فرمانِ الٰہی
اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَاَزْوَاجُهٗٓ اُمَّهٰـتُهُمْ ط وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتٰبِ اللهِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُهٰجِرِیْنَ اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓی اَوْلِیٰٓـئِکُمْ مَّعْرُوْفًا ط کَانَ ذٰلِکَ فِی الْکِتٰبِ مَسْطُوْرًا. وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیٖنَ مِیْثَاقَهُمْ وَمِنْکَ وَمِنْ نُّوحٍ وَّاِبْرٰهِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ص وَاَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا.
(الاحزاب، 33: 6۔7)
’’یہ نبیِ (مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مومنوں کے ساتھ اُن کی جانوں سے زیادہ قریب اور حقدار ہیں اور آپ کی ازواجِ (مطہّرات) اُن کی مائیں ہیں، اور خونی رشتہ دار اللہ کی کتاب میں (دیگر) مومنین اور مہاجرین کی نسبت (تقسیمِ وراثت میں) ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں سوائے اس کے کہ تم اپنے دوستوں پر احسان کرنا چاہو، یہ حکم کتابِ (الٰہی) میں لکھا ہوا ہے۔ اور (اے حبیب! یاد کیجیے) جب ہم نے انبیاء سے اُن (کی تبلیغِ رسالت) کا عہد لیا اور (خصوصاً) آپ سے اور نوح سے اور ابراہیم سے اور موسیٰ سے اور عیسٰی ابن مریم (علیہما السلام) سے اور ہم نے اُن سے نہایت پختہ عہد لیا‘‘۔
(ترجمه عرفان القرآن)
فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: مَا مِنْ مُؤْمِنٍ إِلاَّ وَأَنَا أَوْلَی النَّاسِ بِہِ فِي الدُّنْیَا وَالآخِرَةِ، اقْرَؤُوْا إِنْ شِئْتُمْ :{اَلنَّبِيُّ أَوْلَی بِالْمُؤْمنِیْنَ مِنْ أَنْفُسِھِمْ} [الأحزاب، 33: 6] فَأَیُّمَا مُؤْمِنٍ تَرَکَ مَالاً فَلْیَرِثْهُ عَصَبَتُهُ مَنْ کَانُوْا، فَإِنْ تَرَکَ دَیْنًا، أَوْ ضِیَاعًا فَلْیَأْتِنِي وَأَنَا مَوْلَاهُ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالدَّارِمِيُّ.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کوئی مومن ایسا نہیں کہ دنیا و آخرت میں جس کی جان کا میں اس سے بھی زیادہ مالک نہ ہوں۔ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو: ’’نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مومنوں کے لئے ان کی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہیں۔‘‘ [الأحزاب، 33: 6] سو جو مسلمان مال چھوڑ کر مرے تو جو بھی اس کا خاندان ہوگا وہی اس کا وارث ہوگا لیکن اگر قرض یا بچے چھوڑ کر مرے تو وہ بچے میرے پاس آئیں میں ان کا سرپرست ہوں (اور میرے بعد میرا نظامِ حکومت یہ دونوں ذِمّہ داریاں نبھائے گا)۔‘‘
(المنهاج السوّی ، ص: 720-721)