یوں تو ہر دن والدین کا دن ہے اور والدین سے محبت کا اظہار کسی مخصوص دن کا محتاج نہیں ہوتا۔ البتہ عالمی سطح پر ہر سال یکم جون کو یہ دن بڑے اہتمام سے منایا جاتا ہے۔ یوم والدین کا آغاز 1994ء سے ہوا تھا جب امریکی کانگریس نے ایک بل منظور کیا کہ ہمارے ہاں والد اور والدہ کا دن بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے لیکن ان دونوں یعنی والدین کا دن اس اہتمام سے نہیں منایا جاتا۔ بعد ازاں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سال 2012ء میں اس دن کو عالمی اور سرکاری سطح پر منانے کی منظوری دی اس دن کو منانے کا مقصد بچوں کے لیے والدین کی بے لوث محبت اور قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہے اور اس بات کا اعتراف کرنا مقصود ہے کہ والدین اپنے بچوں کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتے۔
بلاشبہ والدین اللہ رب العزت کی عظیم نعمت ہیں۔ بچے کی پیدائش سے لے کر اس کی پرورش، تعلیم و تربیت اور معاشرے میں ایک قابل انسان بنانے تک وہ انتھک جدوجہد کرتے ہیں۔ ہر قدم پر اولاد کی رہنمائی کرتے ہیں، انہیں دنیا کی تلخیوں پریشانیوں اور مصیبتوں سے بچاتے ہیںِ اپنی زندگیاں اولاد کے آرام و آسائش کے لیے قربان کردیتے ہیں۔ ایک ماں نہ صرف تکلییں اور صعوبتیں برداشت کرکے اولاد کے دنیا میں آنے کا وسیلہ بنتی ہے بلکہ ان کی پرورش میں اہم کردار ادا کرتی ہے، وہیں ایک باپ معاشرے میں انہیں اعلیٰ مقام دلانے کے لیے شب و روز محنت کی چکی میں پستا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے نہ صرف والدین کی قدرو قیمت کا احساس کرنے کا حکم فرمایا بلکہ دل و جان سے ان کی خدمت کرنے اور احساس کرنے کی تلقین فرمائی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِهٖ شَیْئًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا.
(النساء، 4: 36)
’’اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو ‘‘۔
قرآن پاک میں والدین کے حقوق کے حوالے سے ایک توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مقام پر لفظ ’’احسان‘‘ کی جامع اصطلاح استعمال فرمائی ہے جس کے معنی کمال درجے کا حسن سلوک کے ہیں یعنی احسان یہ ہے کہ نیکی کا جواب صرف نیکی سے نہ دیا جائے بلکہ اس سے بڑھ کر بھلائی کی جائے یہاں تک کہ اگر والدین کی طرف سے زیادتی ہوبھی جائے تب بھی احسان کا رویہ اختیار کیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاهُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَاناً ط اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ کِلٰهُمَا فَـلَا تَقُلْ لَّهُمَا اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا. وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا کَمَا رَبَّیٰـنِیْ صَغِیْرًا.
(الاسراء، 17: 23-24)
’’اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ’’اف‘‘ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو۔ اور ان دونوں کے لیے نرم دلی سے عجزوانکساری کے بازو جھکائے رکھو اور (اللہ کے حضور) عرض کرتے رہو: اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا‘‘۔
والدین کے حقوق کی ادائیگی، ان سے محبت و شفقت اور ان کی خدمت اس قدر اہم امور ہیں کہ نہ صرف قرآن مجید میں جابجا اس کی طرف توجہ مبذول کروائی گئی ہے بلکہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وآلہ وسلم بھی اس کی اہمیت کو مزید اجاگر کرتی ہیں۔ حضرت جابرؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص میں تین خصلتیں ہوں گی، اللہ اس کی موت آسان کردے گا اور اسے اپنی جنت میں داخل کردے گا۔ کمزور پر نرمی، ماں باپ سے شفقت اور غلام سے اچھا سلوک‘‘۔
(ترمذی، السنن، 4: 656، رقم 2494)
والدین کے ساتھ حسن سلوک جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وآلہ وسلم کو اتنا محبوب تھا کہ نماز کی ادائیگی کے بعد اس عمل کو اللہ رب العزت کا محبوب ترین عمل قرار دیا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے۔
میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا کہ کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے؟ فرمایا کہ نماز اپنے وقت پر پڑھنا۔ عرض کی کہ پھر کون سا؟ فرمایا کہ پھر والدین کے ساتھ نیکی کرنا، عرض گزار ہوئے کہ پھر کون سا؟ فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔
(بخاری، الصحیح، 1: 197، رقم: 504)
والدین کے اپنی اولاد پر احسانات اتنے زیادہ ہیں کہ ان کی زندگی میں تو اولاد کو حسنِ سلوک کا رویہ اپنانے کی تلقین کی گئی ہے، ان کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد نیک اعمال کی صورت میں حسنِ سلوک جاری رکھنے کی تعلیم دی گئی۔
حضرت سعد بن عبادہؓ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآلہ وسلم سے پوچھا اور عرض کیا کہ میری والدہ محترمہ کا انتقال ہوگیا ہے اور ان کے ذمہ ایک منت کا پورا ہونا باقی ہے۔ ارشاد فرمایا: تم اس کی طرف سے منت پوری کرو۔
(بخاری، الصحیح، 3: 1015، رقم: 2610)
اسی طرح مختلف موقعوں پر صحابہ کرامؓ نے اپنے فوت شدہ والدین کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآلہ وسلم سے سوالات پوچھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآلہ وسلم نے والدین کی طرف سے نیک اعمال کرنے کا حکم دیا۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وآلہ وسلم نے والدین کے حقوق کی ادائیگی نہ کرنے اور ان سے بدسلوکی کو گناہ کبیرہ قرار دیا۔
حضرت انس بن مالکؓ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وآلہ وسلم سے کبیرہ گناہوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، کسی جان کو قتل کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا‘‘۔
(بخاری، الصحیح، 5: 2230، رقم: 5633)
دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اولاد اپنے والدین کے حقوق کی ادائیگی سے لاپرواہ ہوتی جارہی ہے۔ وہ والدین جو بچپن میں اولاد کے لیے محبت و شفقت کا پیکر ہوتے ہیں جب اولاد جوان ہوتی ہے تو ان سے بات کرنے کے لیے ترس جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں جہاں بہت سی اچھی اقدار اور روایات زوال پذیر ہیں وہیں خدمت والدین بھی ہے۔ لہذا درج بالا آیات اور احادیث کی روشنی میں ہمیں اپنے کردار کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ہم کس قدر والدین کے حقوق ادا کرنے میں کامیاب ہیں؟ سال میں صرف ایک دن والدین سے منسوب کردینے سے حق ادا نہیں ہوتا بلکہ ہر لمحہ خود احتسابی کی ضرورت ہے تاکہ دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہوں اور ہم اس کی بارگاہ سے اجر عظیم کے حقدار ٹھہر سکیں۔
والدین کا دل جیت لو کامیاب ہوجاؤ گے
ورنہ ساری دنیا جیت کر بھی ناکام ہوجاؤ گے