جمہوری معاشروں میں حقوق عوام تک پہنچ رہے ہوں اور وہ ترقی کی منازل طے کرکے دنیا میں اپنے وقار کو مہمیز لگارہے ہوں۔ معاشی، سیاسی، ثقافتی اور معاشرتی حوالے سے ان ممالک کی ترقی کا گراف عمودی سمت گامزن ہو اور عوام حقوق کے ثمرات سے لدے درختوں سے لطف اندوز ہورہے ہوںتو ان کو دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جن ممالک نے جمہوری نظام کو مضبوط اور اداروں کو مستحکم کیا وہ آج دنیا میں باوقار معاشی و سیاسی مقام رکھتے ہیں۔ مگر بدقسمتی ہے کہ اکثر مسلم ممالک نے حقیقی جمہوریت کو اپنانے کی بجائے بادشاہتوں اور آمریتوں کے بل بوتے پر صرف اپنے حق حکمرانی کو استحکام دیا اور عوام کو حقوق سے محروم رکھا۔ کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جہاں جمہوریت کے لبادے میں بدترین آمریتیں عمل پذیر ہیں۔ وطن عزیز میں پارلیمانی جمہوریت کے نظام کی رٹ تو بہت لگائی جاتی ہے مگر گزشتہ 3دھائیوں سے دو خاندانوں کی بدترین آمریت نے ملک کی معاشی معاشرتی اور ثقافتی چولیں ہلادی ہیں۔ اداروں کو کرپشن کی دیمک چاٹ گئی اور اب تو ان اداروں کے ستون بھی زمین بوس ہوگئے ہیں۔ 17 جون 2014ء کو ماڈل ٹائون میں پاکستانیوں کو سفاکی سے ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بناکر ظلم کا ایسا باب رقم کیا گیا جس کی مثال انسانی معاشروں میں کم ملے گی۔ سانحہ ماڈل ٹائون میں دو خواتین کو جس طرح موت کے گھاٹ اتارا گیا اس سے پوری پاکستانی قوم کا سرشرم سے جھک گیا۔
وطن عزیز میں حوا کی بیٹی کے حقوق ہر آنے والے دن سلب کئے جارہے ہیں۔ موجودہ جمہوریت میں قرآن سے شادی اور ظلم کے درجنوں سینکڑوں دروازے بند کرنے کی بجائے مزید کھولے جارہے ہیں۔ خاندان شریف کی بادشاہت نے عوام کے گھروں کا سکون لوٹ لیا ہے اور ظلم کے نظام کو تحفظ دیا جارہا ہے۔ جمہوریت کی چھتری تلے بدترین خاندانی آمریت کو پروان چڑھانے والے شریف خاندان نے ملک سے شرافت کا جنازہ ایسا نکال دیا ہے کہ حقیقی شرفاء کے لئے عزت کی زندگی گزارنا ایک خواب بن گیا ہے۔ آئین کاغذ کا ایک پرزہ اور اس میں ایک سے چالیس تک کے وہ آرٹیکل جو عوام کے حقوق کو ڈیل کرتے ہیں کو سبز کتاب کا قیدی بناکر بے بسی کی تصویر بنادیا ہے۔ آئین کو بنانے والوں کی نیت پر کوئی شبہ نہیں انہوں نے بہر حال ایک مرحلہ طے کرلیا مگر شریفوں اور زرداریوں نے مفادات کی ترامیم کے ایسے گھائو لگادیئے ہیں کہ آئین شدید زخمی حالت میں ICU میں وینٹی لیٹر کی فریاد کررہا ہے۔
ڈان لیکس اور پانامہ لیکس کے ہنگامے کو بپا ہوئے ایک عرصہ بیت گیا۔ ایک کی راکھ بھی اڑ چکی جبکہ دوسرا کیس پوری دنیا میں جگ ہنسائی کا باعث بن رہا ہے۔ پاکستان میں رائج جمہوریت نے عوام کو زندگی کی حقیقی معنوں میں عذاب بنادیا ہے، ملکی معیشت کا گراف تنزلی کی طرف گامزن ہے۔ بیرونی قرضے ھمالیہ بن چکے ہیں، عالمی سطح پر بے وقاری ملک و قوم کا مقدر ہے۔ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی معمول بن چکا، 2 فیصد کے لئے زندگی کی عیاشیاں مقدر ہیں، ’’جمہوریت‘‘ نے چند خاندانوں کو حق حکمرانی اور ایک خاندان کو بادشاہت کا وہ پیدائشی حق دے دیا ہے جو رہے سہے عوامی حقوق کی گردن پر خنجر رکھ کر اس پر دبائو بڑھا کر شہ رگ تک کاٹنے کے قریب ہے۔
جب پاکستان میں اشرافیہ کے مفادات پر زد پڑنے کی کوئی بھی صورتحال بنی تو جمہوریت کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ خطرہ تو اسے ہوتا ہے جو شے موجود ہو، پاکستانیوں کو تو جمہوریت چھو کر نہیں گزری۔ 2013ء میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنے ایسی بازگشت ہیں جسے سن کر پچھتانے والے آج بھی سنبھل جائیں تو بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ 2014ء کے دھرنے سے پہلے سفاکی اور ظلم کا راج قائم کرکے 14 انسانی جانوں کو صلیب پر چڑھا کر اپنا اقتدار بچانے والے ’’فتنہ شریفیہ‘‘ کو 20کروڑ عوام پر مسلط کرنا جمہوریت سمجھتے ہیں۔ عوام پاکستان اگر ملک میں حقیقی جمہوریت چاہتے ہیں تو انہیں اپنے فرائض ادا کرنے کی طرف بڑھنا ہوگا اور اپنا حق لینے کے لئے گھروں سے باہر آنا ہوگا۔ پاکستان عوامی تحریک کا 2013ء اور 2014ء کا دھرنا پاکستان کی تاریخ میں عوامی حقوق کے لئے کی جانے والی تاریخی کاوش ہے اور اس دھرنے کے روح رواں ڈاکٹر طاہرالقادری کی جدوجہد جاری ہے۔ عوام ان کے ہاتھ مضبوط کریں ورنہ فتنہ شریفیہ عوامی حقوق تو ختم کرچکا ہے اب اس سے ملک کے وجود کو بھی شدید ترین خطرہ ہے۔ جعلی جمہوریت کا پکا راگ الاپنے والے موجودہ حکمران نہرو کے وہ جانشین ہیں جو اپنی بداعمالمیوں کی آگ سے وطن کو جلا بھی خود رہے ہیں اور بانسری بھی بجائے جارہے ہیں۔ ان حالات میں اداروں نے چونکہ فرائض سے چشم پوشی کو عادت بنالیا ہے اس لئے بال اب عوام کی کورٹ میں ہے۔