علم آغازِ کائنات سے لے کر آج تک عظمتِ انسانیت کا امین ہے اور تسخیرِ کائنات کی منزل تک پہنچنے کا واحد ذریعہ بھی تخلیقی علم ہی ہے۔ زندہ علم وہی ہوتا ہے جو ہر دور کے تقاضوں کے مطابق نوعِ انسانی کی رشد و ہدایت اور فلاح کا ضامن قرار پائے اور تاریک راہوں میں چراغِ راہ بن کر کاروانِ حیات کو رواں دواں رکھنے میں ممد و معاون ثابت ہو۔ بلاشبہ علم کو ہر دور میں مؤثراتِ زندگی کے تغیرات کے ساتھ شریکِ سفر کرنے اور اسے تخلیقی صلاحیتوں سے نوازنے کے لیے فکر کی ضرورت رہتی ہے۔ ایسی فکر جو علم کے بے جان جسم میں روح کا کام دے۔ علم اور زندگی کا توازن برقرار رکھنے کے لیے علم کو تحرک اور ارتقاء سے آشنا کرنے کے بعد تازہ جہان آباد کرے کیوں کہ
افکارِ تازہ سے ہے جہانِ تازہ کی نمود
انسانی زندگی کے تحرک و ارتقاء میں فکر کی اس اہمیت کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی یوں بیان فرماتے ہیں:
فکر زندگی میں انسانی قدموں کی طرح چلتی ہے انسان جس طرح دایاں قدم اٹھاتا ہے پھر یہ قدم جب رکتا ہے تو بایاں قدم اس سے آگے نکلتا ہے پھر بایاں قدم اٹھاتا ہے تو دایاں قدم اس سے آگے بڑھتا ہے۔ الغرض جس عمل کے ساتھ انسان کی یہ رفتار آگے بڑھتی ہے بالکل اسی طرح اہلِ علم و فکر امتِ مسلمہ کی زندگی کو تحریک دے کر تغیراتِ زمانہ کے ساتھ چلنے کے قابل بناتے ہیں۔ ہر صاحبِ فکر قدم کی طرح قوم کی زندگی کو آگے بڑھاتا ہے۔
گویا ہر صدی اور ہر دور کے مفکرین اپنے دور کا جائزہ لے کر اپنے بعد میں آنے والے حالات کا ادراک کرتے ہیں۔ وہ قدیم افکار،اصطلاحات اور اکابرین کی خدمات کو سامنے رکھتے ہوئے ماضی، حال اور مستقبل کا عمیق نظری سے جائزہ لینے کے بعد اصلاح اورتجدید و احیاء کے لیے فکر وضع کرتے ہیں۔ ان کی یہ کاوش سالوں کی دہائیوں پر محیط ہوتی ہے۔ پھر اصلاحِ احوال کا ایک ڈھانچہ بنا کر اس کو کمالِ ہمت سے فکر کی روشنی میں نافذ کرتے ہیں۔ لیکن ان اصلاحی، فکری اور تجدیدی کاوشوں کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور ہر فکری کاوش کا دائرہ کار اس حد پر جا کر رک جاتا ہے جہاں تک اس کی منصوبہ بندی کی حد ہوتی ہے، مگر زمانہ مسلسل رواں دواں ہے اور احوالِ حیات ہر وقت تغیر پذیر رہتے ہیں، لہذا ان تغیرات کے ساتھ جب زندگی اس حد سے آگے گزر جاتی ہے تو نئے تقاضے پیدا ہو چکے ہوتے ہیں۔ اس وقت مذہبی اقدار نئی فکر اور اصلاحی کاوشوں کو ندا دیتی ہیں۔ انسانی زندگی کسی نئی فکری کام کی طرف نگاہ اٹھاتی ہے۔ اب اگر زندگی کو اس کی مطلوبہ ضروریات مہیا نہ کی جائیں تو زندگی سسکیاں لے لے کر دم توڑنے لگتی ہے۔ چنانچہ اس موقع پر اہلِ فکر و نظر توفیقِ خداوندی سے کاروانِ حیات کو آگے بڑھانے کا حوصلہ اور لائحہ عمل فراہم کرتے ہیں۔
اسی اصول کے تحت ہر دور میں اللہ تعالیٰ ایسی شخصیات کو امتِ مسلمہ میں پیدا فرماتا رہا جنہوں نے فکر کے ذریعے امت کے تشخص کو برقرا رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ تجدیدِ فکر و نظر کے ذریعے امتِ مسلمہ نے کم و بیش ایک ہزار سال تک اقوام عالم کی امامت کی، لیکن جب یہ فکر جمود و تعطّل کا شکار ہوئی تو زوال و انحطاط اِس امت کا مقدر ٹھہرا کیونکہ فکری جمود سے علم غیر مؤثر ہو جاتا ہے اور پھر اس سے جلا پانے والی تہذیب بھی دم توڑنے لگتی ہے۔ تاہم امت میں ایسی علمی و فکری شخصیات موجود رہیں جنہوں نے من حیث الکل امتِ مسلمہ کو زوال کا شکار نہیں ہونے دیا اور اپنے تجدیدی افکار و نظریات کے ذریعے اس کی ڈوبتی ناؤکو سہارا دئیے رکھا، ان نابغہ روز گار ہستیوں میں شیخ احمد سرہندی حضرت مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، سید جمال الدین افغانی، سر سید احمد خان اور ڈاکٹر علامہ محمد اقبال جیسی قابلِ قدر شخصیات شامل ہیں۔ انہوں نے خود کو اسلام کے ابدی اور دائمی عقائد و اعمال کی تفہیم اور تشریح کے لیے سلف و صالحین سے منسلک رکھا اور ان کے افکار ونظریات، اصلاحات اور خدمات کو سامنے رکھ کر اسلام کے ابدی اصولوں کی اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق پیش کر کے دینِ اسلام کو آنے والوں کے لیے قابلِ عمل بنایا۔
تجدیدِ فکر و نظر کا یہ سلسلہ اکیسویں صدی میں رکا نہیں بلکہ اس کی ضرورت گزشتہ ادوار سے بڑھ کر اس صدی میں پیش آ رہی ہے کیوں کہ جس صدی میں ہم رہ رہے ہیں یہ سائنس و ٹیکنالوجی اور نت نئی ایجادات و دریافتوں کا دور ہے۔ سائنس معاشرتی ترقی اور انفرادی ترقی کا لازمی جزو بنتی جارہی ہے۔ لہذا اس صدی میں یہ امر انتہائی خاص اہمیت اختیار کر چکا ہے کہ منطقی یا عقلی نقطہ نظر کو بحال کیا جائے اور جدید اسلامی فکر کی نشاۃ ثانیہ میں عصرِ حاضر کے تقاضوں کو بھی مدِ نظر رکھا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دور اور صدی کو ایک ایسی عظیم شخصیت اور ہستی سے نوازا ہے جن کی خدمات بلاشبہ جدید اسلامی فکر کی نشاۃ ثانیہ کے اہم زینے ہیں۔ جنہوں نے عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق نہ صرف فکرِ اسلامی کی تجدید کی بلکہ امتِ مسلمہ کی حیاتِ اجتماعی پر ایسے دور رس اثرات مرتب کیے ہیں جو آنے والے ادوار میں بھی اس کی ترقی اور عروج کی اساس اور بنیاد فراہم کرتے رہیں گے۔ زیرِ نظر آرٹیکل میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے افکار و نظریات اور امتِ مسلمہ پر اس کے اثرات کا مختصر جائزہ پیشِ خدمت ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے افکار و نظریات
1۔ قرآن افکار اسلامیہ کی اساس و بنیاد
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی فکر کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے اپنی فکر کی بنیاد قرآنی تعلیمات پر رکھی۔ ان کی گفتگو، خطابات اور علمی مجالس اس امر کی غماز ہیں کہ وہ روح قرآنی کے خلاف کوئی بات نہیں کرتے۔ انہوں نے اپنی تحریک کا نام منہاج القرآن رکھ کر اس کی فکری اساس کو روز اول سے ہی عیاں کر دیا کہ ہر وہ فکر اور نظریہ جو روح قرآن کے خلاف ہو اس کا میری فکر سے کوئی تعلق نہیں۔
حقیقی تصوف کا اجراء
آپ نے احوالِ امت اور عملی کیفیات کو سیرتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آئینے میں ڈھالنے کا بیڑا اٹھایا اور صالحیت و روحانیت کے کلچر کو فروغ دیا جو اطاعت، عبادات، تقویٰ و طہارت اور صدق اخلاص کے ساتھ مزین ہے۔ جس دور میں شیخ الاسلام نے اپنی جدوجہد کاآغاز کیا اس وقت تصوف کی پاکیزہ قدریں مجروح ہوچکی تھیں، خانقاہوں میں حقیقی سلوک وتصوف کی بجائے جامد، رسمی اور غیر عملی تصوف رہ گیا تھا۔ آپ نے رسمی تصوف کی ان تمام خرابیوں کو دور کیا جو کہ تصوف کے نام پر در آئیں تھیں اور اس حقیقی تصوف کی ان مٹتی ہوئی اقدار کا از سرِنو احیاء کیا جو اسلام کی روح تھا۔ آپ کا فلسفہ تصوف اس فکر پر مبنی ہے کہ تصوف محض تعلیمات کا مجموعہ نہیںبلکہ اس کا تعلق سرا سر عمل سے ہے اور تصوف کو عملی صورت میں ڈھالے بغیر انسان کبھی انسانِ مرتضیٰ نہیں بن سکتا۔
نظریہ اجتہاد
شیخ الاسلام کے افکار و نظریات میں اجتہاد کو بھی خاص اہمیت حاصل ہے۔ آپ نے علمی و فکری جمود کے ایک ایسے دور میں اسلام کی حقیقی تعلیمات پر مبنی اجتہادی فکر کے فروغ کا آغاز کیا جب امتِ مسلمہ کا ایک طبقہ اپنے سے کئی سو سال پہلے کیے گئے تحقیقی کام کو ہی حرف آخر سمجھنے لگا تھا اوربدلتے ہوئے حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے پر آمادہ نہ تھا۔ جب کہ اس کے ردِ عمل میں دوسرے طبقہ نے اپنے سے پہلے ادوار کے تمام قسم کے فقہی و تحقیقی کاموں اور ائمہ و مجتہدین کے اجتہادات سے برات کا اعلان کر رکھا تھا اور ان کی تقلید کو حرام قرار دیتے ہوئے اُن کے وضع کردہ اصول و قواعد اور ان کی تحقیقات کو بالکل نظر انداز کر دیا تھا۔ وہ اس بات پر مصر تھے کہ مجرد رائے کے حوالے سے کتاب و سنت کی تعبیرِ نو کی جائے اور ازسرِ نو ساری فقہ مرتب کی جائے۔ گویا علم فقط تعلیلی اور تحلیلی رہ گیا تھا۔ امت افراط و تفریط کا شکار ہوچکی تھی اور دورِ نو کے تقاضوں کے مطابق اسلامی تعلیمات کی تفہیم و تشریح کے لحاظ سے دینِ اسلام کے مرکزی دھارے (main stream)سے دور تھی۔
اس علمی و فکری سطح پر جمود کے تناظر میں شیخ الاسلام نے امتِ مسلمہ کی درست سمت رہنمائی کرتے ہوئے اسلام کے فلسفہ اجتہاد اور اس کے دائرہ کار کو ہر خاص و عام میں متعارف کرایا اور اسے عملی صورت میں امت کے سامنے پیش کیا۔ آپ کا فلسفہ اجتہاد اس بنیاد پر قائم ہے کہ تقلید اس طرح نہ کی جائے کہ وہ محض جمودِ خالص میں تبدیل ہو اور نہ ہی اکابرین اور اسلاف کے سرمایہ علمی سے لا تعلق ہوتے ہوئے ان کے افکار اور خدمات کا انکار کیا جائے کیوں کہ ان کے واسطہ کے بغیر دین کا علمی سرمایہ ہم تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔
فلسفہ تعلیم
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری اس نظریہ کے قائل ہیں کہ حقیقی تعلیم وہ ہے جو امتِ مسلمہ کے تابناک مستقبل، اعلیٰ عصری تعلیم، اسلامی اقدار کے احیاء اور فروغ کے مقاصد پر مبنی ہو، جو دینی و قومی امنگوں کی آئینہ دار ہو کیوں کہ عروج و بلندی اور ترقی کا ہر راستہ تعلیم و تعلم سے نکلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے افکار و نظریات میں جدید و قدیم علوم کو یکساں اہمیت حاصل ہے۔ اس کی مثا ل آپ کے زیرِ نگرانی قائم کردہ تعلیمی و تربیتی مراکز، سکول، کالجز اور یونیورسٹی ہیں جہاں جدید و قدیم علوم کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔
فلسفہ معیشت
آپ نے نہ صِرف معیشت کے علمی اور فلسفیانہ نظریات کو پیش کیا ہے بلکہ ان کا قابل عمل حل بھی پیش کیا ہے۔ مثلاً معاشی تخلیق کا عمل کیا ہے؟ دولت کی تقسیم اور اس کے صرف کا عمل کسی طرح واقع ہوتا ہے؟ اور دولت و محنت کا باہمی توازن کیا ہے؟ نہ صرف ان تمام سوالات کا جواب دیا بلکہ قرآنِ حکیم کی تعلیمات اور سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں مختلف جہات پر بھی بحث کی کہ کس طرح معاشی تخلیق کو مزمومہ مفادات سے پاک کر کے اور وسائلِ دولت پر محدود گروہوں کی اجارہ داری کو ختم کر کے تقسیمِ دولت کے ایک ایسے منصفانہ نظام کو رائج کیا جا سکتا ہے جس کے تحت کسی فرد کی تخلیقی جدوجہد میں معاشی تعطل باقی نہ رہے اور فرد و معاشرہ دونوں کسی سطح پر بھی حاجت مندی کا شکار نہ ہونے پائیں۔ اسی طرح آپ نے اسلامی نظامِ معیشت کا عملی نظام بلا سود بنکاری کی شکل میں دیا۔ جس میں آپ نے بتایا کہ دورِ حاضر میں بھی نہ صرف بلا سود بنکاری کا نظام قابلِ عمل ہے بلکہ اسی کو اپنانے میں ملک و ملت کی فلاح ہے۔
فلسفہ سیاست
فکری و نظریاتی سطح پر آپ کا سیاسی فلسفہ عدیم النظیر اور فقید المثال ہے۔ اگر کوئی شعیب میسر آجائے تو اس فلسفہ کی بنیاد پر انسانیت کے دکھوں کا مداوا کیا جا سکتا ہے۔ آپ کی سیاسی فکر اور نظریے کا اصل موضوع معاشرتی عدل و انصاف ہے۔ آپ کے افکار و نظریات اپنی نوعیت کے اعتبار سے فیصلہ کن اہمیت کے حامل ہیں۔ آپ کی تھیوری اور حکمتِ عملی کو بنیاد بنا کر عالمی سطح پر نتیجہ خیز ثمرات حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ آپ نے صرف سیاسی فلسفہ نہیں دیا بلکہ عملاً بھی مثالی جد و جہد کی۔
فلسفہ انقلاب
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا فلسفہ انقلاب یہ ہے کہ اسلامی اقدار اور افکار و نظریات کا عالمی سطح پر احیاء ممکن ہو۔ آپ کا فلسفہ انقلاب قرآن مجید کی آفاقی تعلیمات پر مبنی ہے۔ جس کے مطابق عالمی سطح پر غلبہ دینِ حق کی بحالی کا آغاز دعوتِ حق سے کرتے ہوئے سیاسی انقلاب بپا ہونے کی راہ ہموار ہو گی اور جب قوت نافذہ اہلِ حق کے پاس آئے گی تو پھر معاشی، معاشرتی، اور اقتصادی ڈھانچے بدل جائیں گے۔ معاشرے کی ہر ہر نہج کو ضابطہ حق میں ڈھال دیا جائے گا اور فکر و عمل کے پیمانے بدل جائیں گے۔ یوں دینِ حق پھر ماضی کی طرح شان و شوکت کے ساتھ عالمِ انسانیت کا رہنما و رہبر بن جائے گا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی فکر کے اثرات
مجموعی طور پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے فکر و نظر کی خصوصیات کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ آپ نے امتِ مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اجتماعی طور پر ہر میدان میں خواہ وہ دین سے متعلق ہو، معیشت کا ہو، سیاست کا ہو، انقلاب کا ہو، اصلاحِ احوالِ امت اور تصوف کا ہو،جدید عصری علوم و فنون ہوں ہر شعبہ زندگی میں امت کو فکری اور نظریاتی اعتبار سے غذا فراہم کی ہے، کیوں کہ جس طرح فقط علم سے مٹی ہوئی اقدار زندہ نہیں ہوتیں بلکہ مسمار شدہ قدروں کو فکر سے ہی زندہ کیا جا سکتا ہے اسی طرح علم زندہ اقوام کے لیے تو کار گر ہے مگر مردہ اقوام کو جگانے کے لیے تجدیدِ فکر کی ضرورت پڑتی ہے۔ بلاشبہ آپ کی جدید اسلامی فکر نے امتِ مسلمہ کے عروق مردہ میں ایک نئی روح پھونکی ہے اور اقوامِ عالم میں امت کے اعتماد کو اس انداز سے بحال کیا ہے کہ آنے والے دور میں آپ کے افکار و نظریات عروجِ امت کے لیے رہنما اصولوں کے طور پر استعمال ہوں گے۔
اس آرٹیکل کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی تصنیف منہاج الافکار اور ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی کتاب اسلامی فلسفہ اور مسلم فلاسفہ سے استفادہ کیا گیا ہے۔