لیلۃ القدر کے روحانی اجتماع سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خصوصی خطاب
ترتیب و تدوین : صاحبزادہ محمد حسین آزاد
معاونت : ملکہ صبا
جنوری 1999ء میں تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام عالمی روحانی اجتماع (شب قدر) منعقدہ بغداد ٹاؤن (ٹاؤن شپ) لاہور میں ہزارہا خواتین و حضرات سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ’’انسان کا سفر۔ ۔ نفسانی گھر سے روحانی گھرتک‘‘ کے موضوع پر خصوصی خطاب فرمایا جس کی اہمیت کے پیش نظر ماہنامہ دختران اسلام میں ایڈٹ کرکے شائع کیا جارہا ہے۔ (بحوالہ سی ڈی نمبر219 بتاریخ 15-01-1999) (ادارہ دختران اسلام)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کَمَآ اَخْرَجَکَ رَبُّکَ مِنْ م بَيْتِکَ بِالْحَقِّ ص وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ لَکٰرِهُوْنَ. يُجَادِلُوْنَکَ فِی الْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَيَّنَ کَاَنَّمَا يُسَاقُوْنَ اِلَی الْمَوْتِ وَهُمْ يَنْظُرُوْنَ. وَاِذْ يَعِدُکُمُ اﷲُ اِحْدَی الطَّآئِفَتَيْنِ اَنَّهَا لَکُمْ وَتَوَدُّوْنَ اَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْکَةِ تَکُوْنُ لَکُمْ وَيُرِيْدُ اﷲُ اَنْ يُحِقَّ الْحَقَّ بِکَلِمٰتِه وَيَقْطَعَ دَابِرَ الَکٰفِرِيْنَ. لِيُحِقَّ الْحَقَّ وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ کَرِهَ الْمُجْرِمُوْنَ. اِذْتَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ اَنّيْ مُمِدُّ کُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰـئِکَةِ مُرْدِفِيْنَ. وَمَا جَعَلَهُ اﷲُ اِلَّا بُشْرٰی وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوْ بُکُمْج وَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اﷲِط اِنَّ اﷲَ عَزِيْزٌ حَکِيْمٌ.
(الانفال، 8 : 5 تا 10)
جگر گوشہ حضور قدوۃ الاولیاء حضرت صاحبزادہ سید محمود محی الدین گیلانی، معزز مشائخ و علماء کرام، معتکفین و معتکفات، معزز خواتین و حضرات اور عزیزان گرامی قدر! اللہ رب العزت کا شکر ہے جس کی توفیق سے ہم ماہ رمضان المبارک کی اس عظیم مبارک رات میں اس بابرکت اور باسعادت مقام پر یعنی قدوۃ الاولیاء، شیخ المشائخ، سیدی ومرشدی و مولائی حضور سیدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی البغدادی رضی اللہ عنہ کے دامن میں ان کے زیر سایہ جامعہ المنہاج کے اس عظیم میدان میں جمع ہیں اور آج کی اس رات کی بابرکت ساعتوں میں اللہ کے حضور حاضر ہوکر اپنے قلب و باطن کو اشک ندامت اور توبہ کے پانی سے دھونے کے لئے اور دلوں اور روحوں کی بند کھڑکیوں کو اللہ کی محبت اور اس کی معرفت کی طرف کھولنے کے لئے آئے ہیں۔ ہمارے لئے ان تمام برکتوں اور سعادتوں پر محیط خوش بختی و سعادت کی بات ہے کہ صدر مجلس محترم صاحبزادہ محمود محی الدین گیلانی حضور قدوۃ الاولیاءرضی اللہ عنہ کی نیابت اور نمائندگی فرمارہے ہیں۔
میں نے اس وقت جو آیات کریمہ تلاوت کی ہیں وہ نزول قرآن کی تاریخ کے اعتبار سے غزوہ بدر کے حوالے سے نازل ہوئی تھیں۔ جب اللہ رب العزت نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور لشکر اسلام کو اپنے گھروں سے نکالا اور یہ عظیم لشکر میدان بدر کی جانب رواں دواں ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خطاب فرمایا اور اس خطاب میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی شریک کیا۔ ان آیات کا وہ معروف معنی اور مفہوم جو آیات کریمہ کے ترجمہ اور ان کی تفسیر میں بھی موجود ہے، علماء اسے بیان کرتے ہیں اور آپ سنتے ہیں وہ اپنی جگہ حق ہے اور ثابت ہے۔ آج ہم اس معروف معنی و مفہوم کا جو باطنی و روحانی رخ ہے جس کا تعلق ہمارے من کی اصلاح اور ہمارے اندر کے معرکہ بدر کے ساتھ ہے اس کا ذکر کریں گے۔ ایک معرکہ بدر وہ ہے جو دو سن ہجری میں بپا ہوا اور لشکر اسلام مدینہ سے چلا اور لشکر کفار مکہ سے چلا اور حق و باطل کی پہلی جنگ ہوئی۔ اللہ رب العزت نے ملائکہ کی مدد نازل فرمائی اور لشکر اسلام کو عظیم فتح سے بہرہ ور فرمایا۔ اس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دولت خانہ سے جہاد کے لئے نکلے۔ کچھ لوگ ایسے تھے جو ابھی اسلام میں نئے نئے داخل ہوئے تھے اور ابھی اسلام کی حقیقی روح اور اسلام میں قربانی کا تصور ان کی روحوں میں رچا بسا نہیں تھا اور نہ ہی ان کی روحوں میں خوب جاگزیں ہوا تھا۔ انہوں نے شہادت گہ الفت میں ابھی قدم نہیں رکھا تھا۔ ابھی نئے نئے حلقہ بگوش اسلام ہوئے تھے۔ انہوں نے جب دیکھاکہ اسلام میں داخل ہوتے ہی جنگ کا سامنا ہے۔ ابھی غزوہ بدر کے لئے جارہے ہیں اور حالات یہ ہیں کہ ہمارے پاس اسلحہ کم ہے، فوجی کم ہیں، وسائل کم ہیں اور جس لشکر سے مقابلہ کے لئے جارہے ہیں وہ افرادی قوت میں زیادہ ہے۔ اسلحہ و سامانِ جنگ میں بھی زیادہ ہے حتی کہ وسائل بھی زیادہ ہیں۔ انہیں اردگرد قبائل کی مدد بھی حاصل ہے۔ تمام ظاہری اسباب میں وہ ہم سے فائق ہیں۔ لہذا بظاہر جنگ کا کوئی ماحول نظر نہیں آتا بلکہ سیدھا سیدھا نظر آتا ہے کہ ان کے ہاتھوں ہم شہید ہوجائیں گے۔ بدر کی جانب بلایا جانا انہیں ایسا معلوم ہوا جیسے موت کی طرف بلایا جارہا ہو۔ یہ بلاوا ان کی طبیعتوں پر ناگوار گزرا۔ قرآن مجید نے اس کیفیت کو یوں بیان فرمایا ہے :
’’(اے حبیب!) جس طرح آپ کا رب آپ کو آپ کے گھر سے حق کے (عظیم مقصد) کے ساتھ (جہاد کے لیے) باہر نکال لایا حالاں کہ مسلمانوں کا ایک گروہ (اس پر) ناخوش تھا۔ وہ آپ سے امرِ حق میں (اس بشارت کے) ظاہر ہوجانے کے بعد بھی جھگڑنے لگے (کہ اللہ کی نصرت آئے گی اور لشکرِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فتح نصیب ہو گی) گویا وہ موت کی طرف ہانکے جا رہے ہیں اور وہ (موت کو آنکھوں سے) دیکھ رہے ہیں۔ اور (وہ وقت یاد کرو) جب اللہ نے تم سے (کفارِ مکہ کے) دو گروہوں میں سے ایک پر غلبہ و فتح کا وعدہ فرمایا تھا کہ وہ یقینا تمہارے لیے ہے اور تم یہ چاہتے تھے کہ غیر مسلّح (کمزور گروہ) تمہارے ہاتھ آ جائے اور اللہ یہ چاہتا تھا کہ اپنے کلام سے حق کو حق ثابت فرما دے اور (دشمنوں کے بڑے مسلّح لشکر پر مسلمانوں کی فتحیابی کی صورت میں) کافروں کی (قوت اور شان و شوکت کی) جڑ کاٹ دے۔ تاکہ (معرکہ بدر اس عظیم کامیابی کے ذریعے) حق کو حق ثابت کر دے اور باطل کو باطل کر دے اگرچہ مجرم لوگ (معرکہ حق و باطل کی اس نتیجہ خیزی کو) ناپسند ہی کرتے رہیں۔ (وہ وقت یاد کرو) جب تم اپنے رب سے (مدد کے لیے) فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری فریاد قبول فرمالی (اور فرمایا) کہ میں ایک ہزار پے در پے آنے والے فرشتوں کے ذریعے تمہاری مدد کرنے والا ہوں۔ اور اس (مدد کی صورت) کو اللہ نے محض بشارت بنایا (تھا) اور (یہ) اس لیے کہ اس سے تمہارے دل مطمئن ہو جائیں اور (حقیقت میں تو) اللہ کی بارگاہ سے مدد کے سوا کوئی (اور) مدد نہیں، بے شک اللہ (ہی) غالب حکمت والا ہے‘‘۔ (عرفان القرآن)
یہ توان آیات کا ظاہری معنی اور پس منظر تھا اب ہم اس کے باطنی معنٰی کی طرف چلیں گے۔ ایک غزوہ بدر وہ تھا جو سرزمین عرب میں بپا ہوا۔ ایک غزوہ بدر وہ ہے جو ہر مسلمان کے من کے اندر بپا ہے۔ اُس غزوہ میں دو لشکر تھے لشکر اسلام و لشکر کفر جن میں گھمسان کی جنگ ہوئی اور جو غزوہ بدر ہمارے من کے اندر بپا ہے اس کے بھی دوہی لشکر ہیں ایک نفس کا لشکر ہے ایک روح کا لشکر ہے اور ان میں بھی پہلے دن سے گھمسان کی جنگ بپا ہے۔ اُس معرکہ بدر میں بھی لشکر اسلام کے پاس سازو سامان کم تھا، وسائل کم تھے، افرادی قوت کم تھی اور لشکر کفر افرادی قوت و سامان کے اعتبار سے بڑا طاقت ور اور مضبوط تھا۔ ہمارے باطن میں جو غزوہ بدر بپا ہے اس میں بھی روح کا لشکر قوت میں کمزور ہے۔ وسائل میں کمزور ہے۔ سامان حرب میں کمزور ہے اور نفس کا لشکر اس کے پاس سامان بھی زیادہ ہے، کشش بھی زیادہ ہے، رغبت بھی زیادہ ہے، طاقت بھی زیادہ ہے، قوت بھی زیادہ ہے، تائید بھی زیادہ ہے۔ معرکہ بدر جو مومن کے باطن میں بپا ہے اس میں نفس کا لشکر مضبوط ہے جبکہ روح کا لشکر کمزور ہے۔ گھمسان کی جنگ ہے۔ روح اپنے آپ کو پردے میں محفوظ کرتی ہے نفس دیس میں محفوظ کرتا ہے۔ اس موقع پر رب کائنات کی آواز آرہی ہے لوگو! اس معرکہ بدر میں کون ہے جو روح کے لشکر میں شامل ہوگا؟ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے نسبت ارشاد ہوتا ہے؛
کَمَآ اَخْرَجَکَ رَبُّکَ مِنْم بَيْتِکَ بِالْحَقِّ.
میرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسے آپ کے رب نے آپ کو آپ کے گھر سے حق کے ساتھ نکال لیا یعنی جیسے آپ اللہ کی مدد سے حق کی تائید کے ساتھ اپنے گھر سے نکل آئے۔ کما کلمہ تشبیہ ہے جو تقاضا کررہا ہے کہ مضمون کو یوں مکمل کیا جائے محبوب جیسے آپ اپنے گھر سے نکل آئے۔ اس طرح آپ کے لشکر والوں اور مومنوں کو بھی چاہئے کہ وہ گھروں سے نکل آئیں۔ اب وہ کونسا گھر ہے جہاں سے نکلنے کی بات ہورہی ہے؟
یہاں سے مضمون کی ابتدا ہوتی ہے کہ آقا علیہ السلام اپنے کس گھر سے نکل آئیں اور مومنوں کو کن گھروں سے نکلنے کا حکم ہورہا ہے؟ ایک گھر تو وہ تھا جس میں وہ رہتے تھے لیکن ایک گھر اس وجود کا ہے جوکہ مادی، بشری اور خاکی وجود ہے جس کے بارے میں محبوب سے فرمایا جارہا ہے کہ جس طرح آپ اپنے وجود کے گھرکو چھوڑ کر روح کے گھر کی طرف نکل آئے ہیں اور حالت نفسانی کو ترک فرمادیا ہے۔ اسی طرح آپ کی امت کے لوگوں کو بھی چاہئے کہ آپ کی روحانیت کی پیروی کرتے ہوئے وہ بھی اپنے وجود کے گھروں سے نکلیں یعنی اپنی نفسانی حالت سے نکلیں اور اپنی قلبی و روحانی حالت کی طرف سفر کریں۔ جب تک اس وجود کے گھروں سے نکلو گے نہیں تب تک نفس کے ماحول میں گھرے رہو گے کیونکہ وجود کے گھر میں نفس کا قبضہ ہے۔ نفس کی ہوائیں اور فضائیں ہیں، نفس کا ماحول ہے اور ہم اس نفسانی ماحول میں گھرے رہیں گے جب تک اللہ کی طرف سفر شروع نہیں کرتے۔
مرادِ الہٰی یہ تھی کہ اے لوگو! اگر تم چاہتے ہوکہ تائب بن جاؤ اور تمہیں توبہ میں استقامت مل جائے۔ اگر چاہتے ہو کہ جس عالم لاہوت کے وطن سے تم آئے ہو پلٹ کر اپنے اس لاہوتی وطن کی طرف سفر شروع کردو اور چاہتے ہو کہ اللہ سے تعلق پھر سے جڑ جائے اور چاہتے ہو کہ اللہ کو جو تم بھول گئے ہو وہ یاد پھر سے متمکن ہوجائے، اگر چاہتے ہو کہ اللہ کی بندگی پھر جاگ اٹھے اور من کے اندر کی اندھیری راتیں پھر سے ختم ہوجائیں اور نور حق کا اجالا تمہارے اندر آجائے تو اس کا نقطہ آغاز یہ ہوگا کہ اپنے وجود کے گھروں کو چھوڑ دو۔ نفسانیت کی فضاء سے نکل آؤ۔ نفس کو چھوڑو اور دل کی طرف سفر کرو اور پھر دل کو چھوڑو روح کی طرف سفر کرو۔ پھر روح کو چھوڑو، سِر کی طرف سفر کرو پھر سِر کو چھوڑو، خفی کی طرف سفر کرو، پھر خفی کو چھوڑو، اخفاء کی طرف سفر کرو۔ جب مقام اخفاء پر پہنچو گے تو خدا تمہیں اپنی قربت کی گود میں لے لے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا : محبوب جس طرح آپ اپنے وجود کے گھر سے نکل آئے ہیں آپ کے ساتھی بھی نکل آئیں۔
جو لوگ دس دن اعتکاف کے لئے آکر بیٹھے ہیں اور جو لوگ شب قدر کے اجتماع میں دنیا کے اطراف و اکناف سے چل کر یہاں آئے ہیں۔ ہم سب کے لئے بھی اس میں پیغام ہے کہ ایک گھر وہ تھے جو آپ چھوڑ آئے لیکن خالی ان گھروں کو چھوڑنے سے من پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سو بار ان گھروں کو چھوڑا۔ حج اور عمرہ کرنے گئے، پلٹ کر پھر ان گھروں میں ہی آگئے۔ جب تک اس گھر کو گھر سمجھو گے جاتے رہو گے اور آتے رہو گے۔ گھر سے نکلنا کچھ نہیں دے گا جب تک اس گھر سے بڑے گھر، مضبوط گھر، خطرناک گھر، ہولناک گھر جو تمہارے قلب و باطن کے اوپر نفس کا گھر ہے جو اوپر مسلط ہے۔ اس نفسانیت کے گھر سے نہیں نکلے۔ لہذا اپنی شہوتوں کے گھروں سے نکلو، خواہشوں کے گھر سے نکلو، حرص کے گھر سے نکلو، لالچ کے گھر سے نکلو، تکبر کے گھر سے نکلو، حسد کے گھر سے نکلو، جاہ و منصب کے گھر سے نکلو۔ یہ اینٹ اور پتھر کے گھر جنہوں نے تمہیں حرص و ہوس کے جال میں قید کررکھا ہے۔ اس گھر کی کھڑیوں اور دیواروں کو توڑ کر باہر نکل آؤ۔ جب تم اس گھر سے نکل آؤ گے تو بے گھر نہیں ہوجاؤ گے بلکہ اللہ تمہیں اس سے اعلیٰ قلبی گھر عطا کردے گا۔ وہ گھر ملکوتی ہوگا۔ اس گھر کے پڑوس میں انبیاء کی روحیں رہتی ہوں گی، شہداء رہتے ہوں گے اور خدا جانے کون کون سی ہستیاں رہتی ہونگی۔ اس گھر میں کبھی بجلی آتی ہے کبھی چلی جاتی ہے کبھی روشنی ہے کبھی اندھیرا ہے۔ جب اُس گھر میں آجاؤ گے تو وہاں کی روشنی انوار الہٰیہ سے ہوگی وہاں کبھی بھی اندھیرا نہ ہوگا۔ وہ دل کا کوٹھا ہے۔ وہ روح کا کوٹھا ہے۔ وہ باطن کا کوٹھا ہے۔ اسی لئے اللہ نے فرمایا کہ نفسانیت کے گھر سے نکل کر روحانیت کی طرف آجاؤ مگر جب نکلنے کی بات ہوتی ہے تو انہیں نفس کی رغبتیں، راحتیں اور خواہشیں یاد آتی ہیں اور اتنا گھبراتے ہیں جیسے نفسانیت کا گھر نہیں چھڑایا جارہا بلکہ موت کی طرف بلایا جارہا ہے۔ نفس کے گھر سے نکلنے کو ان کا دل نہیں چاہتا کیونکہ نفس نے اپنا گھر بڑی زیب و زینت کے ساتھ سجایا ہوا ہے اور اسی زیب و زینت نے انسان کو دھوکہ دے رکھا ہے جیسے دنیوی گھر سجائے جاتے ہیں۔ انہیں چونا لگایا جاتا ہے۔ خوبصورت سجاوٹ کی جاتی ہے۔ فریم و قمقمے لگائے جاتے ہیں۔ اسی طرح ان کے وجود نے اپنے نفسانی گھر کو اتنی زیب و زینت سے سجا رکھا ہے کہ اس کو چھوڑنے کو ان کا دل نہیں کرتا۔ اب نفسانی گھر کی زیب و زینت کیا ہے؟ قرآن نے فرمایا :
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَالْبَنِيْنَ وَالْقَنَاطِيْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالَانْعَامِ وَالْحَرْثِط ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَاج وَاﷲُ عِنْدَه حُسْنُ الْمَاٰبِo
(آل عمران، 3 : 14)
’’لوگوں کے لیے ان خواہشات کی محبت (خوب) آراستہ کر دی گئی ہے (جن میں) عورتیں اور اولاد اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشان کیے ہوئے خوبصورت گھوڑے اور مویشی اور کھیتی (شامل ہیں)، یہ (سب) دنیوی زندگی کا سامان ہے، اور اﷲ کے پاس بہتر ٹھکانا ہے‘‘۔ (عرفان القرآن)
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا یہ وہ رغبتیں ہیں جنہوں نے زنجیر بن کر ٹانگوں کو جکڑ رکھا ہے۔ کچھ لوگ نفسانی گھر سے نکلنے کا سوچتے ہیں تو بچوں، عورتوں اور بیویوں کی محبت کی زنجیر پاؤں کو کھینچ لیتی ہے۔ کچھ زندگی میں کاروبار کرتے ہیں اور مال و دولت اور سونے چاندی کے ڈھیر لگالیتے ہیں وہ زنجیر بن جاتے ہیں۔ کچھ لوگ نکلنے کا ارادہ کرتے ہیں مگر طاقت، حکومت اور اقتدار زنجیر بن کر پاؤں کو جکڑ لیتے ہیں۔ بعضوں کو کبھی نکلنے کا خیال آتا ہے تو کھیتی باڑی، زراعت، اناج، معیشت و کاروبار یہ انسان کو جکڑ کر کھینچ لیتے ہیں۔ فرمایا : ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا. یہ مادی دنیا کی متاع ہے اور یہی نفسانی گھر کی زینت ہے۔ نفس نے یہ خوبصورتیاں بنا رکھی ہیں اور انسان اتنا کمزور ہوچکا ہے کہ ان کو ہی اپنا وطن سمجھ بیٹھا ہے۔ انہی میں ساری لذت سمجھ بیٹھا ہے۔ اس کو انہی میں سارا آرام اور سکھ چین نظر آتا ہے۔ اسی میں لذت و سکون پاتا ہے۔ اس لئے اس نفسانی گھر کو چھوڑ کر روحانی گھر کی طرف جانے کوجی نہیں کرتا اور حقیقت یہ ہے کہ یہ ساری شہوتیں، رغبتیں اور زینتیں روحانیت پر حجاب بن گئی ہیں اور جب کسی چیز پر پردہ آجائے تو پردے کے پار کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی۔ حجاب النسائ، حجاب الزینۃ، حجاب البنین، حجاب الخیل اور حجاب الانعام یہ پانچ حجابات ہیں جنہوں نے روحانی لذتوں کو ہماری آنکھوں سے چھپا رکھا ہے۔ ہم روحانی حجابوں میں گھر گئے اس لئے جب اس گھر کو چھوڑنے کی بات ہوتی ہے تو انسان کو یہ حجابات روک لیتے ہیں اور یہ باور کراتے ہیں کہ اگر ان زینتوں والے گھر کو چھوڑ دیا تو ویران اور تباہ ہوجائیں گے۔
ادھر دوسری طرف ان حجابات کے پَرے سے آواز آرہی ہے :
قُلْ اَؤُنَبِّئُکُمْ بِخَيْرٍ مِّنْ ذٰلِکُمْ لِلَّذِيْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰـرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا وَاَزْوَاجٌ مُّطَهَرَةٌ وَّرِضْوَانٌ مِّنَ اﷲِط وَاﷲُ بَصِيْرٌم بِالْعِبَادِ.
(آل عمران، 3 : 15)
’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں : کیا میں تمہیں ان سب سے بہترین چیز کی خبر دوں؟ (ہاں) پرہیزگاروں کے لیے ان کے رب کے پاس (ایسی) جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے (ان کے لیے) پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور (سب سے بڑی بات یہ کہ) اﷲ کی طرف سے خوشنودی نصیب ہوگی، اور اﷲ بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے‘‘۔ (عرفان القرآن)
روح کے کانوں سے سنو! آواز آتی ہے کہ ان لذتوں سے بڑی کوئی لذت نہیں، ان راحتوں سے بڑھ کر کوئی راحت نہیں، اس چاہت و محبت سے بہتر کوئی محبت و چاہت نہیں۔ آذرا حجاب اٹھا! میرے محبوب ان کو بتا کہ میں ان رغبتوں سے بہتر رغبت کا پتہ بتاتا ہوں۔ اس خوبصورت گھر سے بڑھ کر زیادہ حسین و جمیل گھر بتاتا ہوں۔ جب اس کو دیکھو گے تو اس گھر کو بھول جاؤ گے۔ فرمایا : محبوب! ان سے پوچھو! کیا تمہیں بتاؤں؟ عرض کی مولا انہیں بتادے کہ ان سے بہتر بھی زینتیں ہیں اگر وہ نظر آجائیں تو اس نفسانی گھر سے نکلنا شاید آسان ہوجائے۔ فرمایا : محبوب ان کو بتادے کہ تم اپنے گھر کو خوبصورت بنانے کے لئے پھول لگاتے ہو لیکن جو گھر میں نے تمہارے لئے بنا رکھا ہے وہ ایسے باغات ہیں کہ تم اپنے سارے باغات کو بھول جاؤ گے۔ ان باغات کے نیچے نہریں ہوں گی جب ان نہروں کو دیکھو گے تو دنیا کی تمام نہروں کو بھول جاؤ گے۔ ارے بیویوں اور عورتوں کی صحبت میں گرفتار ہونے والو! اس دنیا سے نکل کر جب تم میرے پاس آؤ گے تو تمہیں زوجیت کی وہ سنگتیں دوں گا کہ تم ساری دنیا کی سنگتوں کو بھول جاؤ گے اور پھر ان سب سے بڑھ کر اپنی رضا کے باغ میں داخل کروں گا۔ جب میری رضا کی بستی میں آؤ گے تو تمام جنتوں کو تم بھول جاؤ گے پھر اس سے بھی آگے ایک مقام آئے گا جیسے پانچ حجاب تھے اس کے مقابلے میں پانچ فرحتیں ہونگی۔
- اخروی جنات کی فرحت
- اخروی باغات کی فرحت
- اخروی سنگتوں کی فرحت
- اخروی نہروں کی فرحت
- رضوان اللہ کی فرحت
اس سے کہیں بڑھ کر ’’وَاللّٰهُ بَصِيْرٌم بِالْعِبَاد‘‘ ہے یعنی ایک ایسا مقام بھی میں نے رکھا ہے جو مقام دیدار ہے۔ یہ جوارِ غفار ہے۔ یہ اللہ کی قربت اور دیدار کا مقام ہے۔ جو رضا کی وادی سے گزر جاتے ہیں وہ خدا کے دیدار سے گزرتے ہیں۔ فرمایا : اے محبوب! اپنے وجود سے نکلنے کی دعوت دے کر ان نفسانی زینتوں کے مقابلے میں میری اخروی زینتیں رکھ دو۔ شاید ان زینتوں کی خبر سن کر کسی کے باطن میں شوق کی چنگاری بھڑک اٹھے۔
سردیوں کی یخ بستہ رات میں سفر طے کرکے آنے والو! اللہ نے ان زینتوں کی خبر دی ہے کہ شاید باطن میں شوق اٹھ جائے۔ شاید اس ہوا سے عشق کی آگ بھڑک اٹھے۔ عشق الہٰیہ کا شعلہ بھڑک اٹھے۔ اگر آگ جل گئی تو شہوتوں کے سارے حجاب جل کر راکھ ہوجائیں گے۔ سب رغبتوں کے پردے جل کر راکھ ہوجائیں گے۔ مطلع قلب صاف اس وقت ہوگا جب دل کا سویرا صاف ہوگا۔ جس حسن و جمال کے لئے تم مارے مارے پھرتے تھے جب سارے حسینوں سے بڑھ کر حسین چہرہ نظر آئے گا تو سب کچھ بھول جائے گا۔ اس روحانی گھر کی خوبی یہ بھی ہے کہ سب راحتوں کے بعد سب سے بڑی نعمت ’’وادی رضوان‘‘ ہے۔ جہاں رب کی رضا نصیب ہوگی۔ اس سے آگے نصرت کی وادی ہے جہاں دستر خوان لگایا جائے گا۔ تم سوچو گے آج دستر خوان کس نے سجایا ہے؟ ہم کس کے مہمان ہیں؟ اچانک پردہ اٹھے گا۔ آواز آئے گی میرے مہمانوں! رب خود تمہارا میزبان ہے۔ پھر اس سے آگے دیدار کا ایک مقام آئے گا کہ جو میرے دیدار کے طلبگار ہوں گے ان کے لئے ملائکہ کو حکم ہوگا کہ پردے اٹھا دو یہ میرے دیدار کے طلبگار ہیں۔ ان کو دیدار کرایا جائے گا۔ یہ سب کچھ تب حاصل ہوگا جب نفسانیت کو چھوڑ دو گے۔
آقا علیہ الصلوۃ والسلام جب اپنے وجود اور اپنے اخلاق سے نکلے تو رب تعالیٰ نے انہیں اپنے اخلاق میں شامل کرلیا۔ فرمایا : اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ۔ معلوم ہوا جب تک کوئی شخص ایک جگہ کو نہیں چھوڑتا اگلی منزل نصیب نہیں ہوتی۔ ہمارا المیہ ہے کہ ہم اپنے نفسانی گھر کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں۔ وقتاً فوقتاً اور موسم میں نکلتے ہیں جیسے رمضان کے موسم میں نکلے اعتکاف بیٹھے۔ لیکن جب یہ موسم ختم ہوا پلٹ کر اپنے گھر واپس چلے گئے۔ پھر وہی غیبت، چغلی، حرص اور نفسانی ماحول ہوگا۔ نتیجتاً ہم ساری زندگی گھوم پھر کر اسی تاریکی میں ختم کردیتے ہیں۔ مگر اللہ رب العزت نے اصول دے دیا : کَمَا اَخْرَجَ رَبُّکَ مِنْ بَيْتِکَ بِالْحَقِّ. جس سے معلوم ہوا جب تک پہلا گھر چھوڑا نہ جائے دوسرا گھر رہنے کے لئے مل نہیں سکتا۔ آگے مزید فرمایا : وَاِذْ يَعِدُکُمُ اﷲُ اِحْدَی الطَّآئِفَتَيْنِ اَنَّهَا لَکُمْ. جب وہ لشکر اسلام میدان بدر کی طرف نکلنے والا تھا تو کافروں کے دو لشکر تھے ایک چھوٹا اور ایک بڑا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا کہ ان دو میں سے جو بڑا لشکر ہے میں تمہیں اس پر فتح نصیب کردوں گا۔ یعنی بڑی فتح عطا کردوں گا۔ آگے فرمایا : وَتَوَدُّوْنَ اَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْکَةِ اور تم چاہتے تھے کہ دوسرا جو چھوٹا سا لشکر جس میں مال و دولت، سامان تجارت اور دنیاوی سازو سامان تھا وہ تمہیں مل جائے۔
مقصد یہ کہ نیکی کی راہ پر نکل کر بھی تمہاری نگاہ دنیاوی مال و متاع پر ہوتی ہے، عبادت اور سجدے کرتے ہو۔ اس کے آگے روتے ہو اور کہتے ہو کہ رزق میں کشادگی آجائے، مقدموں سے چھوٹ جاؤں، اولاد میں برکت ہوجائے، مسائل حل ہوجائیں، گھر میں خیر ہوجائے، امتحان میں پاس ہوجاؤں، انڈسٹری لگ جائے۔ ارے نادان! میرے حضور آکر سجدہ کرتا ہے، رکوع کرتا ہے، رات کو جاگتاہے، دس دن اعتکاف کرتا ہے، شدت کی ٹھنڈی رات میں سفر کرتا ہے، میں انتظار کرتا ہوں کہ اب مانگتا کیا ہے؟ افسوس بندے جب مانگنے کا وقت آیا تو تو نے میری محبت کو ترک کرکے مجھ سے دنیا مانگی، تجارت مانگی، وہ دنیا جس سے تمہیں نکالنا چاہتا تھا اس میں زیادتی مانگی۔ اور وہ چیز مانگی جس میں عزت بھی نہیں تھی۔ کوئی بڑی چیز مانگتا۔ ساری عبادتوں کے عوض تونے سستا سودا کیا۔ رب تعالیٰ چاہتا ہے کہ بندے! ان عبادتوں، ریاضتوں، شب بیداریوں، سفروں کے عوض، مجھ سے بڑی چیز مانگ، یہ مانگ کہ نفس کے لشکر پر غلبہ عطا کر۔ مجھے شیطان کے لشکر پر غلبہ عطا کر، مجھے ملکوتی گھر عطا کر، مجھے جبروتی گھر عطاکر، لاہوتی گھر عطا کر، اے بندے! تو مجھ سے یہ مانگ کہ فرش پر چلنے والا بندہ عرشی بن جائے۔ اور پھر اے بندے ان عبادتوں کے عوض مجھ سے مجھے مانگ، مجھ سے میری قربت مانگ، میری رضا مانگ، میری مسکراہٹ مانگ، میرا دیدار مانگ۔ پھر دیکھ میں کیا کچھ عطا کرتا ہوں۔ فرمایا :
تم چھوٹی چیز مانگتے ہو میں بڑی چیز دینا چاہتا ہوں۔ تم دنیاوی شان و شوکت کی طرف جاتے ہو میں اخروی و روحانی شان و شوکت کی طرف لے کر جاتا ہوں۔ پھر فرمایا : جو لوگ نفس اور شیطان پر غلبہ مانگتے ہیں وہ محنت کرتے ہیں اس لئے کہ نفس پر قابو پالیں جب نفس پر قابو پالیا تو نفسانی زینتوں پر قابو پالیا۔ جب نفسانی زینتوں پر قابو پالیا تو نفسانی گھر سے نکل آنے کے قابل ہوگئے۔ اتنی طاقت آگئی کہ نفس کا گھر چھوڑ کر روح کی طرف روانہ ہوگئے۔ فرمایا : جب تم نفسانی گھر سے نکل کر بڑی شے طلب کرتے ہو اور روح کی طرف سفر کرتے ہو اور ملکوت اور مالائے اعلیٰ کی طرف سفر کرتے ہو تو اللہ اپنا ارادہ اور وعدہ پورا کرنے لگتا ہے اور تمہارے دلوں کو روحانی اثرات و تجلیات کے لئے نامزد کرتا ہے۔ ابھی وہ عالم روحانیت اور آخرت کی جنت میں نہیں پہنچتا مگر دل کی آنکھ سے جنت کے نظارے ہونے لگتے ہیں۔ کبھی اخروی نہروں اور کبھی اخروی باغات کے نظارے ہوتے ہیں۔ کبھی دل اور باطن پر دیدار حق کی تجلیات اترتی ہیں۔ مستی اور بے خودی آتی ہے۔ انسان مجلس میں بیٹھا ہوا کھویا کھویا رہنے لگتا ہے اور جلوت میں بیٹھ کر خلوت میں کھو جاتا ہے۔ دوستوں کے ہجوم میں بیٹھا ہوا اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ کوئی سمجھتا ہے مجھے تک رہا ہے جبکہ وہ اس کی نعمتوں کو تک رہا ہوتا ہے۔ اس کا دل آخرت کے نظاروں میں گم ہوتا ہے اور جو اسے مرنے کے بعد نصیب ہونا تھا وہ اسی زندگی میں قلب و باطن کی کیفیات بن کر طاری ہونے لگتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جو اولیاء اللہ کبھی کبھی بیان کرتے ہیں۔ ان کی زبان سے سن کر بھی یہ کیفیات طاری ہونے لگتی ہیں۔ جونہی بندہ اس کا مسافر بنتا ہے تو یہ تجلیات، یہ کیفیات، یہ انوار اور یہ مشاہدات ابتدائے احوال میں شروع ہوتے ہیں۔ اس لئے ہوتے ہیں کہ بندے کو یہ یقین ہوجائے کہ کوئی ہے کہ جس کی یہ تجلی ہے تو پھر تجلی والا بھی ہوگا۔ جس حسن کی یہ جھلک ہے آخرت میں کوئی حسن والا بھی ہوگا۔ اسکے Reflections آنا شروع ہوجاتے ہیں اور باطل خیالات کو معدوم کرنا شروع کردیا جاتا ہے۔
ہم جب نماز پڑھتے ہیں، تلاوت کرتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں، حج کرتے ہیں دیگر عبادات کرتے ہیں تو فاسد خیالات اور وسوسے آتے ہیں۔ کیوں آتے ہیں؟ اس لئے کہ رہائش نفسانیت کے گھر میں ہے جب ڈیرہ نفسانیت کے گھر میں ہے تو وسوسے کیوں نہیں آئیں گے اور جب وہ نفسانیت کا گھر چھوڑتا ہے تو پھر روحانی مشاہدات اور قلبی و ارادت ہوتے ہیں۔ اس سے اس کا یقین بڑھتا جاتا ہے اور جب یقین بڑھتا ہے تو باطل خیالات کاوجود نہیں رہتا اور وہ حملہ نہیں کرسکتے کیونکہ وہ گھر سے باہر رہ جاتے ہیں۔ گھر کی روحانیت اور گھر کی دیواریں اس قدر مضبوط ہوتی ہیں کہ باطل کے لشکر کے حملے کو ناکام بنادیتی ہیں اور انسان محفوظ ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حق کا لشکر، اللہ کے مسافروں کا لشکر اور اللہ کے طالبوں کا لشکر نفسانیت کے گھر سے نکل پڑا اور روحانیت کے گھر کی طرف چل پڑا تو اللہ پاک نے اپنی نوازشات ان پر نازل فرمادیں اور ملائکہ سے فرمایا کہ میرے بندوں نے مدد طلب کی ہے لہذا ہزار فرشتو سامان لے کر زمین پر اتر جاؤ اور میرے بندوں کے ساتھ میدان جنگ میں لڑو۔ پھر دائیں بائیں مقرب بندوں کے ساتھ ملائکہ بھی اتر آتے ہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ اگر تم آج بھی اللہ کے حضور اپنے آپ کو پیش کردو تو ملائکہ کے ذریعے اللہ کی نصرت کا دروازہ بند نہیں ہوا۔ وہ تمہارے حال اور تمہاری شان کے مطابق آج بھی ملائکہ کے ذریعے تمہاری مدد فرمائے گا اور پھر مدد فرشتوں نے نہیں کرنی تھی بلکہ مدد اللہ ہی نے کرنی تھی اور وہ مدد کرنے میں فرشتوں کے بھیجنے کا بھی محتاج نہیں۔ لہذا کوئی ضروری و لازم نہ تھا کہ فرشتے اتریں تو مدد ہوگی اور فرشتے نہ اتریں تو مدد نہیں ہوسکتی۔ باری تعالیٰ! جب سب کچھ آپ نے کرنا تھا اور فرشتوں کے اتارنے کی محتاجی بھی نہ تھی تو پھر فرشتوں کو کیوں اتارا تھا؟ فرمایا : اس لئے اتارا کہ میں لوگوں کو طریقہ و سلیقہ بتادوں کہ مدد تو میں کرتا ہوں مگر مدد کے لئے کسی کو وسیلہ و واسطہ بناتا ہوں اور قیامت تک میرا اصول یہ ہے کہ روحانیت کے سفر میں جب میری مدد کے طلبگار بنتے ہو تو میری مدد واسطہ اور وسیلہ کے بغیر نصیب نہیں ہوگی۔ یہ اولیاء کرام شہنشاہ بغداد حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ، قدوۃ الاولیاء حضور سیدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی البغدادی رحمۃ اللہ علیہ، حضور داتا گج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت خواجہ اجمیر رحمۃ اللہ علیہ، حضرت بابا فریدالدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ، حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شاہ نقشبد رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شاہ سہرورد رحمۃ اللہ علیہ، یہ سب کون ہیں؟ یہ سب اللہ کی مخلوق اور روحانیت کے مسافروں کے لئے اللہ کی مدد کے مظہر ہیں۔ اللہ کی مدد ان کے واسطے سے اللہ کی مخلوق کو پہنچتی رہی۔ نصرت الہٰی، امداد الہٰی، نصرت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض اللہ تعالیٰ ان بزرگان دین کے وسیلے سے اتارتا رہا اور مخلوق کو جو فیض ملتا رہا وہ ان کے توسل سے ملتا رہا۔ یہ واسطے، اور مدد اس لئے نازل فرمائی۔ فرمایا :
وَمَا جَعَلَهُ اﷲُ اِلَّا بُشْرٰی وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوْ بُکُمْ.
(الانفال، 8 : 10)
’’اور اس (مدد کی صورت) کو اللہ نے محض بشارت بنایا (تھا) اور (یہ) اس لیے کہ اس سے تمہارے دل مطمئن ہو جائیں ‘‘۔
تاکہ انہیں دیکھ کر دلوں کو اطمینان ہوجائے۔ یہ خوشخبری بن جائیں اور اطمینان کی دولت نصیب ہوجائے۔ اس کے بعد اگلی حالت بیان ہوئی ہے کہ کوئی اللہ والا بن جائے اور اللہ کی مدد و نصرت کا طالب ہوجائے اور فرشی ہوکر عرشی تعلق جوڑ لے۔ ناسوتی ہوکر جبروتی اور لاہوتی تعلق جوڑ لے اور اللہ کی قربت و بندگی کے دائرے میں آجائے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ اپنی فوری نصرت کے علاوہ تجلیات اتارتاہے اور پھر مشاہدات ہوتے ہیں۔ آج کی رات شب قدر میں بھی ملائکہ اتارے جاتے ہیں۔ جیسے قرآن میں فرمایا گیا :
تَنَزَّلَ الْمَلٰئِکَةُ وَالرُّوْحُ فِيْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْج مِّنْ کُلِّ اَمْرٍ. سَلٰمٌ قف هِيَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ.
(القدر، 97 : 4.5)
’’اس (رات) میں فرشتے اور روح الامین (جبرائیل) اپنے رب کے حکم سے (خیر و برکت کے) ہر امر کے ساتھ اترتے ہیں۔ یہ (رات) طلوعِ فجر تک (سراسر) سلامتی ہے‘‘۔ (عرفان القرآن)
شب قدر میں شام سے لے کر طلوع فجر تک ملائکہ بندوں پر اترتے رہتے ہیں اور پھر خاص قبولیت کی جب گھڑی آتی ہے تو اللہ کے خاص بندوں کے ساتھ جبرائیل امین اور ملائکہ مصافحہ کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان بندوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور بجلی کی ایک لہر گزر جاتی ہے۔ بندے کو پتہ چلتا ہے کہ میرا وجود مالائے اعلیٰ کے وجود کے ساتھ مل گیا ہے۔ اللہ والے جب کامل ہوتے ہیں تو یہ کیفیات و تجلیات عالم بیداری میں بھی دیکھتے ہیں لیکن جو مسافر بنتے ہیں انہیں یہ تجلیات عالم خواب میں دیکھائی جاتی ہیں کیونکہ ان تجلیات کو دیکھنے کے لئے ضروری ہے کہ روح قفس عنصری سے پرواز کرے۔ کیونکہ ان کی حیات کا مشاہدہ روح کرسکتی ہے جسم کی آنکھ نہیں کرسکتی جب تک جسم پر نفس کا غلبہ رہتا ہے وہ دیکھنے نہیں دیتا جب آپ سوتے ہیں توجسم پر نفس کا غلبہ کمزور پڑتا ہے تو روح اس پنجرے سے آزاد ہوجاتی ہے تو وہ مشاہدات کا نظارہ کرنے لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل اللہ کو اطاعت کی راہ پر چلتے ہوئے نیک خواب آتے ہیں، تجلیات اور ملکوتی مشاہدات ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے سفر بدر میں فرمایا جب وہ میدان بدر میں پہنچے :
اِذْ يُغَشِّيْکُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً مِّنْهُ.
(الانفال، 8 : 11)
اللہ چاہتا تھا کہ اپنا کرم تم پر کرے اور تمہیں کچھ دیکھا بھی دے تو اللہ تعالیٰ نے تم پر اونگھ طاری کردی اس لئے طاری کی کہ وجود کا قبضہ اور تصرف ختم ہوجائے اور روح کو آزادی ملے۔ رب چاہتا تھا کہ تمہیں منزل پر پہنچنے سے پہلے کچھ ملکوتی مشاہدے کرادے۔ ملکوتی مشاہدے کے لئے ضروری تھا کہ روح اپنی آنکھ کھولے۔ اللہ نے اونگھ طاری کرکے مشاہدہ کروادیا۔ پھر فرمایا :
وَيُنَزِّلُ عَلَيْکُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً
(الانفال، 8 : 11)
’’اور اللہ نے آسمان روح سے تمہارے اوپر پاکیزگی اور طہارت کا پانی اتاردیا‘‘ لِّيُطَهِّـرَکُمْ بِهِ ’’اور اس آسمان روح سے جو پانی اترا اس سے اللہ نے تمہارے دلوں کو دھودیا‘‘۔ تمہیں طہارت قلبی، طہارت باطنی، طہارت روحانی عطا کردی۔ یہ وہ آسمان روح سے تجلیات کی بارش تھی جو مالائے اعلیٰ سے روحانی پانی بن کر تم پر اتری اور تمہارے دلوں کی چادروں کو دھوتی چلی گئی۔ جس نے تمہارے نفس کے لباس کو دھودیا اور کیا ہوا؟ وَيُذْهِبَ عَنْکُمْ رِجْزَ الشَّيْطٰنِ شیطان اور شیطان کی جو پلیدیاں، وساوس اور باطل خیالات جس نے تمہارے نفس کے لباس کو آلودہ کررکھا تھا رب تعالیٰ نے اس حالت میں وہ پانی اتارا کہ دل صاف ہوگیا اور نفس کا لباس دھل گیا۔ وہ امّاریت سے نکل کر لوّامیت میں آگیا۔ لوّامیت سے نکل کر آگے بڑھا ملھمہ میں آگیا وَلِيَرْبِطَ عَلٰی قُلُوْبِکُمْ ’’اور اس نے پھر تمہارے دلوں پر تقویت و طاقت اتاری‘‘ ایسی تقویت اتاری کہ تمہارے دل زمین پر تھے مگر رب نے اپنے کرم سے تمہارے دلوں کو مالائے اعلیٰ کے ساتھ جوڑ دیا۔ اب اللہ کے وہ انوار و تجلیات جو فرشیوں پر نہیں اترتے، جو زمین و ناسوت پر انہیں اترتے۔ جو صرف عالم ملکوت اور سماوی دنیا پر اترتے ہیں۔ مگر جب اللہ نے مالائے اعلیٰ کے ساتھ جوڑ دیا تو جو فرشتوں پر اتر رہا تھا وہ تمہارے دلوں پر اتار دیا۔
سمجھایا جارہا ہے کہ تم اللہ کی طرف سفر کا ارادہ کرکے دیکھو۔ اسی وجود کے نفسانی گھر کو چھوڑ کر دیکھو۔ رب تعالیٰ سے تعلق جوڑ کر دیکھو، رب سے رضا کا سودا کرکے دیکھو۔ جب نفس اور نفسانیت سے نکل جاؤ گے۔ جب وجود اور وجودیت سے نکل جاؤ گے تو اللہ پاک تم پر اپنا پانی اتارے گا جو تجلیات، انوار، برکات اور انعامات کا پانی ہوگا اور دلوں کو دھودے گا۔ نفس کی چادروں کو پاک کردے گا اور تمہارے دلوں کو اپنے مالائے اعلیٰ کے ساتھ جوڑ دے گا۔ ذرا نکل کر تو دیکھو پھر تمہیں پتہ چلے کہ مومن کا دل اس دنیا میں رہ کر گولیوں کی بوچھاڑ میں بھی متزلزل نہیں ہوتا۔ ہر طرف حرص و ہوس اور لالچ کا راج ہے۔ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے مگر کیا وجہ ہے کہ بندہ مومن کا دل اُس جہان میں ہے۔ لہذا اب اس پر وہ کیفیات اتر رہی ہیں جو مالائے اعلیٰ میں اترتی ہیں۔ باطنی طہارت کے بعد تمہاری نگاہ نہیں بھٹک سکے گی اور غلط سمت نہیں اٹھے گی۔ دل اور نفس غلاظت و پلیدی سے پاک ہوجائیں گے پھر تمہاری پاکیزگی و تقویٰ پر کوئی داغ نہیں آئے گا۔ تمہارے دل مالائے اعلیٰ سے جوڑ دیئے جائیں گے۔ اس دنیا کے اثرات پھر تمہارے دلوں کو متاثر نہیں کریں گے اور وَيُثَبِّتَ بِهِ الْاَقْدَامَ پھر اللہ تمہارے قدموں کو ثابت قدمی عطا کردے گا۔ پھر مخالفت ہو چاہے مزاحمت، جو کچھ بھی دنیا میں ہو ساری دنیا کے قدم اکھڑ سکتے ہیں مگر جس کا دل مالائے اعلیٰ سے جڑ گیا ہے اس کے قدموں کو کوئی ڈگمگا نہیں سکتا۔
فرمایا یہ ساری امداد ملکوتی امداد ہے جس میں فرشتے بھی اتریں گے اور یہ کیفیتیں بھی آئیں گی۔ پھر فرمایا : تم اپنا سفر جاری رکھنا کیونکہ اس ملکوتی امداد کے بعد پھر جبروتی امداد ہے۔
اِذْ يُوْحِيْ رَبُّکَ اِلَی الْمَلٰئِکَةِ اَنِّيْ مَعَکُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا.
(الانفال، 8 : 12)
’’(اے حبیبِ مکرّم! اپنے اعزاز کا وہ منظر بھی یاد کیجیے) جب آپ کے رب نے (غزوہ بدر کے موقع پر) فرشتوں کو پیغام بھیجا کہ (اَصحابِ رسول کی مدد کے لیے) میں (بھی) تمہارے ساتھ ہوں، سو تم (بشارت و نصرت کے ذریعے) ایمان والوں کو ثابت قدم رکھو‘‘۔ (عرفان القرآن)
لہذا پھر وہ وقت بھی آتا ہے جب بندے کو لاہوتی امداد میں ڈالا جاتا ہے اور جب بندہ اس دائرے میں جاتا ہے تو حکم آتا ہے فرشتو! اب تک میرے بندوں کی مدد کے لئے تم تھے لیکن میرے بندوں کو بتادو کہ اَنِّيْ مَعَکُمْ اب میں بھی تمہارے ساتھ مدد کے لئے نکل رہا ہوں۔ پھر اللہ پاک اپنی براہ راست مدد سے نوازتا ہے۔ جس کو اللہ کی مدد مل جائے بالواسطہ بھی اور بلاواسطہ بھی اس بندے کے قدموں میں کوئی تزلزل پیدا نہیں کرسکتا اور ایسی کیفیت میں جب اللہ کی مدد بندے پر اترتی ہے تووہ بندہ ناتواں ہوتا ہے اس کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہوتا۔ افراد تھوڑے ہوتے ہیں۔ اسلحہ تھوڑا ہوتا ہے۔ وسائل و اسباب کم ہوتے ہیں مگر اس کے باوجود خود اللہ اس کا رعب و دبدبہ دوسروں کے دلوں میں طاری کردیتا ہے اور یہ فیضان محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا :
سَاُلْقِيْ فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ کَفَرُوا الرُّعْبَ.
(الانفال، 8 : 12)
’’میں ابھی (جنگ جُو) کافروں کے دلوں میں (لشکر محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا) رعب و ہیبت ڈالے دیتا ہوں‘‘۔
مگر یہ سارے راستے اس وقت کھلتے ہیں جب انسان ایک شرط پوری کرے کہ نفسانی گھر سے روحانی گھر کی طرف سفر شروع کرے۔ جس کی طرف اللہ کا بلاوا آتا ہے۔
يٰـاَيُهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا ِﷲِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا يُحْيِيْکُمْ.
(الانفال، 8 : 24)
’’اے ایمان والو! جب (بھی) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تمہیں کسی کام کے لیے بلائیں جو تمہیں (جاودانی) زندگی عطا کرتا ہے تو اللہ اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو فرمانبرداری کے ساتھ جواب دیتے ہوئے (فوراً) حاضر ہو جایا کرو‘‘۔
اگر دل میں یہ بات اتر جائے کہ جس کام کی طرف اللہ اور اس کا رسول بلارہے ہیں اسی بات میں حقیقی زندگی ہے، اسی میں حقیقی حیات ہے تووہ لبیک کہہ دے اور اپنی دائمی حیات و زندگی اللہ اور اس کے رسول کے بلاوے پر لبیک کہنے اور اس کے احکام کی تعمیل کرنے میں سمجھے۔ بندہ زندگی کا یہ راز سمجھ لے تو اللہ پاک روحانی زندگی عطا کرتا ہے اور نفسانی گھر سے نجات عطا کرتا ہے۔
ہماری حالت یہ ہے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول کے احکام روزانہ سنتے ہیں مگر یقین اتنا کمزور ہے کہ ہم ان میں اپنی زندگی و حیات کا راز مضمر نہیں جانتے۔ ہمارا یقین متزلزل ہے، نفسانی زیب و زینت سے نکلنے سے دل نہیں کرتا کیونکہ اللہ نے جو وعدہ کیا ہے اس پر یقین کامل نہیں بلکہ شک رہتا ہے کہ قرآن میں تو ہے مگر پتہ نہیں ملے گا بھی یا نہیں ملے گا۔ نصیب میں ہوگا یا پھر نہیں۔ اس شک میں انسان کی ساری زندگی گزر جاتی ہے اور وہ نفس کی قید سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتا۔ فرمایا : لوگو! اللہ اور اللہ کے رسول کے فرمان کو حق جانو اور ان کے بلاوے پر لبیک کہہ دو۔ زندگی گزرتی جارہی ہے اور بیشتر سال ہماری زندگیوں کے گزر گئے۔ زیادہ عرصہ گزر گیا اور تھوڑا عرصہ ہماری اس حیات مستعار کا باقی رہ گیا ہے۔ کچھ سال، کچھ ماہ، کچھ دن، کچھ گھڑیاں یا کچھ سانسیں باقی رہ گئیں اور کچھ خبر نہیں زندگی ادھار دینے والا کس وقت واپس بلالے اور ادھار کی مدت ختم ہوجائے۔ یہ وقت ہے کہ سچے دل سے ہم لبیک کہہ لیں اور اس یقین کو پختہ کرلیں کہ ہماری حقیقی زندگی، حقیقی راحت، حقیقی لذت، حقیقی ترقی نفسانی گھر میں رہنے میں نہیں بلکہ روحانی گھر میں منتقل ہونے اور اللہ کی طرف سفر جاری کرنے سے ہوگی اور وہ لذتیں اور راحتیں جن کا اللہ رب العزت نے ہم سے وعدہ فرمایا ہے ان سے بہتر دنیا میں نہ کوئی لذت ہے نہ کوئی راحت ہے، نہ کوئی زندگی ہے اور نہ کوئی عزت ہے۔ ایک روح ہے جو ہمارے وجود کے پنجرے میں تڑپ تڑپ کر ایک بات کہنا چاہتی ہے لیکن ہم اسی روح کی بات کو سننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ روح بتاتی ہے کہ بندے اس دنیا میں تو پردیسی ہے تیرا یہ دیس نہیں، جن کو تو دیس سمجھ بیٹھا ہے، تیرا یہ حقیقی وطن نہیں جس کو تو وطن سمجھ بیٹھا ہے۔ تیرا اصلی وطن تو وہ تھا کیونکہ ہماری حقیقی و روحانی پیدائش اس دنیا میں نہیں ہوئی۔ اس دنیا میں تو ہمارے اس مادی وجود کی پیدائش ہوئی تھی۔ ہمارا من اور روح تو کہیں اور پیدا ہوئی تھی اور یہاں ایک مستعار مدت کے لئے آئی تھی جو ہم گزارتے ہیں مگر اس گھر میں آنے سے پہلے اس گھر میں ہم طویل مدت گزار کر آئے ہیں، روح کہتی ہے بندے! اپنے اصل وطن کو پہچان۔ اپنے دیس کو پہچان۔ تیرا وہ دیس اچھا تھا جہاں تجھے رب کا پڑوس میسر تھا جہاں ملائکہ کا قرب میسر تھا جہاں ہر وقت انوار و تجلیات کا نزول ہوتا تھا جہاں ہر وقت رحمتیں اور برکتیں تھیں، خدا کی قربتیں اور سنگتیں تھیں۔ وہاں نہ حرص تھا نہ حسد۔ نہ تکبر تھا نہ رعونت۔ نہ لالچ تھا نہ چغلی اور نہ منافقت تھی۔ ہر کوئی مومنانہ، پاکیزہ، ملکوتی زندگی گزارتا تھا۔ اے بندے تو کس گھر میں آگیا کہ تیرے چاروں طرف رغبتیں ہیں۔ چاروں طرف حسد کی آندھیاں ہیں۔ چاروں طرف تکبر، مکرو فریب، جھوٹ اور دنیاوی لالچ کی آندھیاں ہیں۔ انسان اپنی ذات اور خدا سے اور ہر ایک شخص سے دھوکہ کررہا ہے۔ روح تڑپ تڑپ کر ہمارے پنجرے میں چیخ رہی ہے کہ بندے اس گندے پردیس سے محبت چھوڑ اور پلٹ کر اپنے دیس اور اپنے وطن کو پہچان مگر افسوس ہم اس کی تڑپ کو سننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ہم چیختی تڑپتی روح کی پکار سننے کے لئے تیار نہیں۔ ہم آج کی بابرکت باسعادت رات اتنا ہی فیصلہ کرکے چلے جائیں کہ ہم اس روح کی تڑپ و پکار کی آواز کو سمجھ لیں اور یہی وہ آواز، یہی وہ درس، یہی وہ تڑپ اولیاء و صوفیاء، عشاق و عارف ہمیشہ بندے کو سناتے چلے آئے۔ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی درس دیا۔
انہوں نے اس روح کو بانسری سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ روح کی بانسری کیوں چیخ رہی ہے؟ کیوں تڑپ رہی ہے؟ کیا رونا رو رہی ہے؟ کیا حکایت سنارہی ہے؟ فرماتے ہیں : یہ اپنے اصل وطن سے ہجر وفراق کی داستان سناتی ہے اور روتے ہوئے شکایت کرتی ہے کہ میرا وطن عالم ملکوت تھا۔ میں اللہ کی قربت میں عالم ارواح میں ذات حق کی محبت، مشاہدے اور معرفت میں رہتی تھی اور اس کے ذکر و فکر میں رہتی تھی۔ ہائے میرے ساتھ کیا ہوا کہ کسی نے اس ملکوتی درخت سے توڑ کر اس جسم کے پنجرے میں بند کردیا۔ مجھے یہاں خدا کی محبت نہیں ملتی، ذکر نہیں ملتا، اس کے مشاہدے نہیں ملتے، ملکوتی انوار نہیں ملتے۔ میں دائیں بائیں جدھر کان لگاتی ہوں کوئی مال کی بات کرتا ہے، کوئی دکان کی بات کرتا ہے، کوئی تجارت کی بات کرتا ہے، کوئی بال بچوں کی بات کرتا ہے، کوئی طاقت و سلطنت کی بات کرتا ہے۔ یہ کیا بولیاں بولتے ہیں؟ انکی بولی میری سمجھ میں نہیں آتی ان کا رونا میری سمجھ میں نہیں آتا۔ وہ روتی ہے کہ میں اپنے وطن سے کیوں جدا ہوگئی؟ اور وطن سے اتنی دور ہوگئی کہ اب یہ بھی یاد نہ رہا کہ میرا وطن کوئی تھا بھی یا نہیں تھا۔ اکبر مرحوم نے کہا تھا :
کچھ نہ پوچھ اے ہمنشیں میرا نشیمن تھا کہاں
اب تو یہ کہنا بھی مشکل ہے وہ گلشن تھا کہاں
وہ باغ و بہار گئے، وہ لذت لیل ونہارگئے، وہ قربت الہٰیہ کے وجدان گئے، وہ معرفت الہٰیہ اور دیدار حق کے پرلطف نظارے گئے، وہ گلشن گئے، وہ وطن گیا۔ روح تڑپتی ہے۔ مولانا روم کہتے ہیں :
بانسری روتی ہے کہ جس دن سے مجھے درخت سے کاٹ کرجدا کردیا ہے۔ مجھے اپنے ملکوتی وطن سے جدا کردیا ہے، اپنی سنگت و صحبت سے جدا کردیا ہے اس وقت سے میں ناسوت میں مقید کردی گئی ہوں۔ لوگوں کو میرے رونے کی سمجھ تو نہیں آتی مگر کچھ سمجھ والے نالہ و پکار سن کر سوچتے ہیں کہ یہ اتنا کیوں روتی اور تڑپتی ہے۔ اس کے ساتھ کیا بیت گیا؟ مگر میں اپنا رونا اور داستان غم کس کو سناؤں؟ میں ہجرو فراق کی آگ میں جل رہی ہوں۔ اپنا رونا دھونا سنانے کے لئے کاش کوئی اب سینہ ملے جو ہجر و فراق میں پھٹ چکا ہو۔ جسے محبوب سے جدا کردیا گیا ہو۔ جس پر محبوب کے فراق کا آرا چل گیا ہو۔ وہ سینہ جو فراق کے آرے سے ریزہ ریزہ ہوگیا ہو اور پھٹ کر چیتھڑے ہوگیا ہو اس کو خبر ہوگی کہ ہجرو فراق کیا ہوتا ہے۔ روح کہتی ہے کہ مجھے کوئی ہجرو فراق میں پھٹا ہوا سینہ ملے تو میں بھی اسے اپنے غم کی داستان سناؤں تاکہ اس کو میرے غم کی سمجھ آئے۔ یہ روح جو ہمیں اپنا درد غم سنارہی ہے اورپکار پکار کر اس پردیس سے واپسی کی طرف لے جانا چاہتی ہے۔ اللہ پاک نے بھی وہ گھر
دکھادیا اورسفر بتادیا۔ آیئے! آج کی رات عہد کریں کہ اللہ پاک ہمیں وہ توفیق مرحمت فرمائے کہ اس پردیس کی محبت سے نکل کر اس دیس کی محبت کی طرف چل پڑیں۔ اس ناسوتی و نفسانی گھر سے نکل کر پھر ملکوتی، جبروتی، لاہوتی اور روحانی گھر کی طرف روانہ ہوجائیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ آج کی رات کے صدقے ہمارے حالات پر رحم فرمادے۔ وما علینا الا البلاغ المبین۔