معاونت: نازیہ عبدالستار
منہاج یونیورسٹی کے اس دوسرے کانووکیشن میں جامعۃ الازہر سے تشریف لانے والے مہمانوں کو میں اپنی طرف سے پوری یونیورسٹی کے پروفیسرز، وائس چانسلر اور نائب رئیس الجامعہ اور ڈین آف فیکلٹیز اور جملہ اساتذہ کرام اور گرلز کالج کی پرنسپل، ڈین اور طلبہ و طالبات سب کی طرف سے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ منہاج یونیورسٹی اور جامعۃ الازہر یہ دونوں اپنے فکر کے اعتبار سے جڑواں بھائی ہیں۔ دنیا کی ان دو جامعات کی بنیاد ’’الوسطیۃ‘‘ پر ہے یعنی اعتدال اور میانہ روی پر مبنی اس کی فکر ہے اور اس میں عقیدہ صحیحہ ہے۔ دونوں کی سمت ایک ہے اسلوب ایک ہے۔ اس وجہ سے ہماری جامعہ اور جامعۃ الازہر کو ایک فطری مناسبت، موافقت اور مطابقت کی وجہ سے جوڑ دیا ہے۔ میں چاہوں گا کہ ہمارے دونوں معزز مہمان جامعۃ الازہر کے جید شیوخ کو میرا سلام، میری نیک تمنائیں پہنچائیں۔
میں چاہتا ہوں کہ آج طلبہ اور طالبات سے ادب علم کے حوالے سے چند ضروری باتیں کروں۔ ان نصیحتوں کو سن کر اپنے لئے زندگی میں کشادہ اور روشن راستے بنائیں۔ علم، اللہ رب العزت کی ایک عظیم نعمت ہے جس کی قدر و قیمت کا ہمیں آج کی اس مادی دنیا میں اندازہ صحیح طور پر نہیں رہا۔ علم ایک ایسی دولت ہے اور ایک ایسا خزانہ ہے جس سے اللہ رب العزت نے اپنی کتاب کو مزین فرمایا ہے۔ آدم علیہ السلام پہلے نبی کے طور پر مبعوث ہوئے۔ جہاں سے انسانیت کی تاریخ کا آغاز ہوا اور قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ان کی اعلیٰ اور ایک نمایاں فضیلت اور ملائکہ پر ان کی فوقیت، ان کی فضیلت اور ان کی عظمت کا ذکر کیا ایک ہی فضیلت کو چنا اور وہ فضیلت علم تھی اور فرمایا:
وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّهَا.
’’اور اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو (اشیاء کے) نام سکھادیئے‘‘۔
(البقره،2: 31)
لہذا انہیں فضیلت علم کے باعث اپنی خلافت اور نیابت کا اور انسانیت کی قیادت کا حقدار بنایا۔ اسی آیت کریمہ میں مذکورہ الفاظ کے آخر پر فرمایا: یہ کلمہ اس علم کی شان، اس میں احاطہ اور استیعاب ہے۔ علم اس وقت کامل ہوتا ہے جب وہ بہت سی ضروری چیزوں کا احاطہ کرے۔ اس میں جامعیت ہو، وہ کثیرالجہات ہو اور اس کے اندر کلیت (Totality) ہو جبکہ ہمارے ہاں قدیمت اور جدیدیت کی تفریق آگئی ہے۔ یہ مذہبی Religious اور غیر مذہبی Secular کی جو تقسیم ہے اس تقسیم نے دونوں سمتوں کو اپنی رائے، اپنی تحقیق اور اپنے فیصلے میں ناقص بنادیا ہے۔ اس سے حکمت خارج ہوگئی ہے۔ اس سے Wisdom کو نقصان پہنچا ہے۔ اب علم رہ گیا ہے حکمت نہیں رہی کیونکہ ایک اعلیٰ فیصلہ کرنے کے لئے ضرورت ہے کہ آپ مسئلہ کی تمام جہتوں کو دیکھیں اور ان کا احاطہ کریں۔ آپ تبھی دیکھیں گے اور احاطہ کریں گے۔ جب ان کو سمجھتے ہوں گے۔
اگر ایک آدھ برانچ کا علم ہوگا باقی شعبہ ہائے علم پر ادراک اور احاطہ نہیں ہوگا تو آپ کبھی زندگی میں اپنا نکتہ نظر دینا چاہیں گے تو وہ درست نہیں ہوگا اس میں کئی خطائیں، کئی کمزوریاں اور کئی نقص رہ جائیں گے۔ امت اسی خرابی کا شکار ہوئی ہے۔ الحمدللہ منہاج یونیورسٹی میں ہم نے جدید اور قدیم علوم کو جمع کیا۔ سیکولر اور Spiritual کو جمع کیا۔ ہم ان چیزوں کے کوئی خالق اور موجد نہیں ہیں۔ دراصل ہم تو صحیح سمت آئے ہیں۔ جب برٹش رول آیا تو انہوں نے مسلم امہ کے علاقوں میں علم کو تقسیم کردیا تھا۔ دین کو تبدیل کرکے مذہب بنادیا۔ کچھ لوگ مذہب کے علم کے لئے مسجدوںاور مدارس میں جائیں تاکہ ان کو دنیا کی کچھ خبر نہ ہو اور کچھ لوگ سکول، کالج اور یونیورسٹی میں جائیں اور ان کو دین کی تعلیمات کی کچھ خبر نہ ہو، اس طرح ایک Conflict پیدا ہوجائے گا۔
اللہ رب العزت نے اس خرابی کا بھی علاج دیا۔ پہلے جملے میں جو فرمایا: علم آدم الاسماء کلہا یعنی ہم نے جو آدم کو تمام ناموں کا علم عطا کیا۔ وہ کلیت کا علم تھا۔ اس علم میں وسعت تھی۔ وہ علم کثیرالجہات تھا جو تمام ضروری امور کا احاطہ کرتا تھا۔ یہ سلسلہ انبیاء کی ابتداء تھی اور ایک اس کی انتہاء ہے جب اللہ پاک نے اپنے آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے علم کا آخری ایڈیشن (قرآن) عطا کیا تو اس میں بھی فرمایا تبیانا لکل شئی اس میں ہر چیز کا مفصل بیان ہے۔ دوسری جگہ فرمایا: تفصیل کل شئی یعنی ہم نے اس میں ہر چیز کی تفصیل دے دی ہے اور فرمادیا:
وَعَلَّمَکَ مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ ط وَکَانَ فَضْلُ اﷲِ عَلَيْکَ عَظِيْمًا.
’’اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کردیا جو کچھ بھی آپ نہیں جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا بڑا فضل ہے‘‘۔
(النساء، 4: 113)
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کلی علم عطا کیا خواہ اس کا تعلق انسانی حیات سے ہے۔ خواہ حیوانی حیات سے ہے۔ خواہ عالم نباتات سے ہے۔ خواہ عالم جمادات سے ہے۔ خواہ کائنات کے کسی شعبہ سے ہے۔ خواہ ماضی سے متعلق علم ہے۔ خواہ وہ حال سے متعلق علم ہے۔ خواہ مستقبل سے متعلق علم ہے۔ خواہ وہ انسانی نفسیات ہے۔ خواہ وہ سائنس ہے۔ خواہ ایناٹومی ہے خواہ وہ ایمبریالوجی ہے خواہ وہ بائیالوجی ہے خواہ وہ بوٹنی ہے خواہ وہ فزکس ہے خواہ وہ الیکٹرو فزکس ہے خواہ سپیس اینڈ ٹائم کا علم ہے۔ خواہ وہ میڈیکل سائنسز کا علم ہے خواہ وہ سیلز کا علم ہے۔ خواہ وہ مائیکرو بائیالوجی ہے خواہ وہ ٹیکنالوجی کا شعبہ ہے خواہ کوئی شعبہ ہے۔ اب میں نے سائنسز کے جتنے بھی ٹرم بولے ہر ایک ٹرم کے پیچھے میرے ذہن میں ایک حدیث ہے۔ میں ایک محتاط شخص ہوں اور مجھے پتہ ہے کہ جو میں کہہ رہا ہوں میرے پاس اس کی سند اور ثبوت ہونا چاہئے۔
جتنی اصطلاحات ہیں کتب حدیث میں ان کا باقاعدہ ثبوت ملتا ہے جیسے کلینکس، جدید ٹیکنالوجی، موٹرگاڑیوں، جہازوں اور ان کے لاز، ایروسپیس، ایمبریالوجی (علم الجنین) پر کہ بچہ کس طرح پیدا ہوتا ہے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میڈیکل سائنس میں غلطی کو دور کیا کہ باپ کا سپرم آتا ہے اور ماں کی طرف سے اووم آتا ہے جو جوائنٹ کرتے ہیں اور ان کے ملنے سے زائیگوٹ بنتا ہے۔ وہاں سے بچے کا آغاز ہوتا ہے۔ آج سے دو سو سال پہلے تک ویسٹرن میڈیکل سائنس مفروضے پر قائم تھی۔ سائنسز کے دو سکول آف تھاٹ تھے ایک کہتا تھا کہ بچے کی تخلیق شروع میں باپ کے سیل میں ہوتی ہے۔ دوسرا کہتا تھا کہ ماں کے ایگ میں یعنی اووم میں ہوتا ہے۔ یہ دو اینگل تھے۔
جب حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو کئی صدیاں بعد تک یورپین میڈیکل سائنس میں یہی علم رہا۔ دو سو سال قبل جاکر یہ تھیوری تبدیل ہوئی۔ بتانا یہ چاہتا ہوں جس زمانے سائنس ٹھوکریں کھاتی رہی اس ٹھوکریں کھانے سے چودہ سو سال قبل ایک یہودی نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوتا ہے۔ یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی ہے اور متفق علیہ ہے۔ اور یہ سوال اس دور میں ہورہا ہے جس وقت پوری دنیا میں یہ علم تھا کہ بچہ ماں کے خون سے پیدا ہوتا ہے۔ اب وہ یہودی تصور کررہا ہوگا کہ ایسا ہی جواب دیں گے۔ مگر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں جو تم سمجھتے ہو یا دنیا سمجھتی ہے وہاں سے نہیں پیدا ہوتا بلکہ یہ باپ کے سیل اور ماں کے سیل کے میلاپ سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ علم حدیث میں آگیا۔ یہ ویسٹرن سائنس کے پاس نہیں تھا جو آقا علیہ السلام کے فرمان کے بعد بھی 12 سو سال تک غلطی میں رہی۔ اب سائنس درست نالج پر پہنچی۔ جب اس کے علم کا کمال اور درستگی آئی تو اس نے وہ فیصلہ کیا جو پندرہ سو سال آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بتاچکے تھے کہ بچے کی پیدائش اس طرح ہوتی ہے۔
لہذا رحم مادر میں بچے کی تخلیق کے جو مراحل آج سائنس کو معلوم ہوئے وہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چودہ صدیاں قبل بیان کردیئے۔ یہ تو میں نے برسبیل تذکرہ ایک مثال بیان کردی یہ سمجھانے کے لئے کہ علم کامل وہ ہے جس میں استیعاب اور احاطہ ہو۔ وہ ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہو۔ ہر پہلو ظاہر پر بھی باطن پر بھی، جسم کی ضروریات پر بھی، روح کی ضروریات پر بھی انفس و آفاق پر بھی حاوی ہو۔ یہ علم اللہ رب العزت نے انبیاء کے ذریعے اس امت کو دیا ہے مگر بدقسمتی سے امت اس علم سے صحیح طور پر فائدہ نہیں اٹھارہی۔۔ جب تک فائدہ اٹھاتی رہی کامیاب و کامران رہی جب فائدہ اٹھانا چھوڑ دیا تب سے وہ محتاج اور منگتی اور بیکاری بن گئی۔ لہذا وقت کی ضرورت ہے کہ ہم علم کی کلیت اور کاملیت کی طرف پلٹ آئیں۔
منہاج یونیورسٹی کو تشکیل اور قائم کرنے کی بنیادی وجہ اسی علم کلی کا حصول ہے اب یہ طلباء کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مقصد کو حاصل کرنے میں کتنی محنت کرتے ہیں۔ گھر بیٹھنے سے یہ علوم نہیں مل جائیں گے۔ اساتذہ، ڈین، پروفیسرز کی ذمہ داری ہے کہ وہ علم کی صحیح سرپرستی کریں۔ علم کو پروفیشن اور بزنس نہ سمجھا جائے۔ تمام اساتذہ جو یہاں موجود ہیں جو یہاں موجود نہیں ہیں۔ پوری امت میں جن کو اللہ تعالیٰ نے استاذ، مدرس، شیخ اور ٹیچر ہونے کا منصب عطا کیا ہے۔ یہ منصب اللہ کا ہے فرمایا: علمک مالم تکن تعلم فرمایا: محبوب آپ کو اللہ نے سکھایا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے۔ لہذا یہ معلم ہونا یہ خدائی منصب ہے۔ یہ مصطفائی منصب ہے۔ جن کو یہ منصب ملا ہے اس سے بڑی عزت کی کوئی چیز کائنات میں نہیں۔ اس لئے کہ اس علم کی سرپرستی ہونی چاہئے۔ علم آگے تب بڑھتا ہوتا ہے جب سرپرستی ہو۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی علم کی باقاعدہ اور پریکٹیکلی سرپرستی فرمائی۔ یہ نہیں کہ صرف علم کی ترغیب دے دی اور علم کی اہمیت بیان کی یا امت کو علم کی طرف بلایا۔ صرف یہ کام نہیں کیا بلکہ عملاً سرپرستی فرمائی۔
میری کتاب انگلش میں ہے Muhammad the Peace Maker اس کے اندر اس سے متعلق پورا باب ہے۔ میں اس کے نمونے سرخیوں کے طور پر پیش کرتا ہوں جس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ کس طرح سرپرستی فرمائی۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے پہلے ایک ایجوکیشن سسٹم وضع کیا۔ ہجرت مدینہ کے بعد ایجوکیشن سسٹم کو مدینہ میں نافذ کیا اور جہالت کے خاتمے اور لوگوں کو ایجوکیٹ کرنے کے لئے تمام ضروری اقدامات اٹھائے۔ لوگوں میں مختلف طرح کے Skills پیدا کرنے کے لئے ٹیچرز اور ٹرینرز کو مقرر کیا۔ اتنی سرپرستی فرمائی آپ اندازہ کریں کہ جب ستر قیدی غزوہ بدر میں آئے جن کے پاس رہائی کی رقم نہیں تھی۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ میرے مدینہ کے دس دس بچوں کو پڑھادو تمہیں بلاقیمت رہا کردیا جائے گا۔
حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد نبوی میں ایک بورڈنگ سکول بنایا۔ ایک ایسا سکول اور ایک ایسا کالج قائم فرمایا یا ایک ایسی جامعہ قائم فرمائی جس میں طلباء رہائش رکھتے اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو تعلیم دیتے۔ سات سو سے لے کر ایک ہزار تک طلباء اس تعلیمی اور تربیتی سکول میں تھے۔ جو دور قبائل تھے یا مدینہ پاک کے اردگرد جتنی آبادیاں تھیں ان میں جو تعلیم حاصل کرنے مدینہ پاک نہیں آسکتے تھے ان کے لئے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ٹیچرز اور ٹرینرز کی تقرری فرمائی اور ان کو دور قبائل میں بھیجا۔ ایک مرتبہ ستر ٹیچرز بھیجے جن کو کفار نے دھوکے سے شہید کردیا مگر پھر بھی آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم دلبرداشتہ نہیں ہوئے۔ دور دور قبائل میں ٹیچرز بھیجتے رہے تاکہ ان کے قبائل میں جاکر انہیں پـڑھائیں اور جو قبائل اور آبادیاں مدینہ شہر کے قریب قریب تھیں ان کو ہدایات جاری فرمائیں کہ وہ مدینہ شہر کے قریب شفٹ ہوجائیں تاکہ وہ بآسانی جو سکول شہر مدینہ میں قائم ہوئے ہیں ان میں آکر استفادہ کرسکیں۔
حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مرکزی سکول صفہ کے علاوہ شہر مدینہ میں مختلف علاقوں میں مزید9 سکول قائم کئے۔ جبکہ شہر چھوٹا سا تھا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سٹڈی سرکلز کا آغاز کروایا۔ حدیث پاک میں ہے کہ مسجد نبوی میں آقا علیہ السلام نکلے کہ دو حلقات (سرکل) تھے۔ ایک حلقۃ الذکر تھا ایک حلقۃ العلم تھا۔
حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم خود علم کے حلقے میں جاکر بیٹھ گئے اور فرمایا: مجھے اللہ نے علم دینے والے کے طور پر مبعوث کیا ہے یعنی علم کی حوصلہ افزائی فرمائی پھر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تعلیمی سرگرمیوں کو خود کنٹرول کرتے اور یہ بھی دیکھتے کہ کیا پڑھایا جارہا ہے؟
ایک دن آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے حجرہ مبارک میں آواز سنی کہ مسجد نبوی کے حلقے میں کچھ لوگ ایسے مضمون پر بحث کررہے ہیں جو ابھی Discuss کرنے کے قابل نہیں تھا۔ آپ باہر تشریف لے آئے اور ان کو منع فرمادیا کہ خبردار اس چیز کو ابھی تم بحث میں نہ لائو کیونکہ ابھی تمہارے پاس اس کی مکمل معلومات نہیں ہیں۔ اور فرماتے ہیں کہ پہلی امتیں بھی ایسے مسائل میں الجھ کر گمراہ ہوگئیں۔
اسی طرح شرح خواندگی کو بھی آقا علیہ السلام نے بڑھایا اور پہلی مرتبہ تجارتی لین دین کے سلسلے میں تحریری ریکارڈ بھی شروع کروایا۔ قرآن مجید میں اس کی باقاعدہ آیت اتری۔
يٰـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اِذَا تَدَيَنْتُمْ بِدَيْنٍ اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکْتُبُوْهُ ط وَلْيَکْتُبْ بَّيْنَکُمْ کَاتِبٌم بِالْعَدْلِ.
’’اے ایمان والو! جب تم کسی مقررہ مدت تک کے لیے آپس میں قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور تمہارے درمیان جو لکھنے والا ہو اسے چاہیے کہ انصاف کے ساتھ لکھے ‘‘۔
(البقره،2: 282)
علاوہ ازیں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تحریری کام کو مزید وسعت دی اور اس کا سکوپ بڑھادیا۔ اس طرح دو سو انتیس لیٹرز اور معاہدات اور آفیشل ڈاکومنٹس جس پر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مہر تھی وہ جاری کئے گئے۔ 10 سال کے عرصہ میں اس کے علاوہ بھی مسلم کمیونٹی کے لئے 255 انٹرنیشنل ڈاکومنٹس، ہدایات اور ڈپلومیٹک ڈاکومنٹس جاری کئے۔ جن پر باقاعدہ آقا علیہ السلام کی مہر ہے۔ ان سب کو ملاکر تقریباً 700 ڈاکومنٹس ہیں جو آقا علیہ السلام نے اپنی مہر کے ساتھ جاری کئے اور لیٹرز بھی بھیجے۔
لہذا لکھنے پڑھنے اور تحریری ریکارڈ رکھنے کا کلچر آقا علیہ السلام نے بنایا اور تاریخ کی کتابوں میں آتا ہے کہ سب سے پہلی شخصیت قریش اور حجاز میں سے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جنہوں نے خط پر مہر لگانے کا آغاز کیا تاکہ ثابت ہو کہ یہ آفیشل ڈاکومنٹ ہے۔ پھر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ریسرچ ورک کا آغاز کیا۔ تحقیق کرنے کا کلچر پیدا کیا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مختلف مضامین کے لئے تخصص کروایا۔ ہر ایک پہلو پر ان کی تعلیم و تربیت کی اور اصلاح فرمائی۔ اس چیز کی اصل حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سے نظر آتی ہے۔ جیسے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
جو قرآن پڑھنا چاہے وہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس جائے (کیونکہ وہ اس کا سپیشلسٹ ہے) جو فقہ پڑھنا چاہے اور جو حلال و حرام کو جاننا چاہے وہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے پاس جائے (وہ اس کا سپیشلسٹ ہے) جو فرائض اور وراثت کے بارے میں معلومات لینا چاہے وہ حضرت زید ابن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس جائے (وہ اس کا سپیشلسٹ ہے) اور فرمایا: جو کوئی فنانس کے بارے میں پوچھ گچھ کرنا چاہے وہ میرے پاس آئے۔
اس سے معلوم ہوا کہ آقا علیہ السلام نے باقاعدہ سپیشلائزیشن کا کلچر قائم کردیا تھا۔ پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نصابات وضع کئے جو کچھ مضامین پڑھائے جاتے تھے ان کی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ٹیچنگ ہوتی تھی اور باقاعدہ آقا علیہ السلام ان کو تعلیم دیتے تھے۔ اس میں ریڈنگ بھی تھی۔ اس میں ان کی وضاحت بھی تھی۔ اس میں لاء بھی تھا اس میں اخلاقیات بھی تھیں اس میں عمرانیات تھیں۔ اس میں نیزہ بازی تھی اس میں تیراکی تھی، اس میں حساب کا علم تھا، علم الوراثت بھی تھا۔ میڈیسن بھی تھی ایسٹرانومی تھی، ایگریکلچر تھا، ٹریڈ تھی، کامرس تھا یہ وہ سبجیکٹ تھے جو مسجد نبوی میں آقا علیہ السلام نے خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو پڑھائے او ران کے ذریعے امت تک پہنچے۔ اس سے علم کو فروغ ملا۔ اس طرح بالخصوص خواتین کی تعلیم کا حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بندوبست کیا۔ پڑھی لکھی خواتین کو بطور ٹیچر مقرر کیا۔ خود بھی ایک دن مقرر کرکے خواتین کو تعلیم دیتے تھے۔
یہ چند نمونے میں نے اس لئے بیان کئے کہ آپ اندازہ فرماسکیں کہ علم کی عملاً سرپرستی حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کس قدر کی ہے۔ یہ وہ سرپرستی تھی جس کے باعث ایک صدی کے اندر اندر وہ عرب جنہیں ان پڑھ کہتے تھے وہ ایک صدی میں پوری دنیا کی نگاہوں کا مرکز بن گیا۔ دو سو سال پورے نہیں ہوئے تھے کہ شرق سے غرب تک یورپ کی دنیا عالم اسلام کے پاس علم حاصل کرنے کے لئے آنے لگی۔ امت کو کس نے اس قابل بنادیا خواہ وہ بغداد کی سرزمین تھی خواہ وہ قرطبہ تھا خواہ وہ دمشق تھا۔ خواہ وہ غرناطہ تھا۔ خواہ وہ نیشاپور تھا۔ خواہ وہ حجاز تھا۔ خواہ وہ خراسان تھا۔ خواہ سپین تھا جہاں بطور خاص یونیورسٹیاں کھل گئی تھیں جو سرپرستی حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی وہ سرپرستی بعد کے ادوار میں مسلم رولرز کی طرف سے جاری رہی۔
(جاری ہے)