انسان فطرتاً حرص و ہوس کا پیکر اور مادیت زدہ ہے جو مال دولت اور جاہ و منصب کو مرغوب رکھتا ہے۔ اولاً قابیل نے ہابیل کا قتل بھی اسی ہوس نفس کی تکمیل کے لئے کیا تھا۔ کثرت مال و دولت انسان کو دنیا میں آنے کا اصل مقصد بھلا دیتی ہے اور انسان اپنے مال پر اس طرح سانپ بن کر بیٹھ جاتا ہے کہ اس میں سے کچھ دوسروں پر خرچ نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو نظام معاشرت کی طرح نظام معیشت کے بھی بہترین ضابطے عطا فرمائے ہیں۔ اگر ان ضابطوں پر عمل کیا جائے تو معاشی عدل قائم رہتا ہے اور ان کو ترک کردینے سے ناانصافی جنم لیتی ہے جو متعدد خرابیوں کا باعث بنتی ہے۔
اس وقت دنیا میں دو قسم کے معاشی نظام رائج ہیں ایک اشتراکیت (Socialism)، دوسرا سرمایہ داریت (Capitalism)۔ اشتراکی نظام معیشت میں تمام اختیارات کا منبع اور سرچشمہ State ہوتی ہے اور عام شہریوں کو ملکیت کے حقوق میسر نہیں ہوتے جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ محکوم رہتے ہیں۔ دوسری طرف سرمایہ دارانہ معاشی نظام میں تمام اختیارات رعایا کے پاس ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ریاست محکوم ہوتی ہے اور شہریوں کی ہر جائز و ناجائز ڈیمانڈز پر عمل کرنے اور قانونی درجہ دینے پر مجبور ہوتی ہے۔ یہ دونوں نظام تباہی و بربادی کی طرف جا رہے ہیں اور عملی طور پر فلاپ ہوچکے ہیں کیونکہ اعتدال اور میانہ روی پر قائم نہیں ہیں جبکہ دین اسلام کا معاشی نظام ریاست کو بھی اختیارات دیتا ہے اور رعایا کو بھی۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ریاستی سطح پر بیت المال کا تصور دیا ہے تاکہ حکومت عوام کی فلاح و بہبود کے لئے ان پر مال خرچ کر سکے جبکہ انفرادی سطح پر زکوٰۃ کا نظام لاگو کرتا ہے جس میں ہر صاحب نصاب اپنی رقم کا ایک حصہ غریبوں کے لئے مختص کرتا ہے جس سے دولت گردش میں رہتی ہے اور امیر امیر تر اور غریب غریب تر نہیں ہوتا اور نان شبینہ سے محروم نہیں رہتا۔ اسی طرح اسلام میں انفرادی سطح پر صدقات و خیرات کے علاوہ وراثت کا نظام قائم ہے جس سے انسان کے مرنے کے بعد اس کی دولت اور جائیداد اس کے ورثاء میں تقسیم ہوجاتی ہے۔ اسلامی نظام معیشت میں قومی دولت کی حیثیت تمام لوگوں کے لئے ایسے ہی ہے جیسے جسم میں خون کی گردش ہوتی ہے۔ اگر خون جسم کے بعض حصوں کو Supply ہو اور بعض اس سے محروم رہیں تو پھر ناکارہ اور مفلوج ہوکر رہ جائیں گے۔ اسی طرح قومی سرمایہ اگر چند طبقات اور اشرافیہ میں گردش کرتا رہے اور قوم کی اکثریت بنیادی ضروریات سے محروم ہو تو وہ وبال جان بن جائے گا۔ لہذا معاشرے کی بقا اسی میں ہے کہ قومی سرمائے کی مساویانہ تقسیم ہو جس کے ذریعے ہر فرد اس سے مستفید ہوسکے۔
دیگر نظام ہائے معیشت اور دین اسلام کے نظام زکوٰۃ میں ایک اہم فرق یہ ہے کہ ادائیگی زکوٰۃ انسان کو یہ یاد دلاتی ہے کہ انسان جو دولت کماتا ہے وہ حقیقت میں اس کی ملکیت نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی امانت ہے۔ یہ احساس اسے معاشی بے راہ روی سے بچاتا ہے اور اس کے تمام اعمال کو احکام الہٰی کے تابع کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے انسان جو زکوٰۃ ادا کرتا ہے اس کے ذریعے وہ اپنے مال کو پاک کرلیتا ہے اور اس کے ذریعے اپنے دل کو بھی دولت کی ہوس سے پاک کرتا ہے۔ جب انسان دولت جیسی نعمت اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو اس خرچ شدہ مال کو اللہ تعالیٰ اپنے ذمہ قرض قرار دیتا ہے اور کئی گنا بڑھا کر واپس کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔
اسلام کے نظام معیشت کی تشکیل میں زکوٰۃ بنیادی اہمیت کی حامل ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن پاک میں اکثر مقامات پر ادائیگی نماز کے بعد ادائیگی زکوٰۃ کا حکم دیا گیا ہے۔ نماز بدنی عبادت ہے اور زکوٰۃ مالی عبادت ہے اور دونوں چیزیں لازم و ملزوم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خلیفہ اول امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے زکوٰۃ کا انکار کرنے والوں سے جہاد کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں اپنی زندگی میں ان دونوں فرائض کی تعمیل میں کوئی فرق نہیں ہونے دوں گا۔
تحریک منہاج القرآن نے اسی نظام زکوٰۃ کو بہترین مصرف میں لاتے ہوئے یتیم اور بے سہارا بچوں کے لئے آغوش کے نام سے بہترین اعلیٰ معیار کا حامل ادارہ قائم کیا ہے جس میں یتیم بچوں کو مفت تعلیم دینے کے علاوہ ان کی اسلامی خطوط پر تربیت کی جاتی ہے اور انہیں باعزت شہری اور کامل مسلمان بننے کے لئے تیار کیا جارہا ہے۔ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے تحت کئی فلاحی اور رفاہی منصوبے کام کررہے ہیں۔ جس میں غریب خاندانوں کے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی آپس میں شادیوں کے علاوہ بچیوں کے لئے جہیز کا فری بندوبست بھی شامل ہے۔ لہذا صاحب ثروت افراد اپنی زکوٰۃ و صدقات اور خیرات و عطیات منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کو دیکر اس کار خیر میں عملی طور پر شریک ہوسکتے ہیں۔