چہرے پر مسکراہٹ نیکی ہے:
ہمارے یہ چہرے اللہ کی نشانی اور اس کے رسول کی نشانی ہیں۔ اس لئے ہمیں ان چہروں پر وہ صفات لے کر آنی ہیں جو ہمیں اللہ اور اس کے رسول کے قریب کریں۔ ہمارے چہرے اللہ کی معرفت و قربت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور اطاعت کے مظہر ٹھہریں۔ اسلام میں سب سے کم تر نیکی اور سب سے ہلکی نیکی، اپنے چہرے پر مسکراہٹ لانا ہے۔ جب ایک مسلمان اپنے کسی دوسرے مسلمان بھائی سے ملاقات کرے اور اس کے ساتھ آمنا سامنا ہو تو اپنے چہرے کو پرتبسم بنائے اور اپنے چہرے پر مسکراہٹ لائے، اپنے چہرے پر مسکراہٹ لانا ایسے ہی ہے جیسے کسی کی آمد پر انتہائی خوشی و مسرت کا اظہار کرتے ہوئے پھولوں کا گلدستہ پیش کیا جائے۔ گویا مسکراتے ہوئے چہرے سے کسی کو خوش آمدید کہنا اور اپنے چہرے پر تبسم کا اظہار کرنا اسلام نے اسے بھی نیکی قرار دیا ہے۔ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
عن ابی ذر قال قال لی النبی صلی الله عليه وآله وسلم لا تحقرن من المعروف شيئا ولو ان تلقی اخاک بوجه طلق.
’’حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہرگز کسی نیکی کو حقیر نہ جانو خواہ اپنے مسلمان بھائی سے مسکراتے ہوئے چہرہ سے ملنا ہی کیوں نہ ہو‘‘۔
یعنی فرمایا ممکن ہے تمہارے نزدیک مسکراتے چہرے کے ساتھ کسی کو اھلاً و سھلاً مرحبا کہنا یہ حقیر نیکی ہو، مگر یاد رکھو اللہ اور اس کے رسول کی نظر میں یہ نیکی بھی حقیر نہیں ہے۔ اللہ اس پر بھی اجرو ثواب دینے والا ہے۔
اسلام میں نیکی کی حقیقت:
کتنی ہی عجب بات ہے کہ اسلام دوسرے انسان سے چہرے کی مسکراہٹ کے ساتھ ملنے کو بھی نیکی قرار دے رہا ہے۔ یہ تو انسانی آداب میں سے ہے کہ جب بھی کوئی انسان دوسرے انسان کو ملے تو ملاقات کے وقت تبسم و مسکراہٹ کا اظہار کرے مگر اسلام اس عام انسانی عمل کو بھی عمل خیر قرار دیتا ہے۔ باعث اجرو ثواب گردانتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ہر نیکی صدقہ ہے (ہر نیکی پر ثواب ہے) ‘‘
(احمد بن حنبل المسند، 3: 340)
اپنے مسلمان بھائی کو مسکراتے ہوئے چہرہ سے ملنا بھی نیکی ہے اس کے علاوہ اسلام کس کس انسانی عمل کو نیکی قرار دیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ہی روایت کرتے ہیں:
قال رسول وان تفرغ من دلوک فی اناء اخيک.
(جامع ترمذی کتاب البر والصله باب ماجاء فی طلاقة الوجه، 4: 347، الرقم 1970)
’’اگر تو اپنے بھائی کے برتن میں اپنے ڈول سے اسے پانی دے دے تو یہ بھی نیکی ہے‘‘۔
گویا کسی پیاسے کو پانی پلانا، کسی کو پانی کی فراہمی میں مدد دینا، کسی کی پانی کی حاجت کو پورا کرنا، کسی کی پاس بجھانا یہ سارے کا سارا عمل نیکی ہی ہے۔ یہ نیکی انسان کے چہرے پر خوشی لاتی ہے اور اس چہرے کو مسرور بناتی ہے اور ہر نیکی انسان کو فرحت دیتی ہے۔ اسی طرح حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’تمہارے اپنے مسلمان بھائی کا تبسم کے ساتھ سامنا کرنا نیکی ہے۔ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا نیکی و صدقہ ہے۔ بھٹکے ہوئے کو راستہ بتانا نیکی و صدقہ ہے۔ کسی کمزور بصارت والے کو راستہ بتانا اور دکھانا نیکی و صدقہ ہے۔ راستے سے پتھر ہٹانا اور کانٹا دور کرنا اور کسی ہڈی کو راستے سے دور کرنا بھی نیکی و صدقہ ہے اور اپنے ڈول سے دوسرے بھائی کے ڈول و برتن میں پانی ڈالنا بھی نیکی و صدقہ ہے‘‘۔
(سنن ترمذی، کتاب البر والصلة باب ماجاء فی الشکر)
اسلام منفعت بخشی کا دین ہے اسلام دوسرے کے کام آنے کا دین ہے۔ دوسروں کی انسانی حاجتوں اور ضرورتوں کو پورا کرنے کا دین ہے۔ دین خود غرضی کی نہیں ایثار اور قربانی کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام میں نیکی مشکل نہیں بلکہ آسان ترین ہے۔
انسانی چہرے کی مسکراہٹ محبت کا اظہار ہے:
یہ سارے اعمال ایسی نیکی اور ایسا صدقہ ہیں جو انسان کو اللہ کی بارگاہ میں اجرو ثواب کا مستحق بھی کرتے ہیں اور انسان کو دنیوی مشکلات اور مصائب سے بھی نجات دیتے ہیں اور اس کے ساتھ انسان کی طبیعت و مزاج اور چہرے میں خوشی و فرحت کے آثار بھی پیدا کرتے ہیں۔ انسان کا ہنستا مسکراتا چہرہ ہی دوسروں کو اپنائیت اور محبت کے احساسات اور جذبات دیتا ہے۔ دوسرے لوگوں کی خدمت کرتے ہوئے مسکراتے چہرے اس دنیا میں بھی تبسم ریز رہتے ہیں اور آخرت میں بھی مسکراتے رہیں گے۔
حضرت یحیی بن کثیر سے مروی ہے ایک شخص بہت زیادہ ہنستا رہتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا:
’’آگاہ ہوجاؤ وہ شخص ہنستے مسکراتے ہوئے جنت میں بھی داخل ہوگا‘‘
(ابن ابی الدنيا، الاخوان)
ہم دوسرے لوگوں کو اپنی خندہ پیشانی اور کشادہ جبینی اور اپنے مسرور کن چہرے کے ساتھ اپنا بناسکتے ہیں۔ خندہ پیشانی سے وہ کام کیا جاسکتا ہے جو مال کی وسعت کے باوجود بھی نہیں کیا جاسکتا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’تم ہرگز اپنے مال کے ذریعے لوگوں کو اپنا گرویدہ نہیں کرسکتے مگر خندہ پیشانی کے ذریعے انہیں اپنا گرویدہ کرسکتے ہو‘‘
(ابويعلی، المسند، بيهقی، شعب الايمان)
لہذا آپ کی مسکراہٹ کسی کو خرید سکتی ہے مگر آپ کا مال کسی عزت دار شخص کو نہیں خرید سکتا اس لئے مسکراتا ہوا کشادہ اور تبسم ریز چہرہ اللہ کی نعمت ہے اور اس نعمت خداوندی کو اپنے چہروں پر عیاں کرو اور اپنے چہروں کو مسکراہٹ کے ذریعے پرنور بنائو۔
خلاصہ کلام:
کیونکہ اسلام مسلمانوں کے چہروں پر انسانیت کے لئے مسکراہٹ اور تبسم ریزی دیکھنا چاہتا ہے اس لئے قرآن کہتا ہے اپنے چہروں کو غضب والا چہرہ نہ بنائو۔ باری تعالیٰ ہمارے خلق کو خلق تبسم اور خلق بسط الوجہ عطا فرمائے۔ آمین