بلا شبہ وطن عزیز پاکستان قدرت خداوند کی قیمتی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے۔ برصغیر کے لوگوں نے الگ آزاد ملک پاکستان کے حصول کیلئے قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں طویل عرصہ جدوجہد کی۔ ان لوگوں میں خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ اس جدوجہد میں شریک رہیں اور جانی و مالی ہر قربانی سے دریغ نہ کیا۔ تحریک آزادی کی بات کی جائے تو خواتین میں سرفہرست دختر قائد محترمہ فاطمہ جناح، بیگم لیاقت علی رعنا، بیگم محمد علی جوہر، بیگم سلمی تصدق حسین، بیگم وقارالنساء، بیگم حسرت موہانی اور دیگر نظر آتی ہیں۔ تحریک آزادی میں مثالی کردار ادا کرنے اور خواتین کی سرخیل کی حیثیت سے محترمہ فاطمہ جناح کو مادر ملت کے خطاب سے بھی نوازا گیا۔ اپنے بھائی اور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کی طرح مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح بھی سیاسی بصیرت، قیادت، جرات مندی اور ایثار و قربانی کے جذبوں سے مالامال تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک پاکستان کے لیے ان کی بے لوث محنت اور انتھک جدوجہد آنے والی نسلوں کے لیے ایک مثال بن گئی۔ محترمہ فاطمہ علی جناح پیشے کے اعتبار سے دندان ساز (Dentist) تھیں لیکن قائداعظم محمد علی جناح کی اہلیہ کی وفات کے بعد ان کی خدمت کی خاطر اپنی پریکٹس چھوڑ کر ان کی قریبی ساتھی اور مشیر بن گئیں۔ قراردادِ پاکستان کی منظوری کے بعد برصغیر کے طول و عرض کے سیاسی دورے ہوں، خواتین میں علیحدہ مسلم ریاست سے متعلق شعور بیدار کرنے کا معاملہ ہو، مسلمانوں کو منظم اور متحرک کرنا ہو یا پھر تحریکِ پاکستان کے لیے مالی اعانت کے مسائل کا حل، محترمہ فاطمہ علی جناح قائداعظم کے شانہ بشانہ رہیں۔ نہ صرف قائد اعظم کی زندگی میں بلکہ ان کی وفات کے بعد بھی محترمہ فاطمہ جناح کی ملکی معاملات پر مضبوط گرفت پاکستان کے لیے ایک سنہرا اور روشن باب ثابت ہوئی۔
بیگم رعنا لیاقت علی خان کی خدمات کا ذکر کیے بغیر تحریکِ پاکستان کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے قرار دادِ پاکستان کے مسودے کی تیاری کے دوران اہم کردار ادا کرتے ہوئے چند کلیدی نکات بتائے۔ معاشیات (Economics) میں ماسٹرز ہونے کے باعث آپ نے تحریکِ پاکستان جناح کمیٹی میں بطور اقتصادی مشیر خدمات سر انجام دیں۔ بیگم رعنا لیاقت علی پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی بیگم تھیں، اس طرح وہ پاکستان کی پہلی خاتون اوّل تھیں۔ اس کے علاوہ انھیں تحریکِ پاکستان کی کارکن اور سندھ کی پہلی خاتون گورنر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ آپ نے مملکتِ خداداد میں عورتوں کو با اختیار بنانے سے متعلق پروگرام کا آغاز کیا۔ 1950ء میں آپ ہالینڈ میں پاکستان کی پہلی سفیر مقرر کی گئیں جبکہ 1960ء میں اٹلی اور بعدازاں تیونس میں بھی بطور پاکستانی سفیر خدمات سر انجام دیں۔ 1952ء میں آپ کو اقوام متحدہ میں پاکستان کی پہلی خاتون نمائندہ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا جبکہ 1973ء سے 1976ء کے دوران پاکستان کی پہلی خاتون گورنر (سندھ) کے طور پر فرائض نبھائے۔ پاکستان ویمن نیشنل گارڈ، ویمن نیول ریزرو، گھریلوں صنعتوں، تعلیمی اداروں بالخصوص ہوم اکنامکس کی تعلیم کے اداروں کے علاوہ پاکستان میں پہلی غیر سرکاری تنظیم اپوا (APWA) قائم کرنے کا سہرا بھی بیگم رعنا لیاقت علی خان کے سر ہے۔
بیگم جہاں آرا شاہنواز کا شمار بھی تحریک پاکستان میں نمایاں کردار ادا کرنے والی خواتین میں ہوتا ہے۔ آپ مسلمانوں کی نمائند ہ جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کا نام تجویز کرنے والے عظیم سیاسی رہنما سر میاں محمد شفیع کی صاحبزادی تھیں۔ بیگم جہاں آرا شاہنواز کو آل انڈیا مسلم لیگ کی پہلی خاتون رکن ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی خاتون سیاسی رکن ہونے کے باعث انہوں نے تینوں گول میز کانفرنسوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کی۔ اس کے علاوہ لیگ آف نیشنز کے اجلاس سمیت آپ نے مزدوروں کی بین الاقوامی کانفرنس میں بھی شرکت کی۔ 1930ء میں برطانیہ سے جن اہم سیاسی رہنماوں کو گول میز کانفرس میں مدعوکیا گیا تھا، ان میں بیگم جہاں آرا کے علاوہ اہل خانہ سے ان کے والد اور بیٹی ممتاز شاہنواز نے بھی شرکت کی۔ قیام پاکستان سے قبل بیگم جہاں آرا کو دو مرتبہ پنجاب اسمبلی کا رکن منتخب کیا گیا جبکہ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔
بیگم جہاں آرا شاہنواز کی بیٹی ممتاز شاہنواز نے بھی مسلمانوں کے لیے علیحدہ ریاست کی جدوجہد کی۔ وہ 16اپریل 1948ء کو آئرلینڈ میں گرنے والے امریکی طیارے میں سوار تھیں اور یوں 29 مسافروں کے ساتھ راہِ عدم کی مسافر بن گئیں۔
تحریک پاکستان میں ایک اہم کردار بیگم زری سرفراز کا بھی ہے جن کا اصل نام زرنگار تھا۔ بیگم زری سرفراز نہ صرف تحریک پاکستان کی ایک سرگرم کارکن تھی بلکہ پاکستان کے قیام کے بعد بھی بطور سیاستدان آپ نے اپنی تمام تر زندگی خواتین کی بہتری کو فروغ دینے کے لیے وقف کر دی۔ آپ کا تعلق خیبر پختونخواہ کے علاقے مردان کے ایک معزز اور امیر گھرانے سے تھا۔ والد خان بہادر سرفراز علی خان، قائد اعظم محمد علی جناح سے دلی لگاو رکھتے تھے جبکہ والدہ کوکب علی خان مسلم لیگ کی جنرل سیکرٹری تھیں۔ مردان میں مسلم لیگ خواتین کی داغ بیل ڈالی جبکہ صرف ایک سال بعد یعنی 1945 میں برصغیر کی مسلم لیگی خواتین کی کانفرنس منعقد کروانے کا سہرا بھی آپ کو ہی جاتا ہے۔ 1945ء میں انہیں مردان مسلم لیگ کی جنرل سیکرٹری منتخب کیا گیا۔ آپ کی دن رات کی گئی محنت کے باعث مسلم لیگ نے ضمنی انتخاب میں اہم نشست پر کامیابی بھی حاصل کی،1947ء میں سول نافرمانی اور وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن کے پشاور کے دورے کے موقع پر بھی مظاہروں کی قیادت کر کے گراں قدر خدمات انجام دیں۔
تحریک آزادی پاکستان کی عظیم جدوجہد میں برصغیر کی خواتین نے جلسے جلسوں اور ریلیوں میں بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔ قریہ قریہ کوچہ کوچہ تحریک آزادی پاکستان کی تڑپ اور مقصد کو اجاگر کرنے میں خواتین نے بھرپور کردار ادا کیا۔ خواتین کی گھر گھر رابطہ مہم کی بدولت عام آدمی بھی قیام پاکستان کی ضرورت و اہمیت کو اچھی طرح جان چکا تھا۔ قیام پاکستان کیلئے خواتین نے تحریک آزادی میں جان ڈالی اور اپنی بہادری اور جوش و جذبے سے جو داستان رقم کی ہیں وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔
تحریک آزادی پاکستان میں خواتین کا کردار اس وقت ابھر کر سامنے آیا جب 1938ء میں قائد اعظم محمد علی جناح نے آل انڈیا مسلم لیگ خواتین کمیٹی کا اعلان کیا۔ آپ نے ہندوستان کے ہر صوبے سے تجربہ کار اور جرأت مند خواتین پر مشتمل نمائندگان کو نامزد کیا۔ جس کے بعد کم و بیش ہر عمر کی خواتین نے باقاعدہ مسلم لیگ کی رکنیت حاصل کرنا شروع کر دی۔ خواتین کو منظم و مربوط کرنے کیلئے ہندوستان کے ہر ضلع میں خواتین کے فورمز اور کمیٹیاں بننا شروع ہو گئیں۔ بعدازاں ضلعی سطح پر منظم تنظیم سازی مکمل کرنے کے بعد حلقہ جات کا قیام عمل میں لایا گیا۔
قیام پاکستان سے قبل ہندوستان میں مسلمان بچوں اور بچیوں کیلئے تعلیمی اداروں کی تعداد نہایت کم تھی۔ لہٰذا ضرورت کے مطابق اپنی مدد آپ کے تحت مختلف علاقوں میں تعلیمی مراکز کا قیام بھی عمل میں لایا گیا اور تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ طلبہ و طالبات میں تحریک آزادی پاکستان کی جدوجہد کو بھی پروان چڑھنے کا موقع میسر آیا۔ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل خواتین مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی کارکردگی کے جوہر دکھانے لگیں۔ بعض خواتین نے ناخواندہ کی تعلیم و تربیت کیلئے تعلیم بالغان کی غرض سے مختلف تعلیمی ادارے بھی قائم کیے۔ جذبہ آزادی سے سرشار خواتین نے بلا معاوضہ و نام و نمود خلوص نیت اور جانفشانی سے قیام پاکستان کیلئے جدوجہد جاری رکھی۔
قائد اعظم محمد علی جناح مختلف مواقع پر خواتین کی حوصلہ افزائی بھی کرتے اور ان کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتے جس سے خواتین کا جذبہ اور جوش و خروش مزید بڑھ جاتا۔ 1946ء میں دہلی میں خواتین کے اجلاس سے قائد اعظم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ سب متحد ہیں اور دراصل آپ کا اتحاد ہی بہت بڑی چیز ہے۔ آپ کا یہ اتحاد اور تنظیم ہی ہمیں باہم کامیابی تک پہنچاسکتا ہے۔ آپ نے بہت زیادہ کام کئے مگر میری ہدایت ہے کہ آپ اور زیادہ متحد ہوجائیں اور اس سے بھی زیادہ جوش و خروش سے کام کریں۔
تحریک آزادی پاکستان کے دوران خواتین پر حکومتی گماشتوں کی جانب سے لاٹھی چارج بھی کیا گیا اور جیلوں میں بھی بند کیا گیا۔ 1947ء میں جب مسلم لیگ نے لاہور میں حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک چلائی تو مختلف مظاہروں میں خواتین کو بھی گرفتار کیا گیا۔ خواتین کی انتھک محنت اور قربانیوں کی طویل داستان کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ سیاست کے میدان میں ان خواتین نے سخت پابندیوں اور اعصاب شکن ماحول میں اپنی مثالی خدمات کے عظیم جوہر دکھائے۔
قیام پاکستان میں خواتین کی بے مثال جدوجہد کے بعد عصر حاضر میں اگر ہم شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قائم کردہ خواتین کی نمائندہ تنظیم منہاج القرآن ویمن لیگ کی کارکردگی اور خدمات کا جائزہ لیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ منہاج القرآن ویمن لیگ دور حاضر میں تمام تر مشکلات اور چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے پاکستان کی بقاء و سلامتی، دین متین کے فروغ و اشاعت، خواتین کی اخلاقی و روحانی، فکری و نظریاتی تربیت اور خواتین کو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں باصلاحیت و ہنرمند بنانے کیلئے فقیدالمثال کارہائے نمایاں سرانجام دے رہی ہے۔ علاوہ ازیں تحفظ حقوق نسواں اور امن عالم کی یہ تحریک زندہ و جاوید اور قابل فخر، ترقی یافتہ مسلم امہ کی تیاری میں مسلسل مصروف عمل ہے۔
منہاج القرآن ویمن لیگ نے جہاں تعلیم و تربیت کے میدان میں اپنا کردار ادا کیا ہے وہیں وطن عزیز پاکستان سے ظلم و جبر، ناانصافی و لاقانونیت کے خلاف سماجی برائیوں کے خلاف بھی عملی جدوجہد کی ہے۔ ظالم و جابر حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق بلند کیا وہاں حکومتی جبر و استبدال کے سامنے اپنی جانوں کا نذرانہ دینے سے بھی دریغ نہ کیا۔
منہاج القرآن ویمن لیگ نہ پاکستان بلکہ براعظم ایشیاء کی منظم و مربوط جماعت ہے جو خواتین کی فلاح و بہبود اور پاکستان کی تعمیر و ترقی میں اپنا مثالی کردار ادا کر رہی ہے۔ یہ تنظیم شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ویژن کے مطابق خواتین کی تعلیمی، معاشی، معاشرتی، سماجی اور سیاسی شعبوں میں رہنمائی اور امپاورمنٹ کیلئے سرگرم عمل ہے۔ اپنے قیام کے آغاز سے ہی خواتین میں سیاسی شعور کی بیداری اور وطن عزیز پاکستان سے محبت کے جذبہ کو ابھارنے کیلئے منہاج القرآن ویمن لیگ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ منہاج القرآن ویمن لیگ نے دکھی، بے سہارا اور معاشرے کی کم آمدن والے خاندانوں کو مالی معاونت کیلئے قائم کردہ ویلفئیر سیل کے تحت نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ممالک بھی دکھی انسانیت کی فلاح و بہبود میں پیش پیش نظر آتی ہیں۔ اگر صرف وطن عزیز پاکستان کی بات کی جائے تو منہاج القرآن ویمن لیگ نے اپنے ویلفئیر پلیٹ فارم سے پاکستان کے کم و بیش ہر ضلع میں نمایاں سرگرمیاں نظر آتی ہیں۔ ویلفئیر کے اس شعبہ کے تحت غریب گھرانوں کی بچیوں کی شادی میں جہیز دینا، بچیوں کو ہنرمند بنانے کیلئے سلائی سینٹرز میں فنی وتکنیکی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنا، گھروں میں راشن تقسیم کرنا اور دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی جیسے امور سرفہرست ہیں۔
خواتین کو ہنرمند اور باصلاحیت بنانے کیلئے ہنر گھر کا قیام بھی منہاج القرآن ویمن لیگ کا ہی ایک شعبہ ہے۔ یہ شعبہ خواتین کو معاشرے کا قابل فخر اور باصلاحیت فرد بنانے کیلئے مختلف فنی و تکنیکی کورسز کرواتا ہے جس کی بدولت معاشرے کو باصلاحیت اور ہنر مند خواتین مل رہی ہیں اور اس ہنر گھر کی بدولت خواتین باعزت روزگار کما رہی ہیں۔ علم و تحقیق کے میدان میں منہاج القرآن ویمن لیگ کی ریسرچ اسکالرز فرید ملت ریسرچ انسٹیٹیوٹ سمیت پاکستان کے نامور اداروں میں اپنے ہنر اور علم و فن کا لوہا منوا رہی ہیں۔
اگر دنیا بھر میں خواتین کے حقوق اور تقدس و احترام کی بات کی جائے تو جو تقدس اور عزت و وقار اسلام نے عطا کیا ہے وہ دنیا کے دیگر کسی مذہب میں اتنے وسیع انداز میں موجود نہیں اور اہل مغرب تو اس کا تصور پیش کرنے سے بھی عاری ہیں۔ منہاج القرآن ویمن لیگ نے دیار غیر میں مسلم عورت کی دینی خطوط پر تربیت کا فریضہ بھی بحسن و خوبی نبھایا تاکہ وہ اپنی سیرت و کردار کی عظمت کو مغرب کے معاشرے میں بھی برقرار رکھ سکے اور اس کا کردار مغربی معاشرے کی عورت کے لئے مشعل راہ ہو۔ اس سلسلے میں منہاج القرآن ویمن لیگ نے پورے یورپ میں گھر گھر جا کر مشن کا پیغام پہنچایا۔ بیرون ممالک قائم شدہ منہاج القرآن کے اسلامک سینٹرز میں خواتین کی تعلیم و تربیت کیلئے باقاعدہ ہفتہ وار تربیتی نشستوں کا اہتمام کیا جاتا ہے اور گھروں میں اجتماعی طور پر خواتین کیلئے حلقہ درود کا قیام بھی کیا جاتا ہے۔ الغرض منہاج القرآن ویمن لیگ بیرون ممالک میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص خواتین کے حقوق کی علمبردار اور نمائندہ تنظیم کی حیثیت سے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی نادرالمثال خدمات کا سفر جاری رکھے ہوئے اور ملک و ملت کی تعمیر و ترقی کے زینوں پر عازم سفر رہے ان شاء اللہ یہ سفر تاقیامت جاری رہے گا اور ترقی کی منازل طے کرتا رہے گا۔