اقوال حضرت داتاگنج بخش علی ہجویریؒ:
ہمیشہ یاد رکھو کہ درویش کا درجہ راہ مولی میں بہت بڑامرتبہ ہے اور درویش کے لیے اس راستے میں بڑے خطرات ہیں۔ صوفی کو چاہیے کے اپنے آپ کو محبوب سے وابستہ رکھے اور دنیا بے وفا غدار کے علل واسباب سے آزار رکھے یہ دنیا سرائے فجار و فساق ہے۔
غنی کا نام ہی صرف ذات.باری تعالی کے شایان شان ہے مخلوق اس نام کی مستحق نہیں ہوسکتی۔ یاد رکھو جوکوئی لباس اولیاء کوکسب دنیا کے لیے آلہ بنائے گا وہ اپنے لیے آفت مول لے گا۔
علم بہت ہیں اور انسانی عمر تھوڑی ہے۔ اس لیے تمام علوم کا سیکھناانسان پرفرض نہیں اس حد تک ضروری ہے جس سے عمل درست ہوجائے۔
سارے ملک کا بگاڑ ان تین گروہوں کے بگڑنے پر ہے۔ حکمران جب بے علم ہوں۔ عالم جب بے عمل ہوں۔ فقراء جب بے توکل ہوں۔
رضا کی دو قسمیں ہیں اول خداکا بندے سے راضی ہونا۔ دوسری بندے کا خداسے راضی ہونا۔
غافل امراء کاہل فقراء، جاہل درویشوں کی صحبت سے پرہیزکرنا عبادت ہے۔
دیندار لوگوں کو خواہ وہ کیسے ہی غریب اور نادار ہوں حقارت سے نہ دیکھو کیونکہ اس سے فی الجملہ اللہ تعالی کی تحقیر لازم آتی ہے۔
جس کام میں نفسانی غرض آئے اس سے برکت اٹھ جاتی ہے۔
مسلسل عبادت سے مقام کشف ومشاہدہ ملتا ہے۔
جو لوگ خداکے آگے گردن تسلیم ورضاخم کیے ہوئے ہیں وہ مصیبت و بلاکو بلا کی صورت میں نہیں دیکھ سکتے۔
بے وقوف کے ساتھ جنت میں بیٹھنے سے بہتر عقلمند کے ساتھ قید خانے میں بیٹھنابہتر ہے۔
نصیحت ہماری اخلاقی قوت کی خاطر:
قناعت فضول چیزوں سے نکل آنے اور بقدر حاجت پر اکتفاء کرنے اور کھانے پینے اور رہنے کی چیزوں میں اسراف سے پرہیز کرنے کو کہتے ہیں۔
دنیا میں وہ سب سے کمزور ہے جو اپنی خواہش پر قابونہ رکھتا ہو۔
اور سب سے قوی وہ ہے جوضبط کی قوت رکھتا ہو۔
کسی کے ساتھ برائی مت کرو ورنہ اللہ تعالی برائی کرنے والے پر کسی کو بدلہ لینے کے لیے مقرر ضرورکرے گا۔
محبوب دوجہاں کے کھانے کے معمولات:
رسول اللہ ﷺ روزے کے لیے سحری و افطاری کا اہتمام فرماتے اس کے علاوہ کھانے کا کوئی مقررہ وقت نہیں تھا۔ احادیث مبارکہ میں رسول اللہ ﷺ کے پسندیدہ کھانے اور مشروبات کا ذکر ملتا ہے لیکن کھانے کا کوئی متعین وقت مذکورہ نہیں ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ: مَا اَکَلَ آلُ مُحَمَّدٍ اَکْلَتَیْنِ فِی یَوْمٍ إِلَّا إِحْدَاہُمَا تَمْرٌ.
نبی کریم ﷺ کے اہل خانہ نے ایک دن میں کبھی دو مرتبہ ایسا کھانا تناول نہیں فرمایا جن میں ایک وقت کھجوریں نہ ہوں۔ (بخاری، الصحیح، ۵: ۲۳۷۱، رقم: ۶۰۹۰)
گویا خانہء اقدس میں دو وقت کھانے کا اہتمام ہوتا تھا۔ اس سے ہم یہی نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صبح و شام یعنی دو وقت کھانا تناول فرماتے تھے۔
کھانے کی چند اہم سنتیں:
- کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا
- اجتماعی طور پر کھانا
- دستر خوان بچھانا
- بسم اللہ پڑھ کر کھانا
- دائیں ہاتھ سے کھانا
- جوتے چپل اُتارکر کھانا
- کھانے میں عیب نہ نکالنا
- تین انگلیوں سے کھانا
تبسم میرے نبی ﷺ کا:
''حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے اُس وقت کی روایت ہے جب وہ غزوہِ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے۔ اُنہوں نے بیان فرمایا: (توبہ قبول ہونے کے بعد) جب میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر سلام عرض کیا تو آپ ﷺ کا چہرہِ انور خوشی سے جگمگا رہا تھا اور آپ ﷺ جب بھی مسرور ہوتے تو آپ ﷺ کا چہرئہ مبارک یوں نور بار ہو جاتا تھا جیسے وہ چاند کا ٹکڑا ہے۔ ہم آپ ﷺ کے چہرہِ انور ہی سے آپ کی خوشی کا اندازہ لگا لیا کرتے تھے۔ '' یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
(أخرجہ البخاری فی الصحیح، کتاب المناقب، باب صفۃ النبی ﷺ، 3: 1305، الرقم: 3363)
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ اچھے اَخلاق والے تھے اور میرا ایک بھائی تھا جس کو ابو عمیر کہا جاتا تھا اور میرے خیال میں اُس کا دودھ چھڑایا جا چکا تھا۔ چنانچہ جب وہ حضور ﷺ کے پاس حاضر ہوتا تو آپ ﷺ فرماتے: اے ابو عمیر! نغیر کا کیا بنا؟ نغیر (ایک پرندہ تھا جس) کے ساتھ وہ کھیلا کرتا تھا (بعد ازاں وہ فوت ہو گیا تو آپ ﷺ اُس بچے کی دل جوئی اور مزاح کے لیے یہ فرماتے)۔ '' یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
(أخرجہ البخاری فی الصحیح، کتاب الأدب، باب الکنیۃ للصبی قبل أن یولد للرجل، 5: 2291، الرقم: 5850)
'حضرت عبد اللہ بن حارث بن جزء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے زیادہ مسکرانے والا کسی کو نہیں دیکھا۔ ''
اِسے امام ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے۔