انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی، عائلی زندگی ہو یا معاشرتی خواتین کائنات کا لازمی جز ہیں۔ معاشرے کی ترقی یا تنزلی کا مکمل انحصار عورت پر ہے۔ عورت کے بغیر دنیا ہی نامکمل ہے۔ اگرچہ عورت کی حیثیت مختلف ادوار میں مختلف رہی۔ جن کی نوعیت ہر دور کے حالات کے مطابق مختلف رہی۔ اگر ہم اسلام سے قبل معاشرے کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ کسی مذہب میں تو خواتین کو بے روح شے سمجھا جاتاتھا جبکہ کسی مذہب میں خواتین کو معاشرے کی مشترکہ ملکیت سمجھا جاتا تھا۔ سارا معاشرہ اسے جیسے چاہتا استعمال کرتا، اسی طرح کسی مذہب میں خواتین کو تمام فسادات اور برائیوں کی جڑ سمجھا جاتا رہا۔
گویا عورت تمام انسانی حقوق سے محروم رکھی جاتی۔ اسے زندہ درگور کردینا معاشرے میں معمول کی بات سمجھی جاتی تھی۔ ہر نبی مختلف ادوار میں تشریف لاتے رہے جن کی تعلیمات اس وقت کی قوم، حالات یا علاقہ کے مطابق ہوتیں جبکہ آخری نبی محمد مصطفی ﷺ کو اللہ پاک نے جامع اور مکمل دین اسلام عطا کیا جس کی تعلیمات قیامت تک ہر دور، ہر علاقہ اور زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتیں ہیں۔ گویا کہ آپ ﷺ نے خواتین کے حقوق مقرر کیے۔ آپ ﷺ نے عورت کو ماں کے روپ میں جنت کی ضمانت بناتے عزت اور وقار سے نوازا، بہن اور بیٹی کی نیک تربیت پر جنت کی بشارت دی، بیوی کو محبت، وفاداری کا پیکر بناتے ہوئے اس کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا۔ گویا کہ آپ ﷺ نے ماڈریشن اور اعتدال کا راستہ اپناتے ہوئے عورت کو وہ وقار عطا کردیا جس کی مثال نہیں ملتی۔
بدقسمتی سے آج کے پرفتن دور میں خواتین کو دو انتہاؤں کے درمیان لاکھڑا کردیا گیا ہے۔ غیر تربیت یافتہ بدحال معاشرے میں خواتین بے شمار چیلنجز کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔ ایک انتہا پر وہ طبقہ ہے جو خواتین کو صرف گھریلو کام کاج تک محدود رکھنا چاہتا ہے۔ یہ طبقہ خواتین کو تمام بنیادی حقوق سے ہی محروم رکھنے کا قائل ہے۔ جس میں ذہنی اور جسمانی تشدد، تعلیم جیسے بنیادی حق سے محرومی، زبردستی اور کم عمر میں شادی، حق ملکیت اور حق مہر جیسے بنیادی حقوق سے محرومی ہے۔ اس طبقہ میں عورت کو ہمیشہ زیردست رکھنے کے تمام حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح دوسری انتہا پر وہ سوچ ہے جو لبرل ازم جن میں ازم کے نام پر مغربی تہذیب سے متاثر دکھائی دیتی ہے۔ ان دو انتہاؤں کے درمیان آج کی خواتین اپنی پہچان اور کردار کے تعین میں متزلزل ہیں۔ یہ دونوں انتہائیں خواتین کے حقیقی مقام و مرتبے کاانحراف ہیں۔ اکیسویں صدی میں خواتین کے لیے یہ سب سے بڑا چیلنج ہے کہ وہ اپنے اصل کو پہچانے۔ ایک طرف چار دیواری اور محفوظ قلعے سے آزادی کے مطالبات ہیں اور عائلی زندگی کا انکار ہے تو دوسری طرف خواتین کے بنیادی حقوق کا استحصال اور ظلم و جبر ہے۔ ایک طرف جاہلانہ اور ظالمانہ معاشرتی اور روایتی رسومات نے خواتین کو جکڑ رکھا ہے جبکہ دوسری طرف انتہا پسندانہ سوچ نے عورت کے حقیقی تشخص کو دھندلادیا ہے۔
جدید دور میں خواتین کو درپیش چیلنجز میں عقائد کا درست نہ ہونا بھی بہت خطرناک شکل اختیار کرچکا ہے۔ عقائد کے لحاظ سے معاشرے میں بے شمار فکریں، سوچیں یا مذاہب پروان چڑھ رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق الحاد معاصر دنیا کا مقبول ترین عقیدہ ہے۔ اس عقیدے کے ماننے والے ملحدین کہلاتے ہیں جن کے مطابق روحانی اور غیب کی دنیا کا کوئی وجود نہیں۔ سائنس ہی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ مذہب روحانیت اور دین کا سرے سے انکار اس مذہب کا بنیادی عقیدہ ہے۔سیکولرازم اور الحاد جیسے فکر و نظریات معاشرے میں بہت تیزی سے پھیلتے جارہے ہیں۔
سیکولرازم سے مراد دین و مذہب کو فرد کی اجتماعی، سیاسی، ریاستی اور ہر قسم کے معاشرتی معاملات سے علیحدہ رکھنا ہے۔ یہ عقیدہ دین اور دنیا کو دو الگ الگ حصوںمیں تقسیم کرتا ہے اور مذہب کی مداخلت کا سختی سے منکر ہے۔ روز ہزاروں کی تعداد میں خواتین ان بدعقائد کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔ موجودہ دور میں بدعقائد میں سے تیزی سے پھیلنے والا عقیدہ تاجدار کائنات حضرت محمد ﷺ کی عظمت و رفعت سے انکار ہے۔ عقیدہ ختم نبوت سے انکار ایک فتنے کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ موجودہ مادی اور سائنسی ترقی یافتہ دور میں ان بدعقائد کی عالمگیر تحریکیں جنم لے رہی ہیں۔ جس سے سب سے زیادہ خواتین متاثر ہورہی ہیں۔ آج انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی ایجاد سے بدعقیدگی کا رجحان بہت تیزی سے فروغ پارہا ہے۔ ان عالمگیر تحریکوں کی باقاعدہ ویب سائٹس، فورمز اور سوشل میڈیا پر گروپس اور پیجز موجود ہیں جو نوجوان نسل بالخصوص خواتین کو آزادی کے نام پر گمراہ کررہی ہیں۔ ان کا ٹارگٹ خواتین کو دین سے بے زار کرنا ہے اور دین میں شک و شبہات پیدا کرکے دین اسلام کی اصل روح کو مسخ کرنا ہے۔ یہ فتنہ انگیزی سلام کی ابدیت، جامعیت اور کاملیت کو متاثر کرنے کے لیے خواتین کے لیے بہت بڑا چیلنج ہیں۔
معاشرے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندانہ سوچ نے بھی سارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ جس میں خواتین بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ ملوث ہورہی ہیں۔ نپولین نے کہا تھا ’’تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھا معاشرہ دوں گا۔‘‘ جب معاشرے کی خواتین ضعیف الاعتقادی اور منتشر خیالات میں مبتلا ہوں گی تو معاشرے میں دہشت گرد ہی جنم لیں گے۔ معاشرے کو تربیت یافتہ نسل فراہم کرنا موجودہ دور کی خواتین کے لیے کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں ہے۔ عورت چاہے تو معاشرے سے دہشت گردی، بدامنی، انتشار اور افراتفری کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں درس و تدریس کا روایتی اور قدیم طریقہ اپنایا جاتا رہا۔ اعتدال اور جدت کو اپناتے ہوئے جدید میڈیا کا استعمال بھی خواتین کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔ کیونکہ روایتی اور قدیم طریقوں سے جدید دور کی خواتین کو متاثر کرنا ناممکن ہے۔ جدید دور میں خواتین کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے فہم و فراست اور بصیرت کے ساتھ منہاج القرآن ویمن لیگ کا کردار قابل ستائش ہے۔ جیسا کہ اس سے قبل ذکر کیا گیا کہ ہر دور میں شر اپنی مکمل طاقت کے ساتھ معاشرے میں فروغ پاتا رہا۔ اس شر کے فروغ کو روکنے اور اس کے خاتمے کے لیے ہر دور میں تجدید احیائے دین اور غلبہ دین کے لیے تحریکیں جنم لیتی رہیں۔ ان فتنوں اور چیلنجز کی بنیادی وجہ قرآن و حدیث کا فہم نہ ہونا، دین اسلام کی اصل اقدار سے انحراف اور سیرت و تاریخ اسلام سے ناواقفیت ہے۔ دین اسلام وہ دین فطرت ہے جو ہر لحاظ سے جامع اور مکمل رہنمائی کرتا ہے جو وقار، مقام اور عزت محمد ﷺ کے دین نے عورت کو عطا کی اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ آپ ﷺ نے جہاں بیٹے کو نعمت سے نوازا تو وہاں بیٹی کو رحمت بنایا یہاں تک کہ آپ ﷺ کی نسل کا تسلسل بیٹی سے ہوا۔ آپ ﷺ کی تعلیمات کو عام کرنا، آپ ﷺ کی تعلیمات کے مطابق موجودہ دور کی خواتین کی فکری بیداری کا کام MWL بہت بہادری، محنت اور جرات کے ساتھ کررہی ہے۔ MWL کے قیام کے بنیادی مقاصد
1۔ اصلاح احوال خواتین
2۔ تجدید احیاء دین
3۔ دعوت افکار اسلامیہ کا فروغ
4۔ خواتین کی فلاح و بہبود
5۔ فروغ تعلیم اور بیداری شعور ہیں۔
خواتین کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے MWL کی انفرادیت ہے کہ یہ معاشرے کی خواتین میں جدت اور اعتدال کو فروغ دے رہی ہے۔ اس میں خواتین کے حقوق کا واویلا مچانے کی بجائے خواتین کو ان کے فرائض اور ذمہ داریوں کا شعور دیا جاتا ہے۔ اسلامی اصولوں اور قدروں پر تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ MWL کے مختلف فارمز MSM، MCA، Eagers، Woice، الہدایہ اور دختران اسلام ہیں جو معاشرے کی خواتین کی تعلیم و تربیت کے لیے مصروف عمل ہیں۔
MSM سسٹرز کے ذریعے، سکول، کالجز اور یونیورسٹیز کی طالبات کی کردار سازی کی جارہی ہے تاکہ نوجوان خواتین کو شیطانی حربوں اور فتنوں سے بچنے کا شعور دیا جاسکے۔ MSM کے زیر انتظام تعلیمی اداروں میں امہات المومنینؓ اور صحابیاتؓ کی سیرت کو عام کرنے کے لیے مختلف کانفرنسز اور سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں۔ طالبات کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے MSM کا کردار قابل ستائش ہے۔ منہاج گرلز کالج اور کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز نوجوان طلباء و طالبات کی فکری اور روحانی تعلیم و تربیت کا اہتمام بھی کررہے ہیں کیونکہ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ضروری تھا کہ سکولز کالجز اور یونیورسٹیز میں مسلم طالبات کو اسلام کی درست تعلیمات اور صحیح فہم سے روشناس کرایا جاتا۔
اسی طرح MCA کے پلیٹ فارم سے خواتین کی کثیر تعداد امت مسلمہ کی خواتین کو چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کردار سازی میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔ تجدیدی اور اصلاحی خدمات کو ذرائع ابلاغ کو استعمال میں لاتے ہوئے پھیلا رہی ہے۔ جدید دور کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے بے شمار ویب سائٹس، فورمز اور پیجز سوشل میڈیا کے ذریعے اسلام کا اعتدال، رواداری، صبرو تحمل اور امن و ایثار کا خوبصورت چہرہ دنیا میں اجاگر کررہا ہے۔ خواتین کو معاشرے میں درپیش چیلنجز سے نمٹنے کا شعور دینے کے لیے MWL کی خواتین کثیر تعداد ذرائع ابلاغ کا حصہ ہے۔ جیسا کہ بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ بچوں کی بہترین تعلیم و تربیت کے لیے MWLکا فورم Eager کے نام سے اہم کردار ادا کررہا ہے۔ معاشرے کو تربیت یافتہ نسل فراہم کرنے کے لیے نئی پود کی بہترین اور جدید انداز میں تربیت کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔
منہاج القرآن ویمن لیگ نہ صرف خواتین کی انفرادی زندگی سنوارنے میں اہم کردار ادا کررہی ہے بلکہ اجتماعی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے بھی سرگرم عمل ہے۔ Woice کی صورت میں خواتین کی فلاح و بہبود اور خدمت انسانیت کا فریضہ ادا کرتے ہوئے خود کفیل بنایا جا رہا ہے۔ جس میں لاچار، غریب، بے سہارا، معذور اور ضرورت مند خواتین کو خود کفیل بنانے کے لیے ہر قسم کی امداد فراہم کی جاتی ہے کیونکہ یہ وقت حالات کا رونا رونے کا نہیں بلکہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے آگے بڑھنے کا ہے۔ ایک بااعتماد اور کامیاب عورت ہی صحت مند معاشرے کی ضمانت ہے۔ Woice کے ذریعے سینکڑوں خواتین کی معاشی حالات بہتر بنائے جارہے ہیں۔
الہدایہ کے پلیٹ فارم سے رجوع الی القرآن کے ذریعے مسلم خواتین کی روحانی اور فکری تربیت کی جارہی ہے۔ ای لرننگ پروگرامز کے ذریعے یورپ ممالک کی مسلم خواتین کے بچوں کو آن لائن قرآن و سنت کی تعلیمات مہیا کی جاتی ہیں۔ عقیدہ ختم نبوت، حلقہ جات، ذکر و فکر، محافل، شب بیداری، کارنر میٹنگز کے ذریعے گنبد خضریٰ سے ٹوٹا ہوا تعلق بحال کیا جارہا ہے۔ خواتین کو گھریلو مسائل، ازدواجی مسائل اور بنیادی فقہی مسائل کا شعور دیا جاتا ہے۔ غیر اسلامی افکار، جاہلی رسومات اور نظریات جیسے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے MWL کا کردار قابل ستائش ہے۔ خواتین کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے MWL کی تین دہائیوں پر مشتمل تجدیدی اور احیائی خدمات کا نتیجہ ہے کہ آج کی خواتین زندگی کے تمام شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوارہی ہیں۔ تجدیدی خدمات میں سیاسی کردار زندہ کرنا بھی MWL کی انفرادیت ہے۔ MWL کے پلیٹ فارم سے عشق و محبت رسالت مآب حضرت محمد ﷺ کے فروغ کے لیے گوشہ درود جہاں 24 گھنٹے آقاؑ پر درود و سلام بھیجا جاتا ہے وہاں خواتین کے لیے بھی ایک حصہ مختص کیا گیا ہے۔ آج MWL کے بتیسویں یوم تاسیس کے موقع پر MWL کی خواتین کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے اس عظیم جدوجہد میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔