اس موضوع پر لکھنا آج بہت ضروری ہوچکا ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں اب دو طبقات بن چکے ہیں۔ دونوں ہی انتہا پر ہیں اور شاید دونوں ہی اصل دین اسلام کی رو سے ناواقف ہیں۔ اس کا نقصان ہم اٹھا بھی رہے ہیں۔ پہلا طبقہ وہ ہے جو بظاہر اسلام کا علمبردار ہے۔ انکاحلیہ اور ان کے سلام دعا میں عربی کلمات سن کر ویسے بھی ہم ان کو اصل مسلمان تسلیم کرنے کو تیار ہیں۔ان کے مطابق اللہ کے ہاں عذاب ہی عذاب ہے ہر دوسرا بندہ کافر بھی ہے اور یہی طے کرتے ہیں کہ کون کتنا اچھا مسلمان ہے۔
اس پر مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی سے ان کے مرید نے کہا حضور مجھے کوئی نصیحت کریں۔ تو انہوں نے فرمایا ایک ہی نصیحت ہے۔ نہ خدا بننا اور نہ کبھی رسول بننا۔ تو ان کا مرید حیران ہو گیا اور پوچھنے لگا کہ کیا مطلب کوئی بھی انسان خدا یا رسول کیسے بن سکتا ہے۔ تو انہوں نے فرمایا یہ شان صرف خدا کی ہے کہ وہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔ اس لیے کبھی یہ آرزو نہ رکھنا جو میں چاہوں وہی ہو۔ کبھی ایسا ہو جائے جو تم چاہتے ہو تو شکر کرنا اور جب ایسا نہ ہو تو صبر کرنا۔ جو شخص ایسا سوچتا ہے کہ سب کچھ اس کی چاہ کے مطابق ہو تو یہ شان صرف خدا کی ہے۔ پھر فرمایا کہ یہ شان صرف رسول کی ہے کہ جو ان سے اختلاف کرے وہ کافر ہے۔ جو ان کی بات کو رد کرے وہ کافر ہے۔یہ شان کسی انسان کسی ولی کسی پیر کی نہیں کہ ان سے اختلاف کرنے والے کو کافر قرار دیا جائے۔ یہ سوچتا ہے کہ اس کی بات سے اختلاف کرنے والا شخص کافر ہو گیا یہ گستاخ ہو گیا ہے تو وہ شخص دراصل خودکو رسول سمجھتا ہے۔ نعوذباللہ۔
دوسرا طبقہ وہ ہے جو اسلام کو صرف انتہا پسند اور بڑا ظالم و سخت دین سمجھتا ہے۔ اور یہ لوگ دین سے دور ہو جاتے ہیں۔ ہم یہ کیوں بھول گئے ہیں کہ اسلام اعتدال اور میانہ روی کا دین ہے۔ بقول اقبال
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ پرفیکشن ازم ہے۔ ہم اپنے علاوہ سب کو پرفیکٹ دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم سنتے ہیں ناں رمضان المبارک شروع ہونے پر جب کوئی شخص روزہ رکھتا ہے یا عبادات کرنے لگتا ہے تو ہم کتنی آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ سارا سال تک نیکی نہیں اور اب مسلمان بن گیا ہے۔ یا یہ کہ تمہاری کوئی عبادت تو قبول ہی نہیں ہوگی یا تو ہمیشہ نیک رہو یا پھر ایک مہینے کیلئے بھی نیک نہ بنو۔ ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ اگر کوئی ایک سجدہ بھی کرتا ہے تو وہ توفیق ملنے پر ہی کر رہا ہوتا ہے۔ کبھی کسی کو کافی عرصے بعد نماز پڑھتا دیکھ لیں تو فوراً ہم کہہ دیتے ہیں کہ پڑھنی ہیں تو پوری پڑھو اور روز پڑھو یہ کیا کہ کبھی پڑھ لی کبھی چھوڑ دی۔ یہ نہیں قبول ہوگی۔ یہ بات سن کر ہی اگلا بندہ خوف میں آجاتا ہے اور سوچتا ہے کہ ہم نہیں نیک ہو سکتے اور جو اچھائی وہ کر رہا ہوتا ہے وہ بھی رہ جاتی ہے۔
لیکن ہمیں اپنے دین کی سمجھ تب ہی آئے گی ناں جب ہم یہ جاننا چاہیں گے کہ اللہ نے جو 114 سورتیں بھیجی ہیں آخر ان میں لکھا کیا ہے، جب ہم سمجھ جائیں گے کہ صرف عربی میں قرآن پڑھ لینا کافی نہیں اور نہ ہی یہ کتاب صرف اس لیے ہے کہ اس کو چوم کر غلاف میں لپیٹ کر رکھ دیا جائے بلکہ یہی تو بقاء ہے دنیا اور آخرت دونوں کی۔
یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تو رحمٰن الرحیم ہے۔ وہ تو ہماری ہر نیکی کو خواہ وہ کتنی ہی چھوٹی ہو قبول کر رہا ہوتا ہے۔ دین اسلام نماز، روزہ اور حقوق اللہ سے بہت بڑھ کر ہے۔ سورہ ماعون میں اللہ تعالی نے تو سزا اور جزا جھٹلانے والے کو کچھ یوں بیان کیا ہے۔
یہ وہی ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی تلقین کرتا ہے۔
تو بربادی ہے اور نماز پڑھنے والوں کے لیے جب نماز سے غافل ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جو دکھاوا کرتے ہیں اور عام استعمال کی چیزیں بھی مانگنے پر نہیں دیتے۔
سبحان اللہ۔ اسلام تو یہ ہے۔ مکمل حقوق العباد کا درس دینے والا دین ہے جہاں راستے سے پتھر ہٹانا بھی ثواب ہے۔ یہ مسلمان کی وہ تعریف ہے جو قرآن اور سنت میں ہے۔ اور ایک طرف ایسے لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں فلاں کا لباس ایسا تھا اس لیے وہ جہنمی ہے۔ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم نے کسی اور کے لباس کا نہیں بلکہ اپنے اعمال اور نظر کا حساب دینا ہے۔
اب ہمیں ہر اس سوال سے بھی نکل آنا چاہیے جو ایک بندے اور رب کے درمیان انفرادی طور پہ کیا جائے گا۔ اس پر غور کرنا ضروری ہے جو ہماری اجتماعی اور انسانی ذمہ داریاں ہیں۔
ہم سے یہ نہیں پوچھا جائیگا کہ آپ کے ہمسائے نے نماز پڑھی تھی یا نہیں لیکن یہ ضرور پوچھا جائیگا کہ آپ کا ہمسایہ بھوکا سویا تھا جب آپ نے سیر ہو کر کھانا کھایا تھا۔
ہم کتنے اچھے مسلمان ہیں، یہ بات جانچنے کا معیار صرف یہ تو نہیں کہ کون حافظِ قرآن ہے یا کون دن رات عبادت میں لگا ہوا ہے۔ ہمارا دین ہمارے اخلاق پر منحصر ہے کہ کیسے ہم انسانوں کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ اسلام کی بنیاد اگرچہ پانچ ستونوں پر بنائی گئی ہے مگر اس سے آگے بھی بہت سے ایسے خصائل ہیں جو ہمیں صحیح معنوں میں مسلمان بناتے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ سے حدیث نبوی ﷺ روایت ہے کہ:
الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَیَدِهِ.
مسلمان (کامل) وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔
من سلم المسلمون کا یہ مطلب نہیں ہے کہ غیرمسلم کو زبان یاہاتھ سے تکلیف دینا برا نہیں سمجھا جاتا۔ اس شبہ کو ختم کرنے کے لیے دوسری روایت میں من امنہ الناس کا لفظ بھی آتا ہے جہاں ہر انسان کیلئے یہی کہا گیا ہے۔
زبان سے محفوظ، یعنی کسی پر جھوٹ نہ بولیں, بہتان نہ لگائیں، الزام نہ لگائیں، کسی کے عیب نہ کھولیں، گالی نہ دیں، بد کلامی نہ کریں، اپنے الفاظ سے کسی کو تکلیف نہ دیں، کسی پر ایسا فقرہ نہ کسا جائے جس سے دوسرا شخص شرمندہ ہو اور غیبت نہ کی جائے۔
آج شاید سب سے زیادہ تکلیف ہم زبان سے ہی دیتے ہیں اور ہم اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ بعض اوقات ہم خود محسوس بھی نہیں کرتے کہ ہمارے الفاظ دوسروں کیلئے کیسے ہیں ۔ مثلاً ہم کسی کی بھی ظاہری صورت پر بول دیتے ہیں، کسی کی رنگت پر یا کسی بھی عضو پر۔ یا کسی کو اس کی جسامت پر مذاق کا موضوع بنا لیتے ہیں، اور پھر اسی بنیاد پر کوئی بھی نام رکھ لیتے ہیں اور اس نام سے اسے پکارتے بھی ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو ہم پیار سے کہہ رہے ہیں یا مذاق میں کہہ دیا۔ تو جان لیں! یہ نہ ہی مذاق ہے نہ ہی پیار کرنے کا طریقہ، یہ سرارسر غیر انسانی رویہ ہے جس کے حق میں دیا جانے والا ہر جواز بے معنی ہے۔ بجائے کسی کو ایسا کہنے کے، "موٹے لگ رہے ہو، پتلے لگ رہے ہو, ایسے کپڑے کیوں پہنے" صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ "اچھے لگ رہے ہو"۔ کم از کم سننے والے کو خوشی ہی دے دیں جو کہ ہمارے لئے آسان سا کام ہے۔
ہاتھ سے محفوظ، یعنی چوری نہ کی جائے، کسی کے مال پر قبضہ نہ کیا جائے، امانت میں خیانت نہ کی جائے، مال میں ملاوٹ نہ کی جائے، رشوت خوری سے بچا جائے، قتل و غارتگری سے دور رہا جائے اور کسی کو تشدد کا نشانہ نہ بنایا جائے۔
اب ہم اگر اس ایک حدیث کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے سوچیں تو واضح ہو جائیگا کہ ہم کتنے مسلمان ہیں۔
ہم دوسرے انسان کیلئے بہت جلدی بدگماں ہوتے ہیں، جبکہ ابن القیم کے مطابق:
"اگر میں دیکھوں کہ کسی کی داڑھی سے شراب ٹپک رہی ہے، تو میں یہ سمجھوں گا کہ کسی نے اس پر گِرا دی ہوگی، اگر میں دیکھوں کہ کوئی پہاڑ کی چوٹی پہ کھڑا ہو کر کہہ رہا ہے کہ میں خدا ہوں، تو میں یہ سمجھوں گا کہ وہ کسی آیت کی تلاوت کر رہا ہے۔
’’ایک مومن کو تو اپنے بھی اعمال کا احتساب نہیں ہوتا اسے کیا حق کہ وہ کسی دوسرے کیلئے بدگمان ہوتا پھرے۔‘‘
اور ہم کتنے جلدی دوسروں کے بارے میں ایک رائے قائم کر لیتے ہیں۔ اور اسے حتمی بھی سمجھتے ہیں۔
تاریخ کا مختصر ترین خطبہ جُمعہ سوڈان کے شیخ عبد الباقی المکاشفی نے دیا۔ وہ ممبر پر بیٹھے اور فرمایا:
’’بھوکے مسکین کے منہ میں ایک لقمہ پہنچانا ہزار مساجد کی تعمیر سے بہتر ہے۔ صفیں درست فرما لیں۔‘‘
میری خواہش ہے کہ ہم بجائے طویل خطبے سنانے کے وہ بھی جن میں صرف اللہ کی بندوں پر سختی اور بار بار فرض عبادت کی ادائیگی کا حکم دیا جاتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اگر ہم یہ بھی بتایا کریں کہ اسلام انسانوں کے کیسا سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور نبی کریم ﷺ کی سیرت کو بیان کریں تو یقیناً فلاح پائیں۔
حضور ﷺ کی زندگی کا تو ہر پہلو ہمارے لئے ہدایت ہے۔ طائف میں ان کا صبر کا، فتح مکہ کے موقع پر معاف کر دینا، غیر مسلموں سے رویہ، اہل و عیال کے ساتھ آپ کا سلوک۔ غرض ایک ایک عمل ہماری زندگی کو بہترین بنانے کیلئے ہی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے ہاں، عبادات کرنے کے ساتھ ساتھ احکامات پر عمل کرنے کی اہمیت زیادہ ہے۔ جیسا کہ روزہ دار سے متعلق حدیث مبارکہ ہے کہ:
مَنْ لم یَدَعْ قولَ الزورِ والعملَ به، فلیسَ الله حاجَةٌ ان یَدَعَ طعامَه وشرابه.
جو شخص روزہ رکھتا ہے اور جھوٹ اور برے عمل نہیں چھوڑتا تو اللہ پاک کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
ایک اور حدیث ہے کہ:
لیس الصیام من الاکل والشرب إنما الصیام من اللغو و الرفث فإن سابک احد او جهل علیک فلتقل إنی صائم إنی صائم.
روزہ صرف کھانا پینا چھوڑ دینے کا نام نہیں ہے روزہ ہر برے طرزِ عمل کو چھوڑنے کا نام ہے۔ پس کوئی شخص تمہیں گالی دے یا تم سے جھگڑا کرے تو پس تم اس سے کہو کہ میں روزے سے ہوں، میں روزے سے ہوں۔
اعمال کا اچھا ہونا، احکامات کی پیروی کرنا بہت ضروری ہے۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
تسبیح پھِری تے دل نہیں پھریا، کی لینا تسبیح پھڑ کے ھو
علم پڑھیا تے ادب نہ سکھیا، کی لینا علم نوں پڑھ کے ھو
چِلّے کٹّے تے کجھ نہ کھٹیا، کی لینا چلّیاں وڑ کے ھو
جاگ بِنا ددھ جمدے ناہیں باھوؒ، بھانویں لال ہونْون کڑھ کڑھ کے ھو
جب تک بنیادی اخلاقیات نہ ہوں تو انسان کی عبادات بھی بے معنی رہتی ہیں۔ ابلیس اللہ کا سب سے زیادہ عبادت گزار فرشتہ تھا۔ اسے شیطان اس لئے نہیں بنایا گیا کہ اس نے اللہ کی عبادت کرتے سے انکار کیا تھا بلکہ اس نے حکم ماننے سے انکار کیا تھا۔
اسی طرح یزید اللہ کو بھی مانتا تھا اور نمازی بھی تھا۔ لیکن احکامِ الٰہی کا منکر تھا, بدکار تھا، شرابی تھا، منافق، فاسق اور ظالم تھا۔
اسلام ایک وسیع اور مکمل دین ہے۔ اسی میں ہماری بقا ہے۔ اسلام نام ہے، اچھے اخلاق کا، حسنِ سلوک کا، معاف کر دینے کا، محبت کرنے کا، درگزر کرنے کا، صلہ رحمی کا، حق کیلئے لڑنے کا، علم حاصل کرنے کا، سائنس کو جاننے اور اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی کائنات کو کھوجنے کا اور انسانیت کا۔
کسی بھوکے کو کھانا کھلا کر، روتے ہوئے کو ہنسا کر، کسی ایسے کی مدد کر کے کہ جس سے صلے کی امید نہ ہو، والدین سے حسنِ سلوک کر کے ان سے دعائیں لے کر، اللہ کی رضا کیلئے معاف کر کے، اپنے اخلاق کو اعلیٰ بنا کر اور سیرت النبی ﷺ پر عمل کرنے کی کوشش میں واقعی اصل مسلمان بن سکتے ہیں۔
دعا ہے کہ ہم دوسروں کیلئے آسانیاں پیدا کرنے والے بنیں اور اللہ ہمارے لئے دونوں جہان کی آسانیاں پیدا فرمائے۔ آمین۔