اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو ماں کی آغوش سے لے کر لحد تک نہ صرف انسان کو راہنمائی فراہم کرتا ہے بلکہ ایک آسان دستورِ تربیت بھی عطا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں بچوں کی تربیت کا منہج دوسرے مذاہب سے بالکل جداگانہ ہے۔ سائنس اس وقت اپنی ترقی کی معراج پر ہے، اس کے سابقہ ادوار کے نظریات آج (outdated) ہو چکے ہیں، لیکن تعلیماتِ اسلام آج بھی نہ صرف قابلِ عمل ہیں بلکہ قیامت تک زندگی کے پر سکون سفر کے لیے ناگزیر رہیں گے۔
بچے والدین کے لیے قدرت کا انمول عطیہ ہیں۔ اس لیے بچوں کی تربیت اور سیرت سازی میں جو بنیادی کردار والدین کا ہوتا ہے وہ کسی اور کا نہیں۔ اگرچہ بچے کی سیرت و کردار کے بنانے اور بگاڑنے میں والدین کے علاوہ دیگر عوامل جیسے تعلیم، ماحول، عزیز و اقارب اور خود نظام حکومت کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔ تا ہم بچے کی تربیت میں بنیادی اور مرکزی کردار والدین کا ہی ہے جس کے بارے میں امام غزالی فرماتے ہیں :
’بچہ والدین کے پاس امانت ہے۔‘
لہٰذا والدین اپنی اس امانت میں خیانت نہ کریں بلکہ اس کا حق ادا کریں۔ جو والدین اولاد کی صحیح نہج پر تربیت نہیں کرتے تو وہی اولاد ان کے لیے رحمت کی بجائے زحمت بن جاتی ہے۔ شاہراہ حیات پر پھولوں کی بجائے کانٹے بکھیردیتی ہے اور زندگی کو اجیرن بنا دیتی ہے۔
بد قسمتی سے دورِ حاضر میں چند گھرانوں کو چھوڑ کر ہر گھر کا یہی مسئلہ ہے کہ اولاد بے کہی ہو گئی ہے، بیٹے ہوں یا بیٹیاں، والدین کے حقوق سے غافل ہیں۔ والدین کے ادب و احترام اور فرمانبرداری کا جذبہ ان کے دلوں سے بالکل ہی نکل چکا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک، ان کی خدمت و فرمانبرداری، ان کا ادب و احترام اور ان کے جذبات کا پاس و لحاظ، سب گویا بے معنی الفاظ ہیں۔ جس مجلس میں بیٹھیں، والدین اسی فکر میں گھرے اور یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ایک ہمارا زمانہ تھا بھلا کیا مجال کہ اولاد والدین کے سامنے اونچی آواز میں بات بھی کر سکے اور پھر ماحول کی خرابی، غلط اور گمراہ کن افکار و نظریات کی اشاعت، فحش لٹریچر اور آزاد روی کی طویل داستان شروع ہو جاتی ہے اور والدین اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھتے ہوئے یہ اطمینان محسوس کرتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے، اب ہمارے بس کی بات نہیں۔
بے شک والدین کے اختیار میں سب کچھ نہیں ہے لیکن والدین کے اختیار میں یہ توضرور ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات اور دینِ اسلام کی روشنی میں اپنے قول و فعل کا جائزہ لیں کہ اولاد کی تعلیم و تربیت اور پرورش کے انداز سے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو ذمہ داریاں ان پر عائد کی ہیں، کہیں یہ سب اُن میں کوتاہی کا نتیجہ تو نہیں ہے؟
وہ اولاد والدین کے حقوق کا احساس کیسے کر سکتی ہے، جس کو انہوں نے حقوق کا احساس دلایا ہی نہیں۔ وہ اولاد والدین کی خدمت و احترام کی بات کیسے سوچ سکتی ہے جس کو کبھی بتایا ہی نہیں گیا کہ والدین کی خدمت اور ان کا ادب و احترام اولاد کا فرض ہے۔ غلط ماحول میں پروان چڑھنے والی نسلِ نو سے وفاداری اور اطاعت شعاری کی آس باندھنا ایسے ہی ہے جیسے صحرائوں میں گلستان دیکھنے کی تمنا رکھنا!
یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ کتنے ہی والدین ایسے ہیں جو اولاد کی بہترین تعلیم و تربیت کے متمنی تو ہیں لیکن اس نازک کام کے طریقوں سے ناواقف ہیں، اس کام کے لیے درکار مستقل مزاجی اور تسلسل سے عاری ہیں، حالانکہ اِس کے لیے عمر بھر کی ریاضت اور خونِ جگر درکار ہے۔
دورِ حاضر میں جب کہ اولاد کا بگاڑ اپنی آخری حدوں کو چھو رہا ہے، نافرمانی کا عفریت بچوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے، اِس کا سبب بننے والا پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا دن رات اس میں اضافہ کا موجب بن رہا ہے، لیکن دوسری طرف نسلِ نو کی اصلاح اور تربیت کا بیڑہ اُٹھانے والے اِلاّ ماشاء اﷲ معدودے چند افراد اور ادارے ہی ہیں کہ اُن کی حیثیت بھی مخرب الاخلاق آلائشوں کی یلغار میں آٹے میں نمک کے برابر ہی ہے۔ اس صورت حال میں جو والدین اولاد کی تربیت کا احساس رکھتے ہیں اُن کے لیے بھی سب سے بڑا اور پریشان کن مسئلہ یہی ہے کہ کون سا ادارہ، شخصیت یا کتاب ایسی ہو جو تربیتِ اولاد کے اس کٹھن مرحلہ میں اُن کی رہنمائی کر سکے۔
ایسے میں ضرورت محسوس کی گئی کہ فرید ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے پلیٹ فارم سے ایسی کتب ترتیب دی جائیں جو تعلیماتِ قرآن و سنت اور آئمہ کرام و صوفیاء عظام کی زندگی بھر کے تجربات کا نچوڑ ہوں اور وہ تربیت اولاد کے لیے ناصرف تحریکی و سماجی اور اسلامی نصاب کا درجہ رکھتی ہوں، بلکہ یہ کتب والدین اور ملک و ملت کو بہترین، ہونہار اور صالح نسل سونپ سکیں۔
اس تناظر میں FMRi کی ویمن ریسرچ اسکالرز نے تین کتب کی پروپوزل شیخ الاسلام کے سامنے پیش کی۔ جسے آپ نے وقت کی اہم ضرورت سمجھتے ہوئے قبول فرمایا اور انہیں مرتب کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ اِن کتب کے مجوزہ عنوانات حسب ذیل ہیں:
- بچوں کی پرورش و نگہداشت اور والدین کا کردار (رحمِ مادر سے ایک سال کی عمر تک)
- بچوں کی تعلیم و تربیت اور والدین کا کردار (دو سے دس سال کی عمر تک)
- بچوں کی تعمیرِ شخصیت (گیارہ سے سولہ سال کی عمر تک)
ان کتب کو مرتب کرتے وقت ہمیں بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے حوالے سے ایسے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑا جن کے بارے میں بہت سی confusions پائی جاتی تھیں۔ مثلاً:
- خاندان کی تعمیر میں زوجین کی ہم آہنگی کیا کردار ادا کرتی ہے؟
- زوجین کو گھریلو مسائل کس طرح حل کرنے چاہئیں؟
- دورانِ حمل عورت کے معاملات بچے کی شخصیت پر کیسے اثر انداز ہوتے ہیں؟
- والدین خود رول ماڈل کیسے بنیں؟
- کیا ہم الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے بچوں کی تربیت کر سکتے ہیں؟
- بچوں کے پریشان کن سوالات کو والدین کیسے حل کریں؟
- کیا بچوں کی اصلاح کے لیے اُنہیں جسمانی سزا دینا (مار پیٹ کرنا) ضروری ہے؟
اِسی طرح کے متعدد سوالات ایسے تھے جن کے جوابات کسی کتاب میں میسر نہ تھے، لہٰذا اِس سلسلہ میں رہنمائی کے لیے شیخ الاسلام مدظلہ سے خصوصی وقت لینے کے بعد کئی نشستوں میں بچوں کی تعلیم و تربیت میں اہمیت کے حامل مختلف عنوانات زیرِ بحث لائے گئے۔
اللہ تعالیٰ نے شیخ الاسلام مدظلہ کو جو خاص جوہرِ حکمت ودیعت فرمایا ہے اُس کے تحت راہنمائی فرماتے ہوئے اگرچہ وہ کہیں مصلح، کہیں محقق، کہیں سائنس دان، کہیں ماہرِ نفسیات اور کہیں طبیب دکھائی دیئے۔ لیکن اصلاً مجھے تو ان کی ذات کے یہ سارے رنگ حضور نبی اکرم a کی سیرتِ مبارکہ کے رنگ میں رنگے نظر آئے۔ کیونکہ شیخ الاسلام نے سیرت نبویہ اور سنت مصطفویہ کو اپنی تحقیق کی اساس اور بنیاد بناتے ہوئے ہماری راہنمائی فرمائی کہ والدین بچوں کی تربیت کیسے کریں؟
انہی افکار کی روشنی میں مذکورہ عنوانات کے تحت تین کتب مرتب کی جائیں گی، جن میں سے ایک زیور طبع سے آراستہ ہو کر منظرِ عام پر آ چکی ہے۔19 فروری قائد ڈے کے موقع پر جہاں آپ کی شخصیت کے دیگر گوشوں کو اُجاگر کیا جائے گا، وہاں راقمہ نے یہ ضرورت محسوس کی کہ اِس اہم موضوع پر آپ کے افکار و ہدایات کی روشنی میں چیدہ چیدہ گہر ہائے گراں مایہ بھی قارئین کے قلوب و اَذہان تک ضرور پہنچنے چاہئیں:
- نیک اور صالح بچے کے حصول کے لیے جب آپ سے سوال پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: عورت کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ باوضو رہے، اللہ کا ذکر کرے، قرآن حکیم کی تلاوت کرے، درود و سلام پڑھے، غیبت، چغلی، جھوٹ سے پرہیز کرے کیونکہ ماں کی تمام عادات بچے کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔
- دورِ حاضر میں والدین اپنے بچوں کے ماڈرن نام رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اس کا کوئی معنی ہو یا نہ ہو۔ لیکن شیخ الاسلام نے ہمیشہ اسلامی اور بامعنی نام رکھنے کی تلقین فرمائی۔ آپ نے اپنے اور دوسروں کے بچوں کے نام بھی ہمیشہ نیک اور پاک باز ہستیوں کے ناموں کی نسبت سے رکھے مثلاً: حسن محی الدین قادری، حسین محی الدین قادری، حماد مصطفی، احمد مصطفی، قرۃ العین فاطمہ، عائشہ قرۃ العین، خدیجہ قرۃ العین۔
- بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ والدین لاڈ پیار میں بچے کی ناجائز ضد اس کے چیخنے چلانے کی وجہ سے پوری کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس سے بچے کی عادت مزید بگڑ جاتی ہے اور بچہ یہ سمجھتا ہے کہ رونا اور ضد کرنا اپنا مطالبہ منوانے کا موثر طریقہ ہے۔ حالانکہ بچے کی ناجائز ضد کرنے پر اس کا مطالبہ ہر گز نہیں ماننا چاہیے۔
شیخ الاسلام نے اِسی ضمن میں کسی فیملی کا ایک واقعہ سنایا کہ گھر کی میز پر ٹشو باکس پڑا تھا اور دو سال کی بچی مسلسل ٹشو نکال کر خراب کر رہی تھی۔ میں نے اس کی بڑی بہن سے کہا: باکس اُٹھا کر سائیڈ پر رکھ دیں۔ اس پر وہ بچی رونے لگی تو اُس کی بڑی بہن دوبارہ اسے ٹشو باکس دینے لگی۔ میں نے ٹشو باکس دینے سے منع کر دیا، کیونکہ اس سے اُس بچی کا یہ ذہن بن جاتا کہ رو کر وہ اپنا ناجائز مطالبہ بھی منوا سکتی ہے۔ یوں آپ اُس بچی کی عادات میں ایک بُری عادت کی جڑ پکڑنے کا سبب بنتے۔
اس کی بجائے آپ نے اُس بچی کی بہن کو سمجھایا کہ بچی کو اس کی پسند کا کوئی کھلونا یا کوئی ایسی چیز دے دیں جس سے اس کی توجہ یک لخت اس طرف سے ہٹ کر دوسری طرف مبذول ہو جائے، یوں وہ ناجائز ضد کرنا بھی چھوڑ دے گی اور اُس کی توجہ بھی اس بُری عادت سے ہٹ جائے گی۔
- فارغ اوقات میں والدین ٹی وی اور کیبل کے فحش پروگرام دیکھنے سے گریز کریں، کیونکہ یہی عمل بعد میں بچوں کے لیے ترغیب کا باعث ہوگا۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو بھی یہ اختیار ہر گز نہ دیں کہ وہ جب چاہیں جیسا چاہیں پروگرام چلائیں اور دیکھیں، کیونکہ اس طرح بچوں کے بگڑنے کا اندیشہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ اس امر کا بھی خصوصی خیال رکھنا چاہیے کہ بچے چھوٹے اور ناسمجھ ہوتے ہیں، انہیں فضول اور لغو مصروفیات سے بچا کر ان کی اسلامی تربیت کریں۔ ان کے لیے ایک ٹائم ٹیبل متعین کریں، جس میں بچے سی ڈیز / ڈی وی ڈیز کے ذریعے اسلامی و تعلیمی اور ملی پروگرامز دیکھ سکیں۔ مثلاً The Message، امام ابو حنیفہ، امام بخاری، صلاح الدین ایوبی، میجر عزیز بھٹی شہید، راشد منہاس شہید، قیامِ پاکستان، قائد اعظم، علامہ محمد اقبال اور تحریک پاکستان کے دیگر ہیروز کی ڈاکومنٹری وغیرہ۔ اس کے علاوہ اسلامی تعلیمات کے پروگرام، علمی و روحانی شخصیات کی اصلاحی و روحانی گفتگو بچوں کی ذہنی صلاحیت کے مطابق دکھائی جائے تاکہ یہ ان کے لیے دنیوی اور اُخروی کامیابی کا ضامن بن جائے۔
- کم عمری کا دور بچوں کی خصوصی نگہداشت اور تربیت کا تقاضا کرتا ہے۔ یہی وہ عمر ہوتی ہے جس میں کسی بھی بچے کے بگڑنے اور سدھرنے کے یکساں امکانات ہوتے ہیں۔ لہٰذا بچوں کو عمر کے اس نازک اور حساس مرحلے پر الیکٹرانک میڈیا اور موبائل استعمال کرنے کی اجازت ہر گز نہیں دینی چاہیے۔ بچوں کی تفریح کے لیے والدین کو چاہیے کہ وہ موبائل کی بجائے بچوں کو tab اور iPAD لے کر دیں اور اس میں ایسی apps اِنسٹال کریں جن پر بچے اچھی گیمز، معیاری کارٹون اور تاریخی فلمیں دیکھ سکیں۔ رات کو سونے سے پہلے والدین بچوں کا tab / iPAD وغیرہ اپنے پاس رکھیں اور بچوں کو اپنے ساتھ بیڈ روم میں لے جانے کی اجازت ہرگز نہ دیں۔
بچے جب ذرا بڑے ہو جائیں تو انہیں کمپیوٹر ضرور سکھائیں مگر اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے بچے کو ٹائپنگ سکھائیں۔ پھر اسے ’’ورڈ‘‘ پروگرام جو ’’آفس‘‘ میں ہوتا ہے وہ سکھائیں۔ پھر ’’ایکسل‘‘ اور اس قسم کے باقی پروگرام سکھائیں۔ پھر بچے کو ویب سائٹس ڈیزائن کرنا سکھائیں، پروگرامنگ سکھائیں، ایپلی کیشن ڈویلپمنٹ سکھائیں۔ پھر اسے روبوٹک یا گرافک ڈیزائن میں لے جائیں تاکہ وہ دیگر تعمیراتی (architecture) چیزیں مثلاً مساجد، گھر، دریا وغیرہ بنانے میں دلچسپی لے۔ بچے کو بری ویب سائٹ سے بچانے کا یہ بہت آسان طریقہ ہے کہ اسے ایسی چیزیں سکھاکر ایسا interest پیدا کر دیں کہ وہ اپنے کام میں مشغول رہے اور فحش ویب سائٹس کی طرف اس کا دھیان بھی نہ جائے۔ نیزدیگر apps کو پروفیشنلی بلاک کروا دیں۔ تاکہ بچے لغویات بالکل نہ دیکھ سکیں۔
- روز مرہ زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ بچوں سے اگر کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو مائیں ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ ان کو مارنے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔ جس کی وجہ سے بچے ڈھیٹ ہو جاتے ہیں۔ بچوں کی غلطی پر سزا دینے کے حوالے سے جب شیخ الاسلام سے پوچھا گیا تو آپ نے لفظ ’’سزا‘‘ کی بجائے لفظ ’’تادیب‘‘ استعمال کیا اور بچوں کو مارنے کو سختی سے منع فرماتے ہوئے کہا ’’مار نہیں پیار‘‘
بچوں سے اگر کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو اس پر انہیں مارنے یا کسی بھی قسم کی سزا دینے کی بجائے تادیب کرنے کے مختلف طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں مثلاً:
- اگر بچہ غلطی کرے اور سمجھانے سے نہ مانے تواُسے اس کے دل چسپ مشاغل یا اس کی پسندیدہ چیزوں سے جدا کر دیا جائے۔ اس طرح کی تادیب کا بہت جلد اور خاطر خواہ نتیجہ ظاہر ہوتا ہے کیونکہ بچہ ہر بات کو برداشت کر سکتا ہے مگر اپنے دل چسپ مشاغل اور اپنی پسندیدہ چیزوں سے محروم رہنا کبھی گوارا نہیں کرسکتا۔ تادیب کرنے کا یہ انداز دور رس بھی ہوتا ہے۔ بچہ اس خیال سے ہمیشہ غلطی کرنے سے باز رہتا ہے کہ پھر اُسے اپنے دل چسپ مشاغل اور پسندیدہ چیزوں سے محروم کر دیا جائے گا۔ یہ تفریحی تادیب بچے کی تربیت میں زیادہ کارگر اور موثر ثابت ہوتی ہے۔
- گھر میں ایک naughty chair بنائی جا سکتی ہے۔ اگر کوئی بچہ غلط کام کرے تو اسے اس پر بٹھا دیا جائے اور کہا جائے: آپ نے ایک گھنٹہ یا کچھ وقت (بچے کی نفسیات کے مطابق وقت طے کیا جائے) اسی پر بیٹھے رہنا ہے تو چونکہ فطرتاً بچہ ایک جگہ مسلسل بیٹھ نہیں سکتا اس لیے وہ آئندہ غلطی سے گریز کرے گا۔
- تادیبی کارروائی کے بعد جب بچہ غلطی کرنا چھوڑ دے تو والدین کو چاہیے کہ اسے انعام دیں خواہ وہ ایک ٹافی ہی کیوں نہ ہو، تاکہ بچے کے تعمیری پہلو کو تقویت حاصل ہو اور اس کے اندر آئندہ غلطی نہ کرنے کا جذبہ پیدا ہو۔ اس طرح اچھے کاموں اور بہتر کارکردگی پر انعامات دے کر بچے کی حوصلہ افزائی ضرور کی جانی چاہیے لیکن انعام کا اسے عادی نہ بنایا جائے کہ وہ ہر کام پرانعام کی آرزو کرتا رہے بلکہ انعام کی مقدار اور اوقات میں بھی اعتدال کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
- گھر کے آزادانہ ماحول اور ٹی وی پر فحش پروگرام دیکھ کر بچے الجھنوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ چونکہ بلوغت کی پہلی سیڑھی پر ہی بچوں میں تجسس کا آغاز ہو جاتا ہے۔ لامحالہ اس طرح ان کا ذہن برائی کی طرف راغب ہوتا ہے اور ان کے ذہنوں میں مختلف سوالات ابھرتے ہیں۔ پھر وہ معلومات حاصل کرنے کے لیے موبائل فون، آئی پیڈ اور کمپیوٹر وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں۔
شیخ الاسلام نے فرمایا: اس صورت میں والدین کو کوشش کرنی چاہیے کہ بچوں کو خاص عمر کے حصے تک ان معلومات سے حکمت کے ساتھ اس طرح بچائیں کہ ان میں تجسس پیدا نہ ہو۔ ایسا دل و دماغ کے تزکیہ سے ہوتا ہے جو کہ گھر کے پاکیزہ ماحول کے بغیر ممکن نہیں۔ والدین بچوں کو دن بھر ایسا خوش گوار مذہبی اور علمی ماحول دیں جس سے ان کے ذہنوں میں اس طرح کا تجسس ہی پیدا نہ ہو کہ وہ ایسے سوالات کریں کہ جن کے بارے میں اُنہیں عمر کی خاص حد تک نہیں جاننا چاہیے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری اپنی زندگی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے والد گرامی حضرت فریدِ ملّت ڈاکٹر فرید الدین قادری نے آپ کی تربیت کس نہج پر کی۔ شیخ الاسلام فرماتے ہیں:
بچپن میں میرے والد گرامی سال کے بیشتر ماہ مجھے گھر میں ہی فقہ پڑھاتے تھے اور جب چھٹیاں ہوتیں تو کچھ عرصہ گھر سے دور ایک گائوں میں واقع دار العلوم قطبیہ بھیج دیتے۔ پورے سال میں جتنی کتب والد گرامی قدر مجھے پڑھاتے تو اس میں فقہ کے مختلف موضوعات جیسے طہارت اور خواتین سے متعلقہ اَبواب و فصول آپ نے حکمتاً کبھی مجھے نہیں پڑھائے۔ جو حصہ وہ چھوڑتے تو میں پوچھتا کہ یہاں سے سبق شروع کرنا تھا، آپ نے چھوڑ دیا۔ آپ فرماتے: بیٹا! یہ آپ کے اساتذہ آپ کو پڑھائیں گے۔ پھر اس انداز سے کوئی ایسا علمی موضوع چھیڑتے کہ میں سب کچھ بھول کر ان سے اس موضوع پر تبادلہ خیال شروع کر دیتا۔
یہ ماحولیاتی تربیت ہے، ایک محنت ہے، ایک جہاد ہے۔ اس انداز میں بچوں کی جب تربیت ہوگی تو بچوں کے ذہن پاکیزہ رہیں گے اور وہ والدین سے پریشان کن سوالات بھی نہیں کریں گے۔
آپ کے والد محترم نے آپ کو ہمہ گیر اور ہمہ جہت شخصیت بنانے کے لیے جس طرح آپ کی تربیت کی اُسی طرح آپ نے اپنے والد گرامی کے اندازِ تربیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنی اولاد کی جو تعلیم و تربیت فرمائی ہے وہ تربیتِ اولاد کے باب میں آج کے والدین کے لیے ایک مثالی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ بلکہ آپ نے تو اس سے بھی بڑھ کر دینی و دنیوی تعلیم و تربیت کو اپنی اولاد تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ اس نعمت کو پوری اُمت مسلمہ کے بچوں تک عام کرنے کا بھی اہتمام فرمایا تاکہ آج کے پرفتن دور میں بچوں اور نوجوانوں کے رگ و ریشہ میں دین کی روح سرایت کر جائے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ والدین کو اپنی اصلاح کی بھی توفیق مرحمت فرمائے اور کما حقہ نسلِ نو کی تربیت کا فریضہ سرانجام دینے کا بھی شعور بخشے۔ (آمین)