حافظ محمد سعید رضا بغدادی

عرفان القرآن کورس

درس نمبر54 آیت نمبر115 تا 118 (سورۃ البقرہ)

تجوید

صفاتِ متضادہ کا بیان

سوال: صفاتِ متضادہ سے کیا مراد ہے؟

جواب: صفاتِ متضادہ سے مراد کسی حرف کی وہ لازمی صفات ہیں جو ایک دوسرے کی ’’ضد‘‘ ہوتی ہیں۔ یعنی ہر صفت کے مقابلے میں دوسری صفت ہے۔

سوال: صفاتِ متضادہ کتنی ہیں؟

جواب: صفاتِ متضادہ دس (10) ہیں۔

سوال: صفاتِ متضادہ کے معنی، مع اضداد بتائیں؟

جواب: صفاتِ متضادہ کے معنی، مع اضداد درج ذیل ہیں۔

نمبر شمار صفت معنی ضد صفت معنی
1 ہَمْسٌ پستی، ضعف x جَہْرٌ بلندی
2 شِدَّت سختی، قوت x رِخوَتْ نرمی
3 اِسْتِعْلَاء پر پڑھنا، بلندی x اِسْتِفَالْ زبان کا نیچے رہنا
4 اِطِّبَاقْ لپٹنا x اِنْفِتَاحْ کھلنا
5 اِذلَاقْ پھسلنا x اِصْمَاتْ جماؤ

نوٹ: صفتِ شدّت اور رخوت کے درمیان صفتِ توسط پائی جاتی ہے۔

ترجمہ

وَلِلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا ُتوَلُّوْا

متن وَ لِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا
لفظی ترجمہ اور اللہ ہی کیلئے مشرق اور مغرب پس جدھربھی تم رخ کرو
عرفان القرآن اور مشرق ومغرب(سب) اللہ ہی کا ہے‘پس تم جدھر بھی رخ کرو۔

فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ ط إِنَّ اللّٰهَ وَاسِعٌ عَلِيْمٌO

متن فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
لفظی ترجمہ پس اسطرف رخ ہے اللہ کا بیشک اللہ وسعت والا جاننے والا ہے
عرفان القرآن ادھر ہی اللہ کی توجہ ہے۔ بیشک اللہ بڑی وسعت والا سب کچھ جاننے والا ہے۔

وَقَالُوْا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا سُبْحٰنَهط بَلْ لَّه مَا فِی

متن وَ قَالُوْا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا سُبْحٰنَہ بَلْ لَہ مَا فِی
لفظی ترجمہ اور انہوں نے کہا بنا لیا اللہ بیٹا وہ پاک ہے بلکہ اسی کاہے جو میں
عرفان القرآن اور وہ کہتے ہیں اللہ نے اپنے لئے اولاد بنائی ہے‘ حالانکہ وہ پاک ہے‘ بلکہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔

السَّمٰوَاتِ وَالأَرْضِط کُلٌّ لَّه قَانِتُوْنَO بَدِيْعُ السَّمٰواتِ وَالأَرْضِ ط

متن السَّمٰوَاتِ وَ الاَرْضِ کُلٌّ لَہ قَانِتُوْنَ بَدِیْعُ السَّمٰواتِ وَالارْضِ
لفظی ترجمہ آسمان اور زمین سب کچھ اسی کیلئے فرمانبردار وجود میں لانا آسمانوں اور زمین
عرفان القرآن (سب) اسی کا ہے(اور) سب کے سب اس کے فرمانبردار ہیں، وہی آسمانوں اور زمین کو وجود میں لانے والا ہے۔

وَإِذَا قَضٰی أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُوْلُ لَه کُنْ فَيَکُوْنُO

متن وَ اذَا قَضٰی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہ کُنْ فَیَکُوْنُ
لفظی ترجمہ اور جب فیصلہ کرلیتاہے کسی کام کا اتناہی فرماتا ہے اسکو ہوجا پس ہو جاتی ہے
عرفان القرآن اور جب کسی چیز کا فیصلہ فرما لیتا ہے تو پھر اس کو صرف یہی فرماتا ہے کہ تو ہو جا‘ پس وہ ہو جاتی ہے

وَقَالَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ لَوْلَا يُکَلِّمُنَا اللّٰه اَوْ

متن وَ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ لَوْ لَا یُکَلِّمُنَا اللّٰہُ اَوْ
لفظی ترجمہ اور کہتے ہیں وہ لوگ جو نہیں جانتے کیوں نہیں کلام کرتاہم سے اللہ یا
عرفان القرآن اور جو لوگ علم نہیں رکھتے کہتے ہیں کہ اللہ ہم سے کلام کیوں نہیں فرماتا یا

تَأتِيْنَا اٰيَةٌ ط کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِثْلَ قَوْلِهِمْ ط

متن تَأتِیْنَا اٰیَۃٌ کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ مِثْلَ قَوْلِہِم
لفظی ترجمہ آتی ہمارے پاس نشانی اسی طرح کہا ان لوگوں نے سے ان سے پہلے مانند بات انکی
عرفان القرآن ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی؟ اسی طرح ان سے پہلے لوگوں نے بھی انہیں جیسی بات کہی تھی

تَشَابَهَتْ قُلُوْبُهُمْ قَدْبَيَّنَّاالٰأيَاتِ لِقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَO

متن تَشَابَہَتْ قُلُوْبُ ہُمْ قَدْ بَیَّنَّا الأُیَاتِ لِ قَوْمٍ یُوْقِنُوْنَ
لفظی ترجمہ ایک جیسے ہیں دل انکے بیشک ہم واضح کرچکے ہیں نشانیاں کیلئے قوم یقین والے
عرفان القرآن ان لوگوں کے دل آپس میں ایک جیسے ہیں‘ بیشک ہم نے یقین والوں کیلئے نشانیاں خوب واضح کر دی ہیں۔

تفسیر

وَلِلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ... الخ

  1. شرق وغرب سب اللہ کی مملکت ہے۔
  2. ہر سمت میں وجہ اللہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا موجود ہونا کسی سمت کے ساتھ خاص نہیں ہے وہ محیط الکل اور علیم بالذات ہے۔
  3. باری تعالیٰ کے اسمائے صفات

فائدہ: صوفیاء نے وحدۃ الوجود اور بعض نے وحدۃ الشہود کا استدلال اسی آیت کریمہ سے کیا ہے۔

وَقَالُوْا اتَّخَذَ اللّٰه وَلَدًا... الخ

1۔ اہل کتاب کے عقیدہ اولاد الٰہی کی تردید اور دلیل توحید

بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ.... الخ

  1. باری تعالی کا بالائی اور زیریں کائنات کو اصلاً عدم سے وجود میں لانا۔
  2. تکمیل امر کے لیے حکم کُنْ فرمانا

وَقَالَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ.... الخ

  1. مشرکین کے بے ہودہ مطالبات اور ان کا جواب
  2. دلائل صرف طالبان یقین کو فائدہ دیتے ہیں کج بحثی کرنے والوں کو نہیں۔ اللہ تعالیٰ سے نشانی طلب کرنے والوں کو جواب دیا گیا ہے کہ الوہی نشانیوں کا عظیم مجموعہ اور پیکر اتم توتمہارے پاس آ چکا ہے جس کا نام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے جو بشیر و نذیر ہے۔ اس عظیم نشانی کے بعد کس نشانی کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔

(تفسير منهاج القرآن)

اللہ تعالی کی اولاد نہ ہونے پر دلائل

یہودیوں نے کہا تھا کہ حضرت عزیر علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں ‘ عیسائیوں نے کہا تھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں اور مشرکوں نے کہا تھا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں‘ اس سے پہلی آیات میں یہود ونصاریٰ اور مشرکوں کے مذموم عقائد اور اقوال وافعال کا بیان کیاگیا ہے۔ ان کے مذموم اقوال میں سے ایک قول یہ بھی تھا کہ اللہ اولاد رکھتاہے ‘ اللہ تعالی نے اس کا رد فرمایا کہ آسمانوں اور زمینوں میں جو کچھ ہے وہ اللہ کی ملکیت ہے اور اولاد باپ کی ملکیت نہیں ہوتی نیز اولاد باپ کی مثل اور اس کی جنس سے ہوتی ہے اگر اللہ تعالی کی اولاد ہوتی تو وہ بھی اللہ کی طرح واجب ‘ قدیم اور الہ ہوتی ‘ جبکہ متعدد ‘ واجب اور قدیم نہیں ہوسکتے اور نہ ہی متعدد اللہ ہو سکتے ہیں کیونکہ کائنات کی ہر چیز اللہ کی مملوک اور اس کی مطیع ہے اور واجب ‘ قدیم اور الہ کسی کا مملوک اور مطیع نہیں ہو سکتا۔

(تفسير تبيان القرآن)

حدیث

عَنْ مُوْسَی بْنِ عُقْبَةَ في رواية طويلة أَرْسَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ إِلَی قُرَيْشٍ … فَدَعُوْا عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رضی الله عنه لِيَطُوْفَ بِالْبَيْتِ فَأَبَی أَنْ يَّطُوْفَ وَقَالَ:کُنْتُ لَا اَطُوْفُ بِهِ حَتَّی يَطُوْفَ بِهِ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَرَجَعَ إِلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.

’’حضرت موسیٰ بن عقبہ رضی اللہ عنہ سے طویل واقعہ میں مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو (صلح حدیبیہ کے موقع پر) کفار کی طرف (سفیر بنا کر) روانہ کیا (مذاکرات کے بعد) انہوں نے حضرت عثمان کو طواف کعبہ کی دعوت دی تو انہوں نے فوراً انکار کر دیا اور فرمایا: اﷲ کی قسم! میں اس وقت تک طواف نہیں کروں گاجب تک رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طواف نہیں کر لیتے اور پھر (بغیر طواف کئے) پلٹ کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آ گئے۔ ‘‘