دو قومی نظریہ کیا ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے کسی افلاطونی ذہنیت یا آئن سٹائن کے دماغ کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ ہندو اور مسلمان ہزاروں سال ایک ساتھ رہنے کے باوجود مذہبی، معاشرتی اور ثقافتی لحاظ سے ایک دوسرے سے بالکل الگ الگ تھے اورکبھی بھی ایک قومیت نہیں رہے اس بات کو یوں سمجھئے کہ ہندو اور مسلمان ایک ندی کے دو کنارے تھے جو ساتھ ساتھ رہنے کے باوجود کبھی آپس میں نہیں ملتے۔ برصغیر میں مسلمانوں کی آمد کے بعد اور انگریزوں کے دور اقتدار سے قبل ہندو اور مسلمان تقریباً ہزار سال یعنی دس صدیاں ساتھ رہے ان دس صدیوں میں مسلمانوں نے یہاں حکمرانی کی،مسلمان حکمرانوں نے عمومی طور پر ہندوئوں کے ساتھ انتہائی اچھا، مشفقانہ اور ہمدردانہ رویہ رکھا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں مسلمانوں کی حیثیت کو زوال آیا تو ہندوں کو بھی اپنے تعصب کا کھل کر اظہار کرنے کا موقع مل گیا ایک جانب ہندوئوں کا انتہا پسندانہ اور متعصبانہ رویہ تھاتودوسری جانب انگریزوں کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ تھا کہ انہوں نے حکومت ہندوئوں سے نہیں بلکہ مسلمانوں سے چھینی ہے اس لیے منطقی طور پر ان کو مخالفت کا سامنا بھی مسلمانوں کی جانب سے زیادہ تھا۔ اگرچہ ابتداً میں ہندوئوں نے بھی انگریزوں کے خلاف تحریک میں حصہ لیا لیکن بعد ازاں انگریزوں نے مسلمانوں کے مقابلے میں ہندوئوں کو زیادہ پذیرائی بخشنا شروع کی، ان کو ہر معاملے میں مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دی گئی خواہ وہ تعلیم کا میدان ہو، تجارت کا میدان ہو یا سیاسی میدان الغرض ہر جگہ مسلمانوں کو دبایا جاتا رہا اور ہندوئوں کو زیادہ سپورٹ کیا جاتا رہا۔
یہی وہ حالات تھے جن کے باعث برصغیر کے مسلمانوں میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ ہم ایک ہزار سال تک بھی ہندوئوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کے باوجود ان کی نفرت اور تعصب کا نشانہ بن رہے ہیں یہاں سے مسلمانوں میں یہ سوچ پروان چڑھی کہ ہندو اور مسلمان ہمیشہ دو الگ الگ قومیں تھیں، ہیں اور الگ ہی رہیں گی۔ ان کو کبھی بھی ایک قوم سمجھنا سخت غلطی ہوگی۔ اسی سوچ کے باعث دو قومی نظریے نے جنم لیا۔
29 دسمبر 1930ء کو علامہ اقبال نے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کی ایک علیحدہ ریاست کا تصور پیش کیا اور یہ تصور سیکولر یا محض ایک مملکت کا نہیںبلکہ اسلامی مملکت کا تصور تھا یہاں ان کے صدارتی خطاب کے کچھ اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ’’جس شخص کو آپ نے آج آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت کے اعزاز سے نوازا ہے وہ اب بھی اسلام کو ایک زندہ طاقت سمجھتا ہے، وہ طاقت جو انسانوں کے ذہن کو وطن اور نسل کے تصور کی قید سے نجات دلاسکتی ہے۔ اسلام ریاست اور فرد دونوں کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ سوچنا ہمیں یہ ہے کہ فی الواقعہ مذہب ہمارا ذاتی معاملہ ہے؟ اور کیا ہم اسے ذاتی معاملہ قرار دے کر اسلام کو بھی سیاسی و اخلاقی نصب العین میں اس منزل پر پہنچانا چاہتے ہیں جو قبل ازیں مغرب مسیحیت کے ساتھ ہوچکا ہے؟ دوسری صورت یہ ہے اگر ہم اسلام کو بدستور اخلاقی تخیل کے طور پر رہنے دیں مگر اسلامی نظام سیاست کی جگہ کسی قومی نظام کو اپنالیں جس کے تحت مذہب درمیان میں نہ ہو تو کیا یہ ممکن ہے؟
جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے میں کچھ اور آگے جانا چاہتا ہوں میں تو چاہتا ہوں کہ پنجاب، صوبہ شمال مغربی سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ریاست کی صورت دے دی جائے، چاہے پھر یہ ریاست برطانوی ہند کے اندر ہی اپنی خودمختار حکومت قیام عمل میں لائے یا اس سے باہر مگر میرا احساس ہے کہ آخر کار شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک علیحدہ اسلامی ریاست لازماً قائم کرنی پڑے گی۔
1940ء کے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں دو قومی نظریئے کا باقاعدہ تصور پیش کیا گیا۔ 21 مارچ کی شام کو اس اجلاس کا آغاز ہوا اور 22 مارچ کو قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اپنے صدارتی خطاب کے دوران واضح طور پر فرمایا کہ؛ہمارے ہندو دوست اسلام اور ہندوا زم کی حقیقی صورت حال اور حقیقت کو سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں،میرے خیال میں یہ دونوں کسی قطعی اعتبار سے لغوی اعتبار سے مذہب نہیں ہیں لیکن درحقیقت یہ سماجی اور معاشرتی ضوابط ہیں اور یہ کہ ہندو اور مسلمان کوئی ایک قومیت بناسکیں گے یہ غلط فہمی اب قصہ پارینہ ثابت ہوچکی ہے اگر ہم اس غلط فہمی کو دور کرنے سے قاصر رہے اور اپنے ان خیالات میں تبدیلی نہ لاسکے تو تباہی لازمی ہوگی۔ ہندو اور مسلمان دو جداگانہ مذہبی فلسفوں، سماجی رسوم رواج اور علمی ادبی ورثے سے تعلق رکھتے ہیں۔ نہ تو وہ آپس میں شادی کرسکتے ہیں اور نہ ہی مل کر کھاسکتے ہیں۔ درحقیقت وہ دونوں مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان تہاذیب کے افکار و نظریات بھی ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔ زندگی اور زندہ رہنے کے بارے میں دونوں کے نظریات دیگر پہلو ایک سے دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندو، مسلمان تاریخ کے مختلف شعبوں اور ذرائع سے اکتساب کرتے ہیں۔ دونوں کی رزمیہ تاریخ مختلف ہے، دونوں کے ہیرو مختلف ہیں۔ ایسی دو قوموں کو کسی ایک ہی سلطنت میں کردینا کہ جن میں ایک تو عددی اقلیت میں ہو اور دوسری واضح اکثریت میں، اس کا نتیجہ لامحالہ بے سکونی، ابتری اور تباہی کے سوا کچھ نہیں نکل سکتا۔ اس لیے ان کا اپنا ایک وطن ہونا چاہئے، ان کا اپنا ایک علاقہ اور اپنی مملکت ہونی چاہئے
قرار داد پاکستان کے نکات:
23 مارچ کو یادگار قرار داد لاہور پیش کی گئی جسے قرار داد پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ شیر بنگال ابوالقسیم مولوی فضل الحق نے یہ قرار داد پیش کی:
- آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس نہایت غور فکر کے بعد اس ملک، صرف اسی آئین کو قابل عمل اور مسلمانوں کے لیے قابل قبول قرار دیتا ہے جو جغرافیائی اعتبار سے باہم متصل ریجنوں کی صورت میں حد بندی کا حامل ہو اور بوقت ضرورت ان میں اس طرح ردو بدل ممکن ہو کہ جہاں جہاں مسلمانوں کی اکثریت بہ اعتبار تعداد ہو انہیں آزاد ریاستوں کی صورت میں یکجا کردیا جائے اور ان میں شامل ہونے والی وحدتیں خود مختار اور حاکمیت کی حامل ہوں۔
- ان وحدتوں اور ہر علاقائی آئین میں اقلیتوں کے مذہبی، اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی مفادات اور حقوق کے تحفظ کی خاطر ایسی اقلیتوں سے مشورے کے بعد موثر تحفظات میں شامل ہوں اور ہندوستان کے ان تمام حصوں میں جہاں مسلمان آبادی کے اعتبار سے اکثریت میں نہیں، تحفظ کا یقین دلایا جائے۔
- یہ اجلاس مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ ان اصولوں پر مبنی آئین کا لائحہ عمل مرتب کرے جس میں دونوں خطوں کے تمام اختیارات اور دیگر اہم امور کو سنبھالنے کا انتظام کیا جائے۔
یہ قرار داد پیش ہونے کے بعد چوہدری خلیق الزمان نے سب سے پہلے اس کی تائید و حمایت کی، ان کے بعد مولانا ظفر علی خان، سردار اورنگزیب خان، سر حاجی عبداللہ ہارون، نواب اسماعیل خان، قاضی محمد عیسیٰ اور آئی آئی چندریگر نے بھی اس قرار داد کی حمایت کا اعلان کیا۔
اس اجلاس اور قرار داد کے بعد قیام پاکستان کے لیے مسلمانوں کی جدوجہد کو واضح شکل دیدی گئی اور مسلمانوں کی جدوجہد آزادی میں تیزی آتی گئی اور بالآخر 14 اگست 1947ء کو برصغیر میں ایک آزاد اسلامی مملکت ’’پاکستان‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔