NGO's کیا ہیں؟
این جی اوز غیر سرکاری تنظیمیں ہوتی ہیں جو مخصوص مقاصد کے لئے کام کرتی ہیں۔ انہیں انگریزی میں Non-Government Organization کہا جاتا ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ تاحال غیر سرکاری تنظیموں (NGO) کی کوئی واضح اور جامع تعریف کرنے سے مفکرین قاصر رہے ہیں۔ تاہم اتنا لکھا گیا ہے۔
’’ایسا ادارہ جس کا بنیادی مقصد اور محرک انسانوں کی بھلائی کے لئے اقدامات کرنا ہے۔ یہ چند لوگوں پر مشتمل گروپ ہوتا ہے جو اپنے بل بوتے پر اپنی خدمات لوگوں تک پہنچاتا ہے اور صدقہ، خیرات وغیرہ کو بروئے کار لا کر لوگوں کی مدد کرتا ہے‘‘۔
NGO's کی اہم اقسام
سیاسی تنظیمیں (PNGO's)۔ Political Non Governmental Organizations
مذہبی تنظیمیں (RNGO's)۔ Religious Non Governmental Organizations
امدادی تنظیمیں Help in Calamity Oriented NGO's
ترقیاتی تنظیمیں Development Oriented NGO's
دیگر اقسام
٭ Charity NGO's ٭ Empowernment NGO's
٭ Relief & Rehabiliation NGOs ٭ Network NGO's
٭ Service Providing NGO's ٭ Support NGO's
٭ Economic Development NGO's ٭ International Communicating NGO's ٭ Social Development NGO's
این جی اوز کا تاریخی پس منظر
رفاہِ عامہ کے لئے رضا کارانہ خدمات سرانجام دینے کا تصور بہت پرانا ہے۔ اسلامی تاریخ تو رفاہی و غیر سرکاری تنظیموں کے تذکروں سے بھری پڑی ہے۔ بڑے بڑے تعلیمی ادارے ہسپتال، سڑکیں، پل جیسی بنیادی ضروریات اور انتظامات تو انفرادی و اجتماعی سطح پر قائم کئے۔ وقف کا نظام دور اسلام کے آغاز سے ہی چلا آرہا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے اپنی قیمتی جائیدادیں وقف کیں۔ ان کے یہ اوقاف اپنی خدمات صدیوں تک انجام دیتے رہے۔ لیکن اس دور کی یہ تنظیمیں NGOs نہ کہلاتی تھیں۔ اگر NGOs کی بات کی جائے تو ان کا زیادہ چرچا 90,80,70 کی دہائی میں دکھائی دیتا ہے۔ یہی وہ وقت تھا جب مساوات مرد و زن اور حقوق نسواں کی تحریکات اور مسائل نے زور پکڑا تھا۔
انسانی معاشرے کی ترکیب ابتداء سے ہی افراد کے مختلف نوع کے پیشے اختیار کرنے کے باعث سماجی اور معاشرتی اعتبار سے مختلف رہی ہے۔ ابتدائے آفرینش سے جب کرنسی کا رواج نہ تھا تو اجناس اور ہنر آپس میں بانٹ لئے جاتے تھے۔ انسان نے جب اجتماعیت اور آبادیوں میں رہنا شروع کیا تو قیادت کی جبلی دوڑ شروع ہوئی۔ جس کے لئے طاقت اور پیسہ ہزاروں سال سے معیار کی کسوٹی رہی۔ انسان نے اپنے درمیان حکمرانی کے جو بھی اصول وضع کئے ان کی بنیاد جمہوریت کی شکل میں اکثریت یعنی اثر و رسوخ یا آمریت رہی جس میں طاقت اور دولت کا بے رحمانہ استعمال شامل ہے۔ اپنے ہی بنائے ہوئے اس نظام نے طبقاتی نظام کو جنم دیا اور Have اور Have not کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا۔
تمام الہامی نظام انسانوں کی برابری یکسانیت اور معاشروں کو انسانی خداؤں سے بے زار کرکے حقیقی رب کی غلامی کی جانب مائل کرتے رہے ہیں۔ جس نے الہامی اور انسانی نظام کی کشمکش کو جنم دیا۔ ایسے ممالک جہاں وہ اپنے نظریات براہ راست یا بزور بازو ٹھونسنے سے عاجز ہیں وہاں کی تجارت کو انہوں نے ملٹی نیشنل کمپنیوں اور معاشرتی نظام کو NGOs کے ذریعے کنٹرول کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ این جی اوز چونکہ ظاہری طور پر خدمت خلق اور عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے اپنے چہروں کے ماسک کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ لہذا عام آدمی ان سے یکسر بے خبر ہیں۔
این جی اوز کے مقاصد
این جی اوز ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جو کسی منافع کے لئے وجود میں نہیں آتی، اس کے بجائے یہ رضا کارانہ خدمات سرانجام دینے والے شہریوں کا ایسا فورم ہوتا ہے جو مقامی یا بین الاقوامی سطح پر کسی مقصد کے لئے اور واضح ہدف کے لئے کام کرتا ہے اس کا بنیادی کام خدمات کی فراہمی اور انسان دوست امور کی انجام دہی ہے۔ یہ حکومت کو شہریوں کے مسائل اور تفکرات سے باخبر رکھتی ہے۔ پالیسیوں کی نگرانی کرتی ہے اور مقامی، قومی یا بین الاقوامی برادری کے لئے جیسا کہ اس کا کردار ہو، سیاسی عمل میں عوامی شرکت کے لئے فضاء ہموار کرتی ہے۔
این جی اوز بنیادی طور پر پیشہ وارانہ تکنیکی اور ماہرانہ رائے اور تجزیہ فراہم کر کے حکومتوں کو ان کی پالیسیوں کے حسن و قبح کے بارے میں باخبر رکھنے کا نام ہے۔ انسانی حقوق ماحولیات، تعلیم، علاج، معاشرتی ترقی و غیرہ اس کی نوعیت طے کرنے والے امور ہیں اور یہی ان کے ایجنڈے کو طے کرنے، اہداف متعین کرنے اور پالیسی بیان کی وضاحت کرنے کے ذمہ دار ہیں۔
اقوام متحدہ (UNO) کے چارٹر کا دیباچہ NGOs کے مقاصد کو واضح کرتا ہے جس کا ایک اقتباس درج ذیل ہے۔
’’ہم اقوام متحدہ کے لوگ پختہ یقین رکھتے ہیں کہ عالمی تنظیموں اور غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعے دنیا ایک اہم تعمیری کردار ادا کرتے ہوئے امن، تحفظ اور معاشرتی و سماجی ترقی نیز انسانی حقوق کی جانب بڑھے گی‘‘۔
بین الاقوامی سطح پر بھی این جی اوز کا بنیادی ایجنڈا انسانی حقوق کی علمبرداری ہے۔ زیادہ تر کام کرنے والی این جی اوز کے مشترکہ اور اہم مقاصد درج ذیل ہیں:
1۔ خواتین کی بہبود 2۔ سماجی تعلیم کا فروغ
3۔ نوجوانوں کی بھلائی 4۔ جسمانی و ذہنی معذور افراد کی بھلائی
5۔ بچوں کی بہبود 6۔ بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ
7۔ بے راہ رو نوجوانوں کی بھلائی 8۔ ابلاغیات کا فروغ
این جی اوز کا ارتقاء
نسل انسانی کے ارتقاء نے جب انسانوں کو گروہوں اور پھر آبادیوں میں رہنے پر مجبور کیا تو باہمی اور اجتماعی مفادکو مدنظر رکھتے ہوئے کمزور اور ضرورت مند افراد کی بھلائی کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ کام انفرادی طور پر کرنے کی بجائے اجتماع یا تنظیم کی صورت میں بہتر طریقے سے کرتا آیا ہے۔ دور جدید میں شہروں سے دیہاتوں تک درد مند اور باشعور اشخاص اپنے علاقے میں اجتماعی بھلائی کے لئے رضا کار تنظیمیں تشکیل دینے کا کام شروع کرچکے ہیں۔ یہ وہی غیر سرکاری فلاحی، رفاحی تنظیمیں ہیں جنہیں آج کل این جی اوز کا نام دے دیا گیا ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں بھی غیر سرکاری تنظیمیں زندگی کے مختلف شعبوں میں سینکڑوں سالوں سے کارہائے نمایاں سرانجام دیتی رہی ہیں۔ انہوں نے معاشرے سے ظلم و جبر کو ختم کر کے تعلیم کا شعبہ بیدار کیا اور غریبوں اور ضرورت مندوں کی مختلف طریقوں سے امداد کرنے اور ترقی کے عمل کو بہتر بنانے کے لئے تجاویز پیش کرنے کے لئے بہت مثبت کام کیا ہے۔ عموماً یہی مخصوص تعمیری مقاصد اور مفاد عامہ کے کام کرنے کے لئے گلی، محلہ یا علاقے حتی کہ ملکی سطح پر کچھ باشعور اور ہمدرد لوگ اکٹھے ہوکر ایک تنظیم بناتے ہیں اس کے لئے دفتر بنانے سے لے کر وسائل اور فنڈز اکٹھا کرنے تک تمام امور انجام دیتے ہیں۔ حسابات رکھنے کے ساتھ خرچ کا طریقہ طے کرتے ہیں اور پھر کام کرتے ہیں۔
پاکستان میں ویمن این جی اوز کی ابتداء
پاکستان کا قیام 1947ء کو عمل میں آیا۔ اس وقت سماجی مسائل کے علاوہ ایک کمزور معیشت اور مکار دشمن پاکستان کو ورثہ میں ملا جس کے نتیجے میں قومی بجٹ کا بہت بڑا حصہ دفاعی خرافات کی نذر ہوجاتا اور باقی ماندہ رقم متاثرین کی بحالی پر خرچ ہوگئی۔ بہت سے صوبوں خصوصاً پنجاب، بہار، سندھ اور بنگال سے مہاجرین کی کثیر تعداد نے پاکستان کا رخ کیا۔ ہزاروں لوگ شہید ہوئے لاکھوں بے گھر جو بچے کھچے مہاجرین پاکستان آئے ان کی آبادی اور آباد کاری دونوں ایک اہم ترین مسئلہ تھا۔ بیگم رعنا لیاقت علی خان نے اس وقت سب سے پہلا قدم اٹھایا اور 1948ء میں ویمن والذی سروس قائم کی۔
خواتین کی اولین تنظیم ’’اپوا‘‘ چالیس سال سے سماجی تبدیلی کی ایک قوت محرکہ ہے۔ آزادی اور تقسیم کے بعد جب پاکستان وجود میں آیا تو لاکھوں بے سہارا لوگوں کی آبادکاری کے لئے بیگم رعنا لیاقت علی خان (وزیراعظم لیاقت علی خان کی بیگم) نے اپنی ہم خیال خواتین کے ساتھ مل کر 1949ء میں اپوا کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم کے مقاصد میں لوگوں کو ابتدائی طبی امداد دینا، خوراک، صحت کے مسائل اور جذباتی و اخلاقی امداد شامل تھے۔ اس صورتحال میں گرلز گائیڈ ایسوسی ایشن آف پاکستان کے نام سے ایک تنظیم 1947ء سے ہی کام کر رہی تھی۔ ’’انجمن جمہوریت پسند خواتین‘‘ 1948ء میں قائم ہوئی۔ جس نے خواتین ورکرز کے لئے برابر تنخواہ، لڑکیوں کے لئے تعلیم کے مواقع، ہاسٹل اور ٹرانسپورٹ میں کام کرنے والی عورتوں کے بچوں کے لئے مواقع، Day care کی سہولیات کے مطالبات پیش کئے۔
حقوق نسواں اور این جی اوز
حقوق نسواں این جی اوز اور خواتین کے حقوق کی بحالی کے لئے سب سے پہلے عورتوں میں شعور اور اعلیٰ صلاحیتیں پیدا کرنے کے اقدامات کرتی ہیں اور ان اقدامات کے سلسلے میں مختلف سیمینارز، کانفرنسیں اور ورک شاپس کا اہتمام کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان NGOs کی اعلیٰ کوششوں میں درج ذیل اقدامات شامل ہیں۔
1۔ تربیتی اقدامات
خواتین کو مختلف بنیادی مہارتوں کی تربیت دلوائی جاتی ہے تاکہ ان میں نہ صرف قوت فیصلہ مضبوط ہوسکے بلکہ وہ معاشرے کی تشکیل میں بھرپور کردار ادا کرسکیں۔ اس کے علاوہ خواتین کے کاموں میں حائل انتظامی رکاوٹوں کو دور کرنے میں بھی ان کی مسلسل مدد کرتی ہے۔
2۔ اقدامات برائے صحت
خواتین کی صحت کو اولین اہمیت دیتے ہوئے زیادہ سے زیادہ صحت کے مراکز قائم کئے جاتے ہیں جہاں بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔ ماں، بچے کی بہتر نگہداشت اور مناسب غذا کے بارے میں آگاہی دی جاتی ہے۔ خواتین کو خاندانی منصوبہ بندی کے فوائد سے آگاہ کیا جاتا ہے اور اس مقصد کے لئے خاص طور پر لیڈی ہیلتھ ورکرز کو ٹریننگ دی جاتی ہے جو دیگر علاقوں میں اپنے فرائض سرانجام دیتی ہیں۔
تعلیم کا فروغ
تعلیم کے فروغ کے لئے مختلف پرائمری سکول، تعلیم بالغاں سینٹرز اور مختلف ٹیکنیکل ادارے قائم کئے جاتے ہیں تاکہ مجبور خواتین کو کم وقت میں بہتر روزگار کے مواقع فراہم ہوسکیں۔ جدید طریقہ کار سے عورتوں کو ہنر سکھایا جاتا ہے جس میں گھریلو صنعتی دستکاری، سلائی، کڑھائی، مویشیوں کی افزائش اور ان کو پالنے کے طریقے شامل ہیں۔
این جی اوز کی سرگرمیاں اور معاشرتی کردار
مثبت کردار
این جی اوز کے وجود میں آنے سے اب تک جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:
- لوگوں کے شعور میں بیداری
- ماس میڈیا اور تعلیمی اداروں میں عورتوں کی تعداد میں قابل ذکر اضافہ
- اسی طرح ٹی وی، ریڈیو اور پرنٹ میڈیا میں عورتوں کا اضافہ
- میڈیا سے وابستہ خواتین کا دوسری عورتوں کی پیشہ وارانہ رہنمائی کا فریضہ سرانجام دینا۔
- میڈیا میں عورتوں کی اس شمولیت سے عورتوں کے مسائل کی کوریج میں اضافہ ہونا۔
- پسماندہ علاقوں کے لوگوں کو عورتوں کے بارے میں غلط رجحانات جیسے لڑکیوں کو سکول نہ بھیجنا، لڑکیوں پر لڑکوں کو ترجیح دینا، عورتوں کو گھروں میں ہی بند رکھنا، ان پر تشدد، محنت پر اجرت کم ملنا وغیرہ سے آگاہ کیا جانا۔
این جی اوز کا منفی کردار
ہمارے ملک میں کام کرنے والی اکثر این جی اوز اس اہم موقع پر منفی کردار ادا کررہی ہیں۔ بی بی سی کی حالیہ رپورٹ میں جو کردار ان این جی اوز نے ادا کیا ہے اس سے ملک کی اور اسلام کی کچھ خدمت نہیں ہوئی بلکہ یوں کہیے کہ اس سے حقوق نسواں کا بھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا اور اس رپورٹ اور جاری شور شرابے سے ہمارے دشمنوں کو مواقع اور ماحول مل گیا ہے جسے وہ کشمیر کے مقابلے کے علاوہ قرضوں کی معافی میں رکاوٹ کے لئے بھی استعمال کریں گے۔ جس سے پاکستان کی معاشی مسائل میں اضافہ ہوگا۔
یقینا پوری دنیا کی طرح پاکستان میں خواتین کے کچھ مسائل خصوصی توجہ کے حامل ہیں جن پر توجہ دینی چاہئے لیکن مساوات مرد و زن کی نام لیوا کو ان معاملات کو عدالتوں میں لے جانے کا مشورہ دیا جاسکتا تھا۔ مگر ایسی رپورٹس تیار کی جاتی ہیں جس سے پاکستان کی بھرپور بدنامی ہوتی ہے۔
(موسیٰ خان جلال زئی این جی اوز اور قومی سلامتی کے تقاضے ص 112)
حکومت کا کردار
دوسری طرف حکومت کو بھی فوری طور پر ایک کمیٹی بنانی چاہئے جو تمام اہم اور ملکی مفاد کے لئے کام کرنے والے اداروں این جی اوز سے مل کر ان کی سفارشات لے اور ان کے قابل عمل ہونے میں موجودہ رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کرے نیز تمام انتظامی مشینری کو بھی موجودہ ضرورتوں سے آگاہ کیا جائے کہ کن لوگوں کو ٹی وی پر آنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے اور کن سے اجتناب کیا جاتا ہے تاکہ بیرونی دنیا میں ملک کی بدنامی کا موجب بننے والوں سے بچا جاسکے۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا NGOs ہمارے حکمرانوں کی سزا ہے۔ آج مسلمان حکمرانوں اور سیاستدانوں کی کوتاہیوں کی سزا پوری قوم کو اس طرح مل رہی ہے کہ سماجی خدمت کے نام پر غیر سرمایہ پر پلنے والی، غیر ملکی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے ہر دم کوشاں این جی اوز حقوق و آزادی نسواں کے پرکشش نعرے اور بائبل کارسپانڈس کورسز کے نام پر کام کررہی ہیں اور حکومت مکمل ’’شرح صدر اور یکسوئی‘‘ کے ساتھ ان کی حوصلہ افزائی کررہی ہے۔
قصہ مختصر وہ لوگ جو واقعی انسانی حقوق اور انسانی فلاح و بہبود کے لئے کام کرتے ہیں ان کو چاہئے کہ وہ ملکی اور مذہبی معاملات کو ملک کے اندر ہی حل کرنے کا فارمولہ ڈھونڈیں، حقوق نسواں اور تمام عوامی حقوق کے لئے شعور کی بیداری لازمی ہے یہ شعور تعلیم سے آتا ہے، مسائل خواہ کیسے ہی کہوں نہ ہو ان سب کے لئے شعور کی بیداری کی ضرورت ہے اور اس کے لئے حکومت کو اپنا مثبت و موثر کردار ادا کرنا ہوگا۔
تصویر کا دوسرا رخ
NGOs کا ملک میں سیلاب آگیا ہے۔ یہ غیر ملکی یہودی اور عیسائی تنظیمیں ہیں جو این جی اوز کے ایجنڈے کے مطابق مسلم ممالک میں بڑی کثرت سے وارد ہورہی ہیں کچھ سرمایہ ان کو اقوام متحدہ سے ملتا ہے اور کچھ مقامی حکومتوں سے لیتی ہیں۔ یہ غیر ملکی سیکولر اور لبرل تہذیب، ملک میں پھیلانے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ یہ معاشرے میں رسوخ حاصل کر کے روشن خیالی کے نام پر لوگوں کو دین سے بیزار اور مادہ پرست بناتی جا رہی ہیں۔ اگر سیاسی این جی اوز کا کردار دیکھا جائے تو بظاہر تو ایسا خاص کام کرتی نظر نہیں آتیں بلکہ حکومت کے صحیح کاموں پر تنقید ان کا بنیادی مقصد ہے۔ اس کے علاوہ آئی این جی اوز (International NGOs) کو عالمی بینک امداد فراہم کرتے ہیں۔
Nooki Suzuki نے اپنی کتاب میں NGOs کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ این جی اوز خواہ کسی بھی مقاصد کے لئے وجود میں آئیں انہیں فنڈز اسی وقت ملتے ہیں جب وہ اپنے آپ کو مطلوبہ مقاصد کے لئے اہل ثابت کرتی ہیں فنڈز دینے والے ادارے خود بھی اہل افراد کو این جی اوز بنانے پر آمادہ کرتے ہیں اور حوصلہ افزائی کے طور پر دل کھول کر امداد دیتے ہیں۔ یہ فنڈز دینے والے ادارے ان سے کام کی رپورٹیں بھی مانگتے ہیں اور این جی اوز کی سرگرمیوں پر بھی ان کی گہری نظر ہوتی ہے۔ (جاری ہے)