زندگی میں دو جملے بارہا سنے "زندگی ایک سفر ہے" اور "سفر وسیلہ ظفر ہے"۔ ان جملوں کا مفہوم تب واردہوا جب انفرادی زندگی تحریکی زندگی میں ضم ہو گئی۔دن اور رات کے زمانی دائرہ میں مقید حیات اس وقت آزاد ہوئی جب شمالی پنجاب کی ذمہ داری بطور زونل ناظمہ سنبھالی دوسال بعد اِس اُڑان کومضبوطی یکے بعد دیگرے خیبر پختونخواہ اور سندھ کی سرزمین کے تنظیمی و تربیتی سفر نے بخشی۔ اس سفر میں کچھ قدم بڑھائے تو سینٹرل پنجاب کے خوبصورت رنگوں، دلبہار موسموں، ایثار، اخلاص اور محبت کی مٹی سے گندھے لوگوں نے زندگی کے سفرکو کچھ اورحسین موڑ عطا کئے۔
تنظیمی زندگی کے سفر کا ہرقدم شیخ الاسلام کی نگاہِ شفقت اورہمہ جہت تربیت سے نفس کے حربوں سے جہاد کرنے، دنیا کی چاہتوں سے دوری اختیار کرنے اور ظاہر کے رنگ کو باطن کے رنگ سے ہم آہنگ کرنے کی ٹوٹی پھوٹی کاوشوں سے عبارت ہے۔ ان کاوشوں کو صحبت شیخ میں مزید مستحکم اور پیہم کرنے کا موقع اس وقت ملا جب میں اپنے آفس میں ضلع سیالکوٹ کی نو منتخب تنظیم کے ساتھ آن لائن میٹنگ میں مصروف تھی۔ اچانک آفس ایکسٹینشن پرسیکرٹری برائے نائب صدر کی کال آئی کہ آپ وائس پریزیڈنٹ آفس میں تشریف لے آئیں جہاں عمان کے دعوتی، تنظیمی و تربیتی سفر کے لئے خاتون سکالر کے انتخاب کے لئے انٹرویوز جاری تھے۔ نائب صدرMQI آفس میں ڈائریکٹر DFA صدر ویمن لیگ محترمہ فرح ناز، ناظمہ ویمن لیگ محترمہ سدرہ کرامت، ڈائریکٹر ٹریننگ محترم مرتضیٰ علوی، ڈائریکٹر کورسز محترم سعید رضا بغدادی سیلیکشن پینل میں شامل تھے۔ اس طرح اچانک طلبی اور دعوتی، تنظیمی اور رفاقت سازی کے حوالے سے تکنیکی سوال و جواب میرے لئے حیرت کا باعث تھے کیونکہ گزشتہ ایک ماہ سے ہونے والی سکالرز کے انتخاب کی پیش رفت میں میں بطور زونل ناظمہ سکالرز نامزد کرنے والوں میں تو شامل تھی مگر نامزد ہونے والوں میں ہر گز شامل نہ تھی۔ جب سلیکشن بورڈ کے سوال جواب اختتام کو پہنچے تو میں نے موقع ملتے ہی پوچھا کہ مجھ سے یہ سب کس لئے پوچھا جارہا ہے۔ تو شفقت بھرا جواب ملا کہ آپ کی طویل تنظیمی دعوتی اور مرکزی خدمات کے پیشِ نظر آپ کوبھی عمان کے سفرکے لیے سلیکشن پینل کی جانب سے نامزد کیا گیا ہے۔ میں تذبذب کے عالم میںآفس واپس لوٹ آئی میرے دل و دماغ میں ویمن لیگ کی کل وقتی زونل ذمہ داری ہمہ جہت ورکنگ اور اہداف کی تکمیل اورمیری گھریلو جز وقتی ذمہ داریاںاورمیری گھر سے مستقل 20 تا 21 دن کی غیر حاضری کے تناظر میں ایک عجیب کشمکش نے جنم لیا اور قوتِ فیصلہ کچھ لمحوں کے لئے سلب ہو گئی۔ اس لمحاتی کشمکش کا خاتمہ ایک انتہائی محترم استاد کہ اس جملے نے کیا کہ "اگر عمرہ یا حج کے لئے جائیں تب بھی توان تمام ذمہ داریوں سے صرفِ نظر کریں گی تو خدمت دین کے لئے کیوں نہیں"۔ یہ جملہ یاد آنے کی دیر تھی کہ شکوک وسواس کے کالے سائے یکدم غلامی سیدہ زینب کے احساس کی تابناکی میں نیست و نابود ہوگئے۔ اگلے ہی دن تین منتخبہ سکالرز میں سے اس ذکر ِ محبت و مودت سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلند کرنے اور مشنِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چراغ سے چراغ جلانے کی یہ نوکری اس احقر کے حصے میں آگئی۔ اب اگلا مرحلہ گھر سے اجازت کا درپیش تھا۔ اہل خانہ جنہیں ابھی تک صرف اندرونِ ملک 4 سے 5 روزہ وزٹس کے نتیجے میں ہونے والی غیر حاضری کی بمشکل عادت تھی نہ جانے کیا جواب دیتے۔ ذہن میں یہ سوال لئے جب سرپرستِ اہل خانہ سے بصورتِ اجازت پوچھا تو کم و بیش ایک گھنٹہ کے توقف کے بعد جواب بے حد مثبت اور حوصلہ افزاء آیا اور اس سفرِ وسیلہ ظفر کی اجازت دے دی گئی۔ اب وقت تھا DFA کے شفیق اور نرم دل و نرم گفتار محترم جی، ایم، ملک صاحب کی سرپرستی میں ویزہ اور پاسپورٹ کی باریکیاں نمٹانے کا جس کو انتہائی احسن طریق سے پایا تکمیل تک پہنچایا گیا اور بالآخر مورخہ 7نومبر کو علامہ اقبال انٹرنیشنل ائیرپورٹ سے وطن عزیز سے رخصتی اور سر زمین عمان کے دارلخلافہ مسقط میں آمد ہوئی۔ مسقظ انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر نومبر کے مہینے میں بھی گرم و مرطوب موسم میں میرے میزبان محترم و مکرم مسٹر اینڈ مسز محمد خان نے پرتپاک انداز سے استقبال کیا ان کی زیرک اور اخلاص سے بھرپور نگاہوں نے میرے چہرے پر وطن عزیز سے پہلی دفعہ دوری سے پیدا ہونے والے خلا کو فوراًبھانپ لیا اور مسز محمد خان نے اپنے سادے اورمحبت بھرے اندازسے بات چیت کر کے اس خلاء کو غیر محسوس انداز سے پر کرنا شروع کردیا۔ پہلا دن نہ صرف نئے ماحول سے آشنائی بلکہ لوگوں بالخصوص خواتین کے رہن سہن کے اطوار اور رحجانات کی معلومات اور اگلے شیڈول سے آگاہی لینے میں گزرا۔ شیڈول کے مطابق 8 نومبر کو ایک پروگرام مسقط میں طے تھا اور 9نومبر کو صلالہ جسے عمان کا مری کہا جاتا ہے روانگی تھی اور پھر وہاں 7 روزہ دعوتی، تنظیمی و تربیتی شیڈول وضع تھااس شیڈیول کی تکمیل کے بعد 16نومبر کومسقط واپسی اور بعد ازاں مسقط میں 8 روزہ شیڈیول 24 نومبر تک طے تھا۔
7 نومبر کی رات وطن سے دور لوگوں تک مشن کی دعوت پہنچانے اور منظم کر کے وحدت امت کی لڑی میں پرودینے کے عزم میں گزری۔ 8نومبر کو پہلا سفر معبیلہ کی جانب تھا جہاں محفلِ میلاد کا انعقاد ایک انڈین مسلم فیملی نے کر رکھا تھا۔ یہ پہلا پروگرام اس عظیم فکر کو واضح کرنے کا وسیلہ بنا کہ" میری امت ایک جسدِ واحد کی طرح ہے"۔ پاکستان وہند میں مروجہ فکر و عقائد کا تفاوت یہاں سرے سے مفقود تھا میرے سامنے موجود میری پہلی سامعات قومیت کے اعتبار انڈین، بنگلہ دیشی، پاکستانی اور ساؤتھ افریقن تھیں مگر دل میں اور عمل میں پائی جانے والے جذب، اتباع اور محبت کی روشنی سے صرف سرورِ کائنات کے دیدار کی طالب تھیں۔ اتنی متنوع سامعات نے مجھ پر منہاج القُرآن کی آفاقی اور کائناتی فکر کی عملی صورت مزید واضح کردی۔ کچھ ہی لمحوں میں صاحب خانہ کی جانب سے درخواست آئی کہ خطاب انگلش اور اردو زبان میں کیا جائے کیونکہ ساؤتھ افریقہ سے آنے والی بہنیں صرف انگلش ہی سمجھ سکتی ہیں لہذا احقر نے موضوع ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ امیت‘‘ کو فوراً دو زبانوں میں بیان کرنے پر ذہنی طور پر تیار کیا اور ابلاغ کے عمل کا آغاز کیا۔ لفظ قائد کے، فکر قائد کی، اندازِ بیاں قائد کا عطا کردہ سرتاپا ان کی عطا سے لبریز احقر بولتی رہی اور سامعات ہمہ تن گوش سنتی رہیں۔ نشست اختتام تک پہنچی تو ساوتھ افریقن بہن اپنی جواں سال بیٹیوں کے ساتھ میرے پاس آبیٹھیں اور کرید کرید کے تحریک اور قائد محترم سے متعلق معلومات لینے لگیں۔ مجھے بھی موقع ملنے کی دیرتھی میں نے اپنی موبائل کور پر لگی قائد محترم کی تصویر ان کے سامنے کی اور قائدِ تحریک اور تحریک کی تمام جہات درجات اورکمالات کو بیان کیا کہ خاتون رفاقت اختیار کرنے کو تیار ہوگئیں۔ رفاقت فیس سے ناآشنائی اور فی الفور بیرون ملک کے لئے مخصوص رفاقت فارم نہ ہونے کے باعث میں اس سعادت سے محروم رہ گئی۔پہلے قدم پر ملنے والی محرومی اتنی شدید تھی کہ اسی رات مرکز کے متعلقہ شعبہ جات کو واٹس ایپ کے ذریعے رابطہ کر کے متعلقہ معلومات حاصل کیں اور رفاقت فارم بھی حاصل کرلئے۔ 9نومبر کی شام سلام ائیرلائن سے صلالہ کی جانب عازم سفر ہوئی۔ طیارہ ہو ا میں بلندہوتے ہی ایک روشن پیالے کی صورت مسقط چمکتا نظر آیا ایسا لگتا تھا جیسے تاروں سے بھرا آسمان کسی نے زمین پر اتار دیا ہو اور میں تاروں کو پیچھے چھوڑ کے خدمتِ دین کے فلک پرکچھ اور بلندیوں پر محو پروازہوگئی ہوں۔ صلالہ ائرپورٹ پر مسٹر اینڈ مسز طارق مغل ہمراہ محترمہ نور اور ان کی چھوٹی بہن خوبصورت مسکراہٹ اور ہاتھوں میں پھولوں کے خوبصورت گلدستے لئے مجھے ریسیو کرنے موجود تھیں۔ رات کے 8 بج چکے تھے اورہم نے شیڈول کے مطابق صلالہ کی سرکردہ خواتین جو کہ سالہاسال سے اپنے علاقائی اور قومی تفردات بھلا کہ ایک دوسرے سے رشتہ محبت سے منسلک تھیں ان سے ڈنر پرمُلاقات تھی جس کا اہتمام صلالہ میں امیرِ تحریک کے گھر ان کی مسز محترمہ ثمین مشتاق نے کر رکھا تھا۔ڈنر سے قبل تمام خواتین سے تعارف کا مرحلہ طے ہواجس کے فرائض محترمہ عابدہ طارق نے سرانجام دیے اسکے بعد پر تکلف ڈنر کا آغاز ہوا اپنی کم خوراکی کی عادت کے باعث میں مسزثمین مشتاق کے زیر نگرانی تیار مزیدار کھانوں سے کما حقہ ہو انصاف تو نہ کرسکی۔ مگر داد دل کھول کے دی۔ اور دوران ڈنر شرکاء خواتین سے ان کے رہن سہن ڈیلی روٹین اور رحجانات کے حوالیسے معلومات لیتی رہی۔ ڈنر کے اختتام پر پُر لطف قہوہ کا دور چلا۔ صلالہ کی ان معزز و محترم بہنوں کی ایک نہایت خوبصورت بات یہ تھی کہ تمام دن گھریلو مصروفیات اور ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ء ہونے کے بعدکسی نہ کسی بہن کی جانب ہفتہ میں ایک دن ذکر ونعت کی محفل منعقد کی جاتی جس میں سب بہنیں جمع ہوکر ایک دوسرے کے خوشی و غم کی شریک ہوتیں۔ ماہ ربیع الاول کی بابرکت ساعتوں کے وسیلے سے ہمشیرانِ صلالہ کی ان گاہے بگاہے کاوشوں کو منظم کرکے انہیں باقاعدہ محفل نعت اور درسِ قرآن کی شکل دے دی گئی تھی۔جس کو ویمن لیگ کے بامقصد نظریہ سے منسلک کرنے کے لئے پاکستان سے بطورِ سکالر مجھے بلایا گیا۔ اس خوبصورت نشست کے اختتام پر میرے میزبان مجھے میرے رہائش کے مقام پر لے آئے جو ایک مکمل اپارٹمنٹ تھا اورمجھے صلالہ وزٹ کے 7دن یہاںگزارنے تھے۔ یہ وہ مقام تھا جہاں قدم رکھنے سے قبل میرے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ اب تک صحبتِ شیخ کے جو رنگ دیکھے تھے یہاں ان سات دن میں مجھے اس صحبت کے کچھ جداگانہ ہی رنگ میسر آنے والے تھے۔ صلالہ کی پہلی رات 11 اور 12 ربیع الاول کی درمیانی رات تھی۔ پہلی دفعہ عالمی میلاد کانفرنس پر میں مینار پاکستان کی سر زمین پر موجود نہیں تھی دل میں عجیب سا حزن تھا منہاج ٹی وی لائیونشریات بھی نیٹ سگنلز کی عدم دستیابی کی وجہ سے دیکھنا مشکل تھا۔ شیخ الاسلام کو لائیو دیکھنے کی خواہش اتنی شدید تھی کہ لگتا تھا تنہائی میں دل کی دھڑکن تھم جائے گی۔ ہجر کی خود ساختہ کیفیت مجھ پر اتنی شدید طاری تھی کہ کسی پہلو نہ آرام تھا سکون میری میزبان دوسرے کمرے میںشاید سو چکی تھیں مگر میں اپنے کمرے میں بند آنسوؤں اور ہچکیوں کے سیلاب میں غوطہ زن نوافل پر نوافل سجدوں پر سجدے کئے جارہی تھی مگر دل تھا کہ سکون و کیف سے خالی تھا۔ رات قطرہ قطرہ گزر رہی تھی کہ خیال آیا موبائل کی یو ٹیوب ڈاؤن لوڈز میں خطابات محفوظ ہیں۔ یہ خیال آتے ہی میں اس تیز رفتاری سے موبائل کی جانب بڑھی جیسے صدیوں کا پیاسا پانی کی طرف بڑھتا ہے۔ لسٹ میں سب سے پہلے محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ٹا ئٹل سے شیخ الاسلام کا خوبصورت خطاب شروع ہوا اور لفظ قرار اپنے معنی و مفہوم کے ساتھ قلب وروح پر وارد ہونے لگا۔ کب نیند آئی پتا ہی نہیں چلا۔ صبح فجر ادا کرتے ہی پھر سے موبائل تھا صحبتِ شیخ تھی اور بندی ِ ناچیز۔ جو عشق اور علم کے جام فجر سے عصر تک صحبتِ شیخ نے پلائے وہی جام شام کو محترمہ حسینہ کبیر کے گھر واقع وادی صلالہ میں جمع طالباتِ عشقِ رسول کو پلا دیئے۔ اللہ رب العزت کی قسم کہ جس کے قبضہ قدرت میں میرا قال بھی ہے اور حال بھی اس کی رضا اور میری اطاعت نے خود سپردگی کی وہ فضا بنا دی کہ عائشہ مبشر منفی ہوگئی اور شیخ الاسلام کا عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باقی رہ گیا۔ صلالہ کی ہمشیرات وہ مصباحین ہوں جو ہم نام بھی تھیں اور ہم مزاج بھی تھیں یا عابدہ طارق، یا خوش مزاج ثمین، یا دھیمے مزاج والی شہنیلا یا حید ر آباد دکن سے تعلق رکھنے والی انتہاء مسحور کُن آواز کی مالک نعت خواں رافعہ اور ان کی بیٹیاں یا پھر پر اخلاص نور اور اس کی باادب بہنیں، یا پھرعدیلہ اور فائزہ سب جتنی مختلف تھیں انسیت اخلاص اور محبت کے معاملے میں اتنی ہی یکساں۔ 3 دن کی لگاتار سارا دن صحبتِ شیخ سے ملنے والی سوغات عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حسنِ اخلاقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شام کو مختلف مقامات پر بہنوں کو تقسیم کرنے کا یہ فیض حاصل ہوا کہ چوتھے روز صلالہ تحریکِ منہاج القرآن کے نمائندگان، یوتھ لیگ کے نمائندگان اور متوقع ویمن لیگ کے ساتھ میٹنگ تشکیل دی گئی۔ جس میں بحمدہِ تعالیٰ باقاعدہ ویمن لیگ صلالہ کی تشکیل کی گئی اورایگرز کے ماہانہ کڈز کیمپ کی بریفنگ کے بعد پلاننگ بھی کی گئی۔
پانچویں روز مشفق میزبانوں نے مقدس مقامات کی حاضری کا شیڈول ترتیب دے رکھا تھا۔ صبح صبح ہم حاسک کی جانب روانہ ہوئے جہاں ہم نے سب سے پہلے حضرت صالح ؒ کے مزار اقدس پر حاضری دی کیاہی خوبصورت حاضری تھی مکمل تنہائی نہ کو ئی دربان نہ گدی نشین نہ مجاور نہ ہی ڈنڈا پکڑے نگران مرد و زن نہ ہی جگہ جگہ رکھے چندے کے باکس۔ درِ نبیؒ ہر کس و ناکس کے لئے کھلا تھا ہم بھی گئے دروازہ کھولا اور قدمین کی جانب دوزانو سر جھکا کے بیٹھ گئے۔ جب تک دل کیا دل کی بات کی اور جب یقین کا سکون حاصل ہو ا تو اجازت طلب کی۔ ہمارے میزبان نے اس مقام پر ہمیں 8 سال قبل شیخ الاسلام کے وزٹ اور حاسک حضرتِ صالح ؒ کے مزارِ اقدس پر خصوصی حاضری اور ساکنان کیرالہ انڈیا سے حیرت انگیز ملاقات کی داستان بھی سنائی جو سینہ بہ سینہ تو منتقل ہو سکتی ہے مگر احاطہ تحریر میں لانے کی اجازت نہیں۔ چشم و روح کو تازہ کرکے ہم نے یہ سارا دن اپنے میزبانوں کے ساتھ صلالہ کے مختلف مقامات دیکھتے گزارا۔
صلالہ ایک خوبصورت، روشن اور صاف ستھرا شہر ہے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے نہ ہی گیس کی حالانکہ موسم سال کے 8 سے 9 مہینے گرم رہتا ہے اورصرف موسم خریف جوتین ماہ جون، جولائی اور اگست پر مشتمل ہوتا ہے مون سون کی مہربانی سے خوشگوار رہتا ہے۔ صد حیرت پورے صلالہ میں سڑک پر نہ کوئی سائن بورڈنہ بل بورڈ نہ ہی کوئی پول بینر نہ ہی کہیں کچرے کا ڈھیر۔ مگر وطن کی محبت میں اتنی سہولتوں اور آسائشوں کے بعد بھی دل سے ایک ہی صدا اٹھتی پاکستان جیسا کوئی دیس نہیں۔ پانچویں دن سے پھر صبح شام صحبتِ شیخ کے نام ہو گئی تسلیم اشرف باجی اور نور کی والدہ ثمینہ باجی کے گھر اہلِ محبت کے سنگ مجددِ وقت کے وسیلے سے فیض محبت عام بٹتا رہا۔ آخری پروگرام مکمل تزک واحتشام کے ساتھ قادری ہوٹل کے ہال میں منعقد کیا گیا۔ جہاں ہر عقیدے کی خواتین نے بھرپور شرکت کی۔ مسلمان کہنے کو تو ایک نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت ہیں مگر فروعی اختلافات اور کم علمی نے جہاں دین کو ٹکڑوںمیںتقسیم کردیا وہیں امت بھی فرقوں میں بٹ گئی اور اس فرقہ واریت اور شدت پسندی نے دلوں کو ایسا سخت کیا کہ مسلمانوں کوکسی بیرونی دشمن کی ضرورت رہی اور نہ ہوش۔
تحریک منہاج القُرآن اور وقت کے مجدد کی سنگت نہ ہوتی تو شاید ہم بھی اسلام کے حقیقی فکر ونظریہ کی ترویج کے بجائے اسی بدعت و شرک اور کفر کی بے مقصدلاف زنی میں مشغول ہوتے۔ یہ اس تجدیدی اور رسول نما تحریک کاہی فیض تھا نظر مقصدِ احیائے دین پر، فکردردِ امت سے لبریز، مسلک خیر کی تقیسم، اسلوب تصوف سے اخذ شدہ، ارادہ مصمم اور عمل پیہم تھا۔ لہذا بندی ناچیز اپنی دھن میں مگن اس بات سے کلیتًا لاعلم تھی کہ سادگی کی پُرکاری اپنا کام دکھا چکی ہے حلقہ یاراں میں تو میری آمد کی اطلاع تھی ہی مگر ادھوری فکر پر مشتمل جماعتیں جو اپنا اثر جانے کب سے جما چکی تھیں ان کی بنیادیں کپکپانے لگی ہیں اس کا اندازہ مجھے قادری ہال کے پروگرام میں ہوا جہاں نعت خوانی کے دوران مجھے بتایا گیا کہ دوران خطاب آپ سے کچھ سوالات کئے جائیں گے تیار رہے گا۔ سوالوں کی نوعیت کا مجھے کچھ اندازہ تھا۔ بتاتی چلوں مرکزی سیکریٹریٹ پر جامع مسجد منہاج القُرآن کی بیسمنٹ میں ایک علم ِحقیقی کے فسوں سے بھرپور طلسم کدہ ہے جہاں علم کتاب کے امیں آصف بن بلخیہ کے جانشین وقت کے مجدد کے اشارے پہ ہمہ وقت علم کے کُن پہ فیکون کی عملی تفسیر بنے رہتے ہیں۔ اور فیاض اتنے کہ دن ہو یا رات جب علمی مدد مانگیں فورا لبیک کہتے ہیں۔ سو میں نے بھی بذریعہ واٹس ایپ ممکنہ سوال ارسال کئے اور بھرپور رہنمائی فوراّ میسر آگئی۔
سو جب معاندانہ ماحول ہوا توقائد کے فیض سے عشق کے وہ مستند حوالے دئے کہ جتنے سخن ور تھے سب مہر بلب ہو گئے اور مجددِ وقت کا سکہ جم گیا۔ صلالہ کا7 روزہ قیام یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم کی عملی تفسیر بن گیا۔ میری آمد سے قبل جو بہنیں اپنی ملکی اور قومی شناخت کے ساتھ محض پردیس کی تنہائی کو دوسراہٹ میں بدلنے کے باعث ایک دوسرے سے منسلک تھیں شیخ الاسلام کے وسیلے سے سب خدمتِ دین کی نوکری سے با خوشی منسلک ہو گئیں۔ آخری نشست تک 5 گھرانوں میں ہفتہ وار حلقہ جاتِ درود کا آغاز ہو چکا تھا اور 5 ہمشیرگان رفاقت سے منسلک ہو گئیں ان سب ہمشیرگان کی محبتوں سے بمشکل رخصت لی اور مورخہ 16 نومبر کو صلالہ سے مسقط واپسی کاسفر اختیار کیا جہاں پر چیلنجز منتظر تھے۔
مسقط پہنچتے ہی پے در پے دروس قرآن کاسلسلہ شروع ہوگیا۔ اورمیرے قائد کی مصطفوی فکر نے ہر جگہ اپنا رنگ جمانا شروع کیا۔ کوتاہ نظروں کے کچے رنگ، سچے اور سُچے علم نے کاٹ کے عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، نصرت و اعانتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاپکا رنگ چڑھانا شروع کیا اور آخر کار مسقط کے قیام کے چھٹے دن بالآخر ویمن لیگ مسقظ کی شاندار5 رکنی تنظیم تشکیل پائی اور ایگرز کے ماہانہ کڈز تربیتی کیمپ کا پہلا سیشن بھی شاندار انداز سے منعقد ہو ا جس میں 80 سے زائد بچوں نے پر جوش انداز میںشرکت کی۔ مسقظ کی با صلاحیت بہنیں محترمہ نغمہ سجاد، محترمہ عابدہ، محترمہ ساجدہ، محترمہ طاہرہ محترمہ اسماء پنجتن پاک کے صدقے اس جوش سے ویمن لیگ سے منسلک ہوئیں کہ 3 حدیث کورس 2 دروسِ قُرآن کا باقاعدہ آغاز ہو چکا ہے۔ عمان کا یہ سفر خود پر اپنی نسبت پر اپنے مقصد پر اپنی تحریک اور سب سے بڑھ کر اپنے قائد پر زبانی اور قولی یقین سے قلبی و روحانی تیقن میں منتقل ہونے کا سفر تھا۔ یہ وہ سفر تھا جس میں دنیا، دنیا کی محبتیں دنیا کے رشتے، دنیا کی چاہتیں سب جدا ہو گئیں اور وطن کی محبت، دین کی محبت، مرکز کی محبت، شیخ الاسلام کی محبت باقی رہ گئی۔ اس سفر کے اختتام پر یہ جانا کے سفروسیلہ ظفر تب بنتا ہے جب اس سے ملنے والا فیض جتنا دنیوی ہو اس سے کہیں زیادہ اخروی اور اس فیض سے مستفید ہونے والے 10 یا 20 نہیں سیکڑوں ہزاروں یا لاکھوں ہوں۔