جمہوریت سے طرز حکمرانی کے ایسے سوتے پھوٹتے ہیں جن کا مرکز و محور عوام ہوتے ہیں۔ عوام کے اپنے نمائندے ہی ملک و قوم کے مسائل کے حل کے لئے قانون سازی کرتے ہیں۔ نتیجتاً ملک مستحکم ہوتا ہے اور خوشحال عوام ترقی کے عمل کو مہمیز لگاتے ہیں۔ جمہوری ادارے اپنے اپنے دائرہ میں رہ کر کام کرتے ہیں اور آئین مضبوط سے مضبوط تر ہوجاتا ہے۔ جمہوری نظام میں آئین کی بالادستی کا براہ راست تعلق اداروں کے استحکام سے ہوتا ہے۔ ادارے کمزور اور باہم متصادم ہوجائیں تو آئین موم کی ناک کی طرح بے حیثیت ہوجاتا ہے۔ آج کل پاکستان میں پائی جانے والی جمہوریت میں آئین کی باطنی ہئیت کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہورہا ہے۔ جس روش پر ادارے چل پڑے ہیں اس میں موم کے مزید نرم ہونے کے امکانات واضح دیکھے جاسکتے ہیں۔ 1973ء کا آئین بلاشبہ ایک ایسی دستاویز ہے جس پر اس کی روح کے ساتھ عمل ہوتا تو آج وطن عزیز جمہوریت کے ثمرات کے باعث جنوبی ایشیاء میں باوقار معاشی و سیاسی مقام پر فائز ہوتا مگر افسوس ایسا نہ ہوسکا نام نہاد جمہوری اور فوجی آمریت نے ہمیشہ آئین پاکستان کا تمسخر اڑایا ہے۔ گذشتہ پانچ سال پارلیمنٹ کی بالادستی کے نام پر جو ہوا اس سے بڑھ کر آمریت کیا ہوسکتی ہے۔ وردی اور شیروانی کی ہئیت بظاہر مختلف ہے مگر پہننے والے کی سوچ میں عوامیت نہ ہو تو پھر دونوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔
بہت پیچھے نہیں جاتے، نگران حکومت کے قیام سے قبل شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے آئین پاکستان کی بحالی کے لئے زور دار انداز میں جو کاوش کی اس سے بھونچال سا آگیا۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے مخالفت، تنقید اور بہتان طرازی کا وہ طوفان مچا کہ الامان و الحفیظ۔ اس سب کے باوجود ڈاکٹر طاہرالقادری کے ماتھے پر شکن نہیں آیا۔ انہوں نے کمال ضبط و تحمل، بردباری اور بصیرت سے اپنے موقف کو ڈٹ کر بیان کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ 30 دن کی سکروٹنی، آرٹیکل 62، 63 اور 218 پر عمل درآمد، 8 جون 2012ء کی سپریم کورٹ کی ججمنٹ کا نفاذ لانگ مارچ کے اعلامیہ میں شامل تھا۔ اس کے فوری نتائج حکومت کی ہٹ دھرمی کے باعث نہ نکل سکے۔
الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے حوالے سے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی رٹ پٹیشن کے ساتھ جو سپریم کورٹ میں ہوا وہ عدالتی تاریخ کا سیاہ باب ہے اور اس کے منفی اثرات پاکستان پر ہمہ جہت انداز میں مرتب ہونا شروع ہوگئے ہیں جو مستقبل میں بہت زیادہ ہوں گے اور اس کی ذمہ دار اعلیٰ عدلیہ ہی ٹھہرے گی۔ قانون ٹیڑھے زاویوں سے دیکھنے لگ جائے تو عدل و انصاف خواب بن جاتا ہے۔ دوھری شہریت کی خود ساختہ ڈھال کے ذریعے غیر آئینی الیکشن کمیشن کو تحفظ دے کر سپریم کورٹ نے بھی سیاسی پارٹی کا روپ دھار لیا تھا۔ سپریم کورٹ کا متنازعہ ترین فیصلہ لاکھوں اوورسیز پاکستانیوں کی توہین کا باعث تو بنا ہی مگر ملک کے اندرکروڑوں محب وطن بھی اس فیصلے پر سیخ پا نظر آئے۔ آئین پاکستان جو حق دوہری شہریت والوں کو دیتا ہے چوبی ہتھوڑے نے ایک ضرب سے اسے بری طرح پاش پاش کردیا اور ایک دفعہ پھر ثابت ہوگیا کہ آئین کی تشریح کرنے والوں نے جانبداری کا جام نوش کیا ہو تو اس کے اثرات فیصلہ لکھنے والے قلم تک بھی پوری آب و تاب سے پہنچتے ہیں۔ پاکستان کی ایک سیاسی پارٹی کے رہنما نے عدالتی فیصلے سے دو دن قبل ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی نیت کے حوالے سے جو بیان دیا سپریم کورٹ کے فیصلے میں بھی اس کی واضح بو صاف محسوس ہوئی۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی نیت پر شک کی آڑ میں ایک لفظ سنے بغیر رٹ خارج کرکے غیر آئینی الیکشن کمیشن کو بچالیا۔ یہ فیصلہ پاکستان میں جمہوریت کے نام پر مستقبل میں ہونے والی تمام تر بربادیوں کا ذمہ دار ٹھہرے گا۔
غیر آئینی الیکشن کمیشن کو بچاکر نگران حکومت کا بوجھ بھی 85 سالہ کھوسو کے کندھوں پر ڈال دیا گیا۔ چیف الیکشن کمشنر کی ضعیفی کیا کم تھی کہ یک نہ شد دو شد۔ سنائی، دکھائی اور سجھائی دینے کی تمام تر صلاحیتوں سے عاری افراد ہی سیاسی جھرلو پھیرنے کے لئے موزوں ہوسکتے تھے۔ خدا جانے دو بوڑھے اپنی عاقبت خراب کرنے پر کیسے آمادہ ہیں سنا ہے کہ اس عمر میں ترجیحات میں خدا خوفی کو پہلا نمبر مل ہی جاتا ہے مگر اقتدار کا مزا تو بڑھاپے میں بھی نوجوانی کا احساس لے آتا ہے۔ اس لئے اس عمر میں بھی ایمان کا ڈول جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔
سکروٹنی کے نام پر آئین کے آرٹیکل 62 کا جو حشر کیا گیا۔ اخلاقی گراوٹ کی پاتال میں اتر کر جس طرح کے سوالات کئے گئے اس پر یقینا ریٹرننگ آفیسرز کو سخت سے سخت سزا دی جانی چاہئے۔ انہوں نے آنے والی جعلی اسمبلی کو آئین کے آرٹیکل 62,63 کو ختم کرنے کا جواز فراہم کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔۔ آرٹیکل 63 پر ریٹرننگ آفیسرز کی مجبوری سمجھ میں آتی ہے کیونکہ نیب، ایف آئی اے، ایف بی آر اور سٹیٹ بینک آف پاکستان نے سکروٹنی کے دوران ڈیفالٹرز کی لسٹیں الیکشن کمیشن کو دانستہ مہیا نہیں کی تھیں کیونکہ لٹیروں کو بچانا طے شدہ ایجنڈے کا حصہ تھا۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مک مکا الیکشن کمیشن کی اصطلاح متعارف کروائی تو بہت سوں کو اس سے اختلاف ہوا مگر موجودہ کرپٹ نظام کے تحت ہونے والی ’’سیاسی کرامات‘‘ نے واضح کردیا کہ شیخ الاسلام کی سیاسی بصیرت کا گراف بھی دیگر شعبوں میں ان کے کارہائے نمایاں کی طرح بلند ترین ہی ہے۔ جعلی ڈگری والوں کی نااہلی کا مژدہ آنے لگا تو محسوس ہوا کہ الیکشن کمیشن کی غیرت جاگ اٹھی ہے مگر ریٹرننگ آفیسرز کے فیصلوں کو عدالتی ٹربیونلز نے ہوا میں اڑا کر شیخوں، دستیوں ’’صالح‘‘ اور اشرافیہ کے سروں کی تاج شخصیات کو پارلیمنٹ میں پہنچنے کا پروانہ دے کر ثابت کردیا کہ سب کچھ By Design ہورہا ہے۔ راجا رینٹل کا لقب پا کر بھی اگر نااہلیت کا دھبہ بیک جنبش قلم دھل جائے تو پھر پاکستان پر راج کرنے والی ’’اصلی‘‘ جمہوریت کا قائل ہونا ہی پڑتا ہے۔
عدلیہ اور الیکشن کمیشن کی چھتری تلے سکروٹنی کا جو حشر ہوا۔ آرٹیکل 218 کی کلاز 3 کے ساتھ جو سلوک کیا گیا۔ 8 جون 2012ء کی ججمنٹ کو دوبارہ ردی کی ٹوکری کی زینت بنایا گیا، اس کے بعد پاکستان میں کونسا آئین بچا ہے اور کون سا ادارہ؟ آئین و قانون کی بالادستی قائم رکھنے کے ذمہ دار ادارے خاموش رہیں تو ان کی مجبوری سمجھ میں آتی ہے شاید وہ احسان کا بدلہ چکا رہے ہیں مگر اس ملک کی سلامتی اور استحکام کے لئے بنائے گئے ادارے کی برداشت سمجھ سے بالا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ سوچ گہری تر ہوجائے تو یقینا فیصلے کمزور ہوجاتے ہیں۔ حقیقی جمہوریت کے قیام کا عزم سچا ہے تو پھر مصلحت کیسی؟
فیصلے کا وقت انتخابات سے قبل تھا، نظام انتخابات میں پائے جانے والے سقم دور کرلئے جاتے۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے لانگ مارچ میں اٹھائے جانے والے اہم نکات کو عزت و وقار دے کر رہنما اصول وضع کرلئے جاتے، اعلیٰ عدلیہ الیکشن کمیشن کے آگے غیر آئینی انداز میں ڈھال نہ بنتی، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی طرف سے آئین کی بالادستی کے لئے کی جانے والی عظیم کاوش کو ناجائز ہدف تنقید بنانے کی بجائے ان کا دست و بازو بنتا تو 11 مئی کو ہونے والا الیکشن ملکی استحکام اور عوامی خوشحالی کا سورج لے کر طلوع ہوتا مگر ابھی عوام کے مقدر میں ذلت و رسوائی اور اندھیروں میں رہنا ہی لکھا ہے اہم ترین اداروں کی طرح عوام کے شعور کا گراف بھی 5 سال بعد بھی جمود کی گوند سے چپکا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
پاکستان عوامی تحریک کے 11 مئی کو پورے انتخابی نظام کو مسترد کرنے کے لئے ہونے والے دھرنے پاکستان کی سیاسی صورتحال کے تناظر میں نہایت ہی صائب فیصلہ ہے۔ پولنگ ڈے کو انتخابی نظام کے خلاف برسوں سے گھر بیٹھے رہنے والوں کے لئے بہترین موقع ہے کہ وہ ملک بھر میں ہونے والے دھرنوں میں شرکت کرکے ملکی اداروں اور پوری دنیا کو یہ پیغام دیں گے کہ پاکستان کا دشمن کوئی اور نہیں یہ انتخابی نظام ہے جو عرصہ سے جسد پاکستان کے ساتھ جونکوں کی طرح چپک کر اس کا خون چوسے جارہا ہے۔ اب ان جونکوں کو سیاسی شعور کی بیداری کے ساتھ وطن عزیز کے جسم سے الگ کرنا ہی قومی فریضہ ہے جسے ہر فرد نے انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری سمجھ کر ادا کرنا ہے۔