حافظ محمد سعید رضا بغدادی

عرفان القرآن کورس

درس نمبر56 آیت نمبر122 تا 124 (سورۃ البقرہ)

ترجمہ

يَابَنِی إِسْرَآئِيْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِيَ

متن يٰا بَنِيْ إِسْرَآئِيْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِيَ
لفظی ترجمہ اے اولاد اسرائیل یادکرو نعمت میری کو
عرفان القرآن اے اولاد یعقوب!میری اس نعمت کو یاد کرو

الَّتِی أَنْعَمْتُ عَلَيْکُمْ وَأَنِّی فَضَّلْتُکُمْ عَلَی العَالَمِيْنَO

متن

الَّتِيْ

اَنْعَمْتُ عَلَيْکُمْ وَ اَنِّی فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعَالَمِيْنَ
لفظی ترجمہ  جو میں نے ارزانی فرمائی تم پر اور بیشک میں نے تمہیں فضیلت دی پر تمام جہانوں
عرفان القرآن جو میں نے تم پر ارزانی فرمائی اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام جہانوں پر فضیلت عطا کی

وَاتَّقُوْا يَوْماً لَاتَجْزِيْ نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًاوَّ

متن وَاتَّقُوْا يَوْمًا لاَّ تَجْزِيْ نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا وَ
لفظی ترجمہ اور ڈرو اس دن سے نہیں کام آئیگا کوئی آدمی بابت کسی آدمی کے کچھ بھی اور
عرفان القرآن اور اس دن سے ڈرو جب کوئی جان کسی دوسری جان کی جگہ کوئی بدلہ نہ دے سکے گی اور

لَا يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَاتَنْفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَلَا

متن لَا يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا تَنْفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَ لَا
لفظی ترجمہ نہیں قبول کیاجائیگا اس سے کوئی بدلہ اور نہ فائدہ دیگی اسے کوئی سفارش اور نہ
عرفان القرآن نہ اس کی طرف سے کوئی معاوضہ قبول کیاجائیگا اورنہ اس کو کوئی سفارش فائدہ پہنچا سکے گی اور نہ

هُمْ يُنْصَرُوْنَO وَإِذِ ابْتَلٰی إِبْرَاهِيْمَ رَبُّهُ بِکَلِمَاتٍ فَاَتَمَّهُنَّط

متن هُمْ يُنْصَرَوْنَ وَ إِذ ابْتَلیٰ إِبْرَاهِيْمَ رَبُّهُ بِکَلِمَاتٍ فَاَتَمَّهُنَّ
لفظی ترجمہ انکی مددکی جائیگی اور جب آزمایا ابراہیم کو اسکے رب نے چند باتوں میں پورا کر دیا انکو
عرفان القرآن انہیں کوئی مدد دی جا سکے گی‘ اور جب ابراہیم کو ان کے رب نے کئی باتوں میں آزمایا توانہوں نے وہ پوری کر دیں

قَالَ إِنِّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَاماًط قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَتِیط

متن قَالَ إِنِّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَاماً قَالَ وَ مِنْ ذُرِّيَتِی
لفظی ترجمہ اللہ نے فرمایا میں تمہیں بناؤنگا لوگوں کا پیشوا ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا اور سے میری اولاد
عرفان القرآن اللہ نے فرمایا میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بناؤں گاتوانہوں نے عرض کیا میری اولاد میں سے بھی؟ ارشاد ہوا

قَالَ لَايَنَالُ عَهدِی الظَّالِمِيْنَO

متن قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِی الظَّالِمِيْنَ
لفظی ترجمہ فرمایا نہیں پہنچتا میرا وعدہ ظالموں کو
عرفان القرآن فرمایا میراوعدہ ظالموں کونہیں پہنچتا۔

تفسیر

يٰبَنِی إِسْرَائِيْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِی الَّتِی... الخ

1۔ بنی اسرائیل کو انعامات الٰہیہ کی تیسری بار یاد دہانی

وَاتَّقَوْا يَوْمًا لَا تَجْزِی...الخ

1۔ قیامت اور اس کی ہولناکی کا خوف دلانا۔

2۔ روزِ قیامت کوئی دوسرے کی طرف سے حق، واجب اور بدلہ ادا نہ کر سکے گا۔

3۔ روز قیامت کسی کی بخشش کے لیے کوئی معاوضہ قبول نہیں کیا جائے گا۔

4۔ روزِ قیامت غیر حقداروں کی سفارش بھی کوئی نفع نہ دے گی۔

اس آیت کریمہ کے الفاظ ’’لَا تَنْفَعُهَا شَفَاعَةٌ‘‘ سے ثابت ہوا کہ اس دن اذن الٰہی سے شفاعت ہو گی اور حقداروں کو شفاعت سے فائدہ بھی پہنچے گا مگر غیر حقدار کو اس شفاعت سے بھی کوئی مدد نہیں ملے گی۔

وَاِذا ابْتَلٰی إِبْرَاهِيْمَ رَبُّهُ بِکَلِمَاتٍ....الخ

  1. حضرت ابراہیم علیہ السلام کامختلف طریقوں سے آزمایا جانا۔
  2. حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بنی نوع انسانی کی امامت وقیادت کا وعدہ ۔
  3. حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنی اولاد کے لیے بھی نعمت امامت کا طلب کرنا۔
  4. اللہ تعالیٰ کا وعدہ نعمت ظالموں اور نا فرمانوں کے حق میں نہیں ہوتا۔

معلوم ہوا کہ منصب عالی کڑی آزمائشوں سے کامیابی کے ساتھ گزرنے کے بعد نصیب ہوتا ہے اور اس کے حق دار صرف اطاعت گزار لوگ ہوتے ہیں نافرمان نہیں۔

ربط وتشریح‘ قرآن کا طرز بلیغ اور تکرار

یہود کی قباحتوں اور شرارتوں کاپہلے بالاجماع بیان ہوا تھا اس کے بعد چالیس برائیاں تفصیل وار بیان ہوئیں اس کے خاتمہ پر پھر بالاجماع اپنے انعامات اور ترغیب وترہیب کا مضمون مکرر لاتے ہیں تا کہ جامعیت اور اختصار کے ساتھ ان کلمات کا پوری طرح استحضار ہو جائے تا کہ ان کے نتائج وثمرات اور جزئیات کا محفوظ رکھنا سہل اور آسان ہو جائے اوریہ طرز بلیغ خطابیات میں نہایت اعلیٰ شمار کیاجاتا ہے کہ کسی اہم اور بنیادی مرکزی بات کو مجملًا ومفصلاً مکرر‘ سہ مکرر بیان کر دیا جائے مثلاً کہا جائے کہ بے جا غصہ کرنا نہایت بری چیز ہے اور پھر بتلایا جائے کہ اس میں فلاں فلاں خرابیاں اور نقصانات ہیں۔ اس میں برائیاں گنوا کر پھر آخر میں کہہ دیا جائے کہ غرض کہ بے جا غصہ کرنا نہایت قبیح چیز ہے یہ تکرار نہایت کار آمد اور ضروری ہوگا یعنی پوری طرح اس چیز کا حسن وقبح دل میں گھر کر جائے گا۔ (تفسیر جلالین)

حدیث

عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اَنَا اَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْاَرْضُ فَاُکْسَی حُلَّةً مِنْ حُلَلِ الْجَنَّةِ، ثُمَّ اَقُوْمُ عَنْ يَمِيْنِ الْعَرْشِ لَيْسَ اَحَدٌ مِنَ الْخَـلَائِقِ يَقُوْمُ ذَلِکَ الْمَقَامَ غَيْرِي. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.وَقَالَ أَبُوْعِيْسَی: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں سب سے پہلا شخص ہوں جس کی زمین (یعنی قبر) شق ہو گی، پھر مجھے ہی جنت کے جوڑوں میں سے ایک جوڑا پہنایا جائے گا، پھر میں عرش کی دائیں جانب (مقام محمود پر) کھڑا ہوں گا، اس مقام پر مخلوق میں سے میرے سوا کوئی نہیں کھڑا ہو گا۔‘‘