معلم انسانیت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اللہ تعالیٰ (قیامت تک) میری امت میں ہر صدی کے آخر میں ایسی شخصیت کو پیدا فرماتا رہے گا جو اس کے دین کی تجدید کرے گی۔
(أبوداؤد، السنن، کتاب الملاحم، باب ما يذکر في قرن المائة، 4: 190، رقم: 4291)
بلاشبہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا شمار بھی ایسی نابغہ روزگار ہستیوں میں ہوتا ہے۔ جنہوں نے اپنے دور میں دین اسلام کی ایسی خدمت کی جو آئندہ سوسال تک کی ضروریات کو پورا کرتی رہے گی۔ سینکڑوں مختلف النوع موضوعات پر خطابات اور تصانیف کے ذریعے شیخ الاسلام نے امت مسلمہ کو وہ ذخیرہ علم دیا ہے جس نے نہ صرف پچھلے سو سال کی کمی کو پورا کیا ہے بلکہ مستقبل میں بھی عرصہ دراز تک ہماری نسلوں کی رہنمائی کرتا رہے گا۔
اگرچہ پوری دنیا میں لاکھوں لوگ انہی خطابات اور تصانیف سے مستفید ہوکر اپنی علمی تشنگی کو سیراب کر رہے ہیں اور اپنے اعمال، احوال، اخلاق بدل رہے ہیں لیکن اگرکوئی آج شیخ الاسلام سے متعارف ہو تو اُس کے ذہن میں سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ وہ دین اسلام کے مختلف گوشوں پر موضوعات کا احاطہ کیسے کرسکتا ہے، مجالس العلم اسی سوال کا شافی جواب ہے۔
شیخ الاسلام نے فرمایا: جو لوگ آج منہاج القرآن سے وابستہ ہو رہے ہیں اور انہوں نے میرے خطابات نہیں سنے۔ تو مجالس العلم کی اِس لیکچر سیریز میں سمندر کو کوزے میں بند کر دیا گیا ہے، یہ خطابات اس لحاظ سے بھی جامع اور ہمہ جہت ہیں کہ ان کا سامع سینکڑوں کتب کے مطالعہ سے بری ہو جاتا ہے۔ اُسلوب بیان اتنا عام فہم اور بلیغ ہے کہ ایک عام سامع سے لیکر پی ایچ ڈی اسکالرز تک کو قابل فہم، علوم و معارف عطا کرتا ہے۔
راقمہ الحروف کو ان مجالس میں شریک ہونے کا اعزاز حاصل ہوا تو خیال آیا کہ یہ موضوعات اتنے اہم ہیں کہ آج کے دور میں ان سے نابلد ہونا بہت بڑی محرومی ہوگی۔
چنانچہ اس مضمون میں اب تک ہونے والی مجالس العلم کے کچھ اہم نکات قارئین کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں تاکہ انہیں ان اہم خطابات کی وسعت علمی کا ادراک ہوسکے اور وہ ان کو خود سن کر ان خطابات سے رہنمائی حاصل کرسکیں۔ قارئین کی سہولت کے لئے ہرمجلس علم کے ساتھ اس کا متعلقہ CD نمبر دیا گیا ہے تاکہ استفادہ کرنے میں آسانی ہو۔
پس منظر
شیخ الاسلام نے کم وبیش چار پانچ سال قبل COSIS اور MCW کے طلباء وطالبات، ملک بھر کی دینی جامعات، دارالعلوم اور علمی اداروں کے طلباء وطالبات کے لیے اور بعد ازاں اہل علم (علماء، اساتذہ، معلمین، متعلمین اور مستفیدین) کی راہنمائی کے لیے چار پانچ بنیادی ضروری علوم اصول العقیدہ، اصول العلم، اصول الحدیث، اصول ادب پر عربی میں کتب لکھنے کا ارادہ کیا۔ لیکن ملکی وبین الاقوامی مصروفیات اور بوجہ علالت یہ کتب منظر عام پر نہ آ سکیں جبکہ ان پر بنیادی کام مکمل ہو چکا ہے۔
الحمدللہ شیخ الاسلام کی صحت پہلے سے بہتر ہے لہذا انہوں نے ان کتب کی تکمیل کے ساتھ ساتھ جامعہ کے طلباء و طالبات، علماء اور جمیع طالبانِ علم کے لیے ہفتہ وار درس وتدریس کا سلسلہ شروع کرنے کا ارادہ کیا، یہی اِس کا بنیادی سبب تھا۔ علاوہ ازیں آپ کے یورپ میں الہدایہ کے عنوان سے، برمنگھم میں دورہ صحیح بخاری ومسلم اور دورہ صحیحین کے عنوان سے اور حیدر آباد دکن (انڈیا) میں اصول الحدیث کے عنوان سے دروس اور کیمپس ہوئے۔ اُن میں شریک کثیر سامعین نے اس سلسلہ کو جاری رکھنے کی درخواست کی۔ جو اس کا دوسرا سبب بنا۔
تیسرا سبب دنیا بھر کے وہ لوگ بنے جو علم کے متلاشی تھے، تحریک منہاج القرآن کے رفقاء و وابستگان تھے جنہوں نے شیخ الاسلام سے تعلیم وتدریس کا باقاعدہ سلسلہ شروع کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ آپ نے محسوس کیا کہ ان کو تشنگی ہے،راہنمائی کی ضرورت ہے ان اسباب کے پیش نظر آپ نے جو سلسلہ تعلیم، سلسلہ تدریس اور سلسلہ تربیت شروع کیا۔ اس کا عنوان قرآنی آیت سے اخذ کر کے ــ’’مجالس العلم‘‘ رکھا۔
مجالس العلم کی فضیلت و اہمیت
شیخ الاسلام نے اس نشست میں مجالس العلم کی فضیلت و اہمیت کو قرآن حکیم سے ثابت کیا۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں مجالس العلم کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’اے ایمان والو! جب تم سے کہا جائے کہ (اپنی) مجلسوں میں کشادگی پیدا کرو تو کشادہ ہو جایا کرو اللہ تمہیں کشادگی عطا فرمائے گا اور جب کہا جائے کھڑے ہوجاؤ تو تم کھڑے ہوجایاکرو، اللہ اُن لوگوں کے درجات بلند فرما دے گا جو تم میں سے ایمان لائے اور جنہیں علم سے نوازا گیا، اور اللہ اُن کاموں سے جو تم کرتے ہو خوب آگاہ ہےo‘‘
(مجادلة، 58: 11)
مندرجہ بالا آیت مبارکہ سے مجالس العلم کی فضیلت اور اہمیت ثابت ہوتی ہے کہ ان مجالس سے خیر اور درجات کی بلندی تب حاصل ہو گی جب ان سے ایمان اور علم حاصل ہو۔ پھر اﷲ پاک نے درجات کی بلندی کو مجالس کے ساتھ متعلق کر کے فرمایا:
اللہ اُن لوگوں کے درجات بلند فرما دے گا جو تم میں سے ایمان لائے اور جنہیں علم سے نوازا گیا۔
پھر آپ نے احادیث مبارکہ کی روشنی میں ان مجالس کی نشاندہی بھی کی جن میں بیٹھنے والوں کے ایمان اور علم میں اضافہ ہوتا ہے اور ایسے ہم نشینوں کی بھی صفات بیان کیں جن کے ساتھ مل بیٹھنے سے علم میں اضافہ، گناہوں کی بخشش اور درجات میںبلندی حاصل ہوتی ہے۔
آپ نے نہایت خوبصورت انداز میں صحبتِ صلحاء کی اہمیت کو اجاگر کیا کہ نیک اور صالح افراد کی زیارت انسانی جسم اور روح پرکیا اثرات مرتب کرتی ہے۔ اس کے لیے آپ نے مختلف مثالیں بیان فرمائیں کہ جس طرح پھولوں کی خوشبو سے طبیعت میں فرحت پیدا ہوتی ہے۔ اچھے قدرتی مناظر کو دیکھ کر طبیعت کا بوجھ کم ہوتا ہے اور جسم کو فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اسی طرح کسی نیک، متقی انسان کو دیکھنے سے، اس کی مجلس میں بیٹھنے سے، وہی خوشگوار اثرات روح پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ پھر اس حقیقت کو بھی واضح کیا کہ اچھی اور بری مجالس کے اثرات انسانی جسم، روح اور اعمال پر کس طرح مرتب ہوتے ہیں اور احادیث مبارکہ کے ذریعے ان مجالس کی نشاندہی بھی فرمائی کہ ہم کیسی مجالس میں شرکت کریں؟ ہم نشین کا انتخاب کیسے کریں؟
علم کی فضیلت و اہمیت
شیخ الاسلام نے مجالس العلم کی اس نشست میں علم کی فضیلت اور اہمیت پر زور دینے کا اہم سبب یہ بیان کیا کہ ہماری زندگیوں میں مشرق ہو یا مغرب مادیت کا غلبہ ہوتا جا رہا ہے اور علم صحیح کا کلچر، علم کی طرف رغبت، علم کا شغف، علم کا استعمال اور علم کا اشتغال almost ختم ہونے کی طرف ہے۔
جدید ٹیکنالوجی آگئی ہے جس کو جو چیز چاہیے وہ کمپیوٹر اور دیگر ذرائع استعمال کر کے ان پر اکتفاء کرتا ہے۔ صرف کمپیوٹرپر اکتفاء کرنے سے علم کے باب میں بہت دھوکے ہوتے ہیں کمپیوٹر پر لوگ آرٹیکلز لکھتے ہیں۔ موضوعات پر اپنی تحقیق لکھتے ہیں مگر اصل مصدر اور منبع تک کسی حواشی، شروح، امہات کتب، علم کے اصل مصادر، ماخذ اور منابع تک رسائی نہیں ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے علم کا کلچر ختم ہوتا جارہا ہے۔ اور انسان جدید ٹیکنالوجی کا محتاج ہو کر رہ گیا ہے لہٰذا آپ نے مجالس العلم کے ذریعے طلباء و طالبات، علماء، تشنگان علم اور طالبان علم میں یہ احساس پیدا کرنے کی کوشش کی کہ جو علم کا کلچر ہمیں اپنے قدماء، بزرگوں اور اکابر سے نسل در نسل منتقل ہوا اس کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ صاحب علم کی زندگی اور قوموں کی ترقی علم میں ہے۔
اس لیکچر میں علم کی فضیلت سورہ البقرہ کی آیت نمبر 13 سے ثابت کرنے کے ساتھ یہ بات بھی Establish کی کہ محض عبادت گزاری نیابت الٰہیہ کا باعث نہیں بنتی۔ اسی طرح علم بغیر صالحیت اور بغیر عبادت بھی نیابت کا باعث نہیں بنتا۔
پھر علم کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ اﷲتعالیٰ نے الکتاب کہہ کر علم کا Title اپنے کلام قرآن کو دیا۔ جو علم کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی یہ منبع علم ہے اس میں کسی کو شک کی گنجائش نہیں۔ قرآن کو کتاب کا Title اس لیے دیا گیا کہ علم کا کلچر پیدا ہوتا کہ مسلمان کتاب سے مانوس ہو کیونکہ یہ کتاب منبع علم اور منبع ہدایت ہے۔
اس کے ساتھ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 66 میں ان دو لوگوں کی بھی نشاندہی کی جو علم کا Misuse اور اس کو exploit کرتے ہیں ایسے لوگ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔
پھر سورہ الکہف کی آیت نمبر 65 کی روشنی میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کو علم کن ذرائع سے حاصل ہوا اور اسی علم کی بدولت وہ کس مقام و مرتبہ پر فائز ہوئے اس کو تفصیلاً بیان کیا۔
علاوہ ازیں آپ نے علم کی تعریف اور مدارج بیان فرمائے کہ وہ کون سے مدارج ہیں جنہیں طے کر کے علم کامل ہوتا ہے۔ آپ نے ان مدارج کے تحت بڑی تفصیل سے سفر علم کوبیان کیا۔ سفر علم: جہل + وہم + شک +ظن+ یقین= علم۔
حصولِ علم کے ذرائع
اس لیکچر میں شیخ الاسلام نے ائمہ اعلام، علمائے کبار کی کتب سے، ان کی تصریحات سے اور ان کی تحقیقات کی روشنی میں علم کی اقسام اور اس کے ذرائع تفصیلاً بیان کیے اور علاوہ ازیں مستند کتب کے حوالہ جات مجلس علم سے مستفید ہونے والوں کے لیے شامل کیے جو درج ذیل ہیں:
امام البغدادی کی کتاب اصول الدین، امام الجوینی کی الارشاد، امام نسفی کی تبصرۃ الادلتہ، امام بزدوی کی اصول الدین، امام رازی کی المحصول، امام الماتریدی کی التمہیدفی اصول الدین، امام تاج الدین سبکی کی جمع الجوامع۔ بے شمار کتب ہیں جو علم کے باب میں اپنے اپنے طریقے سے بحث کرتی ہیں مگر آپ نے بہت سارے حقائق کو جمع کر کے ایک منفرد انداز سے یہ subject ہمارے سامنے رکھا۔
اللہ تعالیٰ نے علم کے مختلف ذرائع، وسائط، وسائل اور طریقے بنائے ہیں۔ علم الکلام میں یا علم اصول الدین میں اُن کو علم کے لیے الطرق الموصلہ کہا جاتا ہے۔ علم کی دو اقسام ہیں۔
علم قدیم (خالق کا علم):
علم القدیم صرف اللہ تعالیٰ کا ہے۔ خالق کے علم کی شان یہ ہے کہ وہ علم قدیم ہے۔ کیونکہ اُس کی ذات قدیم ہے۔ اللہ تعالیٰ خود قدیم ہے، اُس کی تمام صفات قدیم ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا جو علم ہے وہ ایسا علم نہیں ہے کہ کوئی کہے کہ اتنے certain period سے پہلے ایک دور تھا کہ جب وہ علم نہ تھا۔ نہیں، اس میں عدم نہیں ہوتا۔ یہ شان ہے قدیم کی۔
علمِ حادث (مخلوق کا علم):
علمِ حادث کی شان اور تعریف یہ ہے کہ:
فهو الذي لم يکن فکان.
اس کی تعریف ہی یہ ہے کہ ایک وقت ایسا ہوتا ہے کہ وہ نہیں ہوتا پھر وہ ہو جاتا ہے۔ تو جو پہلے نہ ہو اور پھر ہو جائے بس سمجھنے کے لیے یہ کافی ہے کہ یہ حادث ہے اور علم مُحدث ہے۔
پھر شیخ الاسلام نے علم کے ساتھ جہل کی دو اقسام پر روشنی ڈالی جنہیں متکلمین اور اصولیین نے بیان کیا۔
- جہلِ بسیط
- جہلِ مرکّب
جہلِ بسیط
امام سبکی جمع الجوامع میں جہل کی تعریف کرتے ہیں کہ:
إنتفاع العلم المقصود.
جو علم مقصود ہے اگر اس کی مکمل نفی ہو جائے۔
یعنی total negation of knowledge۔ کوئی تصور قائم نہیں ہو سکا۔ بالکل darkness ہے۔ تو یہ جہل بسیط ہے۔
جہلِ مرکب
تصور المعلوم علیٰ خلاف هيئتة.
جس کا علم حاصل کرنا چاہتے ہیں اس کا تصور ذہن میں ایسا قائم ہو کہ جو خلافِ واقعہ ہو۔ حقیقت کے خلاف غلط تصور قائم ہو جائے تو اس کو جہلِ مرکّب کہتے ہیں۔
یعنی اگر total vacuum ہو، بالکل کوئی تصور سرے سے نہ ہو، خالی ہو، negation ہو، non existence of knowledge ہو تو وہ جہلِ بسیط ہے۔ جب کہ تصور غلط ہو totaly حقیقت کے خلاف تو جہلِ مرکب ہے۔
شیخ الاسلام نے علم کے مختلف ذرائع کو تفصیل سے بیان کیا جن سے علم حاصل ہوتا ہے۔
حسیّات
جو حواس خمسہ سے پیدا ہوں گے۔ حواس پانچ ہیں جن کو حواس خمسہ ظاہری کہتے ہیں
- سامعہ
- باصرہ
- لامسہ
- شامہ
- ذائقہ
وجدانیات
حصول علم کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ وجدانیات ہے جس کو عرف عام میں چھٹی حس کہتے ہیں وجدانیات کیا ہیں؟ وہ ہمارا شعورِ باطنی ہے۔
بدیہیات
بدیہیات یا فطریات۔ یہ وہ چیزیں ہیں فطریات اور بدیہیات کہ حواس کے ذریعے بھی نہیں معلوم ہوتیں اور یہ وجدانیات کے دائرے میں بھی نہیں ہیں۔ مثلاً جیسے ایک آدمی ایک وقت میں ایک حالت میں ہے یا بیٹھ سکتا ہے یا کھڑا رہ سکتا ہے۔ بیک وقت ایک لمحے میں اس کی دو حالتیں نہیں ہو سکتیں۔ یہ بدیہیات میں ہے
متواترات
متواترات میں اصولیین اور متکلمین بیان کرتے ہیں کہ سمع و عقل اگر جمع ہو جائے تو وہ متواترات بنتے ہیں۔ اگر حس اور عقل جمع ہو جائے تو محسوسات اور معقولات بنتے ہیں۔
تجربیات
کچھ چیزیں تجربہ سے آتی ہیں اور مسلسل تجربات ہوتے ہیں۔ سائنس بھی تجربیات میں سے ہے۔ جب کئی تجربات اس کی تائید کرتے ہیں تو وہ تھیوری بن جاتی ہے۔ پھر طویل عرصے تک تجربات کرتے رہتے ہیں۔ جب کوئی بھی تجربہ اس سے مختلف رزلٹ نہیں دیتا اور تمام تجربات ایک ہی نتیجہ دیتے ہیں، اتفاق ہوتا چلا جاتا ہے تو پھر آگے چل کے وہ law بن جاتا ہے۔ اس کے اوپر تیقن اور یقین آ جاتا ہے۔ کثرت کے ساتھ جس کا مشاہدہ بار بار ہو، تکرار مشاہدہ ہو اور نتیجہ ایک نکلے، جتنے مشاہدات ہوں نتیجہ ایک نکلے تو ان مشاہدات سے علمِ یقینی مل جاتا ہے اور عقل کو جزم اور اس پر اطمینان نصیب ہوتا ہے۔
حدثیات
عقل ایک تصور قائم کر لے مگر اس میں جزم نہ ہو۔ categorical یقینی کیفیت نہ ہو، تصور قائم ہو جائے، بار بار تجربات اور مشاہدات سے اس کو حدثیات میں شمار کرتے ہیں اور اگر عقل یقین اور جزم تک پہنچ جائے تو اس کو تجربیات کہتے ہیں۔ اتنا تھوڑا سا فرق ہے۔
جہاں تک حواس کی رسائی ہے، بس وہاں تک عقل کی شناسائی ہے
شیخ الاسلام نے اس لیکچر میں حواس خمسہ کی رسائی کا دائرہ کار اور عقل کی شناسائی کا دائرہ کار بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے کہ کس طرح حواس خمسہ اور عقل مل کر علم تک پہنچاتے ہیں۔عرفِ عام میں حواس خمسہ ظاہری یعنی سامعہ، باصرہ، شامہ، ذائقہ اور لامسہ ان کے ذریعے جو ادراک حاصل ہوتا ہے وہ اور پھر دماغ کے اندر عقل کے پانچ حواس یعنی حسِّ مشترک، حسِّ خیال، حسِّ واہمہ، حسِّ حافظہ اور حسِّ متصرفہ میں جو ترتیب پاتا ہے۔ان پانچ شعبہ جات کی way of working پر، ان کی حقیقت اور ماہیت پراور حواس خمسہ ظاہری اور حواس خمسہ باطنی جو عقل کے یہ پانچ شعبہ جات آپس میں جس طرح کام کرتے ہیں اس کے باہمی کام کرنے کے طریقے، باہمی ربط اور نظم پر گفتگو کی۔ اور بہت خوبصورت انداز میں یہ واضح کیا کہ جب ہم حواس میں ذرائع علم کی بات کرتے ہیں توحواس نہ خود علم ہیں نہ خود علم بناتے ہیں، نہ ازخود علم تک پہنچاتے ہیں۔ یہ ایک ذریعہ اور وسیلہ ہیں۔ پھریہ وسیلہ ایک اور وسیلے تک پہنچاتا ہے۔وہ دوسرا وسیلہ عقل ہے ۔حواس اور عقل مل کر علم تک پہنچاتے ہیں۔ اور جب تک حواس ظاہری صورت اور باطنی معانی عقل کونہ پہنچائیں،عقل کا process شروع ہی نہیں ہوتا ۔ وہ کارخانہ بند پڑا رہتاہے۔ نہ ہم تنہا حواس پر بھروسہ کر سکتے ہیں، چونکہ وہ کسی نتیجے پر پہنچانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ نہ تنہا عقل پر بھروسہ کر سکتے ہیں کہ عقل کا اپنا بھروسہ حواس پر ہے۔علم کے باب میں پہلے وسیلے کانام حواس خمسہ ہیں اُس سے جو تاثر پیدا ہوتاہے اس کا نام ادراک ہے۔ اس کو حواس خمسہ آگے ایک نئے کارخانے میں منتقل کر دیتے ہیں جہاں حواس کا کام ختم ہو جاتا ہے۔ اس نئے کارخانے کا نام عقل ہے تو عقل بھی علم کو تشکیل دینے میںواسطہ اور وسیلہ ہے۔ اس لیے جب حواس خمسہ ظاہری کی بات ہوتی ہے تویہ تنہا علم تک نہیں پہنچاتے، حواس کے ساتھ پھر عقل کا ذکر ضروری ہوتا ہے۔ عقل کے کارخانے کے بھی پانچ شعبے ہیں۔ جسم کے ان حواس کی طرح۔ جیسے حواس خمسہ ظاہری ہیں اسی طرح عقل کے پانچ شعبے ہیں۔جو درج ذیل ہیں:
- حسّ مشترک
- حسّ خیال
- حسّ واہمہ
- حسّ حافظہ
- حسّ متصرّفہ/ متخیّلہ/ مفکّرہ
عقل کے حواس خمسہ درج ذیل امور سر انجام دیتے ہیں:
- حسّ مشترک ہر چیز کی ظاہری صورت receive کرتا ہے۔
- حسّ خیال ہر چیزکی ظاہری صورت کو محفوظ کرتا ہے۔
- حسّ واہمہ ہر صورت کا معنیٰ receive کرتا ہے۔
- حسّ حافظہ ہر صورت کا معنیٰ محفوظ کرتا ہے۔
- حسّ متصرّفہ ،حسّ خیال اور حسّ حافظہ دونوں سے صورت اور معنیٰ کو نکال کر storage سے ان کو جوڑتی ہے اور جوڑ کر علم کو تشکیل دیتی ہے۔
لہٰذا عقل کا سارا انحصار حواس خمسہ پر ہو گا۔حواس خمسہ اور عقل دونوں اکٹھے مل کے operate کرتے ہیں۔ دونوں کی operation combine ہے کہ تنہا حواس بھی علم نہیں دے سکتے، وہ ادراک مہیا کرتے ہیں اور تنہا عقل بھی علم کو مرتب نہیں کر سکتی وہ حواس سے موادreceive کرتی ہے اور اسے مرتب کرتی ہے تو حواس خمسہ اور عقل کا joint venture ہے۔ لہٰذا عقل سے وہی کچھ معلوم ہو گا جو بنیادی طور پہ عالمِ مادیات اور عالمِ حسیات سے related ہے۔
حصولِ علم کے باطنی ذرائع
شیخ الاسلام نے اس نشست میں صحیح بخاری و صحیح مسلم کی متفق علیہ احادیث سے استدلال کرتے ہوئے نہایت مدلل انداز میں حصول علم کے باطنی ذرائع کو بیان فرمایا ہے اور یہ ثابت کیا کہ حواسِ خمسہ اور عقل (دماغ) کے جو حواسِ باطنی ہیں جو اکتسابِ علم اور تشکیلِ علم کے ذرائع ہیں اِن سے ماوراء اللہ تعالیٰ نے کچھ روحانی ذرائع، وسائل اور وسائط بھی، انسان کے باطن میں ودیعت کیے ہیں۔ اُن کو کشف اور الہام اور دیگرامور سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جس کے ذریعے انسان کو انکشافات، الہامات، وہ معلومات اورمعارف نصیب ہوتے ہیں جو ظاہری حواس خمسہ اور باطنی یعنی عقلی حواس خمسہ سے بالعموم اُسے حاصل نہیں ہو سکتے۔ ان کے علاوہ اللہ تعالی نے کچھ جواہر اور بنائے ہیں۔ جن سے علم کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ وہ جواہر درج ذیل ہیں:
- نفس
- قلب
- روح
- سِر
- خفی
- اخفاء
(جاری ہے)