علی ابن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف والدہ ماجدہ کا نام فاطمہ بنت اسد بن ہاشم بن عبد مناف ہے۔ آپ کی والدہ ماجدہ نے آپ کا نام حیدر پسند کیا تھا۔ جس کے معنی ہیں شیر جبکہ آپ کے والد محترم جناب ابو طالب علیہ السلام نے آپ کا نام علی رکھا اور آپ اسی نام سے مشہور ہوئے۔ حضرت علیؓ اپنے والدین کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔ حضرت جعفرؓ، عقیلؓ اور طالبؓ آپ سے بڑے تھے۔ ایک روایت ہے کہ ایک مرتبہ قریش کو قحط کی مصیبت نے آگھیرا تو رسول کریمa نے اپنے دونوں چچاؤں حضرت حمزہؓ اور حضرت عباسؓ سے فرمایا کہ وہ اس مشکل وقت میں اپنے چچا جناب ابو طالب کا بوجھ اٹھائیں کیونکہ وہ کثیرالعیال ہیں۔ جس پر جناب ابو طالب نے عقیل کو اپنے پاس رکھا اور طالب حضرت عباسؓ کے حصے میں آئے اور حضرت حمزہؓ نے جعفر کو لے لیا۔ علی کو حضرت نبی کریمa کا ساتھ نصیب ہوا چونکہ جناب ابو طالب کو رسول کریمa سے از حد محبت تھی۔ لہذا رسول کریمa نے بھی اس محبت کا بھرپور جواب اس طرح سے ادا کیا کہ علی مرتضیٰؓ کی تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑی کہ آپ کی بقایا زندگی میں بھی اس تربیت کا اثر باقی رہا جس کا یہ نتیجہ نکلا کہ آپ نے بچپن ہی میں ترقی کے وہ مدارج طے کئے کہ اپنے ہم عمروں کی فہم و فراست کے مقابلے میں آپ بہت آگے نکل گئے اور جب حضرت نبی محترمa نے دعوت نبوت کا آغاز فرمایا تو یہ نو عمر بچہ جو بمشکل چھ یا سات برس کی عمر میں تھا اس نے اپنے آقا کی آواز پر لبیک کہا۔
دوسری طرف اگر حضرت علیؓ کی صفات بابرکات کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی جسمانی قوت، عوارض و آفات سے بھی زیادہ سخت تھی۔ بعض اوقات آپ ایک شہسوار کو صرف اپنے ایک ہاتھ سے اٹھا کر زمین پر پٹخ دیتے تھے۔ آپ اس قدر شجاع تھے کہ میدان جنگ میں آپ کے مدمقابل آنے سے بڑے بڑے بہادر گھبراتے تھے۔ جب غزوہ خندق میں عمرو ابن عبدود لوہے کی زرہ پہنے مسلمانوں کو للکارتا ہوا آگے بڑھا تو حضرت علیؓ نے نبی کریمa سے اذن مقابلہ طلب فرمایا۔ اجازت پانے پر علی مرتضیٰؓ مقابلے کے لیے میدان میں اترے۔ عمرو نے آپ کو کمزور خیال کرتے ہوئے آپ سے مقابلہ کرنے کو ناپسند کیا اور پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ آپ نے جواباً فرمایا کہ میں علیؓ ہوں تو اس نے کہا ابن عبد مناف میں تمہارا خون بہانا پسند نہیں کرتا۔ آپ نے فرمایا لیکن میں تمہارا خون بہانا پسند کرتا ہوں۔ تو عمرو غضبناک ہوکر آپ پر ٹوٹ پڑا۔ لوگوں کے بقول اس کی تلوار ایسے چلتی تھی جیسے آگ کا شعلہ ہو لیکن حضرت علیؓ نے اس پر ایسا وار کیا کہ وہ گر پڑا۔ علی مرتضیٰؓ کی بلند آواز میدان کارزار میں نعرہ تکبیر سے گونج اٹھی۔
بے نظیر شجاعت اور بے حد قوت کے باوجود آپ نے کبھی کسی آدمی سے جنگ کرنے میں پہل نہیں کی حالانکہ اس بارے میں آپ کو آزادی حاصل تھی۔ آپ نے اپنے بیٹے حضرت حسنؓ کو فرمایا کہ اے بیٹا دعوت مبارزت نہ دینا اگر مجھے دعوت مبارزت دی گئی تو میں اسے قبول کروں گا۔ بلاشبہ مبارزت کی دعوت دینے والا ظالم ہے اور ظالم قتل ہوتا ہے۔
اور جب خوارج نے آپ کا ساتھ چھوڑ کر آپ کے خلاف بغاوت کا ارادہ کیا تو آپ سے کہا گیا کہ آپ ان کی سبقت کرنے سے پہلے ان پر حملہ کردیں تو آپ نے فرمایا:
’’جب تک وہ مجھ سے جنگ نہ کریں میں ان سے جنگ نہیں کروں گا اور وہ عنقریب جنگ کریں گے‘‘۔
آپ نے اپنی فوج کو جنگ میں پہل کرنے سے منع فرمایا۔ آپ جب تک صلح کے لیے ہاتھ نہ بڑھا لیتے کبھی تلوار کی طرف ہاتھ نہ بڑھاتے جس طرح سے آپ کی شجاعت نے دشمنوں کو حیران و پریشان رکھا اسی طرح آپ میدان علم و وراء میں بھی سب سے آگے تھے۔ نبی محترم کا یہ فرمان مبارکہ کہ
انا مدینۃ العلم وعلی بابہا اسی صفت کی طرف بڑا واضح اشارہ ہے آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ
’’مجھے کھو دینے سے پہلے مجھ سے پوچھ لو اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ تم اپنے اور قیامت کے درمیان جو بات بھی مجھ سے پوچھو گے اور اس گروہ کے متعلق جو ایک سو آدمیوں کو ہدایت دیتا ہے اور ایک سو آدمیوں کو گمراہ کرتا ہے جو بات بھی پوچھو گے میں تم کو اس آواز دینے والے اس کی راہنمائی کرنے والے اور اس کے ہانکنے والے اور اس کے اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ اور اس کے کجاووں کے اترنے کی جگہ کے متعلق بتاؤں گا‘‘۔
رات دن کی لڑائیوں اور چپقلشوں کے باوجود آپ نشرو اشاعت علم و معارف کے کسی موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ کبھی تلواروں کی جھنکار اور خون کی بارش میں علم و حکمت کے موتی برساتے تو کبھی ذہنی الجھاؤ اور افکار کے ہجوم میں رشد و ہدایت کے فرائض انجام دیتے۔ فصاحت و بلاغت آپ کے رگ و پے میں اس حد تک سرایت کرچکی تھی کہ انتشار و پراگندگی ماحول کے باوجود علم و حقائق کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ علم و ادب کی نشوونما میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ نہ صرف عربی نثر کو حدِ کمال تک پہنچایا بلکہ فلسفیانہ فکرو نظر کو ادبی لطافتوں میں سموکر ایک نئی طرز تحریر کی بنیاد ڈالی کہ اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ آپ کے خطبات کا مجموعہ نہج البلاغہ ادبی و فنی ارتقاء کے نقطہ کمال پر پہنچا ہوا ہے۔ آپ کے خطبات و نگارشات میں مابعد الطبیعاتی و نفسیاتی مسائل کے علاوہ اخلاقی، تمدنی، معاشرتی اصول اور عدل و داد رسی کے علاوہ حرب و ضرب کے ضوابط بھی علمی و فنی اسلوب بلاغت کی لازوال یادگار ہیں۔
نہج البلاغہ کے اردو تراجم آپ کے کمال فن کی ترجمانی بالکل اس طرح کرتے ہیں جس طرح کہ کسی شے کو آئینہ میں دیکھنا کیونکہ آئینہ اس اصل شے کی وضاحت میں قاصر ہوتا ہے مگر اردو فہم قارئین کے لیے آپ کے خطبات اور اقوال لازوال کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں:
- میں گواہی دیتا ہوں کہ اس اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ یکتا لاشریک ہے وہ اول ہے۔ اس طرح کہ اس کے پہلے کوئی چیز نہیں اور وہ آخر ہے یوں کہ اس کی کوئی انتہا نہیں۔ اس کی صفت سے وہم و گمان باخبر نہیں ہوسکتے۔
- اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اور موت سے پہلے اپنے اعمال کا ذخیرہ فراہم کرلو اور دنیا کی فانی چیزیں دے کر باقی رہنے والی چیزیں خرید لو۔ چلنے کا سامان کرو کیونکہ تمہیں تیزی سے لے جایا جارہا ہے اور موت کے لیے آمادہ ہوجاؤ کہ وہ تمہارے سروں پر منڈلا رہی ہے۔
- مومن نے اپنی عقل کو زندہ رکھا اور اپنے نفس کو مار ڈالا یہاں تک کہ اس کا ڈیل ڈول لاغر اور تن و توش ہلکا ہوگیا۔ اس کے لیے بھرپور درخشندگیوں والا نور ہدایت چمکا اور اسے سیدھی راہ پر لے چلا، مختلف دروازے اسے دھکیلتے ہوئے سلامتی کے دروازے اور دائمی قرار گاہ تک لے گئے اور اس کے پاؤں بدن کے ٹکاؤ کے ساتھ امن و راحت کے مقام پر جم گئے چونکہ اس نے اپنے دل کو عمل میں لگائے رکھا تھا اور اپنے پروردگار کو راضی و خوشنود کیا تھا۔
- میں اس دارِ دنیا کی حالت کیا بیان کروں کہ جس کی ابتداء رنج اور انتہا فنا ہے۔ جس کے حلال میں حساب اور حرام میں سزا و عقاب ہے۔ یہاں کوئی غنی ہو تو فتنوں سے واسطہ اور فقیر ہو تو حزن و ملال سے سابقہ رہے گا جو دنیا کے لیے سعی و کوشش میں لگا رہتا ہے اس کی دنیوی آرزوئیں بڑھتی ہی جائیں گی اور جو کوششوں سے ہاتھ اٹھا لیتا ہے دنیا خود ہی اس سے سازگا رہوجاتی ہے۔ جو شخص دنیا کو عبرتوں کا آئینہ سمجھ کر دیکھتا ہے تو وہ اس کی آنکھوں کو روشن و بینا کردیتی ہے اور جو صرف دنیا ہی پر نظر رکھتا ہے تو وہ اسے نابینا بنا دیتی ہے۔
- اے لوگو! امیدوں کو کم کرنا، نعمتوں پر شکر ادا کرنا اور حرام چیزوں سے دامن بچانا ہی زہد و ورع ہے اگر دامن امید سمیٹنا تمہارے لیے مشکل ہوجائے تو اتنا ہو کہ حرام تمہارے صبرو شکیب پر غالب نہ آجائے اور نعمتوں کے وقت شکر کو نہ بھول جاؤ۔ خداوند عالم نے روشن اور کھلی ہوئی دلیلوں سے اور حجت تمام کرنے والی واضح کتابوں کے ذریعے سے تمہارے لیے حیل و حجت کا موقع نہیں رہنے دیا۔
- وہ عمر کہ جس کے بعد اللہ تعالیٰ آدمی کے عذر قبول نہیں کرتا ساٹھ برس کی ہے۔
- سچا عذر پیش کرنے سے یہ زیادہ دقیع ہے کہ عذر کی ضرورت ہی نہ پڑے۔
- گناہ تک رسائی کا نہ ہونا بھی پاکدامنی کی ایک صورت ہے۔
- کسی کو اس کے حق سے زیادہ سراہنا چابلوسی ہے اور حق میں کمی کرنا کوتاہ بیانی ہے یا حسد۔
- سب سے بھاری گناہ وہ ہے کہ جس کا ارتکاب کرنے والا اسے سُبک سمجھے۔
ہدیہ منقبت بہ نذرانہ شاہ نجف مولا علی مرتضیٰؓ
نجف کا راستہ ہے اور میں ہوں
کہ دل برداشتہ ہے اور میں ہوں
ہے دل میں آرزوؤں کا سمندر
طلب بے ساختہ ہے اور میں ہوں
دعا لفظوں کے پیچ و خم میں غلطاں
حواسِ باختہ ہے اور میں ہوں
مقدر آگیا لے کے کہاں پہ
فلک کا راستہ ہے اور میں ہوں
پکارا جس کو سب نے ہر قدم پہ
اُسی کا واسطہ ہے اور میں ہوں
از: ڈاکٹر فرخ سہیل
وبا ہی کیسی
پورے عالم پہ جو اک مرگ بپا ہے کیسی
چھاگئی ہے جو حواسوں پہ وبا ہے کیسی
ایک بستی سے جو نکلی تو سوئے عرش گئی
کس کی فریاد تھی یہ آہ و بکا ہے کیسی
ثبت تھی چشم و لب و گوش پہ اک مُہر سکوت
ابنِ آدم تیری مٹی میں خطا ہے کیسی
جن کی آہٹ سے گلستان میں چلی بادِ سموم
ڈھیر ہوتے ہوئے پتلوں کی سپاہ ہے کیسی
ہیں کہاں عیسیٰ نفس، مہدیِ موعود کہاں
کوئی بتلائے ہمیں ان کی شفا ہے کیسی
کس طرح تجھ کو منائیں میرے معبود الہٰہ
تو ہی بتلا تیری قدرت جو خفا ہے ایسی
بخش اب سب کی خطائیں میرے رحمان و رحیم
کتنے خاموش لبوں پہ ہی دعا ہے ایسی
از: ڈاکٹر فرخ سہیل