تعارف:
آپؓ کا نام ماریہ قبطیہ بنت شمعون المصری تھا۔ آپ نہایت دیانت دار نیک سیرت، پاکیزہ اور خوش اخلاق تھیں۔ آپ سے نہایت دقیق احادیث مروی ہیں:
امام محمد بن سعد نے اپنی سند کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ اسکندریہ کے بادشاہ مقوقش نے 7 ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حضرت ماریہ قبطیہ اور ان کی بہن سیرین کو بطور تحفہ بھیجا۔ ان کے ساتھ ایک ہزار مثقال سونا، بتیس سفید ملائم کپڑے کے تھان، ایک خچر جس کا نام دلدل تھا اور ایک دراز گوش بھیجا جس کا نام عضیر بالعفور تھا اور اس کے ساتھ ایک شخص بھی تھا جس کا نام مابور تھا اور ایک بوڑھا شخص جو حضرت ماریہ کا بھائی تھا۔ ان سب کو حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں بطور نذرانہ پیش کیا گیا۔ حضرت حاطبؓ نے ان حضرات و خواتین کو اسلام کی دعوت دی جسے حضرت ماریہ، ان کی بہن نے قبول کرلیا جبکہ مابور مدینہ پہنچ کر مسلمان ہوگیا۔
روایات میں ہے کہ شاہ مقوقش نے ان تحائف کے ساتھ ایک خط بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ارسال کیا۔ جس میں اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا اقرار کیا اور کہا کہ میں دو لڑکیاں آپ کی خدمت میں بھیجتا ہوں جن کی قبطیوں میں بہت تکریم کی جاتی ہے۔ ان میں حضرت ماریہ اور انکی بہن سیرین تھیں۔ ام المومنین سیدہ ماریہؓ نہایت حسین وجمیل تھیں۔ انہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے لیے پسند فرمایا اور انہیں بالا خانے میں ٹھہرایا جبکہ ان کی بہن سیرین کو حضرت حسان بن ثابتؓ کو عطا فرمایا جن سے انہوں نے نکاح کیا۔
مشربہ ام ابراہیم:
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ ماریہؓ کو جس بالا خانے میں ٹھہرایا اس کو بعد میں ’’مشربہ ام ابراہیم‘‘ کہا جانے لگا کیونکہ سیدہ ماریہؓ نے اسی بالا خانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیمؑ کو جنم دیا تھا۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ماریہؓ سے محبت فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس بہت زیادہ آتے جاتے تھے۔
اولاد:
سیدہ ماریہؓ کے بطن سے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد سیدنا ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے۔ ان کی پیدائش ذوی الحجہ 8 ہجری میں ہوئی۔ ساتویں روز آپ نے ان کا عقیقہ کیا۔ عقیقہ میں دو مینڈھے ذبح کئے، سر منڈایا گیا اور بالوں کے برابر چاندی تول کر صدقہ کی گئی اور بال زمین میں دفن کئے گئے۔ آپ نے اپنے بیٹے کا نام اپنے جد امجد کے نام پر ابراہیمؑ رکھا حضرت ابراہیمؑ بہت خوبصورت اور تندرست تھے۔ آپ ابراہیمؑ کو گود میں لے کر کھلاتے اور پیار کرتے۔ ابراہیمؑ نے 17 یا 18 ماہ کی عمر میں انتقال کرگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہایت غمگین تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زبان مبارک سے فرمایا:
’’بخدا ابراہیم! ہم تمہاری موت سے نہایت غمگین ہیں آنکھ رو رہی ہے اور دل غمزدہ ہے مگر ہم زبان سے ایسی کوئی بات نہیں کہیں گے جس سے ہمارا رب راضی نہ ہو‘‘۔
فضائل:
جب حضرت ابراہیمؑ پیدا ہوئے تو ان کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بچے کی ماں ہونے کا اعزاز حاصل ہوگیا تھا اور اسی بچے کی وجہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زیادہ وقت حضرت ماریہؓ کے پاس گزرتا تھا۔
حضرت ماریہؓ کو اسی وجہ سے ام ولد بھی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ابراہیمؑ کی والدہ تھیں۔ بعض روایات میں ہے سیدنا ابراہیمؑ کی پیدائش کے بعد ایک دفعہ جبرائیلؑ امین نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر فرمایا تھا۔ اسلام علیک یا ابا ابراہیم۔ حضرت ابراہیمؑ کی وفات کے دن سورج گرہن ہوگیا اور لوگوں نے اس کو بدبختی کی نشانی سمجھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو جمع فرماکر خطبہ دیا اور فرمایا کہ چاند گرہن اور سورج گرہن اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں پھر لوگوں کو نماز کسوف کی تعلیم دی اور انہیں نماز پڑھائی۔
وفات:
امام واقدی نے بیان کیا ہے کہ محرم 61 ہجری میں حضرت ماریہؓ کی وفات ہوئی یہ حضرت کی عمرؓ کی خلافت راشدہ کا دور تھا۔ انہوں نے بہت سے لوگوں کو جنازے میں جمع کیا اور ان کی نمازجنازہ پڑھائی۔ امام واقدی نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ تاحیات حضرت ماریہؓ کو خرچ دیتے رہے حتی کہ ان کا وصال ہوگیا پھر حضرت عمرؓ ان کو خرچ دیتے رہے حتی کہ حضرت ماریہؓ ان کے دورمیں وصال فرماگئیں اور ان کا مزار جنت البقیع میں ہے۔
ام المومنین کی زندگی۔۔ خواتین کے لیے مشعلِ راہ:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو نکاح فرمائے ان کا مقصد یہی تھا کہ عورتوں کی اکثر تعداد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خانگی زندگی کو دنیا کے لیے پیش کرسکے کیونکہ بیوی سے زیادہ شوہر کے رازوں سے کوئی واقف نہیں ہوسکتا۔ اس کے علاوہ عورتوں کے مخصوص مسائل عورتوں کے ذریعے ہی بیان ہوسکتے ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعدد نکاح کرنے کی ایک بڑی وجہ عورت کے مقام اور درجہ کو بھی دنیا میں اجاگر کرنا تھا۔ اسلام میں عورت کا جو مقام اور مرتبہ ہے وہ دور جاہلیت میں اس کا تصور بھی نہ تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا کہ عورت کا درجہ اسلام میں وہی ہے جو مرد کا ہے۔ حیثیت، حقوق اور اخروی انعامات میں دونوں میں کوئی فرق نہیں۔
حضرت ماریہ قبطیہؓ سے نکاح کرنے کا مقصد ان کے قبیلے کی عداوت کو محبت و الفت میں تبدیل کرنا تھا اور اس تحفے کی قبولیت کی سند جاری کرنا تھا جو شاہ مقوقش نے آپ کی خدمت میں بھیجا تھا۔ حضرت ماریہ قبطیہؓ کنیز تھیں اس لحاظ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کنیزوں کے حقوق بھی متعین فرمائے۔ ان کے مقام اور مرتبے کو واضح کیا اور ان کے ساتھ محبت و مودت کے احکام اپنی امت کو عطا کئے۔ حضرت ماریہؓ نہایت معاملہ فہم تھیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے غزوات اور داخلی معاملات میں ان سے مشورہ فرمایا کرتے تھے۔ ان کی زندگی سے آج کی خواتین کو یہ پیغام ملتا ہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کو اچھے طریقے سے ادا کریں۔ ہمیشہ صبر اور شکر کا دامن تھامے رکھیں اللہ کی رضا میں راضی رہیں اور دعوت دین کے فریضے کو ادا کرتی رہیں۔ بطور ماں اپنے بچوں کی بہترین تربیت کریں تاکہ وہ معاشرے کا کار آمد جزو بن سکیں۔