فرمانِ الٰہی
یُوْصِیْکُمُ اللهُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ ق لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ ج فَاِنْ کُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ ج وَاِنْ کَانَتْ وَاحِدَةً فَلَھَا النِّصْفُ ط وَلِاَبَوَیْهِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنْ کَانَ لَهٗ وَلَدٌ ج فَاِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّهٗ وَلَدٌ وَّوَرِثَهٗٓ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ ج فَاِنْ کَانَ لَهٗٓ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنْ م بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْ بِهَآ اَوْدَیْنٍ ط اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ ج لَا تَدْرُوْنَ اَیُّهُمْ اَقْرَبُ لَکُمْ نَفْعًا ج فَرِیْضَةً مِّنَ اللهِ ط اِنَّ اللهَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا.
(النساء، 4: 11)
’’اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لیے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے، پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زائد تو ان کے لیے اس ترکہ کا دو تہائی حصہ ہے، اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کے لیے آدھا ہے، اور مورث کے ماں باپ کے لیے ان دونوں میں سے ہر ایک کو ترکہ کا چھٹا حصہ (ملے گا) بشرطیکہ مورث کی کوئی اولاد ہو، پھر اگر اس میت (مورث) کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے وارث صرف اس کے ماں باپ ہوں تو اس کی ماں کے لیے تہائی ہے (اور باقی سب باپ کا حصہ ہے)، پھر اگر مورث کے بھائی بہن ہوں تو اس کی ماں کے لیے چھٹا حصہ ہے (یہ تقسیم) اس وصیت (کے پورا کرنے) کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد (ہوگی)، تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے تمہیں معلوم نہیں کہ فائدہ پہنچانے میں ان میں سے کون تمہارے قریب تر ہے یہ (تقسیم) اللہ کی طرف سے فریضہ (یعنی مقرر) ہے، بے شک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔‘‘
فرمانِ نبوی ﷺ
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِذَا خَطَبَ احْمَرَّتْ عَیْنَاهُ، وَعَـلَا صَوْتُهُ، وَاشْتَدَّ غَضَبُهُ. حَتَّی کَأَنَّهُ مُنْذِرُ جَیْشٍ، یَقُوْلُ: صَبَّحَکُمْ وَمَسَّاکُمْ. وَیَقُوْلُ: بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَۃُ کَھَاتَیْنِ وَیَقْرُنُ بَیْنَ إِصْبَعَیْهِ السَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَی. وَیَقُوْلُ: أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَیْرَ الْحَدِیْثِ کِتَابُ اللهِ. وَخَیْرُ الْهُدَی هُدَی مُحَمَّدٍ. وَشَرُّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُھَا. وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ ثُمَّ یَقُوْلُ: أَنَا أَوْلَی بِکُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ. مَنْ تَرَکَ مَالًا فَلِأَھْلِهِ وَمَنْ تَرَکَ دَیْنًا أَوْ ضَیَاعًا فَإِلَيَّ وَعَلَيَّ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
(المنهاج السوی من الحدیث النبوی ﷺ، ص: 758)
’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب خطبہ
دیتے تو آپ ﷺ کی چشمان مقدس سرخ ہو جاتیں، آواز بلند ہوتی اور جلال زیادہ ہو جاتا اور
یوں لگتا جیسے آپ کسی ایسے لشکر سے ڈرا رہے ہوں جو صبح و شام میں حملہ کرنے والا ہو۔
اور فرماتے: میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح ساتھ ساتھ بھیجے گئے ہیں پھر آپ ﷺ
انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کو ملاتے اور حمد و ثناء کے بعد فرماتے یاد رکھو بہترین
بات اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور بہترین سیرت، محمد مصطفی کی سیرت ہے اور بدترین کام
عبادت کے نئے طریقے (نکالنا) ہیں اور عبادت کا ہر نیا طریقہ گمراہی ہے پھر فرماتے:
ہر مومن کی جان پر تصرف کا سب سے زیادہ حقدار میں ہوں۔ جس شخص نے مال چھوڑا وہ اس کے
وارثوں کا ہے اور جس نے قرض یا اہل و عیال کو چھوڑا وہ میرے ذمہ ہیں۔‘‘