عوام بنیادی مسائل اور ضروریات کے اعتبار سے اس حد تک پریشانی میں مبتلا کردیئے گئے ہیں کہ وہ پانی، بجلی، خالص اور سستی غذا کے حصول کے لئے بھی سراپا احتجاج ہیں۔ دنیا بھر میں جمہوری حکومتیں اپنے عوام کا ناجائز منافع خوروں سے بچانے کے لئے اور سرکاری نرخوں پر اشیائے خوردونوش کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے تمام وسائل اور ریاستی طاقت بروئے کار لاتی ہیں مگر پاکستان میں معاملہ الٹ ہوچکا ہے۔ عوام کا مزاج احتجاج، احتجاج، احتجاج بن چکا ہے۔ آئے روز احتجاج کبھی بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ پر احتجاج، کبھی کمر توڑتی مہنگائی پر احتجاج، کبھی پانی کی قلت پر پیاسی عوام کا احتجاج تو کبھی تنخواہیں نہ ملنے پر اساتذہ کا احتجاج۔ کبھی ڈاکٹرز اور نرسوں کا اپنے حقوق کے لیے احتجاج تو کبھی دوائیاں بنانے والی کمپنیوں کا احتجاج۔ کبھی کسانوں کا احتجاج تو کبھی مزدوروں کا احتجاج۔ بنیادی حقوق سے محرومی، مہنگائی، غربت، بے روزگاری، ظلم و زیادتی، قتل و غارت گری، بے حسی، دہشت گردی، ناانصافی وغیرہ یہ تمام وہ عوامل ہیں جو مل جائیں تو موجودہ پاکستان بنتا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں وطن عزیز کو باصلاحیت اور اہل قیادت میسر نہ آسکی۔ ملکی سیاست ہمیشہ سے نشیب و فراز، غیر معمولی ہلچل و کشیدگی اور مدو جذر کے نکتہ عروج پر رہی۔سیاست صرف ایک کاروبار بن کے رہ گئی۔ لوٹ مار، کرپشن، بدعنوانی، گالی گلوچ، ذاتی مفادت کے لیے ایک دوسرے کی کردار کشی مقتدر طبقہ کا وطیرہ بن چکا ہے۔ ملک کے تمام تر وسائل پر حکمرانوں، جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کا قبضہ ہے۔ جبکہ عوام کو تمام بنیادی ضروریات سے محروم کر دیا گیا ہے۔ علم اور شعور ناپید ہو چکے ہیں۔ عوام جہالت، غربت، بے بسی و لاچاری کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دی گئی ہے۔ اگر ہم صرف تعلیم کی بات کریں تو صورت حال انتہائی افسوسناک نظر آتی ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی کا انحصار اس ملک کی شرح خواندگی پر ہوتا ہے۔ 90% سے زیادہ مسائل فرسودہ نظام تعلیم کی وجہ سے ہیں۔ حکمران طبقہ کے لیے میٹرو بس سروس، میٹرو ٹرین اور موٹرویز بنانا اہم ہے مگر عوام کو تعلیم، صحت، روزگار اور خوراک جیسی بنیادی ضروریات فراہم کرنا اور ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے عوام کا معیار زندگی بہتر بنانا ان کی ترجیحات میں شامل کبھی رہا ہی نہیں۔
نیشنل ایجوکیشن مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دو کروڑ دو لاکھ ساٹھ ہزار بچے سکول ہی نہیں جاتے۔ 44% بچے جن کی عمریں پانچ اور چودہ سال کے درمیان ہیں ابھی تک سکول سے باہر ہیں۔ 21% پرائمری سکول ایسے ہیں جہاں صرف ایک ٹیچر ہے جبکہ 14% سکولوں کی عمارت صرف ایک کمرے پر مشتمل ہے۔ صرف 30% بچے میٹرک تک سکول جاتے ہیں۔ 29% سکولوں میں پینے کے لیے صاف پانی ہی نہیں۔ یہ صورت حال تعلیم کی ہے جو ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے حکمران عوام کو ہم وطن سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ جس ملک کی عوام بنیادی تعلیم سے ہی محروم کر دی گئی ہو وہاں شعور ناپید ہو جاتا ہے۔ شعور و آگہی سے محروم اقوام کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتیں۔ جہالت میں ڈوبی اقوام صرف تباہ حال معاشرہ تشکیل دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پورا معاشرہ عدم تعاون، عدم تحفظ، افراتفری، بے جا اختلافات، کرپشن، لوٹ مار اور بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہے۔ معاشرے کے افراد کو تعصب، بے راہ روی، بغض و عناد نے ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے۔ باہمی تعاون، رواداری اور برداشت کا کلچر دم توڑتا دکھائی دیتا ہے۔ بلاوجہ اختلافات معاشرے میں ظلم، بربریت اور قتل و غارت گری کو فروغ دے رہے ہیں۔ ہر فرد اور ادارہ اپنے فرائض سے نظریں چراتا دکھائی دیتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں غیر اخلاقی رویوں کی بنیادی وجہ شعور و آگہی کی کمی اور بنیادی حقوق کی عدم دستیابی ہے۔
ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری، غربت، دہشت گردی، ناانصافی معاشرے میں بے حسی اور غیر اخلاقی رویوں کو جنم دیتی ہے۔ ایسے معاشرے پیار، محبت، اخلاق، برداشت اور مدد و نصرت کی بجائے خود غرضی، انتقام اور نفرت کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔ عوام کو بنیادی ضرورت میں الجھا دینے والے حکمرانوں کا مقصد حیات صرف اپنے اقتدار کو طوالت دینا اور دولت کو بڑھانا ہے ان کے شر سے نہ ادارے محفوظ ہیں، نہ عوام اور نہ ملک کی عزت و سا لمیت۔
یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز کے حکمران پانامہ جیسے کیس میں ملوث ہونے کے باوجود ملک کے اقتدار پر قابض رہنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ عوام کے منتخب نمائندے پارلیمنٹ کے فلور پہ اپنے کرپٹ اور قاتل لیڈروں کی اس طرح سے وکالت کرتے دکھائی دے رہے ہوتے ہیں جیسے انہیں ملنے والی تنخواہ کا مقصد عوامی مسائل کا حل نہیں بلکہ ان حکمرانوں کے کالے کرتوتوں پر پردے ڈالناہو۔
بجٹ کے نام پر سال بعد عوام کو اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں الجھا دیا جاتا ہے۔ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے پاکستان میں امیر غریب کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ بنیادی ضروریات کو ترسنے والے پاکستان کی نصف سے زیادہ آبادی اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے حلال و حرام اور جائز و ناجائز کا فرق مٹانے پر مجبور ہے۔
پاکستان میں نہ دولت کی کمی ہے نہ وسائل کی۔ ملکی خزانے میں سے ہر سال کم از کم 80 کروڑ روپے سرکاری محلات کی حفاظت، مرمت، تزئین و آرائش کے لیے خرچ کیے جاتے ہیں۔ وطن پاکستان کو صرف نااہل حکمرانوں کی عیاشیاں اور کرپشن لے ڈوبی۔ ایک منسٹر پر غریب عوام کا سالانہ خرچ 3 کروڑ 20 لاکھ روپے ہے۔ جس ملک کا بچہ بچہ مقروض ہے اور نصف سے زیادہ آبادی غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے اس ملک کے ارکان اسمبلی پر اٹھنے والے مجموعی اخراجات اربوں سے تجاوز کر جاتے ہیں۔ ایوان صدر کا سالانہ خرچ پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں کے مجموعی خرچ سے بھی زیادہ ہے۔
اگر ہم دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں سے صرف امریکہ کی مثال لیں تو وہاں صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ وہاں کا صدارتی محل پنجاب کے گورنر ہائوس سے بھی چھوٹا ہے۔ امیر ترین ملکوں کے وزیر اور سرکاری افسران عام فلیٹوں میں رہتے نظر آئیں گے۔جبکہ پاکستان میں عیاش پرست فرعونی کردار رکھنے والے حکمرانوں کو ملنے والے بے جا پروٹوکول اور آسائشوں نے ملکی معیشت کو تباہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ عام آدمی کے حقوق کی بات کرنے والے آئین پاکستان کی مسلسل بے حرمتی کی جارہی ہے۔ افسوس صد افسوس ! پھر کہا جاتا ہے کہ حکمرانوں کو عوام کا مینڈیٹ حاصل ہے حالانکہ غربت کی آگ میں جلنے والی بنیادی ضروریات سے محروم عوام کا کوئی مینڈیٹ نہیں ہوتا۔
ان تمام حالات کی بنیادی وجہ ہمارا موجودہ انتخابی نظام ہے۔ اس غریب دشمن استحصالی نظام میں انقلابی اصلاحات کی ضرورت ہے۔آج سیاست نہیں ریاست پاکستان کو بچانے کے لیے باشعور قوم درکار ہے۔ 1947 ء میں ہمارے پاس باشعور قوم تھی لیکن وطن نہ تھا۔ جبکہ آج وطن عزیز کو بچانے کے لیے باشعور قوم درکار ہے۔ اس کے لیے پاکستان عوامی تحریک اور اس کے قائد پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی طرح ہر محب وطن شخص، ادارے اور تحریکوں کو آگے بڑھ کے انقلاب کے لیے عوام میں بیداری شعور کا فریضہ ادا کرنا ہوگا۔ ورنہ شاید تاریخ ہمیں کبھی نہ معاف کر سکے۔