لاہور کے مال روڈ پر شہدائے ماڈل ٹائون کے لواحقین اور زخمیوں کے خاندانوں سے اظہار یکجہتی کے لئے ہونے والا خواتین اور بچوں کا ایک روزہ دھرنا بلاشبہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک بڑا اجتماع تھا۔ پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس اور عجائب گھر کے درمیان مال روڈ کی دونوں اطراف کی سڑک استنبول چوک سے انار کلی تک ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور معصوم بچوں سے بھری ہوئی تھی۔ ایسا منظر بلاشبہ گذشتہ 3 دھائیوں میں تو نہیں دیکھا گیا۔ سخت گرمی اور حبس میں دوپہر 12 بجے سے 10 بجے رات تک رہنے والے اس دھرنے میں خواتین اور خصوصاً بچوں کا جوش و جذبہ اور انہماک قابل دید اور داد تھا۔ یہ یقینا ایک حیران کن اور غیر معمولی سیاسی رویہ تھا جو پاکستان کی سیاست میں ابھر کر سامنے آیا۔
انصاف کے حصول کے لئے سوا تین سال میں یہ پہلا اجتماع تھا جو باقاعدہ پاکستان عوامی تحریک کی طرف سے نہیں بلکہ شہدائے ماڈل ٹائون کے لواحقین کی طرف سے تھا۔ اس کی ٹائمنگ اور اہمیت سے خائف پنجاب حکومت نے آخری دم تک کوشش کی کہ خواتین اور بچوں کے احتجاج کو ایسی جگہ منتقل کیا جائے جہاں یہ زیادہ توجہ حاصل نہ کرپائے مگر ہائیکورٹ نے احتجاج کے لئے جگہ نہ بدلنے کا فیصلہ دے کر دکھی لواحقین کو مزید دکھی ہونے سے بچالیا۔
بیریئر ہٹانے کے نام پر بدترین ریاستی دہشت گردی کا واقعہ ہوئے سوا تین سال ہونے کو ہیں۔شہدائے ماڈل ٹائون کو انصاف سے محروم رکھنے کیلئے پنجاب اور مرکزی حکومت کا اب تک کا رویہ انہیں مجرم ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔ مرکزی اور صوبائی حکومت کے وزراء نے عوام کو گمراہ کرنے کی مذموم کوششیں بھی جاری رکھیں کہ PAT اپنے شہداء کے لئے انصاف لینے میں ناکام ہوگئی ہے مگر عوام کا باخبر حصہ یہ خوب جانتا ہے کہ فرعون کی طاقت اور قارون کے خزانے رکھنے والے بے بسی کی تصویر بن چکے ہیں اور پاکستان عوامی تحریک انصاف کے حصول کے لئے ایک انچ بھی پیچھے ہٹتی دکھائی نہیں دی۔ پاکستان عوامی تحریک نے جس جرات اور استقامت سے انصاف لینے کے لئے جدوجہد کی ہے لگتا ہے کہ یہ پاکستان کی سیاست کا زریں باب بنے گا۔ یہاں انصاف کے حصول کو لگنے والی مہمیز کی وجہ جاننا بھی بہت ضروری ہے۔
JIT کی تہلکہ خیز رپورٹ پاکستان کی سیاست کے ٹھہرے تالاب میں بلندی سے گرنے والے بڑے پتھر کی مانند تھی جس نے سب کچھ ہلا کر رکھ دیا۔ اس تاریخی آغاز کے پہلے مرحلے کو اعلیٰ عدلیہ کے پانچ ججوں نے مکمل کیا۔ بلاشبہ JIT کے جرات مند اور محنتی افسران اور اعلیٰ عدلیہ کے معزز ججز نے آئین و قانون کے مطابق فیصلہ دے کر نظریہ ضرورت کو دفن اور قانون کی بالادستی اور جرأت مندی کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ مستقبل کے مورخین جب بھی پاکستانی سیاست کے سیاہ، مکروہ اور بدترین دور کی تاریخ لکھیں گے تو مذکورہ بالا افسران اور ججوں کو قوم کا ہیرو قرار دینے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ سیاست کو کرپشن، کمیشن ،الزام اور تہمت کی آلائشوں سے جوڑنے والے نااہل خاندان نے ریاست پاکستان کے خلاف گھنائونا کھیل کھیلا ،ان کی گرفت ناگزیر ہوگئی تھی، سو پاکستان کے پانچ سپوتوں نے اپنا فرض خوب نبھایا یقینا وہ افراد نہیں پانچ شخصیتیں ہیں اور پاکستان کے سب سے بڑے ادارے کا فخر ہیں۔ بلاشبہ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں پہلی بار برسراقتدار افراد کا احتساب ہوا ان سے ان کی دولت کے ذریعے پوچھے گئے اور منی ٹریل دینے میں ناکامی پر انہیں خائن قرار دیا گیا، قوم توقع رکھتی ہے کرپشن، بے ایمانی کا یہ کیس منطقی انجام کو پہنچے گا اور کرپشن کے جملہ کردار بے نقاب ہونگے اور قومی دولت خزانے میں جمع ہو گی۔
یہ امر انتہائی اہم ہے کہ 62,63 کی زنگ آلود جس تلوار سے شہنشاہ وقت کا غرور قلم ہوا اس کی دھار کو چار سال سے زائد مدت تک ڈاکٹر طاہرالقادری کے دیئے ہوئے شعور کی ریتی نے تیز کیا ہے۔ جنوری 2013ء کی یخ بستہ راتوں میں پانچ روز تک D چوک میں ٹھہرنے والے ہزاروں کارکنوں نے 62,63 کے نفاذ کے لئے جو محنت کی وہ بالآخر ثمر بار ہوئی ہے، پاکستانی سیاست میں یہ بات مان لی گئی ہے کہ قائد ڈاکٹر طاہرالقادری اور ورکر PAT کے ہوں تو کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔
ڈبہ نمبر10 کی چار فائلیں نیب کے سپرد ہوگئی ہیں، معزول شہنشاہ اور اس کے شہزادوں نے پیش ہونے سے بھی انکار کردیا ہے۔ عجیب بے بسی ہے اپنی حکومت میں بادشاہ جی ٹی روڈ پر در بدر نیم پاگل جیسی گفتگو کرتا ہوا گھر کو آیا ہے۔ اب نیم پاگل نہ ہوتا تو کہا جاسکتا تھا کہ لوٹ کے بدھو گھر کو آیا، ایسا اس لئے بھی نہیں کہہ سکتے کہ کرپشن کا ھمالیہ کوئی بدھو سر نہیں کرسکتا، اس کے لئے بڑی پلاننگ اور جان لیوا محنت درکار ہوتی ہے۔ ساری محنت چونکہ غلط سمت میں ہوئی اس لئے ھمالیہ سے لڑھکنا بھی یقینی تھا بلندی چونکہ بہت زیادہ ہے اس لئے سطح زمین تک آنے میں وقت تو لگے گا۔
پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید، پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، ق لیگ اور دیگر سیاسی جماعتوں نے شہداء کے لواحقین سے جس طرح اظہار یکجہتی کیا وہ عیاں کررہا تھا کہ شہداء کے لواحقین کا دھرنا دینے کا فیصلہ بڑا بروقت تھا۔ جسٹس علی باقر نجفی کی رپورٹ جس دن منظر عام پر آئے گی انصاف کی سمت جانے والا دروازہ کھل جائے گا۔
شہید تنزیلہ کی بیٹی اور شہید شازیہ کی بھتیجی بسمہ کی تقریر نے ٹی وی سکرینوں سے جڑی لاکھوں کروڑوں آنکھوں کو رلایا اور مال روڈ پر ہزاروں مائوں، بہنوں، بیٹیوں کو تڑپا کر رکھ دیا۔ اس بچی کے الفاظ نے دلوں کو چیر اور آنکھوں کو ڈبڈبادیا۔ سانحہ ماڈل ٹائون کے بعد ڈاکٹر طاہرالقادری کی آنکھوں کے بند یقینا تنہائی میں تو لاتعداد مرتبہ ٹوٹے ہوں گے مگر اس بچی کے کرب نے انہیں ایک بار پھر آبدیدہ کردیا اور وہ مختصر وقت کے لئے اپنی بھرائی ہوئی آواز میں اظہار خیال پر مجبور ہوئے۔ ان کا لہجہ اور الفاظ باطن میں موجود درد کی شدت کا پتہ دے رہے تھے۔ لوہے کے اعصاب رکھنے والا قائد انقلاب شہید ماں کی بیٹی کے کرب کی شدت کو محسوس کرکے تڑپ اٹھا تھا، سوا تین برس سے سینے میں موجود درد کا سمندر جوش میں آکر اس کی آنکھوں سے چھلک پڑا تھا۔ اس کی پرسوز آواز نے پنڈال میں موجود ہر فرد کا سینہ چیر دیا تھا۔ درد کی شدت نے سارے گلوب پر پھیلے درد مند پاکستانیوں کی آنکھوں کو بھی نم کردیا تھا جو اس اہم ترین دھرنے کو ٹی وی سکرین پر دیکھ رہے تھے۔
دھرنے میں موجود ہزاروں مائوں، بہنوں، بیٹیوں اور بچوں کا عزم مصمم بتارہا تھا کہ وہ ماڈل ٹائون کے شہداء کو انصاف دلاکر رہیں گے۔ انصاف کے حصول کے لئے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ نے عیدالاضحی کے بعد فیصل آباد، ملتان اور راولپنڈی کے جلسوں کا اعلان بھی کردیا ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کی استقامت اپنے قائد کے عظیم جذبوں کا عکس ہے اس لئے ایسے تحریکیوں کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا چاہے حکمران کتنا ہی ظالم اور طاقتور کیوں نہ ہو۔ فرعون کے ظلم اور قارون کی دولت کو یہ فاقہ کش غریب شکست دے چکے ہیں کیونکہ روح محمد ان کے بدنوں میں سلامت اور ترو تازہ ہے۔
دھرنے کی اہم بات ہائیکورٹ کے حکم کی پاسداری تھی دھرنے کو 10 بجے رات ختم کرکے ڈاکٹر طاہرالقادری نے ایک مرتبہ پھر ثابت کیا کہ جس آئین اور قانون کی پاسداری کی وہ بات کرتے ہیں پہلے وہ خود اس پر عمل کرتے ہیں۔(قاضی فیض الاسلام)