سوال :کس طرح کا عبایا پہننا صحیح ہے؟
جواب: عورت کا چہرہ، ہاتھ اور ٹخنوں تک پاؤں کے علاوہ سارا جسم چھپانا لازمی ہے۔ اب وہ کس طرح چھپایا جائے اس کے لیے کوئی مخصوص لباس نہیں ہے۔ کیونکہ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے۔ پوری دنیا کے کونے کونے میں قیامت تک قائم رہنے والا ہے، اس لیے کوئی پابندی نہیں لگائی کہ فلاں کپڑا اور فلاں فلاں ڈیزائن ہی پہننا ضروری ہے کیونکہ علاقے، رسم ورواج اور گرمی سردی کی وجہ سے ہر ایک کی ضرورت مختلف ہو سکتی ہے۔ کشمیر، مری اور سبی میں رہنے والے ایک جیسا لباس نہیں پہن سکتے ہیں، لیکن اسلام نے یہ بتا دیا کہ لباس ایسا ہونا چاہیے جس میں پردہ ہو، گرمی سردی سے بچائے اور پہنا ہوا خوبصورت لگے، اس کے علاوہ کوئی پابندی نہیں ہے۔
لہذا جو لباس باپردہ ہو، گرمی سردی سے محفوظ رکھے اور پہنا ہوا خوبصورت لگے، وہی لباس پہننا درست ہے۔ مردوں اور عورتوں کے لیے ایک ہی اصول ہے۔ کوئی خاص ڈیزائن اور کپڑے پر پابندی نہیں ہے سوائے مردوں کو ریشم کا کپڑا پہننے کے۔
سوال: کیا اسلام میں خواتین کا بیوٹی پارلر جانا، لپ اسٹک لگانا اور نیل پالش لگوانا جائز ہے؟
جواب: قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا یُبْدِینَ زِینَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَی جُیُوبِهِنَّ وَلَا یُبْدِینَ زِینَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِی إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِی أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِینَ غَیْرِ أُوْلِی الْإِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِینَ لَمْ یَظْهَرُوا عَلَی عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا یَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِینَ مِن زِینَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَی اللهِ جَمِیعًا أَیُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ.
(النور، 24: 31)
"اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دوپٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں اور وہ اپنے بناؤ سنگھار کو (کسی پر) ظاہر نہ کیا کریں سوائے اپنے شوہروں کے یا اپنے باپ دادا یا اپنے شوہروں کے باپ دادا کے یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں کے یا اپنی (ہم مذہب، مسلمان) عورتوں یا اپنی مملوکہ باندیوں کے یا مردوں میں سے وہ خدمت گار جو خواہش و شہوت سے خالی ہوں یا وہ بچے جو (کم سِنی کے باعث ابھی) عورتوں کی پردہ والی چیزوں سے آگاہ نہیں ہوئے (یہ بھی مستثنٰی ہیں) اور نہ (چلتے ہوئے) اپنے پاؤں (زمین پر اس طرح) مارا کریں کہ (پیروں کی جھنکار سے) ان کا وہ سنگھار معلوم ہو جائے جسے وہ (حکمِ شریعت سے) پوشیدہ کئے ہوئے ہیں، اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو اے مومنو! تاکہ تم (ان احکام پر عمل پیرا ہو کر) فلاح پا جاؤ۔
مذکورہ بالا آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت بناؤ سنگھار کر سکتی ہے لیکن اسے ہر کسی کے لیے ظاہر نہیں کر سکتی جن کے سامنے ظاہر کر سکتی ہے ان کے بارے میں آیت مبارکہ میں بیان ہو چکا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ بناؤ سنگھار ہے کیا اور کس حد تک اس کی اجازت ہے؟ عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے خاوند کے لیے جہاں تک مناسب ہو زیب وزینت کا بندوبست کرے یعنی خاوند کی حیثیت کے مطابق جو اخراجات مہیا ہوں، ان کے اندر رہتے ہوئے Make up ہونا چاہیے فضول خرچی نہیں ہونی چاہیے اور باقی گھریلو اخراجات کا بھی خیال ہونا چاہیے۔ رہی بات بیوٹی پارلر جانے کی اس کے بارے میں رائے یہ ہے کہ اگر مذکورہ بالا مقصد کے لیے ہی بناؤ سنگھار کوئی عورت خود نہیں کر سکتی تو وہ بیوٹی پارلر بھی جا سکتی ہے کوئی حرج نہیں۔
سوال: ان دنوں خواتین میں پلکیں اور ابرو بنوانے کا رواج ہے۔ اس سلسلے میں وہ بیوٹی پارلرز کا رخ بھی کرتی ہیں۔ کیا پلکوں اور ابروؤں کا بنوانا یا ابروؤں کے بال کٹوانا، چھیدوانا اور اکھاڑنا جائز ہے؟
جواب: پلکیں اور ابرو بنوانے کو راوج نہیں دینا چاہیے، جو کہ آج کل بہت عام ہوتا جا رہا ہے۔ اس کو ایک فیشن بنا دیا گیا ہے۔ ضرورت ہو یا نہ ہو اکثر عورتیں اس فیشن کو اپنا رہی ہیں۔ جس کے لیے انہیں بیوٹی پارلرز کا رخ بھی کرنا پڑتا ہے، جو ایک تکلیف دہ عمل ہے اور فضول خرچی کا ایک نیا راستہ بھی ہے۔ اس لیے اگر پلکوں یا ابروؤں کے بال بدصورتی کا سبب نہ ہوں، تو ان کو کٹوانا، چھیدوانا یا اکھاڑنا بالکل جائز نہیں ہے۔ ہاں اگر یہ بال کسی کے چہرے کی بدصورتی کا سبب بن رہے ہوں، تو اس کو اجازت ہے کہ وہ ان اضافی بالوں کو مناسب طریقے سے ختم کر دے۔
امام ابو یوسف رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:
لا بأس بأخذ الحاجبین و شعر وجهه ما لم یشبه بالمخنث.
ابرو اور چہرے کے بال اکھاڑنے میں کوئی حرج نہیں، جب تک کہ ہجڑوں سے مشابہت نہ ہو۔
سوال: کیا بیوٹی پارلر کا کاروبار کرنا اور اس میں کام کرنا کیسا ہے؟
جواب: بیوٹی پارلر کا کاروبار کرنا یا اس میں کام کرنا دونوں جائز ہیں۔ شرعاً اس کے ناجائز ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے، مگر اس میں خیال رکھا جائے گا کہ اگر بیوٹی پارلر میں خواتین کام کرنے والی ہوں اور فقط خواتین ہی بناؤ سنگھار کے لیے آئیں، دلہن کو تیار کریں یا میک اپ کروانے آئیں تو ٹھیک ہے۔ یعنی پارلر میں کام کرنے والی بھی خواتین ہوں اور میک اپ وغیرہ کے لیے بھی صرف خواتین ہی آئیں۔
دوسری صورت میں مرد و خواتین میں اختلاط ہو یعنی خواتین مردوں کے لیے کام کریں یا مرد خواتین کا میک اپ کریں تو ایسا کرنا حرام ہے۔ ایسی جگہ پر کام کرنا اور ایسا کاربار کرنا دونوں حرام ہیں۔ اس کے علاوہ بیوٹی پارلر پر خلاف شریعت اگر کوئی کام لیا جائے تو پھر بھی یہ ناجائز اور حرام ہوگا۔