اولیاء کرام کی روحیں براہ راست روح محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منور ہوتی ہیں۔ ایک سورج تو درکنار کروڑوں سورج اپنی حرارت میں اپنے اثر میں اپنی قوت میں اپنی طاقت میں اپنی موثریت میں ایک ولی کامل کی روح کا مقابلہ نہیں کرسکتے جس طرح سورج دور رہ کر پودے کو زندہ و سلامت اور تروتازہ رکھتا ہے اسی طرح بعد از وصال مرد کامل کی روح خواہ علّیین کی سیر کرتی پھرے، عالم ملکوت کی سیر کرتی پھرے، عالم سموات کی سیر کرتی پھرے خواہ حضور الوہیت میں سجدہ ریزیاں کرتی پھرے خواہ جنت کی سیر کرتی پھرے خواہ بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مدینہ میں حاضری دیتی پھرے۔
الغرض ولی کامل کی روح قبر مبارک میں جسم کو زندہ و سلامت اور تروتازہ رکھتی ہے۔ اس جسم کا ختم ہونا تو درکنار مرجھانے بھی نہیں دیتی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اولیاء اللہ کو اپنی ریاضات کے ساتھ وجووثانی مل جاتا ہے۔ وہ واردات بشریہ جو اللہ چاہتا ہے طاری ہوتی ہیں اور وہ معاملات جو اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا وہ وجود اس سے بری ہوتا ہے۔
حضور سیدنا غوث الاعظمؓ فرماتے ہیں کہ راہ حق سے ہٹانے کے لئے میرے اوپر شیطان مختلف حیلوں سے حملے کرتا تھا ریاضتوں اور مجاہدوں کے دوران ایک بار میرے اردگرد بہت سے فریب کے جال بچھ گئے ایسا محسوس ہوا کہ وہ جال مجھے جکڑ لیں گے میں نے توجہ کی اور دریافت کیا کہ یہ جال کیا ہیں؟ تو بتایا گیا کہ یہ دنیا کے فریب کے جال ہیں یہ شیطان کے حیلوں اور حملوں میں سے ایک حیلہ اور حملہ ہے۔ فرماتے ہیں کہ پھر میں نے عزم کیا اور ایک سال تک مسلسل دنیا کے فریبوں کے جال سے چھٹکارا پانے کے لئے خصوصی مجاہدے اور ریاضتیں کرتا رہا۔ ایک سال کی خصوصی ریاضتوں کے بعد اللہ پاک نے مجھے دنیا کے تمام فریبوں کے جال سے نجات دے دی۔ دنیا اور اس کے فریب نیچے رہ گئے اور اللہ کے فضل سے میں آگے گذر گیا۔ فرماتے ہیں جب آگے گذرا تو پھر میرے اردگرد جال بچھادیئے گئے میں متوجہ ہوا پوچھا یہ جال کیا ہیں؟ بتایا گیا کہ یہ مخلوق کے اسباب کے جال ہیں جس میں ہم رہتے ہیں۔ یہ عالم اسباب ہے جس میں بچوں کی ضرورت ہے روزگار اور معاش کی ضرورت ہے عزت کی ضرورت ہے طاقت کی ضرورت ہے۔ مال کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ عالم خلق کے اسباب ہیں یہ ایک پورا نظام ہے فرمایا اس مخلوق کے اسباب کا جال حملہ آور ہوا تاکہ آپ کو اپنے مقام سے گراکر اور پھسلا کر اس راہ سے ہٹادے فرماتے ہیں جب میں اس حقیقت سے آگاہ ہوا تو میں پھر متوجہ ہوا اور ایک سال تک خصوصیت کے ساتھ میں نے ریاضتیں اور مجاہدے کئے اور مخلوق کے اسباب کے جالوں سے نجات پائی۔ فرماتے ہیں تیسرا حملہ ہوا پھر جالوں نے آگھیرا میں نے توجہ کی اور پوچھا کہ یہ جال کیا ہیں؟ بتایا گیا کہ یہ جال باطن اور قلب کے تعلقات کے خطرات کے جال ہیں۔ فرماتے ہیں میں پھر ایک سال تک ریاضت اور مجاہدہ کی بھٹی سے گزرا کہ باطن کے تعلقات اور قلب کے وسوسوں اور خطروں کے جملہ جالوں کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل گیا فرماتے ہیں آخر میں پھر جال بچھ گئے میں نے پوچھا کہ اب یہ کونسے جال ہیں؟ بتایا گیا کہ یہ نفس کی بیماریوں کا جال ہے۔ فرماتے ہیں میں پھر مسلسل ایک سال تک ریاضت اور مجاہدے کرتا رہا بالآخر اللہ رب العزت نے مجھے نفس کی تمام بیماریوں سے نجات دے دی۔
دنیاکے فریب شکست خوردہ ہوکر غوثیت مآب کے سامنے گر گئے باطنی اور قلبی وسوسے شکست خوردہ ہوگئے عالم خلق کے اسباب اپنے جملہ فریبوں کے ساتھ شکست خوردہ ہوگئے نفس اور نفس کی ساری بیماریاں ہار مان گئیں فرماتے ہیں میں آگے گذر گیا اور اب اللہ نے مجھے وہ رتبہ عطا کیا کہ میرا وجود پیچھے رہ گیا اب میں مفرد اور تنہا ہوگیا اس عالم تنہائی میں میرا نفس تو درکنار میرا وجود بھی میرے ساتھ نہ تھا۔ فرماتے ہیں جب وجود سے نجات پاکر میں آگے تنہا گیا تو سب سے پہلے میرے سامنے باب توکل کھولا گیامیں نے چاہا کہ اس سے نکلوں مگر دیکھا کہ بڑی رکاوٹیں کھڑی ہیں پھر میں نے محنت کی ریاضت کی مجاہدہ کیا تو اللہ کے فضل سے رکاوٹیں دور ہوئیں اور میں باب توکل سے گذر گیا فرماتے ہیں باب توکل کے بعد میرے سامنے باب تسلیم لایا گیا اس میں پھر رکاوٹیں تھیں جسے دور کرنے کے لئے پھر ریاضتیں محنتیں اور مجاہدے کئے وہ رکاوٹیں اللہ کے فضل سے دور ہوگئیں اور میں باب تسلیم سے آگے گذر گیا پھر مجھے باب قرب کے دروازے پر کھڑا کردیا گیا وہاں پھر رکاوٹیں تھیں میں نے ریاضتیں کیں اللہ کا فضل میرے شامل ہوا اور رکاوٹیں دور ہوگئیں پھر میں باب قرب سے گذر کر آگے بڑھا تو مجھے باب فقر کے سامنے لاکر کھڑا کردیا گیا فقر کے دروازے کے سامنے بڑی رکاوٹوں کے جال تھے فرمایا میں نے ریاضتیں، مجاہدے اور محنتیں کیں تو اللہ کے فضل سے رکاوٹیں دور ہوئیں اور میں آگے گزر گیا باب فقر سے گزرنے کے بعد جوں جوں آگے گزرتا گیا توں توں مجھے عزت ملتی گئی قرب ملتا گیا منزلت ملتی گئی بلندی ملتی گئی اللہ پاک میرے حال کو بہتر بناتا گیا فرماتے ہیں جب میں ان سب دروازوں سے آگے گذرا میں تنہا تھا تب جاکر اللہ نے مجھے دوسرا وجود عطا کردیا۔ اپنا وجود پہلے دروازے سے گذرنے سے بھی پہلے چھوڑ آیا تھا اور چاروں دروازوں سے گذرنے کے بعد اللہ نے مجھے وجود ثانی عطا کردیا اب جو وجود ثانی ملا تو نہ یہ قدم اپنے قدم ہیں نہ یہ ہاتھ اپنے ہاتھ ہیں اور نہ یہ جسم اپنا جسم ہے۔ یہی وجہ ہے جب حضور غوث پاکؓ کو وجود ثانی ملا یہ اس کا فیض تھا کہ کسی نے آپ کے جسم پر جسم پاک مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح مکھی کو بیٹھتے نہیں دیکھا تھا۔ اولیاء اللہ لکھتے ہیں کہ میں سوا سال حضور غوث پاک کی بارگاہ میں رہا آپ کو کبھی ناک صاف کرتے نہیں دیکھا کوئی کہتا ہے کہ میں بیس سال آپ کے پاس رہا میں نے آپ کو کھنگار نکالتے نہیں دیکھا۔ وجود ثانی تو دراصل وجود مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فنائیت کا وجود تھا جب وجود ثانی ملتا ہے تو حالات اور صفات بدل جاتی ہیں جب وجود ثانی ملا تو بقایا چیزیں جو میری خصلت میں رہ گئی تھیں وہ مٹادی گئیں اور مجھے نئی خصلتیں ملیں نئے حال ملے نئے کمالات ملے جب سرکار غوث اعظمؓ اس حال پر فائز ہوں۔ قدمی ھذہ علی رقبۃ کل ولی اللہ (میرا قدم ہر ولی کی گردن پر ہے) تو پھر ہر ولی اپنی گردن آپ کے سامنے کیوں نہ جھکائے؟ فرماتے ہیں
نظرت الی بلاد الله جمعا
کخر دلة علی حکم تصالی
میں نگاہ اٹھا کر جب پورے اطراف واکناف کو دیکھتا ہوں تو ساری کائنات کو یوں دیکھتا ہوں جیسے میری ہتھیلی پر رائی کا دانہ رکھا ہو۔ یہ وجود ثانی کی برکت ہے۔ اولیاء اللہ کو اپنے اپنے مقام اور اپنے مرتبے کے مطابق وجود ثانی ملتا ہے۔ جب یہ صفات ملتی ہیں تو پھر یہ لوگ دوسرے لوگوں کے احوال واقعات وصفات سے بالکل مختلف ہوتے ہیں اگر لاکھوں کروڑوں مرید بھی مشرق سے مغرب تک ہوں تو وہ ان کے احوال پر جس وقت توجہ کرتا ہے باخبر ہوتا ہے۔
حضور قدوۃ الاولیاء ؓ کی کمالات اور تصرفات میں سے بڑا بلند کمال یہ بھی تھا کہ آپ مرید کے احوال سے باخبر رہتے۔ اس طرف بھی خیال اور دھیان رکھتے کہاں گیا ہے اور کہاں نہیں گیا؟ ہزاروں میلوں پر بیٹھے خبر رکھتے کون ساتھ آیا ہے کون نہیں آیا؟ کہاں جارہا ہے اور آرہا ہے؟ ایک ایک چیز پر نظر رکھتے۔
یہ شان فنائیت اور مظہریت کمالات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے جو ہر کسی کو نہیں کامل ولی کو ملتی ہے یہ کمال مرد کامل اور زمانے کے قطب اور غوث کو نصیب ہوتا ہے یہ حضور کی شان لَقَدْ جَآئَکُمْ رَسَوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَاعَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُوْفٌ رَّحِیْمٌ. (سورۃ التوبه، 9: 128) کا کمال ہے کہ اگر کوئی تکلیف تمہیں آئے تو حضور علیہ السلام کو اس تکلیف کا اثر ہوتا ہے تڑپ اٹھتے ہیں۔ تمہاری تکلیف میرے رسول کو شاق گزرتی ہے۔ یہ شان، بارگاہ رسالت میں تو حضور کے مرتبے کو شامل ہے مگر اس میں سے حصہ ہر ولی اور شیخ کو بقدر حال اور بقدر استطاعت ملتا ہے۔ حضور پیر طاہر علائوالدینؓ کے بارے میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا سوئم کے ختم کے دوسرے دن مجھے خواب آیا پہلی بار زیارت کرائی۔ حضور پیر صاحب کا عالی شان مزار پاک بن چکا ہے۔ اردگرد پورے علاقے میں اندھیرا ہے لوڈشیڈنگ کی وجہ سے بجلی نہیں ہے۔ لوگ اندھیرے میں آہستہ آہستہ آرہے ہیں میں انتظام و انصرام اور لوگوں کی آمد پر استقبال کرنے میں مصروف تھا۔ فارغ ہوکر حضور کے قدموں میں جب دربار شریف میں آیا تووہاں روشنیاں ہی روشنیاں ہیں قمقمے ہی قمقمے ہیں نور کا عالم ہے میں حضور کی قدم بوسی کرکے پوچھتا ہوں باہر تو لوڈ شیڈنگ ہے بالکل اندھیرا ہے کوئی بلب بھی جلتا نظر نہیں آرہا جبکہ یہاں ہر طرف روشنی ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ آپ مجھے فرماتے ہیں پروفیسر صاحب ہمارا کنکشن بغداد سے آتا ہے اس لئے ہمارا بجلی پر لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتا۔ یہ غوث اعظمؓ کا نائب کا مزار کتنا بڑا احسان ہے۔
حضور غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کے فیوضات کا یہ چشمہ اب ہمیشہ کے لیے سرزمین لاہور میں جاری ہوگیا ہے۔ دربار شریف کے قریب میں واقع ’’منہاج القرآن تربیتی مرکز‘‘ ایک عالمی تربیتی مرکز ہے، جہاں ہر سال دس روزہ عشرہ اعتکاف میں ہزاروں معتکف پوری دنیا سے شریک ہوتے ہیں اور سالانہ روحانی اجتماع میں لاکھوں عقیدت مند حاضر ہوکر روحانی تربیت کے ساتھ ساتھ دعوت اسلام، تحریک اور انقلاب کا درس بھی لیتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں ایک عظیم الشان تحفیظ القرآن، کالج اور منہاج یونیورسٹی بھی قائم ہوچکی ہے یوں حضور قدوۃ الاولیاء کے فیض و برکت کے شعاعیں تیزی کے ساتھ اطراف و اکناف عالم میں پھیل رہی ہیں۔