مرتبہ: حافظہ سحر عنبرین
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ بِفَضْلِ للهِ وَبِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ط ھُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ. (یونس، 10: 58)
’’فرما دیجیے: (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہیے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس (سارے مال و دولت) سے کہیںبہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔‘‘
اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا کہ تم پر اللہ کا فضل اور رحمت آ گئی۔سب خوشیاں مناؤ، فرحت کرو، جشن مناؤ، فلیفرحوا اب یہاں ایک نکتہ ذہن میں رکھ لیں اللہ تبارک و تعالی نے فرحت منانے سے منع فرمایا۔ دوسرے مقام پر فرمایا سورۃ القصص، 76
لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰهَ لَایُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ.
تُو (خوشی کے مارے) غُرور نہ کر بیشک اللہ اِترانے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔
ایک مقام پر اللہ نے فرحت کرنا ،خوشی منانا پسند نہیں کیا۔ دوسرے مقام پر اللہ نے حکم دیا کہ فرحت مناؤ، خوشیاں مناؤ اور جشن مناؤ ،گو الگ حکم آگیا اس کی وجہ کیا ہے امام فخر الدین رازی بیان کرتے ہیں۔ اب یہ واجب ہوگیا کہ انسان سوائے اس اللہ کی رحمت اور فضل کی آمد کے کسی اور سبب پر جشن نہ منائے۔ جشن میں پابندی ہوگئی کہ جشن اور خوشیاں مناؤ صرف ایک سبب پر اللہ کی رحمت اور فضل پر قرآن نے فرمایا:
وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ. (الانبیاء)
اے رسول محتشم !ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر۔
اللہ کی رحمت محمد مصطفی ہے اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھیجا اے حبیب ساری کائنات کے لئے رحمت بنا کر۔ تو اللہ کی رحمت وجود مصطفی کی شکل میں دنیا میں آگئی۔ علامہ آلوسی نے روح المعانی میں فرمایا کہ حضور کا نام اللہ نے رحمت رکھ دیا تو جب اللہ بولے گا کہ اللہ کی رحمت پر جشن مناؤ اللہ کی رحمت وجود مصطفی ہے۔ سورہ جمعہ میں ہے وہ اللہ ہے جس نے امیین میں مکہ کے ان پڑھ لوگوں میں اپنا رسول بھیجا۔
هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰـتِهٖ وَیُزَکِّیْهِمْ وَیُعَلِّمُهُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ ق وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰـلٍ مُّبِیْنٍ. (الجمعة، 62: 2)
’’وہی ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول ( ﷺ ) کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں۔ اور اُن (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں بے شک وہ لوگ اِن (کے تشریف لانے) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘
قرآن نے بتایا کہ مصطفی سے پہلے گمراہی تھی تو مصطفی آگئے تو ہدایت ہوگی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پہلے خوش نصیب تو وہ ہیں جن میں محمد مصطفی آگئے اور فرمایا دوسرے خوش نصیب وہ جو اس زمانے میں نہیں تھے بعد کے زمانوں میں آئیں گے۔ ان کو بھی منھم کی شان عطا کر دی اور فرمایا کوئی بات نہیں عاشقوں اگر تم ان سے نہیں ملے پھر بھی ہم نے تمہیں ان میں سے بنا دیا۔فرمایا کسی نے سوال کیا باری تعالی یہ کیسی بات ہوئی ان پر تو فضل ہوا کہ وہ اس زمانہ میں تھے اور انہیں انہوں مصطفی علیہ السلام کو آنکھوں سے دیکھا اللہ کا فضل ہو گیا اور یہ جو بعد میں آئے جنہوں نے دیکھا بھی نہیں ان کو بھی باری تعالیٰ دونوں میں ملادیا اس کا سبب کیا ہے؟ اللہ نے اس کا جواب دیا کہا۔ (سورۃ الجمعہ، 4)
ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ وَ اللّٰهُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ)
یہ (یعنی اس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد اور اِن کا فیض و ہدایت) اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے اس سے نوازتا ہے، اوراللہ بڑے فضل والا ہے۔
وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَتُه لَاتَّبَعْتُمُ الشَّیْطٰنَ اِلَّا قَلِیْلًا. (لنساء)
اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو یقیناً چند ایک کے سوا تم (سب) شیطان کی پیروی کرنے لگتے۔
اللہ نے فرمایا میرا محمد مصطفی ﷺ تم پر آگیا اور تم کو گمراہی سے نکال کر ہدایت کے نور پر پہنچا دیا اور فرمایا اگر تم پر میرا یہ فضل نہ آتا اور یہ میری رحمت مصطفی ﷺ نہ آتا تو تم سب شیطان کے چیلے اور فالور بن گئے ہوتے۔ گویا اللہ کا فضل اور اللہ کی رحمت اکیلا اکیلا بھی مصطفی ﷺ ہے اور اکٹھا اکٹھا بھی مصطفی ﷺ ہے اور جب اللہ کا فضل اور رحمت مصطفی ﷺ ہوئے۔ اللہ نے فرمایا لوگو تم پر میرا فضل اور رحمت آ گیا ہے۔ اس دن کو جشن عید اور فرحت مناؤ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ آئے تو دیکھا کہ یہود لوگ یومِ عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں۔ آپ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تم لوگ اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس دن اللہ نے فرعون کو غرق کیا تھا اور حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کو نجات دی گئی تھی دریائے نیل میں، ہم اسی خوشی میں اللہ کے شکر میں اس دن کی تعظیم میں روزہ رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے زیادہ ہم موسیٰ کے حقدار ہیں اور سا تھ ہی فرمایا کہ اے مسلما نوں تم بھی اس دن روزہ رکھا کرو۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جس دن اللہ کی رحمت و نعمت ہو جا ئے اس کی تعظیم لازم ہے۔ امام عسقلانی فرماتے ہیں کہ یومِ عاشورہ کے دن موسیٰ اور بنی اسرائیل پر تو اللہ کی نعمت کے بدلے تم اس دن کی تعظیم کرنا، اس دن کا شکر بجا لانا ، اس دن خوشی کرنا، شکر کرنا یہ اللہ کی طرف سے حضور علیہ الصلاۃ والسلام کا حکم ہو گیا۔ اس کے بعد امام عسقلانی فرماتے ہیں کہ جس طرح حضرت موسیٰ کو نعمتیں عطا کی گئی وہ دن شکر کے قابل ہو گیا اور جس دن وہ پیغمبر آئے جن کی آمد کی خبر حضرت موسیٰ اور ہر نبی دیتا رہا اور ساری کائنات کی بزم جس مصطفیٰ کی آمد کے لئے سجائی گئی۔ جس دن اس مصطفیٰ کا میلاد ہوا اس سے بڑی نعمت کائنات میں کوئی نہیں اگر اس دن نعمت کی تعظیم ہے تو مصطفیٰ کی ولادت سے بڑی کوئی نعمت نہیں اور بڑا کوئی دن نہیں۔
ابو قتادہ روایت کرتے ہیں: آپ ﷺ سے پیر کے دن روزہ رکھنے کے بارے سوال کیا گیا کہ یارسول اللہ ﷺ پیر کے روز روزہ کیوں رکھنا چاہیے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ میرے میلاد کا دن ہے۔
ایک یہودی نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کی کہ اے عمر آپ کے قرآن میں ایک ایسی آیت بھی ہے جو اگر ہماری کتاب تورات میں آتی تو ہم اس کے نزول کے دن عید مناتے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا بتاؤ وہ کونسی آیت ہے تو یہودی نے عرض کی:
الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا.
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہمیں معلوم ہے یہ آیت کس مقام پر اور کس دن نازل ہوئی۔
یہاں امام عسقلانی نے فتح الباری میں ایک سوال قائم کیا ہے اور لکھا ہے کہ یہاں ایک شبہ یا اشکال پیدا ہوتا ہے کیونکہ سوال تو یہ تھا کہ اگر ہماری کتاب تورات میں یہ آیت آتی تو ہم عید مناتے اب جواب بھی اسی مناسبت سے ہوتا۔ لیکن حضرت عمر نے جواب میں فرمایا کہ یہ یوم عرفہ تھا جمعہ کا دن تھا تو سوال اور جواب میں مطابقت نظر نہیں آتی۔اس بارے کے میں امام عسقلانی لکھتے ہیں کہ حضرت عمر نے فرمایا کہ یہ آیت جمعہ کے دن اتری اور ہماری شریعت میں جمعہ کا دن عید کا دن ہوتا ہے اور فرمایا حج کا دن تھا تو ہماری شریعت میں حج کا موقع تین سے چار دن عید کا ہوتا ہے۔ یہاں تم ایک دن عید مناتے اور ہم اس کے نزول کے اعتبار سے ہر سال 4 دن عید مناتے ہیں اور ہر ہفتے جمعہ کے روز عید مناتے ہیں۔ ہم دو عیدیں مناتے ہیں۔ اس کے ساتھ امام طبرانی نے اس حدیث کو حضرت عمر کے حوالے سے ایک جملہ اضافہ فرمایا کہ حضرت عمر فاروق نے کہا:
اے یہودی ہمارے ہاں یہ دونوں دن عید مقرر کر دیے گئے ہیں۔
لہذا جس دن اعلان ہوا شریعت اسلام میں ایک سالانہ عید ہے اور ایک ہفتہ وار عید ہے تو ثابت ہوا جس نبی پر دین مکمل ہوا جس نبی پر آیت اتری جس نبی پر نعمت تمام ہوئی جس نبی کا دین اسلام ہمارے لیے منتخب ہو گیا۔ آیت اترے تو وہ دن عید ہوجائے اور جس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو وہ دن عید کا کیوں نہیں ہو گا۔ خدا کی قسم وہ ایک ماہ کی عید کے برابر ہو گا۔
یہ سوال حضرت عوف نے کیا حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اور یہ حدیث سنن ابی داؤد کی ہے جلد اول صفحہ 270 تا 275، نسائی جلد اول صفحہ 519، نسائی جلد سوم صفحہ 91 ، ابنِ ماجہ جلد اول صفحہ 345، صحاح ستہ میں ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ان من افضل ایامکم یوم الجمعة.
تمہارے ایام میں سے افضل یوم جمعہ ہے۔
یہ عید کا دن ہے۔ پوچھا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
فیه خلق اٰدم.
اس لیے کہ اس دن آدم کا میلاد ہوا تھا۔
یعنی پیدائش کا دن اس لیے عید بن گیا اور افضل ہو گیا کہ پہلا پیغمبر جو زمین پہ آیا اس کی پیدائش جمعہ کے دن ہوئی۔ اسلام کی شریعت میں جس دن پہلا پیغمبر پیدا ہو گیا وہ دن شریعت محمدی میں یومِ عید بنا دیا گیا۔
حضرت آدم جس دن پیدا ہوگئے وہ دن تو یومِ عید بن گیا۔
محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کب نبی تھے؟ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
کنت نبیا آدم بین الروح و الجسد.
آدم ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے کہ میں پہلا نبی تھا۔ جب خاتم النبین پیدا ہوا تو کیا وہ دن عید کا دن نہیں ہو گا ؟
حضور کا میلاد ہو گیا۔ اور پھر جمعہ کے دن کے لیے کیا حکم ہے؟ حضور نے فرمایا جمعہ کے دن کیا کیا کرو۔ ابنِ ماجہ میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جمعہ کے دن مسجدوں میں بحور جلایا کرو۔ (عرب میں بحور اگربتی کو کہتے ہیں۔) چونکہ آدم کی پیدائش کا دن ہے۔ گویا محفلِ میلاد میں اگربتیاں جلانا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے۔ اور حضرت عمر نے ایک آدمی مقرر کیا تھا جسے بحور دان دیا تھا۔
جب جمعہ کا دن آتا تولوگ محفل میں بیٹھ جائیں اور مجھ پر درود و سلام پڑھنے لگیں تو بحوردان لے کر ایک ایک کے پاس جایا کرو۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہا کے حکم سے ایک ایک محفل کے شخص کے پاس بحور کی خوشبو بھیجتا تھا۔
اس کے بعد ایک جگہ حدیث جو صحیح بخاری میں ہے کہ جب حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی ولادت ہوئی ابو لہب نے ثویبہ کو بھیجا کہ جاؤ حضرت آمنہ کے پاس ان کے ہاں بچہ ہونے والا ہے ان کی خدمت کرو۔ جب حضور علیہ الصلاۃ و سلام پیدا ہوگئے ولادت ہو گئی تو ثوبیہ خوشی سے دوڑتی ہوئی آئی اور ابو لہب کو خوشخبری سنائی۔ ابولہب تمہارے محروم بھائی عبداللہ کے گھر بیٹا پیدا ہو گیا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوگیا۔ ابو لہب نے خوشی میں بھتیجے کی خوشی میں ان دو انگلیوں سے اشارہ کر کے ثویبہ کو کہا جاؤ ثویبہ محمد کی ولادت کی خوشی میں تم کو آزاد کیا۔
آپ کو معلوم ہے ابولہب کافر تھا۔ کافر مرا۔ اس کی مذمت میں قرآن کی پوری سورت اتری۔ تبت یدا ابی لہب وتب مر گیا مومن نہ تھا۔ مرنے کے بعد وہ خواب میں حضرت عباس کو ملا خواب میں ملا حضرت عباس نے پوچھا ابولہب بتاؤ تمہارا کیا حال ہے؟ ابو لہب نے کہا کہ سارا دن رات آگ میں جلتا ہوں سوائے پیر کے دن جب پیر کا دن آ جاتا ہے۔ مجھ پر دوزخ کا عذاب ختم کردیا جاتا ہے کم ہو جاتا ہے اور ان دو انگلیوں سے پانی نکلتا ہے وہ پانی چوس کر اپنی پیاس کی شدت بجھاتا ہوں۔ عذاب کا کم ہونا اور سوموار کے دن پانی ملنا یہ اس وجہ سے ہے کہ میلاد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی میں میں نے ثویبہ کو آزاد کیا تھا بس اس کا اجر ملتا ہے۔باقی آگ ہی آگ ہیں حدیث میں ہے جب وہ کافر، کافر کے کسی عمل کا کوئی اجر نہیں ہوتا۔ کافر کے سب عمل رائیگاں ہوتے ہیں ابولہب کافر ہو کر بھتیجے حضور کی ولادت کی خوشی کی۔ اس کا عذاب دوزخ سوموار کے دن کم ہو گیا جو مومن عاشق رسول ہو کر میلاد مصطفی کرے گا تو جب وہ کرے گا تو خدا کی رحمت کا عالم کیا ہوگا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب حضور علیہ الصلاۃ والسلام مدینہ گئے وہاں سے ہجرت فرما کے مدینہ گئے تو آپ نے اپنا دوبارہ عقیقہ کیا تو بکرے ذبح کیے۔ گوشت لوگوں میں تقسیم کیا امام جلال الدین سیوطی بیان کرتے ہیں۔
امام جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں یہ چونکہ عقیقہ ولادت کی خوشی میں ہوتا ہے۔ حقیقت میں یہ عقیقہ نہیں تھا لوگ عقیقہ سمجھے اصل میں مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنا میلاد منایا تھا۔ حضور نے میلاد منایا اور میلاد منانا آقا علیہ صلاۃ و سلام کا اپنا سنت ہوگیا ہے۔ جب میلاد کا مہینہ آتا ہے تو میلاد میں کیا ہوتا ہے؟ لوگ کہتے ہیں کہ حضور کی کوئی دوبارہ ولادت ہو رہی ہے خوشی کر رہے ہوتے ہیں اور کھڑے ہوگئے ہو اور چراغاں کرتے ہو اور ایک کیفیت بنا لیتے ہو اور جلسہ جلوس کرتے ہو اور ایک جشن مناتے ہو تو کیا دوبارہ ولادت ہو گئی۔ ولادت تو چودہ سو سال پہلے ہو ئی تھی تو تمہارے ہر سال ایسے کیوں کرتے ہو۔؟
اس بات کا جواب یہ ہے کہ جب ہم حج کرنے جاتے ہیں تو اپنے کپڑے اتار دیتے ہیں اوردو کھلی چادریں پہن لیتے ہیں یہ چادریں کس کی یاد ہیں؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لباس کی یاد ہے کہ آج شلوار قمیض کا زمانہ ہے لباس اتار کر چادر پہن لیا۔ کیونکہ شلوار قمیض کے ساتھ حج نہیں ہو سکتا تھا؟ کوئی حرج تھا؟ اللہ نے فرمایا نہیں حج کے لئے آئے ہو میری ابراہیم کی یاد مناؤ لباس نے یاد منائی ہے۔ صفا مروا پر گئے کیونکہ حضرت ہاجرہ صفا مروا پر دوڑی تھیں۔ حضرت اسماعیل کے پانی کے لئے چار ہزار سال گزر گئے آپ کا حج نہیں ہوتا جب تک صفا مروہ کی سعی نہیں کرتے سات چکر نہ لگائیں۔ پہاڑوں پر دوڑے دوڑے پھر نا کون سی عبادت ہے؟ اس میں قرآن کی تلاوت نہ ذکر اور نہ نعت نہ ذکر نہ اذکار آتا ہے کچھ بھی پڑھ لیں نہیں آتا تو کچھ نہ پڑھیں تب بھی صفا مروا کی سعی ہوجائے گا۔ کیونکہ اللہ نے چاہا کہ میری ہاجرہ کی یاد منائی جائے۔
آپ عرفات میں پہنچ گئے 9 ذوالحج کو اور وہاں جاکر کوئی چاہے جا کر نفل پڑھے نہ پڑھے، خطبہ سنے یا نہ سنے، عبادت کرے یا نہ کرے، تسبیح کرے نہ کرے ،تلاوت کرے نہ کرے، کوئی کام فرض نہیں 9ذوالحج کو جو عرفات میں پہنچ گیا۔ آپ کا حج بن گیا۔ فرمایا حج میں اپنے پیارے نبیوں کی یاد مناتا ہوں۔ باری تعالی یہ کس کی یاد ہے ؟جب آدم اور حوا اترے ایک دوسرے کی تلاش میں جب اس زمین میں پہنچے اس میدان میں پہنچے مل گئے تھے۔ یہ آدم وحوا کی یاد ہے۔ تمہارا حج بن گیا۔ مزدلفہ میں گئے۔ کنکریاں چنی منیٰ میں آگئے اور فرمایا یہ پتھروں کے بنے ہوئے شیطان ہیں تم ان کو کنکریاں مارو۔ وہ تو اسماعیل کے پاس شیطان آیا تھا اور فرمایا یہ پتھروں کے بنے ہوئے شیطان ہیں انہیں کنکریاں مارو۔ اسماعیل کے پاس شیطان آیا تھا روکنے کے لیے کنکریاں ماریں۔ اب شیطان نہیں کھڑا۔ پتھر کے ستون ہیں اس کو کنکریاں مارتا ہے عقل سے پوچھا ہے کوئی جواب کسی کے پاس ؟نہیں سوائے اس کے کہ میرے اسماعیل نے کنکریاں ماری تھی۔ اصل شیطان ہو یا نہ ہو ستون کھڑا کر کے اسماعیل علیہ السلام کی کنکریاں مارنے کی یاد تازہ کرنے کا نام ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یاد چار ہزار سال بعد کر لو تو جائز۔ اسماعیل علیہ السلام اور ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا کی یاد دوڑ لگا کر چار ہزار سال بعد بھی کرلو تو جائز۔ کنکریاں مار کر اسماعیل علیہ السلام کی یاد چار ہزار سال بعد بھی کرلو تو جائز۔ تمہارا حج ہو گیا اور ان سب نبیوں کا بڑا نبی محمد مصطفی کی خوشی چودہ سو سال بعد مناؤتو نا جائز ہے؟
حضور کے قصیدے پڑھنا اور حضور کی نعتیں پڑھنا یہ بھی خود مصطفی کی سنت ہے ،میلاد مصطفی کا ایک ایک جز سنت نبوی ہے۔ سب سے پہلے تو حضور کی نعت پڑھنا خدا کی سنت ہے۔
وَ رَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ. (سورہ انشراح)
اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا۔
مَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰٓی. (طٰہٰ)
(اے محبوبِ مکرّم!) ہم نے آپ پر قرآن (اس لئے) نازل نہیں فرمایا کہ آپ مشقت میں پڑ جائیں۔
لَآ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِ. (البلد)
میں اس شہر (مکہ)کی قَسم کھاتا ہوں۔
وَ اَنْتَ حِلٌّ بِهٰذَا الْبَلَدِ.
(اے حبیبِ مکرّم!) اس لئے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیں۔
اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ اَزْوَاجُهٓ. (سورہ حزاب)
نبیِ (مکرّم) مومنوں کے ساتھ اُن کی جانوں سے زیادہ قریب اور حق دار ہیں اور آپ کی اَزواجِ (مطہّرات) اُن کی مائیں ہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ روایت کرتی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نعت خوانی کی محفل ایک بار نہیں ہمیشہ قائم کیا کرتے تھے۔ فرمایا ممبر لگاؤ اور ممبر پر حضرت حسان بن ثابت کو کھڑا کرتے اور حسان بن ثابت ممبر پر کھڑے ہو کر حضور کی نعتیں پڑھتا تھا۔
ہاتھ اٹھا کر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی جب تک حسان میری نعتیں پڑھتا رہے تو جبرائیل کو اس کے پیچھے کھڑا کرکے اس کی مدد کرتا رہ۔ حضرت اسود بن سریر ایک اور نعت خوان ہیں۔ عرض کیا یا رسول اللہ میں نے اللہ کی مدح بھی لکھی ہے۔ آپ کی نعت بھی لکھی ہے صحابی سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اپنی نعتیں لے کر آؤ فرمایا پہلے اللہ کی حمد پڑھو اور پھر مجھے نعتیں سنا۔
حضرت سلمہ بن اکوع روایت کرتے ہیں: ہم خیبر کی جنگ کی طرف حضور کے ساتھ گئے۔ ایک شخص نے کہا عامر بن اکوع آؤ کچھ نعت سناؤ مصطفی کی محفل میلاد کرتے ہیں۔ اور حضور ساتھ تھے۔ پھر انہوں نے آکر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعتیں پڑھی اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صدارت میں سب صحابہ نے خیبر کے راستے میں بیٹھ کر نعت پڑھی اور ابن عساکر اور امام احمد بن حنبل بیان کرتے ہیں حضرت عبداللہ بن رواحہ بھی حضور کے سامنے کھڑے ہو کر حضور کی نعتیں پڑھتے تھے۔ حضور ممبر بچھاتے ممبر پر نعت خوان کھڑا کرتے نعت سنتے۔ اپنا بیان میلاد کرتے۔ اپنی شان رسالت بیان کرتے۔ صحابہ کی محفل ہوتی یہ سب کچھ ہمیشہ سے سنت مصطفی ﷺ تھا۔ ہم میلاد میں کیا کرتے ہیں قیام۔
درود و سلام پڑھنا نبی کے میلاد کے دن اللہ کی سنت ہے۔
نبی کی ولادت کے دن سلام پڑھنا خدا کی سنت ہے۔ سورہ مریم میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کے لئے اللہ پاک نے فرمایا کہ سلام علیہ یوم ولد جس دن یحییٰ کا میلاد ہوا ہے۔ میلاد یحییٰ کے دن خدا نے سلام پڑھا تو میلاد مصطفی کے دن سلام کیوں نہ پڑھا جائے۔ اسی سورۃ مریم میں حضرت عیسی نے کہا السلام علی یوم ولد ت جس دل میری ولادت ہوئی میلاد ہوا اس دن پر سلام ہوا تو میلا د یحییٰ کے دن سلام خدا نے پڑھا۔ میلاد عیسی کے دن سلام خدا نے پڑھا اور خدا کا سب سے مقبول عمل سلام ہے اللہ نے فرمایا اللہ کا قول اور اللہ کا خطاب سلام ہے اللہ نے فرمایا سلام علی نوح فی العلمین سلام پڑھا نوح پر فرمایا سلام علی ابراہیم سلام پڑھا گیا ابراہیم پر فرمایا سلام علی موسی و ھرون سلام پڑھا گیا۔ اللہ نے فرمایا سبحن ربک رب العزۃ عما یصفون لوگ ہو تم اللہ کی تعریف کرتے ہو اللہ کی توحید بیان کرتے ہو فرمایا میں اس سے بلند ہوں تو عرض کیا باری تعالیٰ تیری تعریف کرنا چاہیں تو کیا کریں؟
فرمایا طریقہ میں بتاتا ہوں فرمایاسلم علی المرسلین پہلے میرے نبیوں پر سلام کرو والحمد للہ رب العالمین پھر میری حمد کرو گویا حمد اس کی قبول کروں گا۔ جو میرے نبی پر سلام پڑھنے کے بعد حمد کرے گا۔ اللہ نے فرمایا اللہ نبی پر درود و سلام پڑھتا ہے اور فرشتے بھی سارے پڑھتے ہیں ایمان والو تم بھی رسول پر درود پڑھو اور سلام بھی کرو۔
امام زین العابدین نے فرمایا کسی نے پوچھا اہل سنت کی پہچان کیا ہے فرمایا جو مصطفی ﷺ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ درود و سلام پڑھتا ہے وہی سچا سنی ہے۔
اسی کا عقیدہ عقیدہ اہلسنت ہے۔ اگر صلاۃ پڑھو درود پڑھو تو ثواب ملتا ہے۔ جو میرے مصطفی پر ایک درود پڑھے اس کو دس نیکیاں دیتا ہوں دس برکت دیتا ہوں دس درجے بلند ہوتے ہیں اور دس گناہ معاف ہوتے ہیں اگر مصطفی کی بارگاہ میں درود پڑھو تو دس نیکیاں دس درجے ملتے ہیں اگر درود پڑھو تو ثواب ملتا ہے وہ اگر سلام پڑھو تو مصطفی کی بارگاہ سے جواب ملتا ہے درود پڑھو تو ثواب ملتا ہے اگر سلام پڑھو تو مصطفی کی بارگاہ سے جواب ملتا ہے۔
حضور کا میلاد کرنا یہ آج کا نہیں یہ ائمہ کے دور کی سنت ہے۔ جلال الدین سیوطی نے بیان کیا اہل مصر میلاد کرتے تھے اہل شام میلاد کرتے تھے اور امام سخاوی لکھتے ہیں کہ جب 12ربیع الاول آتا مکہ میں میلاد ہوتا تھا 11 ربیع الاول کی ظہر کے بعد چھٹی ہوجاتی تھی مکہ میں اور ہر نماز کے بعد پہاڑوں پر توپوں کی سلامی ہوتی تھی مصطفی ﷺ کے میلاد کی خوشی میں اور 12 ربیع الاول کی رات محفل میلاد صحن کعبہ میں ہوتی تھی۔ کل شافعی مالکی حنبلی علماء جمع ہوتے اور میلاد کا جلوس نکالتے مشعل ہاتھ میں لے کر حضرت بی بی آمنہ کے گھر جاکر وہاں درود و سلام کی محفل میلاد ہوا کرتی تھی۔ پورے جہان میں میلاد کی محفلیں ہوتی۔
لہذا حضور کے میلاد اور درود و سلام کی وہ دھوم مچا دو کہ میلاد کے انکار کی جڑیں کٹ کے رہ جائیں اور گنبد خضری میں تمہارے درودوسلام کے ترانے گونج گونج کر بارگاہ مصطفی میں جائیں اور تمہیں سلام کے جواب آئیں۔