منہاج القرآن ویمن لیگ کی تقریب حلف وفاداری سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خصوصی خطاب
ترتیب و تدوین: صاحبزادہ محمد حسین آزاد
معاونت: نازیہ عبدالستار
اللہ رب العزت کا شکر ہے جس کی توفیق سے ہم اس کے دین اور اس کے محبوب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت اور انسانیت کی حقیر سی خدمت کرنے کے قابل ہوئے۔ دو چار چیزیں آج کی اس تقریب حلف وفاداری سے قبل چاہتا ہوں کہ آپ کو سمجھادوں۔ آپ انہیں اپنے ذہن نشین کرلیں، دلوںمیں اتار لیں اور اپنے فکر، فہم، عمل اور اپنی جدوجہد کے لئے اس سے روشنی حاصل کریں۔ ہماری تحریک اور ہمارا مشن اور ہماری جدوجہد احیاء دین، تجدید دین اور غلبہ حق کے لئے ہے۔ اس تحریک کا عنوان منہاج القرآن رکھا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے قرآن کا راستہ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث کرنے کے مقصد کا ذکر کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے فرمایا:
هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدٰی وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَی الدِّيْنِ کُلِّهِ لا وَلَوْ کَرِهَ الْمُشْرِکُوْنَo
(التوبة: 33)
’’وہی (اللہ) ہے جس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر دین (والے) پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین کو برا لگے‘‘۔
تمام ادیان پر غالب کرنے کے کئی معانی ہیں مگر بنیادی یہ ہے کہ وہ اس دین کو مغلوبیت کے حال سے نکال دے اور اس کو طاقت دے کر۔ مضبوط اور مستحکم کردے اور ہماری زندگیوں اور معاشرے میں اسے غالب کردے۔
اس مشن کی ابتداء میں جب میں نے منہاج القرآن قائم کیا تو اس کا آغاز دعوت سے کیا۔ تنظیمات بنائیں تو ان کے ذمے دعوت کا کام لگایا اور دعوت کو آگے بڑھانے کے لئے وابستگی کی شکل رکھی پھر پہلی Stage پر اس میں جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے نام سے تعلیم کے کام کا آغاز کیا۔ ایک اکیڈمی بنائی پھر وہ ادارہ بنا پھر جامعہ بنا پھر یونیورسٹی بنی پھر تعلیمی ادارے بنتے چلے گئے تو گویا دعوت اور تنظیم کے کام کے ساتھ تعلیم کے کام کا آغاز کیا۔ پھر خدمت انسانیت اور ویلفیئر کے کام کا آغاز کیا۔ پھر لوگوں کے اندر شعور کی بیداری، باطل اور کرپٹ نظام کو تبدیل کرنے، حق کو باطل پر غالب کرنے اور اس کو ایک جدوجہد کی شکل دینے کے لئے سیاسی کام کا آغاز کیا۔ یوں ہماری بہت ساری جہتوں کے کام کا آغاز ہوگیا لیکن آپ اس بات کو کبھی نہ بھولیں کہ ان میں سے کسی ایک چیز کو اگر آپ مرکوز کرلیں گے کہ اس کام کا آخری اور حتمی نتیجہ اتنے عرصے میں ہوگا تو پھر غلبہ حق، تجدید دین اور احیاء اسلام کا کام مکمل ہوگا ورنہ نہیں۔ میں ایمانداری سے یہ بات سمجھتا ہوں جو آپ کو کہہ رہا ہوں اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں اور آپ بھی اللہ کا شکر ادا کریں اور اس بات میں میرے دل اور ذہن میں کسی سطح پر کسی درجے میں بھی ابہام یا کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور وہ یہ کہ ارتقاء کا عمل جاری رہتا ہے۔ جیسے حضورعلیہ الصلوۃ والسلام نے 23 برس جدوجہد فرمائی تو حیات مبارکہ کے آخری سال میں جاکر آیت کریمہ اتری:
’’اليوم اکملت لکم دينکم‘‘
(آج کے دن ہم نے آپ کے لئے آپ کا دین مکمل کردیا)
اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اس سے ایک یا دو سال پہلے تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کام ناقص تھا اور اس آیت کے اترنے کے بعد کامل ہوا۔ نہیں بلکہ کام جب اپنی سمت میں جارہا ہو اور نتائج پیدا کرتا ہوا جارہاہو اور اس کام کی کئی جہتیں ہوں تو اس میں Ups and Downs آرہے ہوتے ہیں مگر مجموعی طور پر آپ کو اپنے اہداف کا تعین کرنا ہوتا ہے۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام اپنے کام کو جب لے کر چلے تو آپ کامل کام فرما رہے تھے اور کامل نتائج آرہے تھے اور ہر وقت کامل منزل کی ہی طرف بڑھ رہے تھے لیکن جو کام آپ کو سپرد کیا گا وہ قرآن مجید کا نزول تھا۔ اس کے لئے یہ اعلان کردیا گیا کہ ’’آج کے دن آپ کے لئے آپ کا دین مکمل کردیا اور یہ نعمت تمام کردی‘‘۔ کیونکہ اس کا ایک وقت مقرر تھا جو آقا علیہ السلام کی حیات مبارکہ کے آخری سال میں ہوا۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ تجدید دین اور احیاء اسلام کے ہمارے اس کام کا سوئے کمال تو سفر جاری رہے گا کیونکہ کمال کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ تکمیل ایک ایسا Process ہے کہ اس کا End نہیں ہے چونکہ تکمیل میں حسن ہے۔ کسی بھی چیز کے کمال میں ایک Extreme beauty ہے اور Beauty کی limit کوئی نہیں۔ آپ کوئی خوبصورت ترین شے بنالیں جیسے مکان، لباس، گارڈن، روڈ، سٹریٹ یا دنیا کی کوئی بھی شے ہو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس سے زیادہ خوبصورت نہیں بن سکتی۔ اس جملے کا اطلاق کائنات خلق میں صرف ایک وجود پر ہوتا ہے اور اس وجود کا نام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو کمال اور حسن ملا اس سے آگے کمال اور حسن کا کوئی وجود نہیں ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب عالم مکان میں بھی آخری کنارے پہ پہنچتے ہیں تو End کوئی نہیں اس کے آگے پھر لامکان شروع ہوجاتا ہے۔ حالانکہ سدرۃ المنتہٰی کہہ دیا گیا تھا کہ یہ منتہٰی ہے یعنی End ہے مگر جس کو End کہا وہ بھی مکمل انتہاء نہیں تھی۔ پھر اس کے بعد لامکان تھا۔ لہذا تکمیل کے سفر میں بڑی منزلیں اور بڑے مرحلے ہمیشہ ہوتے ہیں جنہیں انسان عبور کرتا چلا جاتا ہے۔ ایک تو معنیٰ یہ تھا جس کے مطابق ہمیشہ تکمیل کا سفر جاری رہتا ہے۔
ایک معنی اس کا دوسرا ہے جس کا اشارہ کررہا ہوں اور اس معنی میں تجدید دین اور احیاء دین کہ جس کے لئے تحریک منہاج القرآن قائم کی گئی تھی اور اللہ رب العزت نے جس نوکری کے لئے مجھے چنا اور احسان کیا وہ تجدید دین ہوچکی ہے مگر اس Sense میں ہوچکی ہے اور ایسی تکمیل ہے جس کے مرحلے تسلسل سے جاری رہیں گے۔ میری زندگی میں بھی رہیں گے۔ میری زندگی کے بعد بھی رہیں گے۔ اب تکمیل کیسے ہوچکی؟ آپ چودہ سو سال کی تاریخ کو پڑھیں جن ہستیوں کو اللہ رب العزت نے دین کی تجدید کا کام سونپا ہے دوسری صدی کے اوائل تک تابعین کا دور ہے۔ جس کو آقا علیہ السلام نے خیرالقرون کہا۔ میں ایک بڑی خاص بات آپ کو سمجھا رہا ہوں۔ ایک Study کروا رہا ہوں اور جو میری بیٹیاں اور بہنیں تھوڑا علم سے، کتابوں سے، تاریخ سے اور مطالعہ سے شغف رکھتی ہیں وہ اس کی سٹڈی کریں کہ جو بات میں نے سمجھائی ہے وہ درست ہے یا نہیں۔
تجدید دین اور احیاء دین کا کام دوسری صدی ہجری سے شروع ہوا۔ مجدد آتا ہے Struggle کرتا ہے، اپنے فرائض ادا کرتا ہے تو کام آگے چلتا ہے جس کا اثر جاکر اگلی صدی تک ہوتا ہے۔ اس طرح چودہ صدیوں کی تاریخ کو اٹھائیں اس میں جتنی کتب لکھی گئیں۔ امام جلال الدین سیوطیؒ نے دس صدیوں کے مجددین کا ذکر کیا ہے اور ان کے نام سے ہر ایک کا ٹائیٹل قائم کیا ہے۔ علاوہ ازیں آپ پورے چودہ سو سال کی تاریخ تجدید دین، دعوت دین اور احیاء دین کا مطالعہ کرلیں ہر دور میں تجدید کا کام ہوا ہے۔ اس دور کے حالات کو پڑھ لیں۔ سو کتابیں ملیں ان کو جمع کرلیں اور جنہوں نے تجدید کی ہے ان کو دیکھیں وہ کیا تبدیلی لائے ہیں؟ ایک پیمانہ ہونا چاہئے کہ انہوں نے کون سا کام کیا ہے جس کی وجہ سے انہیں مجدد کہا گیا اور امت نے ان کو مجدد مانا۔ پھر دیکھیں ان کے کام کے نتائج کیا نکلے؟ ان کے اثرات سوسائٹی پر کیا مرتب ہوئے؟ کیا تبدیلی آئی کیا نہیں آئی؟ یہ میں سب کو دعوت دے رہا ہوں کہ بغیر عقیدت کے اور بغیر مشن سے وابستگی کے غیر جانبدارانہ مطالعہ کرلیں اور یہ دیکھیں کہ وہ امام، مجدد اور بزرگ جب آئے حالات کیا تھے؟ تجدید کی کس کس میدان اور فیلڈ میں Society کو ضرورت تھی۔ خرابیاں کیا تھیں۔ مغلوبیت کس چیز کی تھی، دین کے کس کس گوشے کی مغلوبیت تھی۔ انہوں نے کس چیز کو چیلنج کیا۔ کیا کمی تھی جسے پورا کیا۔ امت کو کیا Produce کرکے دیا۔ اس کا اثر ان کی وفات تک کیا تھا؟
اور پھر آج سے 35 برس پہلے تحریک منہاج القرآن قائم ہوئی۔ 35 برس میں آج تک جو کچھ یہاں سے Produce ہوا اور سوسائٹی اور امت کو ملا۔ اس کام کو Compare کرلیں۔ اگر چودہ سو سال کی کسی ایک صدی کا کام اس کام سے بڑھ جائے جو ہم نے کیا تو تجدید کا انکار کردینا۔
میں نے آپ کو ہمیشہ کہا ہے کہ آپ کی تحریک اس صدی کی تجدید کی تحریک ہے۔ جو نہیں مانتے ان سے پوچھیں پیمانہ کیا ہے؟ اگر آپ کو کسی سے اختلاف ہے آپ ان کو نہیں مانتے اور ان کے کام کا انکار کردیں تو یہ الگ بات ہے مگر حقیقت تک رسائی کے لئے اس کا کوئی پیمانہ تو مقرر کرنا پڑے گا۔ اس لئے میں نے پیمانہ خود مقرر نہیں کیا پورے 13، 14 سو سال کے تجدیدی کاموں کا معیار اور پیمانہ مقرر کرلیا ہے۔
آپ 500 سے زائد مطبوعہ کتب امت کو دے چکے ہیں۔ ٹھیک ہے پرنٹنگ پریس کو شروع ہوئے دو تین سو سال ہوئے ہیں جس میں کتابیں چھپی ہیں۔ مغربی دنیا میں بھی اور یہاں بھی۔ اس سے پہلے چھپنے کا کلچر اتنا نہیں تھا۔ قلمی مخطوطے ہوتے تھے مگر آپ کی اس تھوڑے عرصے کے اندر 500 سے زائد کتابیں چھپ چکی ہیں۔ میرے خیال میں 500 سے زائد کتابیں کسی کی زندگی میں چھپ کے آجائیں ایسا واقعہ تاریخ میں میرے علم میں نہیں آیا۔ آپ نے قرآن کا ترجمہ، فہم کے لئے امت کو دیا ہے۔ ڈیڑھ سے 2 سو کے درمیان صرف احادیث پر کام دیا ہے۔ احادیث پر کئی صدیوں سے لٹریچر کا آنا بند ہوگیا تھا اور پہلے کے کئے ہوئے کاموں پر زیادہ تکیہ تھا۔ پچھلی ایک دو صدیوں میں کچھ کام ہوئے ہیں مگر وہ شروح اور حواشی کے کام ہوئے ہیں۔ ہر Subject کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کی شکل میں جامعیت کے ساتھ لوگوں کے ہاتھ تک پہنچا دینا اتنا بڑا کام کئی صدیوں سے بند تھا جو الحمدللہ تحریک منہاج القرآن کے وسیلے سے اللہ پاک نے امت کو عطا کیا۔ مغربی دنیا اور عالم عرب بھی اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔
پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے ساتھ عشق و محبت اور آقا علیہ السلام کا ادب و احترام کا تصور جو دوسرے خیالات اور افکار و نظریات کے غلبے کے باعث ختم ہوگیا تھا یا دب گیا تھا یا دلیل سے خالی اور نہایت کمزور ہوگیا تھا۔ جن کے پاس تھا وہ صرف روایت کی صورت میں تھا۔ عقیدہ محبت رسول، عقیدہ ادب رسول اور عقیدہ نسبت رسول کے پیچھے دلیل ختم ہوگئی تھی۔ میرے الفاظ کو یاد کرلیں یہ جملہ نہیں بولا کہ محبت رسول نہیں رہی تھی۔ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روایتی طور پر برقرار تھی مگر چھوٹے حلقوں میں سمٹ گئی تھی۔ بہت سارے گھروں اور حلقوں سے نکل گئی تھی اور جو یہ عقیدہ رکھتے تھے وہ دب گئے تھے اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خالی مذہب، دین اور عقیدہ غالب آگیا تھا۔ میں دوسروں کے نام نہیں لینا چاہتا کہ کون کون سی جماعتیں پیدا ہوئیں؟ کون کون سے مفکر پیدا ہوئے؟ دین کا کیا کیا رخ پیش کیا؟ کس طریقے سے دین کی تبلیغ کی؟ کس طریقے سے دین کو پیش کیا؟ کیا کیا کتابیں لکھیں؟
نتیجتاً برصغیر پاک و ہند میں پڑھا لکھا طبقہ ان کی طرف مائل ہوگیا اور جو لوگ عشق و محبت کی بات کرنے والے تھے وہ پسماندہ تصور ہونے لگے۔ وہ پیچھے چلے گئے اور دب گئے۔ ان میں بات کرنے کی جرات نہ رہی اس پورے عقیدے کی پیچھے ہمارے لوگوں کے پاس نہ قرآنی دلیل بچی نہ حدیث کے دلائل تھے۔ یہ سارا خطہ اپنے عقیدے کی دلیل سے خالی ہوگیا۔ پھر اس عرصہ میں میں نے دروس قرآن دیئے۔ خطابات کئے، اجتماعات کئے، حلقات درود قائم کئے پھر TV پر آئے پھر کتب تصنیف ہونا شروع ہوئیں، کتابیں آئیں، لٹریچر آئے، چلتے چلتے پھر اتنی کتب، حدیث کی آئیں اتنے دلائل آئے کہ ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر بن گیا۔ جس کو رد کرنے کی کسی کو جرات نہیں ہوئی۔
آپ کو یاد ہے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے پر فتوے لگتے تھے۔ اب وہی ملک ہے آج ہے کوئی شخص جو میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف آواز بلند کرتا ہو۔ بعض لوگ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کو شرک کہتے تھے۔ اب ان کو دعوت دیں تو وہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان پر منعقد ہونے والے پروگرام میں آجاتے ہیں۔ ہم نے نہج تبدیل کردی، فکر اور سوچ تبدیل کردی اور میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کا سوسائٹی میں دوبارہ کلچر بحال کردیا۔ نعت خوانی کو جاہلوں کا وطیرہ سمجھا جاتا تھا۔ اب ہر طبقہ فکر نعت خوانی کرواتا ہے۔ مجھے آپ بتایئے ہر طبقے میں اس کا رواج پاجانا، آج منہاج القرآن کو نکال کر پاکستان اور برصغیر پاک و ہند سے کوئی Claim کرسکتا ہے کہ ان کی کوشش سے یہ تبدیلی آئی ہے۔ ایمانداری کی بات یہ ہے کہ جو لوگ آپ کی مخالفت کرتے ہیں اور گالیاں دیتے ہیں وہ بھی سٹیج پر آنے سے پہلے آپ کو سن اور پڑھ کر آتے ہیں۔ علم آپ سے لیتے ہیں ان کے گھروں اور کمروں میں کیسٹس اور کتب آپ کی ہیں۔
یعنی موافق و مخالف ہر شخص آپ کی کتاب کا محتاج ہے اور تجدید دین کس کو کہتے ہیں؟ یعنی آپ نے سوچ کی طرز بدل دی ہے۔ فہم بدل دیا ہے، کلچر بدل دیا ہے۔ سائیکی Change کردی ہے اور جو عقیدہ مغلوب تھا اس کو غالب کردیا ہے۔ اب مجال ہے کسی کی کہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف آواز اٹھائے۔ ایک وقت تھا یہاں لاہور کے اندر خطابات ہوتے تھے کانفرنسیں ہوتی تھیں۔ اکٹھے ایک ہی پلیٹ فارم پر Speeches ہوتیںکوئی اور صاحب تھے وہ بھی نامور تھے مبلغ تھے، TV پر آتے تھے اب وہ وفات پاگئے ہیں لوگ انہیں جانتے تھے۔ مجھ سے پہلے Speech میں وہ عشق رسول کو رد کرتے تھے کہ یہ اسلام کی ٹرم ہی نہیں ہے۔ اس کا اسلام کے لٹریچر میں ذکر ہی کوئی نہیں۔ قرآن اور حدیث کسی جگہ عشق کا ذکر نہیں۔ جب میرے خطاب کی باری آتی تو میں اسی وقت ان کے موقف کو رد کرتا اور عربی کتب سے عشق پر مبنی عبارتیں بیان کرتا تو 10 منٹ تک تالیاں بجتی رہتی تھی۔ مقصد بات کا یہ ہے کہ ایسے طبقات بھی تھے مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق اور محبت کے عقیدے کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز دب گئی۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عقیدہ محبت و عشق کا کام تھا۔
پھر گوشہ درود کی صورت میں روئے زمین پر چوبیس گھنٹے آقا علیہ السلام کے دربار عالیہ کے علاوہ کسی جگہ پر ہمہ وقت درود پڑھنے کا نظام جاری کردیا۔ ایک جگہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درود کے نام پر وقف ہوگئی جہاں چوبیس گھنٹے شب و روز درود پڑھا جائے اور پھر دنیا بھر میں لوگ متعلق ہوجائیں کہ ایک جگہ بیٹھ کر اجتماعی طور پر درود پڑھیں اور بھیجیں۔ ایک روحانی کلچر اور ماحول Create کردیا گیا۔ پھر لوگوں نے گھروں میں حلقہ درود کے نام سے محافل شروع کردیں، جگہ جگہ حلقات درود شروع ہوگئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درود پاک کو اتنا پاپولر کرنا اور درود پاک کے ساتھ امت کو متعلق کردینا اور شب و روز میں داخل کردینا یہ تحریک منہاج القرآن کا ایسا کارنامہ ہے جس کا آج کے دن تک کوئی بدل نہیں دے سکتا۔
پھر جب دہشت گردی اور انتہا پسندی کی لہر آئی ہے۔ پوری دنیا کو اس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پوری مسلم ورلڈ سے کسی نے اس کو چیلنج کرنے کی جرات نہیں کی۔ صرف مذمت کی گئی مگر دلیل کی قوت کے ساتھ کوئی اس کے سامنے کھڑا نہیں ہوا۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف پوری مسلم ورلڈ میں تحقیقی جامع فتویٰ صرف منہاج القرآن نے پیش کیا۔
امریکہ، انگلینڈ، یورپ ، عرب ورلڈ میں جب بحث ہوتی ہیں اور وہ جب اسلام کو Defend کرتے ہیں اور Narrative پیش کرتے ہیں تو وہ میری کتاب پکڑ کر لہراتے ہیں اور اس کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ کیسے کہتے ہیں کہ اسلام انتہاء پسند ہے۔ امریکہ کے چرچز میں پادری مسلمانوں اور اسلام کی حمایت میں Speechکرتے ہیں تو میرے فتویٰ کو کوٹ کرتے ہیں۔ ابھی انڈونیشیا کے علماء نے فتویٰ کی 10 ہزار کاپیاں گورنمنٹ کے مدد سے انڈونیشین لینگوئج میں ترجمہ کرکے پورے ملک میں تقسیم کی ہیں اور انہوں نے اس موضوع پر Conference کی تھی جس میں حسین بھائی نے شرکت کی۔ یہی پوزیشن ملائشیا میں تھی جہاں سرکاری سطح پر بھرپور پذیرائی ملی۔ اسی طرح دنیا کے کئی ممالک میں ہوا۔
پھر بیداری شعور کا کام کیا کیونکہ ایک دور وہ تھا کہ جو لوگ دین پر تھے وہ انتہاء پسند ہوگئے تھے۔ عقل سے فارغ تھے۔ گالی گلوچ کرنا، دوسری کو کافر بنادینا، فتویٰ بازی ان کا وطیرہ بن گیا تھا جبکہ دوسرا طبقہ بالکل سیکولر ہوگیا تھا اور ان کے رویے سے متنفر ہوکر دنیا داری اختیار کرلی تھی۔ یعنی اسلام کو Practice کرنے والے بالکل بیک ورڈ ہوگئے تھے اور ماڈرن، سیکولر ہوگئے تھے۔ درمیان میں Space ختم ہوگئی یا بہت تھوڑی رہ گئی تھی۔ جس میں لوگ Moderate ہوں جو اسلام کی اقدار کو بھی رکھیں اور جھجک اور شرم محسوس نہ کریں دوسری طرف ماڈرن بھی رہیں جو سیکولر مزاج کو قابل قبول ہو۔ ان حالات میں آپ نے دین کا ماڈریٹ ویژن اتنی قوت و طاقت کے ساتھ پیش کیا کہ بینظیر بھٹو جیسی خاتون آپ کی لائف ممبر بننے پر مجبور ہوگئی۔ انہوں نے مجھے حلفاً کہا میں آپ کا اسلام کا Moderate vision دیکھ کر اور اس سے متاثر ہوکر منہاج القرآن کی ممبر شپ لے رہی ہوں۔ یہ تو میں نے ایک مثال دے دی، آپ کے سامنے اس سوسائٹی کے ہزاروں اور لاکھوں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایسے ہیں جو آپ سے محبت کرتے ہیں۔ ابھی کراچی کے اندر ایئر پورٹ پر بیٹھے بچے بچیوں کو لڑکے لڑکیوں، مردوں اور عورتوں کو میں نے دیکھا کہ کس طرح لپک کر آرہے تھے اور مل رہے تھے۔ یہ ان کی محبت تھی ورنہ پہلے وہ کسی مذہبی شخصیت کے قریب سے نہیں گزرے تھے اور ان کو دیکھنا گوارا نہیں کرتے تھے۔ مسلمانوں کے ان بچوں کے اندر اتنی بڑی تبدیلی آئی۔ میں نے اپنی شکل نہیں بدلی بلکہ ان کا ذہن بدل دیا ہے۔ اپنا لباس نہیں بدلا وہ میری شکل دیکھتے ہیں میری داڑھی دیکھتے ہیں، وہ میری ٹوپی بھی دیکھتے ہیں، میرا عمامہ میرا سراپا دیکھ کر میرے ساتھ پیار کرتے اور سیلفیاں بناتے ہیں۔
یہ وہ اسلام کا مModerate Vision ہے جس نے ان بچوں کے اندر وہ سویا ہوا اسلام پھر زندہ کردیا ہے پہلے وہ دینی حلقے سے دور بھاگ گئے تھے۔ وہ کسی عالم دین یا دینی آدمی کا نام سننا گوارا نہیں کرتے تھے۔ ان کے اندر جو دین کے ساتھ مری ہوئی وابستگی تھی وہ زندہ ہوگئی ہے۔
(جاری ہے)