طبقات صوفیاء: قلب مقامِ توکل ہے

مدیحہ فاطمہ

توکل مقامات صوفیاء میں سے چھٹا مقام ہے اور یہ مقام صبر سے اگلا مقام ہے۔ انسان اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لیے مشکلات و مصائب پر صبر کرتے ہوئے توکل کی سیڑھی پر چڑھتا ہے اور توکل اللہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ کرنے کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ توکل کے بارے میں قرآن مجید میں فرماتا ہے:

وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ.

’’اور جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے تو وہ (اللہ) اسے کافی ہے‘‘۔

(الطلاق، 65: 3)

توکل کا مقام دل ہے۔ جب بندے کی دل میں یہ بات اچھی طرح بیٹھ جائے کہ تقدیر اللہ کی طرف سے ہے تو پھر اگر کوئی چیز مشکل ہوتو اس کی تقدیر سے ہوگی اور اگر کوئی چیز اتفاقیہ مل جائے یا آسان ہو تو وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کے آسان کرنے سے ہوگی۔ لہذا اس صورت میں ظاہری حرکات و کوشش توکل کے منافی نہ ہوں گے‘‘۔

سہل بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ توکل کا پہلا مرتبہ یہ ہے کہ بندہ اللہ کے سامنے اس طرح ہو جس طرح غسل دینے والے کے سامنے مردہ کہ جس طرح چاہتا ہے اسے پلٹتا ہے نہ وہ حرکت کرسکتا ہے نہ کوئی تدبیر۔

حمدونؒ فرماتے ہیں ’’اللہ پر اعتماد کرنے کا نام توکل ہے‘‘۔

بشر حافیؒ نے توکل کے بارے میں فرمایا: بعض لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں حالانکہ ان کا یہ دعویٰ غلط ہے اگر ان لوگوں کو اللہ پر بھروسہ ہوتا تو یہ لوگ ان تمام امور پر رضا مند ہوتے جو اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ کرتا ہے۔

متوکل انسان کے متعلق یحییٰ بن معاذ فرماتے ہیں متوکل انسان وہ ہے جو اللہ کو اپنا وکیل بنانے پر راضی ہو۔

واقعہ:

ایک نوجوان کے توکل کے بارے میں حضرت ابراہیم خواصؒ فرماتے ہیں: میں نے شام کے راستے میں ایک نوجوان کو دیکھا جو خوش اخلاق تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کیا آپ میری صحبت میں رہ سکتے ہیں؟ میں نے کہا میں تو بھوکا رہوں گا۔ اس نے کہا کہ اگر آپ بھوکے رہیں گے تو میں بھی آپ کے ساتھ بھوکا رہوں گا۔ ہم نے اسی حالات میں چار دن گزارے۔ پھر ہمارے پاس کوئی چیز آئی میں نے کہا، آئو تو اس نے کہا کہ میں عہد کرچکا ہوں کہ میں کسی واسطہ سے ملنے والی چیز نہیں لوں گا۔ میں نے کہا اے غلام! تونے بہت باریک بات کہی۔ اس نے کہا اے ابراہیم! میری جھوٹی تعریف نہ کریں کیونکہ پرکھنے والا آپ کے مال اور توکل کو خوب جانتا ہے پھر کہا توکل کا کم از کم درجہ یہ ہے کہ اگر آپ پر فاقہ پر فاقہ آئے پھر بھی آپ کا دل اسی ذات کی طرف توجہ کرے جو کفایتوں کا مالک ہے۔ (یعنی ذات باری تعالیٰ)

(اللمع ازابی نصر عبداللہ بن علی سراج الطوسی)
(الرسالۃ القشیریہ از شیخ ابوالقاسم عبدالکریم القشیری)