اسلامی نظریہ حیات سے آگہی رکھنے والا کوئی شخص بھی اس تاریخی حقیقت سے چشم پوشی نہیں کر سکتا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی شانِ رحیمی و کریمی اس وقت عورت پر سایہ فگن فرمائی جب وہ خطۂ ارض میں کہیں بھی قابلِ ذکر شے نہ تھی۔ اس کی ذلت و پستی کی انتہا یہ تھی کہ اس کی پیدائش ہی موجبِ عار سمجھی جاتی تھی۔ قرآن حکیم اس طرزِ عمل کی یوں عکاسی کرتا ہے:
اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی (کی پیدائش) کی خبر سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غصہ سے بھر جاتا ہے۔ وہ لوگوں سے چُھپا پھرتا ہے (بزعمِ خویش) اس بری خبر کی وجہ سے جو اسے سنائی گئی ہے، (اب یہ سوچنے لگتا ہے کہ) آیا اسے ذلت و رسوائی کے ساتھ (زندہ) رکھے یا اسے مٹی میں دبا دے (یعنی زندہ درگور کر دے)، خبردار! کتنا برا فیصلہ ہے جو وہ کرتے ہیں۔
(النحل، 16: 58-59)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفقت و رحمت نے عورت کو بحیثیت ماں، بہن، بیوی، بیٹی نہ صرف پاکیزگی و تقدس، عزت و عظمت اور مقام و مرتبہ جیسی عظیم نعمتوں سے سرفراز کیا بلکہ اس کے سماجی، تمدنی، معاشی، معاشرتی اور قانونی حقوق بھی متعین کیے۔ اسے مختلف نظریات و تصورات کے محدود دائرے سے نکال کر معاشرے میں شرفِ انسانیت بخشتے ہوئے علم و عمل، تدبیر و سیاست، بہادری و شجاعت، تہذیب و تمدن، الغرض! خواتین کے چند فطری خصائل کے علاوہ زندگی کے تمام شعبوں میںمردوں کے مساوی مقام دیا۔
یوں مرورِ زمانہ جیسے جیسے عورتوں کو معزز پیشوں کے انتخاب اور تعلیمی سہولتوں کے مواقع میسر آئے انہوں نے اپنی قابلیت کا سکہ منوایا۔ زندگی کا کوئی ایسا قابل ذکر شعبہ نہیں ملتا جس میں عورت نے کارہائے نمایاں سر انجام نہ دیئے ہوں۔ لیکن جونہی مسلم خواتین کا اسلام اور قرون اولیٰ سے دوری کے باعث اسلامی تعلیمات سے انحراف کا آغاز ہوا تو مغربی دنیا نے آزادی نسواں، حقوق نسواں اور مرد و زن کی مساوات کا نعرہ پوری گھن گرج کے ساتھ بلند کر دیا۔ جس میں ان کی شرم و حیائ، عصمت و عفت، پاکبازی و پاکدامنی غرضیکہ سب کچھ بہہ گیا۔ ان کا بنیادی مقصد عورت کے حقوق کی بحالی نہیں، بلکہ عورت کو اپنی دسترس میں کرنے کے لیے اُس کی مادر پدر آزادی کا حصول تھا۔
مغربی معاشرے نے عورت کو اُس کی عزت اور وقار عطا کرنے کے برعکس اُسے مارکیٹ کی ایک جنس بنا دیا۔ رہی سہی کسر جمہوریت، آزادی اور جدید تعلیم نے پوری کر دی اور اسے معاشرے کا عضو معطل بنا دیا۔خواتین تعداد کے اعتبار سے کروڑوں میں ہیں لیکن ایک تنکے جتنی وقعت نہ رہی۔ گذشتہ چار پانچ صدیوں سے مغرب کی معاندانہ یلغار اور مسلمان معاشروں میں جہالت و پسماندگی کے باعث ان کا تاریخ ساز کردار چھین لیا گیا ہے اور وہ اس کردار سے محروم کر دی گئیں جو انہیں دین اسلام نے عطا کیا تھا۔
برائیوں، فتنوں اور اخلاقی قباحتوں میں مبتلا دور حاضر میں اس مرعوبیت اور احساس کمتری کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس صدی کے مجدد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو تجدید و احیائے دین کے لیے منتخب فرمایا ہے۔ جس پر آپ کی گراں قدر تصنیفات، علمی مجالس، خطابات اور صدہا مواعظ گواہ ہیں۔ شیخ الاسلام کی حیات اور ان کی خدمت دین پربہت سے مقالہ جات اور آرٹیکلز لکھے جا چکے ہیں۔ جن کے ذریعے ہر طبقۂ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کو آپ کی زندگی کے مختلف گوشوں سے متعلق معلومات فراہم کرنے کی کوشش نظر آتی ہے۔ پھر بھی بہت سے گوشے ایسے ہیں جن کو اُجاگر کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک گوشہ ’خواتین کی تعمیر شخصیت میں شیخ الاسلام کا کردار‘ بھی ہے۔
شیخ الاسلام نے جہاں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعلیم و تربیت اور اصلاح کی کاوشیں فرمائی ہیں، وہیں اسلامی معاشرہ کے اہم ستون عورت کی تعمیرِ شخصیت اور تعلیم و تربیت سے چنداں تغافل نہیں کیا، بلکہ علی منہاج النبویہ اس پر زیادہ توجہ مرکوز کی ہے، کیونکہ ایک عورت کی تربیت دراصل ایک نسل کی تربیت کا پیش خیمہ ہے۔ آئندہ سطور میں ہم اس حوالے سے شیخ الاسلام کی خدمات کا جائزہ لیں گے۔
1۔ عورت کی دینی تربیت اور شیخ الاسلام
دینی فریضہ میں دعوت و تبلیغ کا مشن مرد و عورت کے درمیان کسی تفریق کا حامل نہیں ہے۔ تبلیغِ دین کے سلسلے میں آنے والے احکامات اور امر و نہی کے وارد ہونے والے صیغے عربی زبان و بلاغت کے قواعد کے اعتبار سے مرد اور عورت دونوں کے لیے مستعمل ہیں۔ یوں عورت کی ذمہ داری صرف امورِ خانہ داری، شوہر اور بچوں کی خدمت تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ذمہ داری میں وہ مرد کے ساتھ یکساں شامل ہے۔ دعوت دین پر مبنی نصوص میں عورت کو کہیں بھی استثناء حاصل نہیں ہے۔ اس پر قرآنِ حکیم شاہد ہے:
اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں۔
(التوبہ، 9: 71)
مذکورہ آیت کی رو سے مرد کے ساتھ ساتھ دین کی ترویج و اقامت میں عورت کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ تاریخِ اسلام شاہد ہے کہ ابتدائی دور میں خواتین جذبۂ دعوت و تبلیغ سے اس طرح سرشار تھیں کہ انہوں نے تبلیغِ اسلام کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا اور بہت سے جید صحابہ کرامl ان کی دعوت دین سے متاثر ہو کر حلقۂ بگوش اسلام ہوئے۔
دینی فریضہ میں خواتین کے کردار کی اہمیت کے پیشِ نظر شیخ الاسلام نے 5 جنوری 1988ء کو منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ میں تحریک سے وابستہ خواتین کے اجتماع میں بیگم رفعت جبین قادری کی سرپرستی میں باضابطہ منہاج القرآن ویمن لیگ کے قیام کا اعلان فرمایا تاکہ خواتین کو دعوت و تبلیغ کا عملی فریضہ سرانجام دینے کے لیے ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا ہو جہاں ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والی خواتین کا دینی و دنیوی علمی شعور بیدار کر کے ان کو درج ذیل سطح کی جد و جہد میں اہم کردار ادا کرنے کے قابل بنا سکیں:
- اسلامی تعلیمات کی روشنی میںخواتین کو درپیش مسائل اور مشکلات کا قابلِ عمل اور یقینی حل پیش کر سکیں
- دینی علوم اور جدید عصری و سائنسی علوم کی روشنی میں محدود سوچ اور تعصبات کا شکار خواتین میں امت کے اجتماعی تحفظ کا داعیہ بیدار کر سکیں
- خواتین میں صالحیت، ایثار اور خدمتِ خلق کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے ان کی اخلاقی اور روحانی تربیت کر سکیں
- خواتین کی فکری و نظریاتی تربیت اس نہج پر کریں کہ وہ نسلِ نو کو اسلام کی مخلصانہ اور ماہرانہ خدمت کرنے کے قابل بنا سکیں
- اپنی سیرت و کردار سے معاشرے میں اپنا مقام و منصب پہچاننے، منوانے اور امتِ مسلمہ کی تقدیر بدلنے کا جذبہ پیدا کر سکیں
مندرجہ بالا مقاصد کی روشنی میں شیخ الاسلام نے خواتین کی سوچ اور زاویۂ ہائے نگاہ کو تبدیل کر کے انہیں فکرِ ذات کی بجائے فکرِ امت سے روشناس کرایا۔ تعلق باللہ کی مضبوطی کے لیے ان کے دلوں کی اجڑی کھیتیوں کو ازسرِنو خشیتِ الٰہی، اطاعتِ الٰہی اور محبتِ الٰہی سے سیراب کیا۔ ربطِ رسالت کی پختگی کے لیے ان کے دلوں میں بجھے ہوئے عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چراغوں کو پھر سے منور کیا۔ اسلام کے لیے سب کچھ قربان کرنے اور اپنے کردار کی مضبوطی پر زور دیتے ہوئے فرمایا:
اے دختران اسلام! آج دین کو آپ کی ضرورت ہے۔ دین اسلام پر حملے ہورہے ہیں۔ آج دین کو بچانے کے لیے آپ کو اپنے گھروں سے نکلنا ہوگا۔ گھر گھر دعوتِ دین کا پیغام پہنچانا ہوگا۔ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانا ہوگا۔ آج پھر سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراہ رضی اللہ عنہا کی سیرت کے سانچے میں ڈھلنا ہوگا۔ اپنا کردار حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے رنگ میں رنگنا ہو گا۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے مجاہدانہ اور انقلابی کردار کو از سرِ نو زندہ کرنا ہو گا۔ آج پھر حضرت سمیہّ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا جیسی عظیم مجاہداتِ اسلام تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ جنہوں نے جام شہادت نوش کرلیا مگر اسلام پر آنچ نہ آنے دی۔
بحمدہٖ تعالیٰ! منہاج القرآن ویمن لیگ شیخ الاسلام کی قیادت اور رہنمائی میں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے کم و بیش 90 ممالک میں ایک مضبوط تنظیمی نیٹ ورک کے ذریعے نیکی، تقویٰ، طہارت اور پاکیزگی کا پیکر بن کر خواتین کو نئی نسل کی محافظت کا شعور دے رہی ہے۔ خواتین کے اعمال و احوال اور عقائد اسلامی کی اصلاح کے لیے خصوصی تربیتی پروگرامز مثلاً حلقہ جاتِ عرفان القرآن، دروسِ قرآن، محافل ذکر و نعت، تربیتی ورکشاپس، الہدایہ کیمپس، سالانہ اعتکاف، میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانفرنسز، محرم الحرام کے اجتماعات کا انعقاد ہر سطح پر کر رہی ہے۔ ہر شعبہ ہائے زندگی میں ویمن لیگ اپنی حیثیت، اپنے عمل و کردار اور اپنی حیات بخش صلاحیتوں کے بل بوتے پر عورت کو معاشرے کے ناگزیر عنصر کے طور پر منوا رہی ہے۔
شیخ الاسلام نے نسلِ نو کی امین خواتین کی مذہبی تعلیم و تربیت، ان کے دینی فکر و شعور کو اجاگر کرنے اور قوم کو باشعور، صاحبِ بصیرت اور صالح مائیں دینے کے لیے 1986ء میں منہاج یونیورسٹی لاہور، 1994ء میں منہاج کالج برائے خواتین لاہور، 1994ء میں تحفیظ القرآن گرلز انسٹی ٹیوٹ لاہور اور 1997ء میں منہاج گرلز ماڈل سکول لاہور جیسے اہم تعلیمی اور تربیتی مراکز قائم کیے۔ جن کے تحت اس وقت بیسیوں کالجز، سینکڑوں اسکولز اور اسلامک سینٹرز نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر مؤثر اور فعال کردار ادا کرتے ہوئے ہزارہا طالبات کو جدید و قدیم علوم سے بہرہ مند کرنے میں سرگرمِ عمل ہیں۔ شیخ الاسلام نے اساتذہ اور طالبات کو ہمیشہ نصیحت فرمائی:
علم وہی صحیح اور کار آمد ہے جو حقائق کے ساتھ خالق کی معرفت کا باعث بنے۔ جو آپ کی سیرت و کردار بدلنے کے ساتھ ساتھ آپ کو اپنے رب کی دہلیز پر سر بسجود کرتا رہے۔ آپ جدھر دیکھیں، کائنات میں بکھرے رنگ آپ کو ہر پہلو سے اپنے مالک کی یاد دلائیں۔ آپ کو اپنے علم پر ناز نہ ہو بلکہ جو کچھ علم حاصل کریں اسے اپنے خالق حقیقی کا دین سمجھیں۔ آپ جیسے جیسے علم میں اعلیٰ منازل طے کرتی جائیں، ویسے اپنا سر عجز و نیاز کے ساتھ اپنے مالک کے حضور جھکاتی چلی جائیں۔ اگر آپ کا علم اس نہج پر قائم رہتا ہے تو وہ معرفتِ الٰہی اور انسانیت کے لیے نسخہ کیمیا ہے ورنہ معلومات کا پلندہ ہے۔
شیخ الاسلام کے فرامین کی روشنی میں ان تعلیمی ادارہ جات میں ہم نصابی سرگرمیوں کے ذریعے طالبات کی تخلیقی صلاحیتیں بیدار کرنے کے لیے بین الکلیاتی اور بین الجماعتی مقابلہ جات اور قومی و مذہبی مواقع پر مختلف پروگرامز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ طالبات کے اذہان و قلوب کو روحانی فکر و نظر سے مزین کرنے کے لیے مختلف تربیتی مراحل مثلاً پنجگانہ نماز کے ساتھ نمازِ تہجد کی پابندی،ہفتہ وار شبِ داری، ہفتہ وار شیخ الاسلام کے ویڈیو لیکچرز، ماہانہ ایامِ بیض کے روزے، ماہانہ ختم الصلوۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روحانی اجتماع میں شرکت، ہر تین ماہ کے بعد سہ روزہ تربیتی کیمپ اور نفلی اعتکاف_ سے گزارا جاتا ہے تاکہ ایسی مجاہدات امت تیار ہو سکیں جو حضرت فاطمۃ الزہراہ اور سیدہ زینب سلام اللہ علیہما کے کردار کی طرز پر اقامتِ دین کی ذمہ داری احسن طریقے سے سرانجام دے سکیں۔
2۔ عورت کی معاشرتی و معاشی تربیت اور شیخ الاسلام
تاریخ انسانی میں اسلام وہ پہلا دین ہے جس نے خواتین کو آج سے 15 سو سال قبل نہ صرف حقوق عطا کیے بلکہ عورت کی قانونی حیثیت کو بھی تسلیم کیا۔ یہ وہ دور تھا کہ جہاں دنیا کی کسی تہذیب اور ثقافت میں 1300-1400 سال بعد تک بھی عورت کو وہ حقوق نہیں ملے جو عورت کو اسلام نے آج سے 1500 سال قبل عطا کیے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مَرد اور مومن عورتیں اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں اور صدق والے مرد اور صدق والی عورتیں اور صبر والے مرد اور صبر والی عورتیں اور عاجزی والے مرد اور عاجزی والی عورتیں اور صدقہ و خیرات کرنے والے مرد اور صدقہ و خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، اللہ نے اِن سب کے لیے بخشِش اور عظیم اجر تیار فرما رکھا ہے۔
(الأحزاب، 33: 35)
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا گیا ہے:
اور دستور کے مطابق عورتوں کے بھی مردوں پر اسی طرح حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر۔
(البقرة، 2: 228)
مذکورہ بالا آیات مبارکہ گھریلو اور معاشرتی زندگی میں مرد اور عورت کے برابرکے حقوق کا اعلان کر رہی ہیں کہ عورتوں کے لیے بھی وہی حقوق ہیں جو مردوں کے حقوق ہیں۔ اسی طرح قرآن حکیم میں جابجا سینکڑوں آیات میں خواتین کے حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے۔
اسلام نے عورت کو معاشی، سماجی اور قانونی حقوق دے کر بااختیار بنایا ہے جس کی نظیر دیگر معاشروں اور تہذیبوں کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ کُتب حدیث، کُتب سیر، کُتب تاریخ میں آتا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں خواتین ممبر پارلیمنٹ تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ایک بار مدینہ کی پارلیمنٹ میں کہا گیا کہ خواتین کی شادی کے وقت جو حق مہر مقرر کیا جاتا ہے اس کی حد مقرر کی جائے۔ پارلیمنٹ کی ممبر ایک خاتون نے کھڑے ہو کر بل کو چیلنج کر دیا اور کہا کہ جب اللہ نے حد مقرر نہیں کی تو آپ کیسے کر سکتے ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عورت کے اس نقطہ نظر پر اس سے ثبوت مانگا تو اس پر اُس عورت نے قرآن کی یہ آیت مبارک بیان کی:
اور تم اسے ڈھیروں مال دے چکے ہو تب بھی اس میں سے کچھ واپس مت لو۔
(النساء، 4 :20)
اس عورت نے کہا کہ قرآن کے یہ الفاظ ’’ڈھیروں مال‘‘ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ حق مہر کی کوئی حد مقرر نہیں۔ اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
مرد خطا کر بیٹھا اور عورت نے صحیح رائے دی
(شوکانی، نیل الاوطار، 6: 170)
اور آپ رضی اللہ عنہ نے اپنا بل پارلیمینٹ سے واپس لے لیا۔
حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد جانشین کے انتخاب کے لیے چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی تو حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو چیف الیکشن کمیشنر نامزد کر دیا گیا۔ انہوں نے استصواب عام کے ذریعے مسلسل تین دن گھر گھر جا کر لوگوں کی آراء معلوم کیں جن کے مطابق بھاری اکثریت نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنائے جانے کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس الیکشن میں خواتین بھی شامل ہوئیں اور تاریخ میں پہلی بار ایسی مثال قائم کی گئی۔
(بخاری، الصحیح، کتاب الاحکام، باب کیف یبایع، 6: 2634، 2635، رقم: 6781)
مغربی دنیا میں جو اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا کہ عورت کو ووٹ کا حق مغرب نے دیا حالانکہ مغرب میں پچھلی صدی تک عورت کو غلاموں اور جانوروں کی طرح رکھا جاتا تھا۔ انہیں دیگر آزاد مردوں کی طرح کوئی حق حاصل نہ تھا وہ نہ تو محنت کر کے کچھ کما سکتی تھی اور نہ ہی کسی چیز کی مالک بن سکتی تھی۔ یوکے میں فروری 1918ء کو People Act پاس ہوا جس میں عورت کو بنیادی حقوق دیے گئے۔ جس کے تحت 30 سالہ عورت کے لیے ووٹ، بنیادی ملکیت اور مزدوری کرنے کا حق شامل تھا۔
امریکہ میں تو عورتوں نے جنگ لڑ کر اپنے حقوق منوائے ہیں۔ صدیوں کی جدوجہد کے بعد 1961ء میں صدر John Kennedy نے خواتین کے حقوق کے لیے کمیشن قائم کیا۔ 1970ء میں خواتین کے لیے مساوی حقوق کا بل پاس ہوا۔ گویا بیسوی صدی کے اواخر تک مغربی معاشرے میں خواتین کو مردوں کی طرح انسان شمار کرنے کا کوئی خیال تک نہ تھا۔ اس کے برعکس چھٹی صدی عیسوی میںاسلام نے اپنے آغاز سے ہی عورت کو مردوں کے شانہ بشانہ تمام حقوق عطا کیے جیسے:
حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا اور دیگر کئی صحابیات تجارت کیا کرتی تھیں۔ یہ سلسلہ خلفائے راشدین کے بعد تاریخِ اسلام میں جاری رہا۔ اسلام نے کبھی خواتین کی حوصلہ شکنی نہیں کی۔ انہیں بھی روزگار کے مواقع ویسے ہی میسر آئے جیسے مردوں کو۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مردوں کی طرح خواتین کو بھی غزوات میں دفاعی فریضہ میں شریک کرتے۔ حدیبیہ کے موقع پر جو معاملہ پیش آیا اس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت اُم سلمیٰ رضی اللہ عنہا سے بطور مشیر مشورہ کیا اور ان کی تجویز پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حتمی فیصلہ کیا۔
(بخاری، الصحیح، کتاب الشروط، باب الشروط فی الجهاد، 2: 978، رقم: 2581)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا لٹریچر، میڈیکل، قانون، فقہ اور حدیث کی ماہر تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا سے ہزارہا صحابہ کرام اکتساب علم کرتے اور آپ رضی اللہ عنہا سے احادیث مبارکہ روایت کرتے تھے۔
(ذهبی، تذکرة الحفاظ، 1: 28)
اسی طرح سفارتی تعلقات میں حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا بنت علی رضی اللہ عنہ کو بطور سفیر ملک روم کی طرف بھیجا گیا۔
(طبری، تاریخ الأمم والملوک، 2: 601)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت شفاء رضی اللہ عنہا بنت عبد اللہ کو مارکیٹ انتظامیہ میں اہم عہدہ دیا اور اُنہیں محتسب مقرر کیا۔ علاوہ ازیں دیگر تمام محکموں میں بھی ان کے پاس ذمہ داریاں ہوتی تھیں۔ جس میں وہ متحرک کردار ادا کرتی تھیں۔
(ابن حزم، المحلی، 9: 429)
اسلام دینِ فطرت ہوتے ہوئے حقوقِ انسانی کی عزت و احترام کی تعلیم دیتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر تین بار فرمایا کہ عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیتا ہوں اور مردوں کی کمائی میں عورت کا حق ہے۔ کیونکہ عورت کو نفقہ، کھانا اور رہائش دینا مرد کی ذمہ داری ہے۔
معزز قارئین! آئین کا آرٹیکل 38 کہتا ہے کہ بلاتفریق جنس عوام کی معاشی اور معاشرتی فلاح و بہبود کا فروغ ریاست کی ذمہ داری ہے اور ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہر حکومت خواتین کی ترقی و خوشحالی کے لیے بلند و بانگ دعوؤں کے ساتھ قانون سازی اور پالیسی دینے کا اعلان کرتی ہے مگر روز بروز خواتین کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ روز مرہ زندگی کو لیں یا کسی مخصوص مکتبہ فکر کی عورت کو، اقتدار کے ایوانوں کو لیں یا گھر کی چاردیواری کو، جنس مخالف بنت حوا کے حقوق، عزت و آبرو، سالمیت اور ترقی کی راہ میں آڑے آ رہا ہے۔ افسوس! ریاست مدینہ اور تبدیلی کا نعرہ لگانے والی حکومت کے دور میں بھی عورت غیر محفوظ ہے۔ متعلقہ ادارے اس ضمن میں اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں اور نہ ہی ریاست۔
ان حالات میں امت مسلمہ کی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کو شیخ الاسلام کی صورت میں ایک امید کی کرن نظر آتی ہے کہ جنہوں نے اپنی بے پناہ علمی، تحقیقی اور تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر درجنوں کتب اور سینکڑوں خطابات کے ذریعے جو چشم کشا حقائق بیان کیے ہیں وہ عصرِ حاضر میں حقوق نسواں کے لیے ایک مینارہ نور کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ نے ملکی سطح پر بالخصوص اور بین الاقوامی سطح پر بالعموم اسلام کا متوازن تصور پیش کیا کہ اسلام نے عورت کو جہاں حقوق دیے ہیں وہاں اس پر فرائض بھی عائد کیے ہیں۔ شیخ الاسلام نے امت مسلمہ کی بیٹیوں کو یہ شعور دیا کہ وہ اپنے فرائض پورے کیے بغیر معاشرے میں اپنے حقوق کے لیے آواز بلند نہیں کر سکتیں، کیونکہ فرائض کی ادائیگی کی صورت میں حقوق کا حصول قدرتی طور پر خودبخود تکمیل پذیر ہو جاتا ہے۔ خواتین کی Empowerment کا حقیقی تصور بھی یہی ہے جو اسلام نے انہیں آج سے 1500 سال قبل عطا کیا تھا۔ شیخ الاسلام نے خواتین کے معاشرتی کردار پر زور دیتے ہوئے فرمایا:
خواتین اپنی اپنی فیلڈز میں پی ایچ ڈیز کریں، پالیسی ساز اداروں میں شامل ہوں ڈاکٹر، انجینئر، جج بنیں سیاستدان بنیں، تاکہ قانون سازی اور اس پر عملدرآمد کے ضمن میں حائل رکاوٹیں دور کرنے میں اپنا مؤثر کردار ادا کر سکیں، کیونکہ پاکستان اور عالم اسلام اس وقت بحرانوں سے باہر نکلے گا جب اس کی خواتین کو برابری کی بنیاد پر زندگی کے ہر شعبے میں شمولیت کے مواقع ملیں گے۔
خواتین کے معاشی و معاشرتی تربیت کے لیے شیخ الاسلام کی عملی کاوشوں کا اجمالی تذکرہ ان الفاظ میں کیا جا سکتا ہے:
- شیخ الاسلام نے تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل کے پلیٹ فارم پر منہاج القرآن ویمن لیگ کو ہر بنیادی فیصلہ سازی اور پالیسی سازی میں مشاورت اور رائے دہی کا حق دے کر وسعتِ نظری، وسعتِ قلبی اور انسانیت کے حقوق کے علمبردارہونے کی روشن مثال قائم کی ہے۔
- شیخ الاسلام نے خواتین کی بنیادی حیثیت تسلیم کروانے کے لیے تحریک منہاج القرآن کے ہر شعبہ میں نہ صرف نمائندگی دی ہے بلکہ اس طرح انہیں باعزت روزگار کے مواقع بھی میسر آئے ہیں۔
- شیخ الاسلام نے اصلاحِ معاشرہ میں عورت کی حیثیت کو منوانے کے لیے سیرت طیبہ سے درجنوں مثالیں دے کر مردوں کے اندر خواتین سے حسنِ سلوک کا شعور اجاگر کیا۔ ٭ شیخ الاسلام کی ہدایات کے مطابق خواتین کے سماجی، معاشرتی اور معاشی مسائل کے حل کے لیے اور Empowerment Womenکے لیے منہاج القرآن کے زیر اہتمام Woice کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ جس کے ذریعے بیداری شعور، Charity پراجیکٹس، Woice ہنر گھر کے منصوبہ جات پہ کام ہو رہا ہے۔
- شیخ الاسلام کی ہدایات کے مطابق منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے تحت ہر سال نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم غریب اور مستحق بچیوں کی شادیاں ہوتی ہیں اور جملہ اخراجات منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن برداشت کرتی ہے۔
- شیخ الاسلام کی راہنمائی میں منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے تحت ہر سال مختلف شہروں میں فری آئی سرجری کیمپس کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں لینز، عینک، میڈیسن اور خوارک کا تمام خرچہ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن ادا کرتی ہے۔
- منہاج کالج برائے خواتین خانیوال منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کا ایک مثالی تعلیمی منصوبہ ہے۔ جو جنوبی پنجاب کی بچیوں کے لیے صرف ایک تعلیمی درس گاہ ہی نہیں بلکہ ایک تربیتی ادارہ بھی ہو گا۔
- شیخ الاسلام کی ہدایات کے مطابق منہاج القرآن ویمن لیگ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، عید الفطر اور عید الاضحی کے موقع پر غریب، مستحق خواتین کو کپڑے، راشن، نقدی اور گوشت کی صورت میں مدد فراہم کر کے ان کی خوشیوں کو دوبالا کرتی ہے۔
- شیخ الاسلام کی قائم کردہ تحریک منہاج القرآن کا ایک خاص اعزاز یہ بھی ہے کہ یہ اقوام متحدہ کے اقتصادی اور معاشرتی کونسل کی باقاعدہ رکن ہے جس کے تحت مختلف پراجیکٹس میں سے ایک Reconciliation council Minhaj ul Quran ہے۔ یہ کونسل پاکستان اور دنیا کے متعدد دیگر ممالک میں خواتین کے گھروں کو بچانے کے لیے متحرک ہے۔ اس کونسل کے دائرہ کار میں آنے والی علاقہ کی خاتون کو اگر گھر میں ناچاقی کا سامنا ہو تو دونوں خاندانوں کو باہم بٹھا کر صلح صفائی کروائی جاتی ہے اور حتی الوسع کوشش کر کے طلاق سے بچنے میں مدد کی جاتی ہے۔
3۔ عورت کی سیاسی تربیت اور شیخ الاسلام
اسلام میں عورت کا کردار صرف خاندان یا معاشرے تک ہی محدود نہیں بلکہ اہلیت کی بنیاد پر عورت کو سیاسی اور ریاستی سطح پر بھی کردار دیا گیا ہے۔ قرآنِ حکیم میں مسلم معاشرے میں ذمہ داریوں کا تعین کرتے ہوئے مرد و خواتین دونوں کو برابر اہمیت دی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بے شک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہےo(التوبہ، 9: 71)
یعنی سیاسی دائرہ کار میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات کی اطاعت اور مرد و خواتین کے باہمی تعاون سے ہی ایک مثالی معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی خواتین کو عملی سیاسی میدان میں بطورِ سیاسی مشیر، انتظامی ذمہ داریوں پر تقرری، سفارتی مناصب پر تعیناتی، ریاستی دفاعی ذمہ داریوں میں نمائندگی اور عورت کا حقِ امان دہی جیسے مختلف حقوق دے کر ان کی سیاسی اہمیت کو واضح کیا ہے۔
ریاستِ مدینہ کے بعد پاکستان وہ پہلی اسلامی ریاست بنی جو اسلامی نظریے کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آئی۔ لیکن افسوس! بانیانِ پاکستان کی وفات کے بعد اس ملک پر لٹیرے اور سیاسی شعبدہ باز قابض ہو گئے۔ ان کی ہوسِ اقتدار نے 24 سال بعد اسے دولخت کر دیا۔ بقیہ وطن عزیز میں چند خاندان، چہرے، پارٹیاں یکے بعد دیگرے ملکی اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوتے رہے۔ حکمران مافیا نے عوام کے دکھوں کا احساس کیے بغیر ملک میں صوبائیت، لسانیت، مذہبی فرقہ پرستی، لوٹ مار اور بد امنی کی انتہا کر دی۔
ان دگرگوں حالات میں شیخ الاسلام ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ کا نعرہ لے کر میدان عمل میں آئے۔ آپ ایسی سیاست کو بچانا چاہتے تھے جو ریاست کو بچائے، جو ملک سے نفرتوں کو ختم کر دے اور ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی بجائے اسے ایک اکائی بنا کر رکھ دے۔ آپ نے ملکی، قومی اور بین الاقوامی حالات و واقعات اور معاملات کا انتہائی دقیق نظری سے مشاہدہ کرنے کے بعد قوم و ملت کی اپنے ماہرانہ تجزیہ و تعلیل سے راہنمائی کی۔ آپ نے اپنی قیادت میں امت کو خواب غفلت سے بیدار کر کے ملی شعور عطا کیا۔ ان میں غیرت و حمیت کو زندہ اور احساسِ زیاں کو بحال کر کے عظمتِ رفتہ کی بحالی کی تڑپ پیدا کی۔ آپ نے ملک کے استحصالی نظام کو بدلنے کے لیے پُر امن جد و جہد کی اور اس میں خواتین کو بھی عملی کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا۔ شیخ الاسلام نے سیاسی جد و جہد میں مردوں کے ساتھ خواتین میں بھی وطنِ عزیز میں حقیقی نظامِ جمہوریت کے قیام کا شعور بیدار کرتے ہوئے فرمایا:
عورت معاشرے کی ایک بھرپور اکائی ہے۔ اس کا زندگی کے ہر گوشے سیاسی، اقتصادی، عائلی اور تربیتی میں خاص کردار ہے۔ ملک کا مستقبل سنوارنے کے لیے نسلِ نو کی پرورش اور تربیت میں اس کا بڑا عمل دخل ہے۔
آپ نے خواتین کو آگہی دی کہ اسلامی معاشرہ ہو یا غیر اسلامی معاشرہ، مشرقی سوسائٹی ہو یا مغربی سوسائٹی، اس کے معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی نظام میں انسانی حقوق کو Establish کرنے میں اور اسے ایک مستحکم مضبوط ملک بنانے میں کوئی منصوبہ خواتین کی بھرپور شرکت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا کیونکہ عورت کو ذہنی، فکری، تعلیمی، تحقیقی اور انتظامی کسی طرح بھی صلاحیت میں مرد سے کم نہیں رکھا گیا۔ شیخ الاسلام کی تربیت کی وجہ سے خواتین میں بیداری شعور کی عظیم لہر پیدا ہوئی۔
شیخ الاسلام نے استحصالی نظام اور فرسودہ انتخابی نظام کو بدلنے کے لیے صاحبان اقتدار اور عوام کے ضمیر کو جھنجھوڑنے میں سالہا سال کی جد و جہد کی۔ جس کے نتیجے میں عوام کو شعور ملا کہ آئین کے آرٹیکل 63, 62 اور 218 پر پورا اترنے والے نمائندوں کو اسمبلیوں میں آنا چاہیے اور جو امیدوار اِن آرٹیکلز پر پورا نہیں اُترتے ان کا راستہ کاغذات نامزدگی کے مرحلہ پر ہی روک لیا جانا چاہیے۔
23 دسمبر 2012ء کے عظیم تاریخی دن شیخ الاسلام کی قیادت میں پاکستان عوامی تحریک اور ویمن لیگ کے پلیٹ فارم سے لاکھوں مردوں اور خواتین نے غیر آئینی انتخابی نظام کے خلاف عوامی جد و جہد کا آغاز کیا اور موجود فرسودہ سیاسی نظام کو جڑ سے اکھاڑنے اور بیداری شعور کے لیے اپنا پیغام پاکستان کی ہر گلی اور کوچے میں پہنچانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ ظالم نظام اور غیر آئینی الیکشن کمیشن کے حوالے سے کی جانے والی اس جد و جہد نے ہر طبقۂ زندگی پر اپنے اثرات مرتب کیے۔ شیخ الاسلام نے نظامِ انتخاب کی اصلاحات کے لیے مطالبات پیش کیے کہ انتخابی اصلاحات کے بغیر انتخاب ہوئے تو عوام کے حقیقی نمائندے اسمبلیوں میںکبھی نہیں پہنچ سکیں گے، آئینی الیکشن کمیشن ہی حقیقی جمہوریت لانے کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ دو ایسے آئینی، سیاسی اور جمہوری مطالبات تھے کہ جن کی اہمیت اور افادیت سے کوئی انکار نہ کر سکا مگر حکومت کی طرف سے آئین و قانون کے تقاضوں سے ہم آہنگ ان مطالبات پر کوئی سنجیدگی اور عملدرآمد نظر نہ آیا۔
جس کے نتیجے میں جنوری 2013ء میں شیخ الاسلام کی قیادت میں لاہور سے اسلام آباد کی طرف تاریخ ساز لانگ مارچ کیا گیا جس میں مردوں کے ساتھ خواتین بھی برابر کی شریک تھیں۔ اس لانگ مارچ میں خواتین نے سرد موسم کی شدت سے بے نیاز بہت بہادری کا مظاہرہ کیا۔ ان کا جوش و جذبہ دیدنی تھا۔ وہ موت سے بے خوف، حکومتی حربوں اور سازشوں سے بے پرواہ ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار تھیں۔ حکومتی ایماء پر جب پولیس نے شیخ الاسلام کے کنٹینر پر فائرنگ کر کے انہیں گرفتار کرنے کی مذموم کوشش کی تو عظیم مجاہد خواتین اس حکومتی حملے کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن گئیں۔
شیخ الاسلام کی قیادت میں یہ سیاسی جد و جہد جاری و ساری رہی مگر الیکشن 2013ء کے انتخابات میں وہی دھاندلی اور غیر شفافیت کا مظاہرہ ہوا۔ اس حکومت کے قیام کے بعد عوامی استحصال اور عوام کے حقوق کی پامالی کا ایک بدترین دور شروع ہوا۔ عوام کو ایک بار پھر اپنے حقوق کا شعور دینے اور اُسے اس استحصالی نظام سے نجات دلانے کے لیے شیخ الاسلام نے ایک اور کوشش کرنے کا فیصلہ کیا۔ لہٰذا 2014ء میں جب آپ نے ظالم نظام اور اس کے مخافظوں کے خلاف آئین کے دیے ہوئے حقِ احتجاج کو استعمال کرنے کا اعلان کیا تو جبر و استحصال کی مقتدر قوتوں اور سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ پس منظر کے حامل کرپٹ سیاستدانوں کو اپنا مستقبل تاریک نظر آنے لگا۔ انہوں نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے ہر مذموم کوشش کو بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا۔
اسی ضمن میں 17 جون 2014ء کو ماڈل ٹاؤن میں واقع شیخ الاسلام کی رہائش گاہ اور مرکزی سیکرٹریٹ تحریک منہاج القرآن کے اردگرد لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر لگے سکیورٹی بیرئیرز ہٹانے کے بہانے پنجاب پولیس کے مسلح اہلکاروں نے حکومتی ایماء پر ریاستی دہشت گردی کا بدترین مظاہرہ کیا۔ اس قتل و غارت اور حکومتی بربریت کی گھڑی میں مردوں کے ساتھ خواتین نے جو کردار ادا کیا اس کی مثال ملنا ناممکن ہے۔ درندہ صفت پولیس کی طرف سے بے رحمانہ لاٹھی چارج، آنکھوں اور گلوں کو کاٹ دینے والی زہریلی آنسو گیس کی شیلنگ، زخموں سے تڑپتے جسموں اور اندھا دھند سیدھی فائرنگ سے نہتی سیکڑوں خواتین زخمی اور 2 عظیم مجاہدات تنزیلہ امجد اور شازیہ مرتضیٰ نے جامِ شہادت نوش کر کے اپنے قائد سے حقِ وفاداری ادا کیا۔
اسی جدوجہد کے تسلسل، شہداء ماڈل ٹاؤن کے انصاف کے حصول اور وطنِ عزیز کی سا لمیت اور اس کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے شیخ الاسلام کی قیادت میں لاکھوں مرد وخواتین نے اسلام آباد کی طرف مارچ کیا۔ بعد ازاں اسلام آباد میں 70 دن کے دھرنے کے دوران پولیس کی بھاری نفری کے نرغے میں بربریت، شیلنگ، گرفتاریوں اور گولیوں کی بوچھاڑ میں مردوں کے ساتھ خواتین نے بھی آزمائشوں کا بہادری کے ساتھ سامنا کیا اور استقامت کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ کھلے آسمان تلے تیز ترین دھوپ، موسلا دھار بارش، اشیائے خورد و نوش کی قلت جیسے مسائل اور مصائب و آلام میں خواتین پہاڑ اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند سینہ سپر رہیں۔ یہ پر عزم خواتین بھوک، پیاس، نیند اور آرام سے بے نیاز جان ہتھیلی پر رکھ کر ڈٹی رہیں اور ان کے پایۂ استقلال میں ذرا برابر بھی لغزش نہ آئی۔ اپنے سیاسی حقوق کے لیے پرامن جدوجہد کی یہ مثال تحریک پاکستان کے بعد پاکستان کی تاریخ میں ملنا ناممکن ہے۔ خواتین کو اپنے سیاسی حقوق کے حصول کے لیے پر امن جدوجہد کا یہ شعور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے دیا۔
تاریخ گواہ ہے کہ تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کی ان پُر اَمن احتجاجی کاوشوں نے ناصرف پاکستان بلکہ دیگر ممالک کے عوام کے لیے بھی ایک نشانِ راہ کا فریضہ سر انجام دیا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے دنیا کو پُر اَمن احتجاج کا ڈھنگ سکھا دیا، جس کا برملا اظہار ملکی اور بین الاقوامی میڈیا نے بھی کیا۔ نیز بعد میں دیگر جماعتوں کے ہونے والے احتجاج اور دھرنے بھی انہی نقوشِ راہ کی پیروی کرتے ہوئے نظر آئے۔ گویا ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے کارکنوں کی اس جدوجہد کے نتیجے میں پوری قوم کی تربیت کا فریضہ سر انجام دیا ہے۔
خلاصہ کلام:
المختصر! شیخ الاسلام وہ نابغہ روز گار ہستی ہیں جنہوں نے خواتین کا معاشرے میں وہی کردار متعارف کروایا ہے جو آج سے پندرہ صدیاں قبل اسلام نے اُنہیں عطا کیا تھا۔یہ آپ ہی کا طرۂ امتیاز ہے کہ آپ نے معاشرے کے فرسودہ رسوم و رواج کے خلاف جہاد کر کیچادر، چاردیواری اور گھر گرہستی تک محدود کر دی گئی خواتین کی تعمیرِ شخصیت اس طرح کی کہ وہ آج احکامِ شرعیہ کی پابندی کے ساتھ معاشرے کا اہم ستون بن چکی ہیں۔ آپ کی یہ کاوشیں تاریخ کے سنہری اوراق کی زینت بنیں گی۔