آج کے عدیم الفرصت دور میں اگر فرصت کے کچھ لمحات میسر آ جائیں اور اہل خانہ مل جل کر کچھ وقت اکھٹے گزار سکیں تو بلاشبہ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص نعمت ہے۔ سکولوں میں ہر سال گرمیوں کی تعطیلات کی آمد جہاں طالب علموں، اساتذہ اور تعلیمی اداروں کے کارکنان کے لیے باعثِ مسرت ہوتی ہیں وہاں والدین کی ذمہ داریوں میں پہلے سے کہیں زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ روزمرہ کے معمولات میں والدین کے لیے بچوں کی دینی و دنیوی تعلیم و تربیت کے حوالے سے ان کی نصابی مصروفیات کے باعث کسی بھی مزید تربیتی منصوبہ پر عمل کرنا ممکن نہیں ہوتا، نہ ہی بچوں کو تعلیمی مصروفیت اور وقت کی قلت کے باعث یکسوئی حاصل ہوتی ہے کہ وہ اس جانب بھر پور توجہ دے سکیں۔ لہذا تعطیلات بچوں کی دینی و دنیوی تربیت کی منصوبہ بندی کا سنہری موقع فراہم کرتی ہیں۔ اس لیے والدین ایک واضح عملی لائحہ عمل تیار کر کے گھر کے ماحول کو خوشگوار بنانے کے علاوہ بچوں کی تربیت، کردار سازی اور انفرادی اصلاح کی کامیاب کوشش کر سکتے ہیں۔ بچوں کی تربیت کے لیے انہیں درج ذیل نکات پر عمل کرنا چاہیے:
- تعطیلات میں بچوں کی تربیت کا پہلا مرحلہ شب و روز کے نظام الاوقات کا تعین ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کی عمر، تعلیم اور مصروفیات کو مدنظر رکھتے ہوئے بچوں کی مشاورت سے ان کے سونے جاگنے کے اوقات مقرر کریں۔
- والدین بچوں کے اسکول کے ہوم ورک کی مرحلہ وار تقسیم کرکے اپنی نگرانی میں روزانہ تھوڑا تھوڑا کام مکمل کروائیں۔ بچوں میں مطالعے کا ذوق بڑھانے کے لیے انہیں اچھی لائبریری سے متعارف کروائیں اور معیاری کتب منتخب کرنے میں ان کی مدد کریں تا کہ اسلامی لٹریچر اور علم کی ایک وسیع دنیا تک ان کی رسائی ممکن ہو سکے۔
- انہیں پنجگانہ نماز کا عادی بنائیں اس کے لیے ضروری ہے کہ والدین بچوں کو نماز کی تاکید کی بجائے ان کے ساتھ ادائیگی نماز کو معمول بنائیں تا کہ بچوں میں نمازکی عادت پختہ ہو سکے۔ ان کے دن کا آغاز نمازِ فجر سے کروائیں۔ یہ بہترین اور بابرکت وقت بچوں کو سونے کی نذر نہ کرنے دیں۔ بچوں کو بر وقت اُٹھنے اور ادائیگی نماز کی حوصلہ اِفزائی کے لئے گاہے بگاہے انعام بھی دیں۔ جب ان کی یہ عادت پختہ ہو جائے تو اپنے بچوں کی فجر کے وقت باری باری اُٹھانے کی ذمہ داری لگائیں تاکہ ان میں احساسِ ذمہ داری اور ایک دوسرے کے درمیان مروت اور نیکی کے تعاون کا جذبہ پیدا ہو۔ والد کا فرض ہے کہ بیٹوں میں باجماعت نماز کی عادت پختہ کرنے کے لیے انہیں مسجد میں ساتھ لے کر جائے انہیں مسجد جانے، نماز پڑھنے اور امامت کے آداب بھی سکھائے۔ گھر میں فیملی کے ساتھ بھی کبھی کبھار باجماعت نماز ادا کی جا سکتی ہے۔
- بچوں میں قرآن مجید سے قلبی لگائو اور محبت پیدا کرنے کے لیے والدین روزانہ بچوں سے تلاوت کروانے کے ساتھ خود بھی قرآن مجید کی تلاوت کریں، چاہے دو آیات ہی کیوں نہ ہوں اور جمعہ کے دن خاص طور پر سورۂ الکہف کی تلاوت کر کے سعادت و برکت حاصل کریں۔
- ہفتہ میں دو دن اجتماعی مطالعے کی ایک روحانی نشست کا اہتمام کریں جس میں تفسیر منہاج القرآن (سورۃ الفاتحہ) اور تفسیر منہاج القرآن (سورۃ البقرۃ) سے چند آیات کی مختصر تفسیر، منہاج السوی سے ایک حدیث کا مطالعہ یا تعلیمات اسلام سیریز سے اسلامی لٹریچر کے مطالعہ کا انتخاب کیا جاسکتا ہے۔ عملی رہنمائی کے طور پر روز مرہ کی دعائیں، نماز اور اس کا ترجمہ، نمازِ جنازہ، مختصر سورتیں تھوڑی تھوڑی کر کے یاد کروائی جائیں۔
- بچوں کے ساتھ روزانہ کسی پارک ، نہر کے کنارے یا ساحل سمندر پر جانے کا پروگرام بنائیں۔کیوں کہ کھلی فضا میں چہل قدمی خالق کائنات کے قریب ہونے کا موجب بنتی ہے اور مناظرِ فطرت کا مشاہدہ جسمانی اور ذہنی صحت پر شاندار اثرات مرتب کرتا ہے۔ خاص طور پر صبح صبح تازہ پھولوں کا کھلنا، چرند پرند کا علی الصبح بیدار ہونا، سورج، چاند، ستاروں سمیت پوری کائنات کا آفاقی نظام فطرت کی پیروی کرنا بچوں کو اصولوں کی پاسداری کرنا سکھاتا ہے۔
- بچوں کی ذہانت کو پرکھنے اور ان میں حکمت و تدبر اور معاملہ فہمی پیدا کرنے کے لیے والدین اپنے تجربات، مشاہدات کو آپس میں زیرِ بحث لاتے ہوئے چھوٹے چھوٹے گھریلو مسائل ڈسکس کریں۔ اس پر ان سے مشورہ لیں اور گزشتہ کل کا بھی جائزہ لیں کہ اپنے آج کو کل سے کیسے بہتر بنائیں۔ علاوہ ازیں اپنی نگرانی اور توجہ سے بچوں کو یہ احساس دلائیں کہ وہ گھر میں اپنے چھوٹے بہن بھائیوںکے لیے راعی (نگہبان) ہیں۔ لہٰذا انہیں اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ شفقت و محبت اور تحمل و بردباری سے کام لینا چاہیے۔
- بچوں کی تربیت کے لیے کچھ خاص پہلو ایسے ہوتے ہیں جن پر تعطیلات میں ہی توجہ دی جا سکتی ہے مثلاً چھٹیوں میں سب اہل خانہ ناشتہ اور دونوں وقت کا کھانا اکٹھے کھانے کا معمول بنائیں، اس سے باہمی محبت میں اضافہ ہو گا۔ تعلیمی مصروفیات کی بنا پر بچے گھر کے کاموں میں نہ تو دلچسپی لیتے ہیں اور نہ ہی گھریلو ذمہ داریوں میں زیادہ اہم کردار ادا کر پاتے ہیں۔ لہذا تعطیلات کا فائدہ اٹھا کرانہیں اپنے کمرے کی صفائی، مہمانوں کی خاطر تواضع اور استعمال کی دیگر اشیاء کی دیکھ بھال سکھائی جا سکتی ہے۔
- والدین کو چاہیے کہ گھر میں اگر بزرگ افراد جیسے دادا دادی یا نانا نانی موجود ہوں تو ان سے متعلق ذمہ داریاں پوری کرنے میں بھی بچوں کو شامل کریں مثلاً ان کے پاس وقت گزارنا، کھانا دینا، پانی پلانا اور صبح صبح انہیں اخبار پڑھ کر سنانا۔ ایسے سنہری لمحات بچوں کی تربیت کے لیے بہت ضروری ہیں۔
- بچوں کی صرف ضروریات ہی پورا کرنا کافی نہیں ہوتا بلکہ انہیں وقت اور توجہ کی ضرورت بھی ہوتی ہے لہٰذا والدین اپنی مصروفیات میں سے بچوں کے لیے وقت نکال کر انہیں تفریحی مقامات کی سیر کرانے کے ساتھ ساتھ ایسے مقامات کی بھی سیاحت کروائیں جن کے ذریعے انہیں اپنے ماضی اور تاریخ کا علم ہو سکے۔ تاکہ تعطیلات میں بھی تعلیم سے ان کا لگائو برقرار رہے۔
- رشتہ داروں سے میل جول اور ملاقات کے آداب سکھانے کے لیے انہیں رشتہ داروں سے ملاقات کروانے لے کر جائیں، اس سے خونی رشتوں کی اہمیت، صلہ رحمی اور بھائی چارے کے جذبات پروان چڑھیں گے۔
- والدین بچوں کی دوستیاں اور ان کی صحبت چیک کرنے کے لیے کبھی کبھار ان کے دوستوں کو گھر بلوائیں، ان سے ملیں، ان کے ساتھ کچھ وقت گزاریں، ان کی عزت کریں تاکہ ان کا اعتماد بڑھے۔ بچوں کے دوستوں کے گھر والوں سے بھی تعلقات بہتر رکھیں۔لیکن اگر والدین ان کے گھر کے ماحول سے مطمئن نہیں تو بچے کو بُرا بھلا نہ کہیں بلکہ حکمت و تدبر سے کام لے کر اپنے بچوں کو ایسی دوستی سے دور رکھیں تاکہ والدین اور بچوں کے درمیان اعتماد کے رشتے کو ٹھیس نہ پہنچے۔
- چھٹیوں میں والدین بچوں کو مختلف ہنر سکھا سکتے ہیں۔ مثلاً خوش خطی، مضمون نویسی، تجوید، آرٹ کے کام، بچیوں کو سلائی کڑھائی، کپڑوں کی مرمت، مہندی کے ڈیزائن وغیرہ۔ گھر میں اگر لان یا کیاری کی جگہ ہو تو والدین بچوں کو پودے اُگانے اور ان کی نگہداشت کرنا بھی سکھا سکتے ہیں۔
الغرض فرصت کے لمحات خصوصاً تعطیلات میں بچوں کی تربیت کے پیش نظر انہیں توجہ دینا ان کا بنیادی حق اور تربیت کا ناگزیر تقاضا ہے۔ دو اڑھائی ماہ کی طویل چھٹیوں میں والدین مذکورہ بالا نکات پر عمل کر کے بچوں کی بہترین تربیت کر سکتے ہیں۔