رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
عن عبد الله بن عمر قال: قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم: أَعْطُوا الأَجِیرَ أَجْرَہُ قَبْلَ أَنْ یَجِفَّ عَرَقُہ.
رواہ ابن ماجہ (2/175)
حضرت عبداللہ بن عمر راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مزدور کو اس کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو۔
یعنی جب مزدور اپنا کام پورا کر چکے تو اس کی مزدوری فورًا دے دو اس میں تاخیر نہ کرو، اس کا حق خدمت معاہدے کے مطابق وقت پر ادا کر دیا جائے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بڑی معروف و مشہور حدیث مبارکہ ہے جو کم و بیش ہر شخص چاہے وہ مزدور ہو یا مالک سب کو یاد ہے۔
ایک اور حدیث مبارکہ ہے:
عن الحسین بن علی رضی الله عنهما قال: قال رسول اللہ صلی الله علیه وآله وسلم: "للسائل حق وإن جاء علی فرس.
(رواه أحمد وأبو داود)
حضرت حسین بن علیؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سائل کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ بہرصورت دئیے جانے کا مستحق ہے اگرچہ گھوڑے پر آئے۔
مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے اس حدیث مبارکہ کے علاوہ ایک حدیث قدسی بھی بڑی معروف ہے ۔ جس میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے کہ میں قیامت کے دن تین لوگ کا مدّعی بنوں گا۔ ان میں سے ایک وہ مزدور ہو گا جس نے اپنا کام تو پورا کیا لیکن اسے اس کی اجرت نہیں دی گئی۔
آج کے نظام کو دیکھتے ہوئے یہ بات درست طور پر کہی جا سکتی ہے کہ یہ دو طبقات کی جنگ ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ظالم اور مظلوم کی جنگ ہے تو بے جا نہ ہوگا، اس جنگ میں ایک فریق آجر ہے، جسے ہم آج کے معاشی نظام کی نسبت سے ظالم قرار دے سکتے ہیں کیونکہ ظالم وہی ہوتا جو کسی کا حق مارے، آج کا آجر کیا کر رہا ہے؟ یہ ایک سوالیہ نشان مزدور طبقہ بلکہ قوم و ملت کا درد رکھنے والے ہر ذی شعور کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
اس ظالمانہ نظام میں صنعتی مزدور ہوں یا زرعی، رجسٹرڈ ہوں یا غیر رجسٹرڈ، انہیں روزگار مل جائے تواجرت نہیں ملتی، اگر بحیثیت قوم دیکھا جائے تو معاشرے میں یہ روش عام پائی جاتی ہے کہ اپنی من پسند تعیشات پر تو بے دریغ خرچ کیا جا رہا ہے مگر حقدار اور محنت مزدوری کرنے والے کو چار پیسے زیادہ دینا تو درکنار اس کی حقیقی اجرت کی ادائیگی کے وقت چند سو روپوں پر بھی بحث اور رنگ برنگ کے جملے کسے جاتے ہیں۔ یہی مزدور ہر روز منڈی اور لوگوں کے گھروں میں کام کرتے ہیں، کھیتوں میں کام کرنے والے مرد اور خواتین وہ مزدور ہیں جنہیں بنیادی حقوق اور سوشل سیکیورٹی کی سہولت میسر نہیں، ان کی اجرت بھی طے نہیں ہوتی، آئین پاکستان کے مطابق تمام حقوق سے محروم رہنے والے ان مزدور افراد کے لئے قائد تحریک منہاج القرآن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اپنی تعلیمی خدمات کو فروغ دیتے ہوئے مزدوروں کے بنیادی حقوق پر چاہتے ہیں کہ ملک کا ہر مزدور بنیادی حقوق سے محروم نہ رہے۔ انہوں نے 23 دسمبر2012ء کو مینار پاکستان پر اس ظالمانہ نظام کے خلاف آئینی و جمہوری جدوجہد کا آغاز کیا ۔ انتخابی اصلاحات کا ایجنڈا پیش کیا ۔ آئین کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ اس کی پاسداری کی بات کرنے کا لائحہ عمل پیش کیا ۔ اور آج بھی تحریک منہاج القرآن ملک بھر میں ہر سطح پر اس کے لئے عملی کوشش اور جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔
اسلام نے جہاں معاشرے کے دوسرے افراد کے حقوق و فرائض کا تعین کیا ہے وہیں مزدور اور مالک کے حقوق و فرائض کو بھی واضح طور پر بیان کیا گیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہر ایک کو پابند کر دیا گیا ہے کہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں ذرا برابر کوتاہی نہ کریں۔ اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کیا جائے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ شریعت نے صدیوں پہلے ظلم و بربریت کی چکی میں پسے ہوئے مزدوروں کو انکا جائز حق دیا اور مالکان کو پابند کیا کہ مزدوروں کو کم تر نہ سمجھیں، جب کسی مزدور سے کام لیا جائے تو اسکا حق فوراً دے دیا جائے۔
اس ظالمانہ نظام میں اوّل تو مزدوروں کو ان کی اجرت دی ہی نہیں جاتی اگر دی بھی جائے تو اتنی کم دی جاتی ہے کہ مزدوروں کو دوبارہ پسینہ آ جاتا ہے۔ آج کے زمانے میں مزدوروں کو اتنی اجرت دی جاتی ہے کہ ان سے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنا مشکل ہوتا ہے۔ جب مزدوروں کو ان کی محنت کا صحیح اور بروقت معاوضہ نہیں ملتا تو پھر وہ ہڑتال کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور مالک ان سے بدلہ لینے کے لئے کارخانوں کو تالے لگا دیتے ہیں۔ جس سے ایک طرف بے قصور صارفین کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور دوسری طرف معیشت کو ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی درج بالا حدیث مبارکہ مزدوروں کو معاشی تحفظ فراہم کرتی ہیں اور مالکان کو تنبیہ کرتی ہیں کہ وہ مزدوروں کے استحصال سے رک جائیں وگرنہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی عدالت میں ان پر مقدمہ قائم کیا جائے گا اور اس مقدمہ میں اللہ تعالیٰ خود ہی مزدوروں کا مدّعی ہو گا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ تمہارے خادم، ملازمین، مزدور اور غلام تمہارے بھائی ہیں۔ لہٰذا جیسا تم خود کھاؤ جیسا تم خود پہنو اپنے مزدور بھائی کو ویسا ہی پہناؤ ویسا ہی کھلاؤ اور اپنے مزدور کو ایسا کوئی کام کرنے کو مت کہو جو تم خود نہیں کرتے اگر ایسا کوئی کام کروانے کی ضرورت ہو تو خود بھی اس کا ساتھ دو۔
(صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب المعانی من امور الجاهلیة)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:
اللہ ہر ایک کے گناہ کو بخش سکتا ہے لیکن دین میں بدعت ایجاد کرنے ،مزدور کی مزدوری نہ دینے اور کسی آزاد شخص کو غلام بنا کر بیچنے والے کے گناہ کو کبھی معاف نہیں کرتا۔
(عیون الاخبار رضا)
آج ہم دیکھتے ہیں کہ مزدوروں کو بہ مشکل دال روٹی دی جاتی ہے جبکہ مالک کے ایک وقت کے کھانے کا بل مزدور کی پوری تنخواہ کے برابر ہوتا ہے۔ مزدور سال میں بہ مشکل ایک دفعہ نئے کپڑے سلوا پاتا ہے اور بہت سے ایسے ہیں جنہیں سالوں نئے کپڑے نصیب نہیں ہوتے۔ اس کے برعکس سرمایہ دار روز نئے کپڑے زیب تن کرتا ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ معاشرے میں جو سلوک آج کے مزدور کے ساتھ کیا جاتا ہے وہ قید خانوں میں قیدیوں کے ساتھ بھی نہیں ہوتا۔
ملک کے ہر ضلع میں لیبر ڈپارٹمنٹ موجود ہیں۔ مزدوروں کی رجسٹریشن، ان کی تنخواہوں، اجرت اور ان کے لئے حفاظتی آلات کی فراہمی یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ لیکن یہ کرپٹ نظام مزدوروں کے ساتھ ہونے والے ظلم کے لئے جائز قانونی مراعات کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے کوئی کام نہیں کر رہا۔ جیسا کہ اوپر بھی میں نے عرض کیا ہے کہ مزدور کے لئے ریاست مدینہ کا اصل پیغام یہ ہی ہے کہ اسے پسینہ خشک ہونے سے پہلے اجرت ملے گی، بلکہ یہ آقا کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمانِ حکم ہے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج کا نظام دعویدار تو ہے لیکن عمل کے میدان میں صفر ہے۔ مزدور کے لئے اس کے اوقات کار کے لئے جنگ لڑی گئی اور شکاگو کے مزدور اس جنگ میں اپنی جانوں کی بازی ہار گئے کہ وہ یہ مطالبہ کیوں کر رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں کسی بھی ادارے میں مزدور کے لئے طے شدہ اوقات کی پابندی نہیں کی جاتی خواتین مزدور بھی نہیں بخشی جاتیں، نجی اداروں اور غیر رسمی اداروں میں بارہ بارہ سولہ سولہ گھنٹے تک ڈیوٹی لی جاتی ہے۔ مزدور طبقے کو بے روح اور بے جان رکھنے والے کل کو اللہ کے سامنے کیا جواب دیں گے؟ سوچ رکھیں کیونکہ وہاں کوئی سورس، کوئی این جی او مدد کو نہیں آئے گی وہاں اپنے اعمال ہی کام آئیں گے۔ ایسے معاشرے میں غریب مزدور کو عزتِ نفس سے تو محروم کر ہی دیا گیا ہے اسے یہ بھی معلوم نہیں کہ اسلامی معاشرے میں اس کی حیثیت کیا ہے۔ مظلوموں کے لئے کوئی داد رسی نہیں اور انہیں کوئی دلاسہ دینے والا نہیں۔ اسی کا نام سرمایہ داری نظام ہے۔
حکومتوں کو کوئی غم و فکر نہیں کہ محنت کش مزدور کے بچے تعلیم سے محروم رہ کر اس کی بھٹی کا ایندھن بننے جا رہے ہیں۔ ملک میں موجود بے حس کرپٹ اور ظالمانہ نظام کی وجہ سے تعلیم غریب محنت کش اور مزدور کسان کے بچوں کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ ان معصوم بچوں کی فیسوں اور ٹیکسوں سے ایک طرف اس ملک کے مختلف بااختیار اداروں کے لوگ بنک بیلنس گاڑیاں محلات کوٹھیاں اور عیاشیاں کرتے ہیں۔ اس کرپٹ اور ظالمانہ نظام میں آج بھی عوام اور خاص طور پر غریب مزدور، کسان اور محنت کش پسے ہوئے ہیں۔ حالات ایسے غمگین ہیں کہ مزدور کے اوقات کار ایسے تلخ ہیں آج بھی ایک قلاش سرمایہ دار محض اپنی جھوٹی وجاہت کے بل بوتے پر بینکوں سے کروڑوں روپے کا قرضہ لیتا ہے اور فیکٹری کھڑی کر کے کرسی پر بیٹھے بٹھائے پورے دن میں پچاس ہزار کما لیتا ہے جب کہ اسی فیکٹری میں صبح سے شام تک کام کرنے والے مزدور کو شام کے وقت صرف پانچ سو کا نوٹ تھما دیا جاتا ہے اسی ظالمانہ نظام پر اقبال نے کہا تھا:
"حکم حق ہے لیس للانسان الاماسعی"
کھائے کیوں مزدور کی محنت کا پھل سرمایہ دار
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اتحاد اسلامی کے داعی تو ہیں ہی مگر اسکے ساتھ وہ سرمایہ دارانہ نظام کیخلاف لڑنے والے محنت کشوں مزدوروں اور غلامی کی زندگی بسر کرنے والوں کی توانا آواز بھی ہیں۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مظلوموں، محنت کشوں، غلاموں اور مزدوروں کی حمایت میں ایسی آواز بلند کی جو کہ آج بھی کروڑوں دلوں کو گرما رہی ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے قوم کا شعور بیدار کیا پاکستان کے آئین کی قوم کو تعلیم دی اور جدوجہد کرنا سکھایا کہ حقوق مانگنے پر نہ ملیں تو چھین لئے جائیں کا فلسفہ دیا۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایک فکری نظریے کا نام ہے انہوں نے آج کے تمام مسائل کی جڑ موجودہ کرپٹ نظام کو کہا ہے جو کہ دھن دھونس دھاندلی پر چل رہا ہے ۔ انکے نظریے اور فکر کو عام کرنے کے لئے تحریک منہاج القرآن اور منہاج القرآن ویمن لیگ کی جدوجہد آخری دم تک جاری رہے گی۔
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو
ریاست مدینہ کے والی تاجدار کائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو لیبر پالیسی دی تھی، اس کا خطبہ حجتہ الوداع میں واضح ذکر موجود ہے، جو تمہارے ہاتھ کے نیچے کام کرتے ہیں وہ تمہارے بھائی ہیں جو خود کھاتے ہو، انہیں بھی کھلاؤ، جو خود پہنتے ہو انہیں بھی پہناؤ اور ان پر کام کا وہ بوجھ نہ لادو جس کی وہ طاقت نہ رکھتے ہوں۔
بقول حضرت اقبالؒ:
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
کب ڈُوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟
دُنیا ہے تری منتظرِ روزِ مکافات!