اسماء اسلام
اللہ رب العزت وہ عظیم ذات ہے جس کی رحمت اور مغفرت کے دروازے ہر وقت ہر ایک کے لئے کھلے رہتے ہیں اور اس کی رحمت کا دریا ہر وقت موجزن رہتا ہے۔ اس کی رحمت کا سائباں ہر وقت اپنے بندوں پر سایہ فگن رہتا ہے اور مخلوق کو اپنی رحمت کے سائے میں لئے رکھنا اس عظیم ہستی کی شان کریمی ہے۔ وہ رحمن و رحیم ذات اپنی کمزور اور بے بس مخلوق پر کرم فرمانے، گناہگار بندوں کی خطاؤں کو معاف فرمانے اور انعامات سے نوازنے کے بہانے تلاش کرتی ہے۔
اللہ رب العزت نے بعض چیزوں کو بعض پر فضیلت دی ہے جس طرح مدینہ منورہ کو تمام شہروں پر، مسجد حرام کو تمام مساجد پر، ایک مومن کو تمام انسانوں پر، ایک ولی کو تمام مومنوں پر، ایک صحابی کو تمام ولیوں پر، نبی کو تمام صحابہ پر، رسول کو تمام نبیوں پر اور رسولوں میں تاجدار کائنات سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاص فضیلت اور مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ اسی طرح قبولیت کی ساعت کو تمام ساعتوں پر، جمعہ کے دن کو تمام دنوں پر، لیلۃ القدر کو تمام راتوں پر اور ماہ رمضان کو تمام مہینوں پر خاص اہمیت و فضیلت حاصل ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’پس تم میں سے جوکوئی اس مہینے کو پالے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے‘‘۔
فضیلتِ ماہِ رمضان
رمضان المبارک میں بارگاہ الہٰی سے رحمتوں اور برکتوں کی بارش ہوتی ہے اس کا ہر لحظہ انوار و تجلیات اور رحم و کرم لئے ہوتا ہے۔ اس ماہ مقدس میں اللہ تعالیٰ کے خزانے مومنوں کے لئے کھلے ہوتے ہیں۔ دستِ سوال دراز کرنے والے کی جھولی بھردی جاتی ہے۔ سوالی گو ہر مراد سے اپنا دامن بھر بھر تھک تو سکتے ہیں مگر دینے والے داتا کے خزانوں میں کمی نہیں آتی ہے۔
’’حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دن فرمایا جبکہ رمضان شروع ہوچکا تھا: تمہارے پاس برکتوں والا مہینہ آگیا ہے اس میں اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی رحمت سے ڈھانپ لیتا ہے، رحمت نازل فرماتا ہے، گناہوںکو مٹاتا ہے اور دعائیں قبول فرماتا ہے، اس مہینے میں اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں پر نظر فرماتا ہے اور تمہاری وجہ سے اپنے فرشتوں کے سامنے فخر فرماتا ہے۔ بدبخت ہے وہ شخص جو اس ماہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم رہا‘‘۔
ماہ مبارک کے آغاز کے ساتھ ہی رحمت خداوندی پے درپے نازل ہوتی ہے اور بندوں کے نیک اعمال اور دعائیں کسی رکاوٹ کے بغیر قبول ہوتی ہیں۔ روزہ دار ایسے اعمال کی طرف راغب ہوتا ہے جو جنت میں داخل ہونے کا باعث ہیں۔ ایسے افراد جو رمضان المبارک کے روزے رکھتے ہیں اور راتوں کو قیام کرتے ہیں تو ان کے تمام صغیرہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں اور کبیرہ گناہوں کی معافی کی امید رکھی جاسکتی ہے۔ ایسے شخص کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص بحالت ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے سابقہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں‘‘۔
رمضان المبارک کی پرنور ساعتوں کے آغاز کے ساتھ ہی ہر شخص نیکی کی طرف راغب ہوتا ہے اور رب کائنات کی رحمت کی برسات کا نزول ہر خاص و عام پر ہوتا ہے اور ذات باری تعالیٰ ہر شخص کو اپنے سایہ رحمت سے ڈھانپ لیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو عبادت اور ذکر و اذکار میں مشغول دیکھ کر فخر کرتا ہے۔ دست دعا بلند کرنے والوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ گناہوں کی بخشش کے طلبگاروں کے گناہوں کو بخش دیا جاتا ہے اور رب کائنات کی رحمت کی عنایت معمول سے کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آدمی کا ہر عمل اس کے لئے ہے اور ہر نیکی کا ثواب دس گناہ سے لے کر سات سو گنا تک ہے سوائے روزہ کے کہ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا عطا کرتا ہوں‘‘۔
ماہ رمضان میں برکتوں اور رحمتوں کا نزول
رمضان المبارک کی نورانی اور پاکیزہ ساعتیں عالم افق پر سایہ فگن ہیں۔ اس ماہ مبارک میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کا نزول بے حد اور بے حساب ہوتا ہے۔ اس ماہ مبارک میں اللہ تعالیٰ نوافل ادا کرنے والے کو فرائض کا ثواب عطا کرتے ہیں اور رب کائنات اپنے بندوں سے مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ ہے کوئی سوال کرنے والا کہ وہ سوال کرے تو اسے عطا کیا جائے۔ ہے کوئی مغفرت کا طلبگار کہ وہ مغفرت طلب کرے تو اسے بخش دیا جائے، ہے کوئی توبہ کرنے والا کہ وہ توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرلے۔ وہ بندہ نواز اپنے بندوں کو نوازنے اور انہیں معاف کرنے کے بہانے تلاش کرتا ہے۔ رمضان المبارک میں رحمتوں اور برکتوں کے نزول کا اندازہ اس حدیث مبارکہ کی روشنی سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب رمضان شروع ہوتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیطان (زنجیروں میں) جکڑ دیئے جاتے ہیں‘‘۔
شیاطین کا کام لوگوں کو بہکانا، برائی کی طرف مائل کرنا اور اچھے کاموں سے روکنا ہے۔ رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کے حکم سے شیاطین پابند سلاسل کردیئے جاتے ہیں۔ ماہ مبارکہ میں اس کے ظالمانہ کام روک دیئے جاتے ہیں اورلوگوں کی اکثریت اللہ کی طرف رجوع کرتی ہے۔ گناہوں میں منہمک رہنے والے افراد کی اکثریت نیکی کی طرف مائل ہوجاتی ہے۔ نماز پڑھنے لگتے ہیں، قرآن مجید کی تلاوت اور ذکرو اذکار کی محافل میں شریک ہونے لگتے ہیں جن گناہوں کا علی الاعلان ارتکاب کیا جاتا تھا اس سے باز آجاتے ہیں گویا نیک کام کرنے کے لئے ساز گار ماحول پیدا ہوجاتا ہے۔
نزولِ قرآن
رمضان المبارک کی سب سے اہم فضیلت اور برکت یہ ہے کہ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید نازل فرمایا جو کل انسانیت کے لئے نہ صرف خیرو برکت کا موجب ہے بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات اور سرچشمہ رشد و ہدایت بھی ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا‘‘۔
شب قدر اور اس کی فضیلت
رمضان المبارک کی راتوں میں سے ایک رات شب قدر کہلاتی ہے جو خیرو برکت اور قدرو منزلت کی حامل ہے۔ اللہ رب العزت نے سورۃ القدر میں لیلۃ القدر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے اسے ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے۔ اس رات جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کے جھرمٹ میں زمین پر اترتے ہیں اور ہر شخص کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں جو اللہ کی عبادت میں مشغول ہو۔ جس شخص کی یہ ایک رات عبادت میں گزری گویا اس نے ایک ہزار مہینے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزارے۔ اس رات کی جانے والی عبادت کو ہزار مہینوں کی عبادت سے اس لئے افضل قرار دیا گیا ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سابقہ لوگوں کی عمروں سے آگاہ فرمایا گیا تو آپ نے ان کے مقابلے میں اپنی امت کے لوگوں کی عمر کو کم دیکھتے ہوئے یہ خیال فرمایا کہ میری امت کے لوگ اتنی کم عمر میں سابقہ امتوں کے برابر عمل کیسے کرسکیں گے؟ تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو لیلۃ القدر عطا فرمادی جو ہزار مہینے سے افضل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لیلۃ القدر کی ساعتوں میں عبادت و اطاعت کی تلقین فرمائی ہے اور اس بات کی طرف بھی متوجہ کیا ہے کہ عبادت سے محض اللہ کی خوشنودی مقصود ہو ریاکاری یا بدنیتی کا عنصر نہ ہو اور آئندہ کے لئے یہ عہد کرلے کہ وہ برائی کا ارتکاب نہیں کرے گا۔ ایسے شخص کے لئے یہ رات مغفرت کی نوید بن کر آتی ہے۔
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رمضان المبارک کی آمد پر ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ جو ماہ تم پر آرہا ہے اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار ماہ سے افضل ہے جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا گویا وہ سارے خیر سے محروم رہا اور اس رات کی بھلائی سے وہی شخص محروم رہ سکتا ہے جو واقعتا محروم ہو۔
شب قدر کو تمام عالم اسلام سے مخفی رکھا گیا ہے تاکہ اس کی تلاش میں متعدد راتیں عبادت میں گزریں کیونکہ اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ اس کے بندے راتوں کو جاگ کر عبادت کریں اور اس کے تعین کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو‘‘۔
رمضان المبارک کے روزوں کی فضیلت
رمضان المبارک کا مہینہ اللہ کی رحمتوں کا موسم بہار ہے اس مہینے کو جو خصوصیات عطا فرمائی ہیں اور اسے جن انوار و برکات سے نوازا ہے اس کا شمار انسان کے لئے ممکن نہیں اس لئے اس ماہ مبارک سے منسلک عبادات کا نعم البدل موجود نہیں ہے۔ اللہ رب العزت نے رمضان المبارک کے جو فضائل اور برکات مقررکئے ہیں اس سے یہی غرض سامنے آتی ہے کہ اس ماہ مبارک کا ہر لمحہ اور ہر گھڑی عبادت و ریاضت میں گزرے لیکن حاجت بشریہ میں گھرے ہوئے انسان کے لئے یہ ناممکن تھا کہ وہ اپنے بشری تقاضوں سے علیحدہ ہوکر ہمہ وقت عبادت و ریاضت میں مشغول ہوجاتا اس لئے انسانوں کے ضعف اور ان کی ضروریات طبعیہ پر نظر کرم فرماتے ہوئے رب کائنات کی رحمت نے دستگیری فرمائی اور اس ماہ مبارک میں ایسے انداز عبادت کو فرض کے طور پر متعین فرمادیا کہ انسان اس عبادت کے ساتھ اپنی ضروریات و حوائج میں بھی مصروف رہ سکتا ہے اور عین اس خاص طریقہ عبادت میں بھی مصروف ہوسکتا ہے۔ اس خاص طریقہ عبادت کو روزہ کہا جاتا ہے جسے اس ماہ فرض کیا گیا ہے۔ روزہ ایک ایسی عبادت ہے کہ انسان روزہ رکھ کر اپنے ہر کام احسن طریقے سے انجام دے سکتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے روزے کی فرضیت کے بارے میں بلا امتیاز مردو زن تمام اہل ایمان سے ارشاد فرمایا ہے:
’’اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے، تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ‘‘۔ (البقرہ)
روزہ ایک حسین اور پوشیدہ عبادت ہے اس میں دیگر ظاہری عبادات، نماز، زکوٰۃ اور صدقہ و خیرات کی نسبت ریاکاری کا اندیشہ نہیں ہوتا ہے۔ دوسری عبادات کا حال لوگوں کو معلوم ہوسکتا ہے لیکن روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو اللہ تعالیٰ ہی کے لئے مخصوص ہے اس لئے روزے کو اللہ تعالیٰ نے خالص اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ
’’بنی آدم کا ہر عمل اس کے لئے ہے سوائے روزہ کے روزہ صرف میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دیتا ہوں‘‘۔
روزہ داروں کے لئے دروازہ
جنت میں انسانوں کے اعمال کے اعتبار سے کئی دروازے ہیں۔ دنیا میں کئے جانے والے نیک اعمال کے بدلے میں جنت میں اس عمل کے دروازے سے داخل کیا جائے گا۔ باب الریان جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جو روزہ داروں کے لئے مخصوص ہے جس سے صرف روزہ دار داخل ہوں گے۔
’’حضرت سہیل بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتا ہے۔ قیامت کے دن روزہ دار اس میں سے داخل ہوں گے اور ان کے سوا اس دروازے سے کوئی داخل نہیں ہوگا۔
گناہوں کی بخشش و مغفرت
ماہ مبارک میں روزہ دار مخصوص اوقات میں کھانا پینا اور نفسانی خواہشات کو اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے ترک کردیتا ہے تو اللہ رب العزت اس کے بدلے میں بے پناہ اجرو ثواب سے نوازتا ہے اور اس کے تمام سابقہ گناہوں کو بخش دیا جاتا ہے حدیث مبارکہ میں ہے:
’’حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص ایمان اور حصول ثواب کی نیت کے ساتھ رمضان کی راتوں میں قیام کرتا ہے تو وہ گناہوں سے یوں پاک ہوجاتا ہے جیسے اس دن تھا جب اسے اس کی ماں نے جنم دیا تھا‘‘۔
رحمت خداوندی کا نزول
ماہ مبارک میں روزہ دار اپنی عبادت و ریاضت کے ذریعے رحمت خداوندی سے مستفید ہوتے ہیں اور جھولیاں بھر بھر کر مراد پاتے ہیں۔ شیاطین کو قید کردیا جاتا ہے۔ جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں جس سے اس بات کا اظہار ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے شیاطین کو قید کرکے نیکیوں کے لئے سازگار ماحول پیدا کردیا ہے تاکہ انسانوں کے لئے ترک اطاعت اور گناہوں کے کرنے کے لئے کوئی عذر باقی نہ رہے اور اگر کوئی شخص ایسے سازگار ماحول میں بھی اپنی بخشش و مغفرت نہ کرواسکے تویہ اس کی کم بختی اور بدنصیبی ہوگی۔ حدیث مبارکہ میں ایسے شخص کو بدنصیب کہا گیا ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا وہ شخص بڑا ہی بدنصیب ہے جس نے رمضان کا مہینہ پایا لیکن اس کی بخشش نہ ہوئی۔ اگر اسکی (مغفرت کے) مہینہ میں بخشش نہ ہوئی تو پھر) کب ہوگی؟
ذریعہ شفاعت
روزہ اور تلاوت قرآن پاک انسان کے ایسے اعمال ہیں جو بندوں کے حق میں شفاعت کریں گے۔ اس کے متعلق حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: روزہ اور قرآن قیامت کے روز بندہ مومن کے لئے شفاعت کریں گے۔ روزہ عرض کرے گا اے اللہ! دن کے وقت میں نے اس کو کھانے اور شہوت سے روکے رکھا پس اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما اور قرآن کہے گا میں نے رات کو اسے جگائے رکھا پس اسکے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ پس دونوں کی شفاعت قبول کرلی جائے گی‘‘۔
رمضان المبارک میں معمولات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کے مہینے سے بے پناہ محبت فرمایا کرتے تھے۔ رمضان المبارک کا اہتمام ماہ شعبان میں روزوں کی کثرت سے ہوجایا کرتا تھا۔ جب رجب کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعا فرمایا کرتے: ’’اے اللہ! ہمارے لئے رجب اور شعبان بابرکت بنادے اور ہمیں رمضان نصیب فرما‘‘۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کو خوش آمدید کہہ کر اس کا استقبال کرتے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو مبارک بادپیش کرتے تھے۔
سحرو افطار کا معمول
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روزے کا آغاز سحری کھانے سے فرمایا کرتے تھے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کو تاکید فرمائی ہے کہ سحری ضرور کھایا کرو خواہ وہ پانی کا ایک گھونٹ ہی کیوں نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زندگی بھر یہ معمول رہا ہے کہ سحری آخری وقت میں تناول فرماتے اور افطاری کرنے میں جلدی کیا کرتے تھے۔ اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے لوگ بھلائی پر رہیں گے جب وہ روزہ جلد افطار کرتے رہیں گے۔ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر اوقات کھجور سے روزہ افطار فرمایا کرتے تھے اگر وہ میسر نہ ہوتی تو پانی سے افطارفرمالیتے تھے۔ حضرت سلیمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی روزہ دار افطار کرے تو اسے چاہئے کہ کھجور سے کرے کیونکہ اس میں برکت ہے۔ اگر کھجور میسر نہ ہو تو پانی سے کیونکہ پانی پاک ہوتا ہے۔
قیامِ رمضان
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مبارکہ کا ہر ایک لمحہ عبادت اور ذکر الہٰی میں مشغول ہوتا تھا لیکن کثرت ذکر اور عبادت کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ میں جب بھی رمضان کا مبارک مہینہ طلوع ہوتا تو رمضان کی راتوں میں تواتر کے ساتھ قیام کرتے اور نماز، تسبیح و استغفار اور ذکر الہٰی میں مشغول رہتے۔ رمضان المبارک شروع ہوتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا بستر مبارک لپیٹ دیتے اور رمضان المبارک کے ختم ہونے تک اپنے بستر مبارک پہ تشریف نہ لاتے۔ نماز عشاء ادا کرلینے کے بعد آپ کا یہ معمول مبارک تھا کہ آپ ساری رات تسبیح و تحمید اور ذکر الہٰی میں گزار دیتے اور اہل خانہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو فرمایا کرتے تھے کہ رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جس میں نوافل اداکرنے والے کو اللہ تعالیٰ فرضوں کا ثواب عطا کرتا ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا جب ماہ رمضان شروع ہوجاتا تو حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا کمر بند کس لیتے پھر آپ اپنے بستر مبارک پر تشریف نہیں لاتے تھے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا۔
ختمِ قرآن
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رمضان المبارک کے دوران ایک بار ختم قرآن معمول رہا ہے اور آپ نے اپنی امت کو بھی اسی اعتدال پر چلنے کی تعلیم و تلقین فرمائی ہے۔ اسلام ایک سادہ اور فطرت سے ہم آہنگ دین ہے اور تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی اسی فطری سادگی کی جھلک نظر آتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے دین میں تنگی پیدا نہ کرو اسی لئے ہر امتی کی سہولت کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ رمضان میں ایک بار قرآن پاک ختم کرنے کے معمول پر زندگی بھرکاربند رہے۔
ہر رمضان میں رات کے وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام قرآن پاک کا دور کرنے کے لئے آقائے دوجہاں سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حجرہ مبارکہ میں تشریف لاتے جہاں باری باری ان دونوں ہستیوں میں سے ایک کلام پاک کی تلاوت کرتی تو دوسری سماعت فرماتی۔ یہ معمول ہر رمضان جاری رہا یہاں تک کہ وصال مبارک سے پہلے آخری رمضان آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سابقہ معمول کے برعکس دو مرتبہ قرآن پاک کا حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن حکیم کا دور کیا۔
کثرت صدقات و خیرات
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ آپ کثرت کے ساتھ صدقہ و خیرات کیا کرتے تھے۔ کوئی سوالی آپ کے در سے خالی نہیں لوٹتا تھا لیکن رمضان المبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جودوسخا باقی مہینوں کی نسبت کئی گنا بڑھ جاتی۔ اس ماہ صدقہ و خیرات میں اتنی کثرت ہوجاتی کہ ہوا کے تیز جھونکے بھی اس کا مقابلہ نہ کرسکتے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت جبرائیل علیہ السلام آجاتے تو آپ کی سخاوت کی برکات کا مقابلہ تیز ہوا نہ کرپاتی حضرت جبرائیل علیہ السلام عام دنوں کی نسبت کثرت سے آتے تھے اس لئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے آنے کی خوشی میں صدقہ و خیرات بھی کثرت سے کرتے تھے۔
معمول اعتکاف
رمضان المبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باقاعدگی کے ساتھ اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زیادہ تر رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا کرتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ آخری عشرے کے علاوہ رمضان المبارک کے پہلے اور دوسرے عشرے میں بھی اعتکاف فرمایا لیکن جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آگاہ فرمادیاگیا کہ شب قدر رمضان کے آخری عشرے میں ہے۔ اس کے بعد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ آخری عشرے میں ہی اعتکاف فرمایا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمول اعتکاف کا ذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں: حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے یہاں تک کہ آپ اللہ تعالیٰ سے جا ملے۔