جہان بانی سے ہے دشوار تر کار جہاں بینی
جگر خون ہو تو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
مندرجہ بالا شعر میں حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کیا خوب بیان فرمایا ہے کہ جاں بنانے سے بھی زیادہ مشکل کار جہاں بینی ہے اور یہ کام درد مندی اور سوز جگر کے بغیر ممکن نہیں صرف کام کرنا بڑی بات نہیں کام تو سب ہی کچھ نہ کچھ کرتے ہیں مگر کچھ ایسا کام کرجانا کہ جسے صدیوں یاد رکھا جائے جو تاریخ انسانی پر انمٹ نقوش ثبت کردے جو فکرو عمل میں تغیر و انقلاب بپا کردے جہاں عقل دنگ رہ جائے اور ذہن انسانی ورطہ حیرت میں پڑ جائے کہ اتنا عظیم الشان کام اور اس قدر وسیع الاطراف اور ہمہ جہت کارہائے نمایاں کسی ایک انسان کے بس کی بات نہیں۔ ایسے میں اللہ رب العزت کے اس فرمان پر نگاہ پڑتی ہے:
ذلک فضل الله يوتيه من يشآء.
’’یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے‘‘۔
بے شک اللہ کا فضل حکمت کا خزانہ ہے دین کی فہم و فراست ہے جس کے بارے میں رب ذوالجلال والاکرام نے ارشاد فرمایا:
وَمَنْ يُّؤْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَيْرًا کَثِيْرًا ط وَمَا يَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوْا الْاَلْبَابِ.
(البقرة، 2: 269)
’’اور صرف وہی لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں جو صاحبِ عقل و دانش ہیں‘‘۔
تو گویا بھلائی اور خیر کا خزاں ان خوش نصیبوں کے پاس ہے جن کو علم و حکمت کا نور عطا کیا گیا ہو اور جو دانائے راز بن کر آئے ہیں اور انسانوں کو نئی جہتوں اور افکار تازہ سے روشناس کرتے ہیں۔ زندگی کو انقلاب آشنا کرتے ہیں۔ جہد مسلسل اور قوت ایمانی سے سرشار جب یہ مردان حق میدان عمل میں اترتے ہیں تو کار زار حیات میں ایسے ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دیتے ہیں کہ بے اختیار مخلوق خدا عش عش کر اٹھتی ہے۔ ایسے ہی عظیم انسان جو گلشن ہستی میں دیدہ ور بن کر آتے ہیں۔
صدہا در کعبہ وبت خانہ مے نابد حیات
تا ازبک دانائے راز آید بروں
جس کے انتظار میں زندگی صدیوں در کعبہ اور بت خانہ پر آہ و زاری کرتی ہے تو تب ایک دانائے راز پیدا ہوتا ہے۔ یقینا اکیسویں صدی کے عظیم سکالر مفسر قرآن، عظیم المرتبت محدث، مجدد رواں صدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ذات بابرکات ہے ان میں سے ایک ہے۔ قطع نظر اس کے کہ آپ سے کچھ لوگوں کو سیاسی یا مسلکی بنیادوں پر اختلاف ہو مگر ہر کوئی حتی کہ آپ کے بدترین مخالف بھی آپ کے علم اور قابلیت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہے کہ یہ شخص علم کا بحر بیکراں ہے اور بھلا جس کے پاس علم کی دولت ہو، جس کے پاس معرفت کا نور ہو اس سے بڑا انمول خزانہ دنیا و آخرت میں اور کیا ہوگا اور پھر علمی کمال بھی ایسا کہ جس کا تعلق علم لدنی اور معرفت حق سے ہو۔ علم ایک نور ہے اور نور صرف پاک و مطہر لوگوں کو ہی نصیب ہوتا ہے۔ اللہ مجدہ نے آپ کو اپنے حبیب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تصدق سے نور معرفت اور عشق مصطفی کی دولت سے مالا مال فرما رکھا ہے نہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خزانوں میں کوئی کمی ہے اور نہ درمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطائوں میں کمی ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جتنا سرکار عطا فرمارہے ہیں وہ اتنا ہی تقسیم فرمارہے ہیں۔
کیسے معلوم تھا کہ ایک سائیکل سے سفر شروع کرنے والا محمد طاہر ایک دن شرق تا غرب، عالم عرب ہو یا عجم پاکستان ہو یا ہندوستان ہر طرف پھیلی انٹرنیشنل تحریک منہاج القرآن کے بانی و سرپرست بن کر امت مسلمہ کے عظیم رہبر و رہنما اور مجدد دین بن کر ابھریں گے۔ یقینا علامہ اقبال نے آپ کے لئے ہی یہ فرمایا تھا کہ
اٹھ کے اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
عالم عرب و عجم، عالم مشرق و مغرب کا بنظر عمیق جائزہ لیں تو کوئی شخصیت ایسی نہیں جس کو بیک وقت عالم مغرب اور عالم مشرق میں یکساںمقبولیت اور پذیرائی حاصل ہو یقینا وہ مرد قلندر اور مرد آہن آپ ہی ہیں۔
علامہ اقبال کی شاعری کا بیش تر حصہ جس مرد مومن کی صفات اور خوبیوں کا تصور دیتا ہے وہ بلا مبالغہ آپ کی شخصیت کا ہی خاصہ ہیں۔ میں جب بھی فکر اقبال اور اقبال کی شاعری کا مطالعہ کرتی ہوں مجھے اس کی اجمالی اور عملی صورت کا پیکر آج کے دور میں صرف اور صرف شیخ الاسلام کی ذات ہی دکھائی دیتی ہے۔ مثال کے طور پر علامہ اقبال کا مرد مومن صاحب عشق ہے وہ اپنے مرد مومن کو سراپا عشق متعارف کروانے میں علامہ اقبال کار زار حیات میں قوت عشق کی معرکہ آرائیوں کے قائل ہیں اور عشق کا جذبہ دور حاضر میں جس ہستی کی پہچان ہے جس کی دعوت کا منبع و مصدر جن کے ہر خطاب کا لب لباب جس کی ہر تحریر کا مقصد و غایت اور جس کی زندگی کا ہر پہلو، ہر گوشہ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مظہر ہے جو سرتا پا فنا فی الرسول ہے وہ یقینا کوئی دوسرا نہیں شیخ الاسلام کی ذات ہی ہے۔ جنہوں نے قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردیا اور دھر میں اسم محمد سے اجالا کردیا بے شک آپ نے امت مسلمہ کے نیم مردہ جسم میں عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چنگاری بھڑکا کر اسے پستی سے بلندی کے سفر پر از سر نو گامزن کیا۔
آج کے اس دور پر زوال میں جب ہر طرف سے عالمی طاغوتی صیہونی طاقتوں نے امت مسلمہ کو فرقہ واریت اور مسلکی بنیادوں پر آپس میں دست و گریبان کر رکھا تھا جب امت مسلمہ کے جسم سے روح عشق محمدی نکالنے کے ناپاک عزائم ہورہے تھے اور شرک اور بدعت کے نام پر امت کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ محبت و عشق سے محروم کرنے کی ناپاک سرگرمیاں عروج پر تھیں تو ایسے میں وہ تھا جس نے قرآن و حدیث کے دلائل سے ان تمام برے عزائم اور باطل قوتوں کی سازشوں کو خاک میں ملادیا اور دین اسلام کی تعلیمات کو اس انداز سے پیش کیا۔ اسلام ایک دین امن ہے، دین اعتدال و توازن ہے۔ اس میں انتہا پسندی کی بالکل اجازت نہیں ہے یہ نہ رہبانیت اور ترک دنیا کا اسلام ہے اور نہ مادیت پرستی اور دنیا پرستی کا نام اسلام ہے۔ آپ نے شریعت و طریقت کے مابین توازن اور اعتدال کا راستہ اپنانے کو ہی دین قرار دیا۔
آج تک کوئی مائی کا لال، کوئی بڑے سے بڑا عالم اور سکالر آپ کے علمی دلائل کا رد نہیں پیش کرسکا کیونکہ آپ راہ راست نبوت و رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیضان کے پروردہ ہیں جسے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اپنے ہاتھوں سے اپنے مہ خانہ عشق و مستی اور علم و معرفت میں سے نہ صرف جام پلا رکھا ہو بلکہ آگے بھی دوسروں کو تقسیم کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ جنہوں نے اس معرفت و عشق کے جام میں سے کچھ حاصل کرلیا۔ فیضان نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ وارث مجددیت کا فریضہ کچھ اس شان سے سرانجام دے رہا ہے کہ جس کی نظیر تاریخ اسلام میں بھی شاذو نادر ہی میسر آتی ہے۔
آپ تمام مجددین کی خدمات اور کارناموں کا بغور مطالعہ کریں تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ کسی کی خدمات کا دائرہ کار صرف دعوت و تبلیغ، وعظ و نصیحت تک محدود تھا تو کسی نے تصنیف و تحریر اور تحقیق و ریسرچ میں ساری زندگی گزار دی تو کسی نے احوال باطن کو سنوارنے کے لئے سلوک و تصوف کی منازل طے کرنے اور کرانے میں اپنے آپ کو وقف کردیا تو کسی نے شریعت محمدیہ کی تعلیمات کے نفاذ اور فروغ کے لئے جہاد کرتے ہوئے گرانقدر خدمات سرانجام دیں مگر یہ کمال صرف اور صرف قائد محترم مدظلہ کے حصے ہی آتا ہے کہ جنہوں نے عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق دین کی از سر نو تجدید کی اور شریعت و طریقت کے مابین تفرق و تفاوت ختم کرکے اعتدال و توازن کا راستہ ہموار کیا۔ عقائد اور دین اسلام کی ترویج و اشاعت کے باب میں آپ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
آآپ نے عقائد کی درست اور صحیح تعلیمات کو اس قدر وسیع و عریض بنیادوں پر استوار کیا ہے اور اپنے ہزاروں خطابات اور سینکڑوں کتب کی صورت میں اتنا جامع محفوظ ذخیرہ فراہم کردیا ہے کہ وہ ہماری آئندہ نسلوں کے لئے ہزار سال تک کے لئے کافی ہے۔ دوسری طرف آپ نے صرف علمی سرمایہ ہی فراہم نہیں کیا بلکہ ایسے افراد معاشرہ بھی تیار کررکھے ہیں جو ماڈرن ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سے اس قدر سرشار ہیں کہ ایک اشارے پر اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
خودی میں ڈوبنے والوں کی عزم و ہمت نے
اس آبجو سے کئے بحر بیکراں پیدا
وہی زمانے کی گردش پہ غالب آتا ہے
جو ہر نفس سے کرے عمر جاوداں پیدا
بلاشبہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خطابات اور ایمان افروز تقاریر و تصانیف نے افکار تازہ کا کام کیا ہے اور بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ
جہان تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود
سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنے زمانے کے جدید علوم میں کامل دسترس پیدا کرکے اپنے پیروکاروں کے لئے ایسا وسیع میدان فراہم کیا ہے جس کے اندر پنپنے، پھیلنے، پھولنے کا مناسب ماحول میسر ہوا ہے آپ کی تحقیق و تخلیق کا دائرہ نہایت وسیع اورکثیر الجہت ہے۔ علوم و فنون کے تمام موضوعات پر لکھا اور بیان کیا ہے۔ آپ کی خطابت زمانے کی ادا ٹھہری ہے۔ آپ وہ ہیں جو زمانے پیچھے نہیں چلتے بلکہ زمانہ ان کا طواف کرتا ہے۔
جو عالم ایجاد میں ہے صاحب ایجاد
ہر دور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ
آپ کے کچھ فیصلے انتہائی حیران کن اور انقلابی ہونے میں وقتی طور پر بعض اوقات سمجھ میں نہیں آتے تاہم وقت ثابت کردیتا ہے کہ آپ جو لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں حالات کے تقاضوں کے مطابق درست ثابت ہوتا ہے۔ گذشتہ تین چار سالوں سے تحریک کے سیاسی پلیٹ فارم سے جو سرگرمیاں دھرنوں کی صورت میں منظر عام پر رونما ہوئیں ان کی وجہ سے مخالفتوں اور رکاوٹوں میں مزید اضافہ ہوگیا ظاہر ہے حق کی دعوت جب اپنے تحریکی و انقلابی مرحلے میں داخل ہوتی ہے تو مشکلات اور رکاوٹیں بڑھ جایا کرتی ہیں لیکن یہ مرد آہن تندی باد مخالف کی پرواہ کئے بغیر اپنے مشن اور دین حق کی سرفرازی کو جاری و ساری رکھے ہوئے آگے ہی آگے بڑھتا جارہا ہے۔ مایوسی اور ناامیدی ذرہ بھر بھی آپ کے فکرو عمل میں نظر نہیں آتی۔ زمانے کی مخالفتوں کی پرواہ کئے بغیر اپنے آپ کو دین اسلام کے فروغ کے لئے وقف فی سبیل اللہ کئے ہوئے یہ کردار صرف آپ کی شایان شان ہی ہے۔
علامہ اقبال نے ایسے مرد قلندر کے لئے کیا خوب کہا ہے:
مہر و مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر
ایام کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر
شیخ الاسلام کی جدوجہد ایک ایسے سنگ میل کا نام نہیں کہ جہاں سفر اختتام پذیر ہوتا ہے اور آگے کے لئے کوئی راستہ نہیں کھلتا بلکہ ایک ایسی کھڑکی کا نام ہے جو نگاہوں کے سامنے آفاق و مناظر کا ایک نیا سلسلہ کھول دیتی ہے اور نئی منزلوں کی طرف رواں دواں رہتی ہے۔
حالات کے قدموں میں قلندر نہیں گرتا
گرتے ہیں دریا سمندر میں کبھی سمندر نہیں گرتا
آپ عزم و ہمت کا وہ عظیم پہاڑ ہیں جس کی بلندی کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔ علامہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جدوجہد ہی میں زندگی کا راز مضمر سمجھتے ہیں۔ آپ کی انقلابی و دعوتی جدوجہد زندگی کے کسی ایک محاذ پر مرکوز نہیں بلکہ تمام جہتوں کو انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی اور قومی سے لے کر بین الاقوامی سطح تک کے تمام پہلوئوں کو بیک وقت انقلاب آشنا کرنا آپ کی زندگی کا مقصد ہے۔
اب یہ مقصد سیاسی جدوجہد سے حاصل ہو یا مذہبی و دعوتی سرگرمیوں کے ذریعے آپ کوئی پہلو تشنہ نہیں رہنے دیتے اور نہ ہی کوئی موقع ضائع کرتے ہیں اور بے کار اور سعی لاحاصل کام کے لئے اپنا قیمتی وقت برباد نہیں کرتے۔ بعض لوگوں کو آپ کی سیاست پر بہت اعتراضات و تحفظات ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ مستقل طور پر پاکستان میں شفٹ ہوکر تسلسل کے ساتھ سیاسی و انقلابی جدوجہد کیوں نہیں جاری رکھتے یہ بات بھی اپنی جگہ وزن رکھتی ہے کہ موجودہ صورت حال میں سیاسی میدان بھی کسی سطح پر اب خالی نہیں چھوڑنا چاہئے مگر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا المیہ یہ ہے کہ وہ فقط ایک پروفیشنل سیاستدان نہیں ہیں ان کے کندھوں پر امت مسلمہ کی اصلاح احوال اور تجدید دین اسلام کی بھاری ذمہ داری عائد ہے انہوں نے 70 دن سے زائد کے دھرنے کے دوران جس طرح عزم و ہمت کا پیکر بن کر اپنا تن من دھن سب کچھ دائو پر لگا کر عوام کو فکر انقلاب سے روشناس کروایا جو کہا سچ ثابت ہوا سب نے تائید کردی کہ قادری ٹھیک کہتا تھا مگر کیا اس قوم نے اس مرد آہن کی دعوت پر لبیک کہہ کر کماحقہ ساتھ دیا گھروں میں بیٹھ کر فقط ٹی وی کے سامنے دعائیں کرنے سے انقلاب نہیں آجاتے اور نہ ہی انقلاب کوئی کرشماتی اور کراماتی کھیل ہے یہ اس وقت تک بپا نہیں ہوسکتا جب تک پوری قوم من حیث المجموع اس کے لئے عملی جدوجہد میںحصہ لے کر اپنا کردار ادا نہ کرے۔
قرآن مجید نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے واقعات تفصیل سے بیان کئے ہیں اور بتایا کہ کس طرح قوم چالیس سال تک صحرائوں میں بھٹکتی رہی اور انقلاب کی منزل سے دور ہوگئی۔ قوموں کی زندگی میں ایسے مرحلے آتے ہیں جب قدرت انہیں اپنے حالات سنوارنے کا موقع فراہم کرتی ہے مگر یہ بھی قرآن کا آفاقی اعلان ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی کسی قوم کے حالات نہیں بدلتا جب تک وہ خود اس کو نہ بدلے۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
الغرض مصطفوی انقلاب جو ہماری منزل ہے وہ شیخ الاسلام کی کاوشوں اور محنتوں کی بدولت ہم سب کی مشترکہ جدوجہد کی بدولت ہی آئے گا۔ یہ عظیم انقلاب جس کی بنیاد قرآن مجید اور سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کو آپ نے اپنی تمام تر شبانہ روز محنت و ریاضت سے نہ صرف مضبوط بنیادیں فراہم کردی ہیں بلکہ آپ کی ذات انقلاب کے لئے ایسا سنگ میل ثابت ہورہی ہے جس کی مثال تاریخ دینے سے قاصر ہے۔
یہ مرد آہن مستقل مزاجی اور استقامت کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے اور نئے عزائم اور منصوبہ بندی کے ساتھ آگے ہی آگے بڑھتا جارہا ہے۔ ان کی مصروفیات میں کبھی ذرہ بھر فرق نہیں آتا کام سے نہ تھکنے والا، نہ مخالفتوں سے گھبرانے والا، نہ باطل کے سامنے جھکنے والا نہ بکنے والا یہ عظیم قائد اپنے افکار تازہ سے نیا جہاں بنانے والا، جس کا بازو توحید کی قوت سے قوی ہے۔ اسلام جس کا دیس ہے جو کردار و گفتار میں مصطفوی ہے۔
اس کا انداز نظر اپنے زمانے سے جدا
اس کے احوال سے محرم نہیں پیران طریق
بسا اوقات یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید سیاسی سطح کی جدوجہد میں وقتی ناکامی سے شاید قائد تحریک یا منہاج القرآن کی اہمیت پس منظر ہوگئی ہے لیکن جس طرح سورج ایک طرف سے غروب ہوتا ہے مگر کسی دوسری سرزمین پر پوری آب و تاب سے طلوع ہورہا ہوتا ہے اسی طرح مرد مومن کی شان ہوتی ہے۔ بقول شاعر
جہاں میں اہل ایمان صورت خورشید جیتے ہیں ادھر ڈوبے ادھر نکلے، ادھر ڈوبے ادھر نکلے
آپ کی شخصیت کا نمایاں پہلو استقامت ہے یہ مرد حق جس بھی کام کا آغاز کرتا ہے اللہ رب العزت کے فضل و کرم سے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تصدق سے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیتا ہے۔ ناممکن کام کو ممکن بنادیتے ہیں تحریک منہاج القرآن کے بڑے بڑے کروڑوں کی لاگت کے پروجیکٹ کس طرح پایہ تکمیل کو پہنچے کہ دیکھنے والے حیران ششدر رہ گئے۔
مثلاً منہاج القرآن یونیورسٹی کمپلیکس، گوشہ درود، آغوش کمپلیکس اور بیت الزہراء جیسے عظیم الشان منصوبے نہایت قلیل عرصے میں پایہ تکمیل کو پہنچے اور آج تحریک منہاج القرآن کے شرق تا غرب کروڑوں کے نہیں اربوں کے پروجیکٹ مذہبی اور سماجی فلاح و بہبود کے لئے کام کررہے ہیں۔ آپ جس کام میں ہاتھ ڈالتے ہیں کامیابی آپ کے قدم چومتی ہے۔ عروج و استقلال اور استقامت کا یہ عظیم شاہکار کبھی پس ہمت ہونا تو دور کی بات ہے مایوسی اور ناامیدی کی گرد بھی آپ کو چھو نہیں سکتی۔ لوگوں کی طعن و تشنیع، الزامات کی بھرمار، طرح طرح کی رکاوٹیں، آپ کے پایہ استقلال میں لغزش نہ لاسکی اور آپ نے اپنی منزل کے حصول کے لئے راہیں ضرور بدلیں، اپنی حکمت عملی میں وقت کے تقاضوں کے مطابق تبدیلی لائے مگر نہ ہی اپنی منزل کو بھولے نہ نشان منزل کو۔
یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں
کاش میری قوم کو ہدایت کی وہ روشنی نصیب ہوجائے وہ شعور و آگاہی کی منزل کو پالے حق و باطل کی تمیز پیدا ہو اور اس عظیم مرد آہن کی عظیم قیادت میں انقلابی جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرے۔ علامہ اقبال نے بھی یہی مرض کا علاج بتایا ہے کہ کسی کی فیضان نظر کے بغیر تربیت نہیں ہوتی اس لئے کسی مرد حق کی صحبت و سنگت اختیار کرنا ضروری ہے۔
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
تیرا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
اب میں علامہ اقبال کے یہ اشعار آپ کی نظر کرتی ہوں جو غالباً آپ کے لئے ہی لکھے گئے ہیں:
تجھ پہ ہو آشکار بندہ مومن کا راز
اس کے دنوں کی تپش اس کی شبوں کا گداز
اس کا مقام بلند اس کا خیال عظیم
اس کا سرور، اس کا شوق اس کا نیاز اس کا ناز
خاکی و نوری نہاد، بندہ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز
اس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادائے دلفریب اس کی نگاہ دلنواز