں رقمطراز ہوئے: ’’اس وقت اس تاریخ ساز لمحے میں، پاکستان عوامی تحریک کے کارکن ہیرو بن کر میدان میں موجود ہیں۔ یہ لوگ کس چیز سے بنے ہوئے ہیں؟ نہ ان پر سورج کی گرمی کا اثر ہوتا ہے، نہ بارش کا اور نہ برسائی گئی بدترین آنسو گیس اور ہلاکت خیز ربڑ کی گولیوں کا۔ اسلام آباد کی تاریخ کے بدترین ریاستی تشدد کے باوجود یہ لوگ اپنے قدموں پر مضبوطی سے جمے رہے۔ کوئی چیز بھی ان کے پائے استقلال میں لرزش پیدا نہ کرسکی‘‘۔
وفا کا انجام کیا ہے سوچا نہیں کرتے
مومن کبھی حالات سے سودا نہیں کرتے
یہ رسم سکھائی ہے حسین ابن علی رض نے
سرسجدوں میں ہو تو تیروں کی پروا نہیں کرتے
سانحہ ماڈل ٹاؤن کی FIR کا اندراج
انقلاب مارچ کے بنیادی مطالبات میں سے ایک مطالبہ یہی تھا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داروں کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔ PAT کی طرف سے فیصل ٹاؤن تھانے میں دی گئی درخواست پر کوئی عمل درآمد نہیں ہورہا تھا۔ ادارہ منہاج القرآن اور PAT کے وکلاء عدالتوں میں قانونی جنگ لڑرہے تھے کہ 16 اگست 2014ء کو ایڈیشنل سیشن جج راجہ محمد اجمل خان نے وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب، وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار، وفاقی وزیر ریلوے اور صوبائی وزیر قانون سمیت 21شخصیات کے خلاف سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا مگر حکومت نے اس فیصلے کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
26 اگست 2014ء کو حکمرانوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مقدمہ کے اندراج کے متعلق سیشن کورٹ کے حکم کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست کی تو ان کی یہ درخواست بھی خارج کردی گئی اور ہائی کورٹ نے بھی مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا۔ لاہور ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس محمود مقبول باجوہ نے سیشن عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے چار وفاقی وزراء کی درخواستیں خارج کردیں۔
مورخہ 27اگست 2014ء کو PATکے وکلاء تھانہ فیصل ٹاؤن پہنچے تو مسلم لیگ (ن) کے درجنوں کارکن بھی پہنچ گئے۔ انہوں نے دھمکیاں دینے اور بدتمیزی کے علاوہ شدید نعرے بازی کی۔ لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود پولیس نے مقدمہ درج نہیں کیا۔ وفد رات گئے تک تھانے میں موجود رہا اور پولیس ٹال مٹول سے کام لیتی رہی۔ 28 اگست 2014ء کو لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ تھانہ فیصل ٹاؤن میں درج کرلیا گیا۔ مگر مقدمہ کے اندراج میں عمداً کئی چیزیں شامل نہیں کی گئیں۔ نہ دہشت گردی کی دفعہ لگائی گئی اور نہ ہی وزیراعظم و وزیراعلیٰ کا نام شامل کیا گیا۔ اسی دن فوج نے آفیشل پیغام کے ذریعے حضور شیخ الاسلام مدظلہ سے رابطہ کیا اور بعد ازاں رات گئے قائد انقلاب نے آرمی چیف سے ون ٹو ون ملاقات کی اور انہیں اپنے مطالبات، حکمرانوں کے ظلم، ادھوری FIR اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (JIT) نہ بنانے کے متعلق آگاہ کیا۔ اس پر آرمی چیف نے عدل و انصاف کی یقین دہانی کرائی اور بالآخر یکم ستمبر 2014ء کو حکومت نے فوج کے دباؤ میں آکر حقیقت کو تسلیم کرلیا اور PATکے موقف کے مطابق سانحہ ماڈل ٹاؤن کے جملہ ذمہ داران کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔
اسٹیبلشمنٹ (فوج) تک انقلابی ایجنڈے کی رسائی
ہم نے اپنے تصور انقلاب کو عنوان کے اعتبار سے مصطفوی انقلاب کے نام سے معنون کیا ہے۔ جب ہم مصطفوی انقلاب کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نبوی انقلاب کی اتباع میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ ایسا انقلاب جو نہ تو عسکری و فوجی ہوگا اور نہ اس طرح کی عام بغاوت جو تخریب کاری اور خون خرابے پر منتج ہو، نہ اس سے اشتراکی نوعیت کا کوئی معاشی انقلاب مراد ہے اور نہ انقلاب فرانس کی طرز کا مطلق سیاسی انقلاب۔ بلکہ ہم نے مصطفوی انقلاب کہہ کر انقلاب کی سمت و نوعیت بھی متعین کردی ہے اور اس کا دائرہ کار یعنی سکوپ بھی نبوی انقلاب کی سمت و نوعیت درج ذیل آیت سے متعین ہوتی ہے۔
هُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہه بِالْھهُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَهٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖلا وَلَوْ کَرِهَ الْمُشْرِکُوْنَ۔
’’اللہ کی ذات وہ ذات ہے جس نے اپنے رسول کو بھیجا ہدایت اور دین حق دے کر تاکہ دین حق کو باقی تمام نظاموں پر غالب کردے چاہے مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار کیوں نہ گزرے‘‘۔
(التوبه:33)
چنانچہ مصطفوی انقلاب کی متابعت میں ہمارے پیش نظر بھی محض اقتدار یا حکومت کو بدلنا نہیں، زندگی یا نظام سلطنت کے کسی ایک گوشے کو بدلنا نہیں بلکہ لیظہرہ علی الدین کلہ کے مصداق دین حق کو تمام ادیان باطلہ پر غالب کرنا ہے، لیظہرہ علی الدین کلہ سے سمت انقلاب بھی متعین ہوتی ہے اور دائرہ کار بھی، یہ جزوی انقلاب نہیں بلکہ کلی انقلاب ہے۔ اس سے مراد پورے پورے نظام زندگی، نظام سلطنت، سماجی نظام، معاشی انقلاب اور سیاسی انقلاب کو ہمہ جہت اور ہمہ گیر پیمانے پر بدلنا ہے اور نتیجتاً وہی نظام رائج کرنا ہے جو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم الہدیٰ اور دین حق کی شکل میں لے کر تشریف لائے تھے۔ (انٹرویو، ڈاکٹر طاہرالقادری، ماہنامہ منہاج القرآن، مئی1989ء)
مورخہ 28 اگست 2014ء کو رات گئے حضور قائد انقلاب نے آرمی چیف سے تقریباً ساڑھے تین گھنٹے ملاقات کی اور اپنے تمام تر انقلابی ایجنڈے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔
ملک کے نامور کالم نگاروں اور دانشوروں کو قائد تحریک کے افکار سے آشنائی
انقلاب مارچ اور دھرنے کے اثرات و نتائج میں سے یہ بھی ہے کہ وطن عزیز کے نامور کالم نگاروں اور دانشوروں کو قائد انقلاب کے خیالات و افکار سے آشنائی ہوئی۔ اس طویل ترین دورانئے کے دھرنے کو شائد ہی کوئی ایسا کالم نگار اور دانشور جو جس نے اس تاریخی واقعے کو اپنا موضوع سخن نہ بنایا ہو۔ اس دوران تمام بڑے قومی اخبارات میں چھپنے والے کالمز سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ حضرات کس طرح قائد انقلاب مدظلہ کے خطابات کو بغور سنتے تھے اور کس عمدہ پیرائے میں اس پر تبصرہ و تجزیہ پیش کرتے رہے۔
چنانچہ محترم زمرد نقوی صاحب نے انہی دنوں اپنے کالم میں لکھا: ’’ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ثابت کردیا کہ اس وقت پاکستان میں ان سے بڑا لیڈر کوئی نہیں۔ وہ دنیا کے چند بڑے لیڈروں میں سے ہیں جنہیں انگریزی سمیت کئی زبانوں پر عبور حاصل ہے۔ وہ ایک ایسے مقرر ہیں جو کئی گھنٹوں بلا تکان تقریر کرسکتے ہیں۔ مجمع پر جادو کردیتے ہیں۔ مسلم دنیا میں اسلام پر ایک اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ عالم اسلام میں ان سے بڑا اسکالر شاید ہی کوئی اور ہو‘‘۔ (روزنامہ ایکسپریس۔ شائع شدہ، 20 ستمبر 2014ء)
اسی طرح ان دنوں محترم ایاز امیر صاحب رقمطراز ہوئے: ’’طاہرالقادری کوئی فاشسٹ، انارکسٹ یا نظام کو ختم کرنے والی کوئی تباہ کن قوت نہیں بلکہ وہ آئین اور قانون کو سمجھنے اور اس کی پاسداری کرنے والے رہنما ہیں۔ وہ صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ عوام کی اکثریت کو سماجی انصاف اور زندگی گزارنے کے بہتر مواقع فراہم کئے بغیر جمہوریت صرف کاغذی کاروائی ہے۔ یہ عوام کی بجائے صرف مراعات یافتہ طبقے کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے‘‘۔ (روزنامہ جنگ۔ شائع شدہ، 3 ستمبر 2014ء)
انہی دنوں محترم منصور آفاق صاحب نے لکھا تھا: ’’چالیس سال سے جس کی راتیں بارگاہ ایزدی میں رکوع و سجود کرتے گزری ہیں اور دن قدوس ذوالجلال اور پیغمبر انسانیت چارہ ساز بیکساں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف میں دفتر کے دفتر تحریر کرتے ہوئے گزرے ہیں۔ وہ ڈاکٹر طاہرالقادری اس وقت گولیوں کی بوچھاڑ میں اور آنسو گیس کے سلگتے ہوئے سمندر میں کھڑے ہوکر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہے جارہے ہیں‘‘۔ (روزنامہ جنگ۔ شائع شدہ 5 ستمبر 2014ئ)
اسی طرح محترم علی دایان حسن صاحب نے لکھا تھا: ڈاکٹر طاہرالقادری یکسر پیچیدہ خصوصیات کی حامل شخصیت ہیں۔ ان کی جماعت PAT نے گزشتہ سال منعقد ہونے والے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا اور اب وہ ملک میں حقیقی جمہوریت لانے کے لئے انقلاب کا نعرہ بلند کررہے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری ایک شعلہ بیان مقرر ہیں۔ وہ اپنی جذباتی تقاریر میں سماجی عدم مساوات اور عوام کی محرومیوں کو خوب اجاگر کرتے ہیں۔
(روزنامہ دنیا، شائع شدہ 9 ستمبر2014ئ)
لفظ ’’دھرنا‘‘ کی پذیرائی
اس تاریخی اور عظیم الشان دھرنے نے پاکستانی سوسائٹی پر خاموش انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ تب سے اب تک ہر طبقہ اپنے مطالبات منوانے کے لئے دھرنوں کا احتجاجی طریقہ اپناتے ہیں۔ ینگ ڈاکٹرز ہوں یا سرکاری ہسپتالوں میں کام کرتی نرسیں، نابینا اور معذور افراد ہوں یا کسان ہر کوئی اپنے اپنے مطالبات منوانے کے لئے دھرنے دے رہے ہیں۔
اس کے علاوہ ایم کیو ایم یا PPP، جماعت اسلامی ہو یا ممتاز قادری کی رہائی کا مطالبہ کرنے والے حمایتی علماء سب کے سب آئے روز حکومتی اہلکاروں سے اپنے مطالبات منوانے کے لئے دھرنے دے رہے ہیں۔
لفظ ’’دھرنا‘‘ کی پذیرائی بارے محترم افشاں قریشی نے لکھا تھا: ’’لفظ دھرنا کی مقبولیت کا اندازہ تو یہاں سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب روزمرہ استعمال ہونے والے لفظوں میں بھی دھرنے کی مثالیں دی جاتی ہیں مثلاً ایک خاتون اپنے شوہر کو آفس فون کررہی تھی کہ گھر بھی آنا ہے یا دفتر میں ہی دھرنا دیئے رہنا ہے، کہیں دوست، دوست کو کہہ رہا ہوتا ہے یار آبھی جاؤ تم تو دھرنا دے کر ہی بیٹھ گئے ہو۔ حتی کہ اب تو بچے بھی دھرنا کھیلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں‘‘۔ (روزنامہ جناح۔ شائع شدہ۔ 3 اکتوبر 2014ء)
تفہیمِ آئینِ پاکستان
انقلاب مارچ اور دھرنے کے دوران آئین، دستور یا Constitution کا اتنی بار ذکر ہوا کہ عام شہری کو بھی اس کی بعض دفعات کے نام یاد ہوگئے۔ آرٹیکل 62 اور 63 کی پہلی بار عوامی سطح پر اتنی زیادہ توضیح و تشریح ہوئی۔ اسی طرح آرٹیکل 9، 15 اور 16 جس میں بنیادی حقوق کا ذکر ہے۔ خطابات میں کئی بار ذکر ہوا۔ علاوہ ازیں آئین پاکستان کے پہلے 40 آرٹیکلز جن کا تعلق عوام پاکستان سے تھا انہیں ملکی تاریخ میں پہلی بار حرف بہ حرف کئی بار پڑھ کر سنایا گیا اور اس کی وضاحت کی گئی۔
محترم موسیٰ رضا آفندی نے اس حقیقت سے ان الفاظ میں پردہ اٹھایا: ’’دھرنے والوں کی یہ عظیم کامیابی ہے جس نے نہ صرف تقریروں کے ذریعے پاکستان کے سارے لوگوں کو آئین اور آئینی دفعات کے بارے میں آگاہ کیا بلکہ اس نام نہاد جمہوریت کو بھی اپنی اصلی صورت دکھانے پر مجبور کردیا ہے تاکہ لوگوں کو پتہ چل سکے کہ بدبو بدبو ہوتی ہے اور خوشبو خوشبو۔ لوگوں پر یہ چیز بھی واضح ہوگئی کہ حکمران طاقتیں اپنی سرشت میں کتنی ہوشیار ہوتی ہیں جو اپنے ہی الفاظ کو بدلنے میں ذرا دیر نہیں لگاتیں‘‘۔ (روزنامہ ایکسپریس۔ شائع شدہ 31 اگست 2014ئ)
حکومتی رویوں میں تبدیلی
شریف برادران کی یہ تاریخ ہے کہ جب بھی انہیں بھاری مینڈیٹ ملتا ہے تو ان کی گردن میں سریا آجاتا ہے، آپے سے باہر ہوجاتے ہیں کئی کئی ماہ تک کابینہ کا اجلاس نہ بلانا، مشاورت نہ کرنا، مطلق العنانیت ان کا شیوہ ہے۔ علاوہ ازیں پارلیمنٹ کے سیشنز میں نہ جانا عادت ثانیہ ہے مگر اس دھرنے نے اپنے اثرات دکھائے وزیراعظم باقاعدگی سے پارلیمنٹ میں آنے لگے۔ انہیں دنوں ہونے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں محترم اعتزاز احسن صاحب نے کہا تھا ’’میں صدقے جاؤں طاہرالقادری اور عمران خان کے جنہوں نے اپنے دھرنوں کے ذریعے محترم وزیراعظم صاحب کو پارلیمنٹ کا راستہ یاد دلادیا‘‘۔
انہی دنوں یہ خبر بھی میڈیامیں آئی کہ شریف برادران اپنے ہی وزراء کو ملاقات کا وقت نہیں دیتے۔ اسی طرح اپنی جماعت کے اراکین پارلیمنٹ ملاقات کے لئے کئی کئی ماہ سے درخواستیں دے رہے ہیں مگر شنوائی نہیں ہوتی۔ مگر اسی دھرنے اور انقلاب مارچ کی برکات تھیں کہ نہ صرف وزراء اور اراکین پارلیمنٹ کو ملاقات کا وقت دیاجانے لگا بلکہ ترقیاتی فنڈ کے نام پر لالچ اور رشوت بھی دی جانے لگی۔
صدارتی نظام یا پارلیمانی نظام۔۔ نئی بحث کا آغاز
ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں مسافر آخر شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے
گزشتہ چند روز سے میڈیا پر ایک نئی بحث کا آغاز ہوا ہے کہ پاکستان میں صدارتی نظام بہتر ہے یا پارلیمانی نظام۔ میں سمجھتا ہوں اس نئی Debate اور بحث سے انقلاب مارچ اور دھرنوں کے اثرات کی بو آرہی ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ عام پاکستانی اس موجودہ، مروجہ، فرسودہ نظام سے مایوس ہے اور وہ تبدیلی چاہتا ہے۔ چلو یہ بات بھی باعث اطمینان ہے کہ اہل دانش اس نظام کی تبدیلی کی بات کرنے لگ گئے ہیں ورنہ اس سے قبل تو یہی لوگ سسٹم اور نظام بچاؤ جوکہ دراصل مفادات بچاؤ ہے کی باتیں کرتے تھے۔
خواہش سے نہیں گرتے پھل جھولی میں
وقت کی شاخ کو تا دیر ہلانا ہوگا
کچھ نہیں ہوگا اندھیروں کو برا کہنے سے
اپنے حصے کا دیا خود ہی جلانا ہوگا