صحابیات رضی اللہ عنہن کی سیرت کا بغور مطالعہ کرنے سے درج ذیل شعبہ ہائے معاش سامنے آتے ہیں جن میں کام کرتے ہوئے نہ صرف وہ سلیقہ شعار گھریلو خواتین (Home Ladies) ثابت ہوئیں بلکہ باکردار و باصفا پروفیشنل خواتین (Professional Ladies) کی حیثیت سے معاشرہ کی کامیاب رکن رہیں۔
1۔ کاشتکاری
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک میں خواتین کھیتی باڑی کا کام کرتی تھیں مگر یہ تمام صحابیات رضی اللہ عنہن کا مشغلہ نہ تھا بلکہ بعض سر سبز مقامات کی باشندات کا پیشہ تھا۔ مدینہ منورہ میں انصار کی تمام عورتیں کاشتکاری کرتی تھیں اور خاص طور پر سبزیاں بوتی تھیں۔
مولانا وحید الدین خان اپنی کتاب ’’خاتون اسلام‘‘ میں صحابیات رضی اللہ عنہن کی مدینہ منورہ میں معاشی سرگرمیوں کا پس منظر بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
’’مدینہ کی زندگی میں عورتوں کے اس طرح کثرت سے واقعات ہیں اس وقت عورتیں نہ صرف گھر کا بلکہ باہر کا بھی اکثر کام کرتی تھیں اس کی وجہ یہ تھی کہ مرد زیادہ تر جہاد اور تبلیغ دین وغیرہ میں مشغول رہتے تھے ان کو موقع نہیں ملتا تھا کہ گھر کی ذمہ داریوں کو ادا کریں چنانچہ ان عورتوں نے گھر کی دیکھ بھال اور زراعت اور باغبانی بھی کی اور جانوروں کی دیکھ بھال بھی کی‘‘۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی خالہ کا واقعہ کھیتی باڑی کے کاموں سے ان کے تعلق کا پتہ دیتا ہے جس کا ذکر پہلے کردیا گیا ہے۔
حضرت سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ ایک خاتون کا ذکر کرتے ہیں جن کی اپنی کھیتی تھی اور وہ پانی کی نالیوں کے اطراف چقندر کی کاشت کیا کرتی تھیں جمعہ کے دن سہل بن سعد رضی اللہ عنہ اور بعض دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ملاقات کے لئے جاتے تو وہ چقندر اور آٹے سے تیار کردہ حلوہ ان کو کھلاتیں۔ (بخاری، کتاب الجمعہ، باب قول اللہ تعالیٰ فاذا قضیت الصلوۃ الخ)
2۔ تجارت
صحابیات رضی اللہ عنہن میں سے بعض تجارت بھی کیا کرتی تھیں اور اپنے اس پروفیشن میں معاشرے میں شہرت رکھتی تھیں جیسے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی تجارت نہایت وسیع پیمانے پر تھی۔ طبقات ابن سعد میں اس کی تفصیل یوں ملتی ہے۔
’’خدیجۃ الکبریٰ ایک معزز، شریف، بڑی دولت مند اور تاجر خاتون تھیں۔ آپ ملک شام، مال تجارت بھیجا کرتی تھیں۔ قریش کے اونٹوں پر جس قدر مال ہوتا تھا اس قدر ان کے تنہا اونٹوں پر ہوتا تھا۔ آپ مردوں سے تجارت کرایا کرتی تھیں۔ سرمایہ آپ کا ہوتا تھا اور نفع میں آپ اور آپ کا شریک مرد دونوں برابر کے حصہ دار ہوتے تھے‘‘۔ (طبقات ابن سعد، 8 : 31)
حضرت قیلہ ام بنی انمار رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک حدیث نقل کرتی ہیں :
’’ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوہ مروہ پر آئے میں لکڑی پر سہارا دے کر آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھ گئی اور میں نے کہا : ’’یارسول اللہ! میں خرید و فروخت کرنے والی عورت ہوں۔ کبھی میں ایک چیز خریدنا چاہتی ہوں اور میں نے اس کی قیمت اپنے ذہن میں مقرر کر لی ہے۔ اس سے کم قیمت دیتی ہوں پھر بڑھاتے بڑھاتے اسے اس قیمت پر لیتی ہوں جو قیمت میں نے اپنے ذہن میں مقرر کی تھی۔ اسی طرح کبھی میں ایک چیز بیچنا چاہتی ہوں اور اسے اپنے ذہن میں مقرر کردہ قیمت سے زیادہ بتاتی ہوں پھر گھٹاتے گھٹاتے اس قیمت پر بیچ ڈالتی ہوں جو قیمت میں نے اپنے ذہن میں مقرر کی تھی‘‘۔ فرمایا : ’’قیلہ ایسا نہ کیا کرو جب تم کسی چیز کو خریدنا چاہو تو وہی قیمت دو جس قیمت پر تم اسے خریدنا چاہتی ہو خواہ وہ چیز تمہیں ملے یا نہ ملے اور جب تم کوئی چیز بیچنا چاہو تو جس قیمت پر اسے بیچنا چاہتی ہو وہی قیمت بتاؤ خواہ تم کو وہ قیمت ملے یا نہ ملے‘‘۔ (طبقات ابن سعد، 8 : 363)
حضرت عمرہ بنت طبیخ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ اپنی لونڈی کے ساتھ بازار جا کر میں نے مچھلی خریدی اور اس کو جھولے میں رکھا (لیکن چونکہ جھولا چھوٹا تھا) اس لئے مچھلی کا سر اور دم باہر نکلی ہوئی تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ادھر سے گزر ہوا تو دیکھ کر پوچھا : ’’کتنے میں خریدی ہے؟ یہ تو بہت بڑی بھی ہے اور نفیس بھی۔ اس سے گھر کے سب لوگ سیر ہوکر کھاسکتے ہیں‘‘۔ (طبقات ابن سعد، 8 : 212)
اس روایت سے بھی خواتین کے خرید و فروخت کرنے کے بارے سند ملتی ہے۔
3۔ خیاطت (سلائی کڑھائی) اور صنعت و حرفت
حضرت فاطمہ بنت ثبیہ رضی اللہ عنہا کے تذکرے سے پتہ چلتا ہے کہ انصار کی عام عورتیں سلائی کا کام کیا کرتی تھیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی صنعت و حرفت سے واقف تھیں اس کے ذریعے اپنے اور اپنے خاوند اور بچوں کے اخراجات بھی پورے کرتی تھیں۔ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا :
انی امراة ذات صنعة ربيع منها وليس لی ولا لزوجی ولا لولدی شئی.
’’میں ایک کاریگر عورت ہوں چیزیں تیار کر کے فروخت کرتی ہوں (اسی طرح میں کماتی ہوں) لیکن میرے شوہر اور بچوں (کا کوئی ذریعہ آمدنی نہیں ہے اس لئے) ان کے پاس کچھ نہیں‘‘۔
انہوں نے دریافت کیا کہ کیا وہ خرچ کرسکتی ہیں آپ نے جواب دیا :
’’ہاں تم کو اس کا اجر ملے گا‘‘۔ (طبقات ابن سعد، 8 : 212)
حضرت خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا سے ان کے شوہر نے ایک مرتبہ غیر ارادی طور پر کہہ دیا کہ آج سے تمہاری حیثیت میری ماں کی سی ہے بعد میں دونوں مسئلہ دریافت کرنے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے چونکہ اس وقت تک اس مسئلہ میں کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شوہر کو حکم دیا کہ اجازت ملنے تک تم اپنی بیوی سے الگ رہو یہ سن کر بیوی نے کہا :
يارسول الله ماله من شئی وما ينفق عليه. (طبقات ابن سعد، 8 : 276)
’’اللہ کے رسول! ان کے پاس تو خرچ کے لئے کچھ بھی نہیں ہے (میں ہی ان پر خرچ کرتی ہوں)‘‘۔
حضرت ام صبیہ حولہ بنت قیس رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
’’ہم عہد رسالت اور شروع عہد فاروقی میں مسجد میں آپس میں دوستی کیا کرتی تھیں اور کبھی چرخہ کات لیا کرتی تھیں اور کبھی بعض عورتیں کھجور کے پتوں سے کوئی چیز بنا لیا کرتی تھیں‘‘۔ (الاصابہ فی تمیز الصحابہ، 18 : 255)
4۔ طبابت و جراحت
طب اور جراحت میں حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا، حضرت ام اطاع رضی اللہ عنہا، حضرت اسلمیہ رضی اللہ عنہا، حضرت بنت حجش رضی اللہ عنہا، حضرت معاذ لیلی رضی اللہ عنہا، حضرت امیمہ رضی اللہ عنہا، حضرت ام زیادت ربیع رضی اللہ عنہا، حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا، حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کو زیادہ مہارت حاصل تھی۔ یہ جنگ و امن میں مریضوں کا علاج اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔
ایسے واقعات کثرت سے دور اول کی مسلم خواتین کے حالات میں ملتے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام کے معیاری دور میں عورتیں گھر کے اندر بند ہوکر پڑی نہیں رہتی تھیں بلکہ وہ گھر کے باہر کے ضروری کام بھی انجام دیتی تھیں۔
ان تاریخی حقائق کی روشنی میں یہ بات پایہ تکمیل کو پہنچتی ہے کہ دین اسلام میں عورت وہ تمام معاشی خدمات سرانجام دے سکتی ہے، جن کی شریعت نے اسلامی حدود و قیود میں رہتے ہوئے اجازت دی ہے تاکہ وہ سوسائٹی میں رہتے ہوئے اپنے فرائض کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکے اور محنت شاقہ سے اس کو پوار کرے۔
شریعت اسلامیہ کا خواتین کے معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے حوالے سے جو عمومی رویہ سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ دین اسلام نے عورت کو معاشرت اور ماحول نیز وقت اور ضرورت کے پیش نظر معروف معاشی سرگرمیاں اپنانے کی اجازت دی ہے، اس کا حکم نہیں دیا۔ اجازت دینے اور حکم دینے میں فرق ہے۔ کسی کام کے کرنے کی اجازت دینے سے قابل اعراض امور ختم نہیں ہوجاتے مگر صرف اس وقت تک کے لئے ایک استثنائی صورت موجود رہتی ہے جب تک کہ وہ ضرورت موجود ہو۔ جبکہ حکم کا فلسفہ اس کے بالکل مختلف ہے۔ مثال کے طور پر شریعت اسلامیہ نے وضو کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے اور تیمم کے ساتھ استثنائی صورت میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے۔ اب کوئی شخص تیمم کی رخصت والی صورت کو حکم سمجھ کر عمل پیرا نہیں ہوسکتا۔
صحابیات رضی اللہ عنہن نے اپنی حیات میں مستحسن معاشی سرگرمیاں نبھائیں جو کہ خواتین کے Economic Field میں آنے کے لئے ایک معتبر سند کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مگر وہ پس منظر اور دائرہ کار آج ان کی نظروں سے اوجھل ہے کہ جس پس منظر اور دائرہ کار میں رہ کر انہوں نے کام کیا۔ خواتین کی ذمہ داریوں اور فرائض کی نوعیت کے حوالے سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے خود ان کی اپنی آسانی کے لئے ’’وَقَرْنَ فِیْ بُيُوتِکُنَّ‘‘ کا حکم دیا اور اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَائِ فرما کر مرد پر اس کڑے اور کٹھن کام (Task) کی ذمہ داری سونپی۔ لیکن اگر خواتین، صحابیات رضی اللہ عنہن کی سیرت مطہرہ کو سامنے رکھتے ہوئے مرد کے لئے (Helping Hand) بننا چاہتی ہیں تو انہیں جاننا چاہئے کہ وہ پہلے ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآہوں جو شریعت نے ان پر عائد کی ہیں تب وہ ساتھ ساتھ Economic and professional matters انجام دے سکتی ہیں۔