شہرِ اعتکاف کی ویمن اعتکاف گاہ میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا خصوصی تربیتی خطاب
ترتیب و تدوین: صاحبزادہ محمد حسین آزاد
معاونت: محمد ظفیر ہاشمی
مورخہ 20 جون 2017ء کو جامع المنہاج بغداد ٹائون ٹائون شپ کے شہرِ اعتکاف کی ویمن اعتکاف گاہ میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ’’صبر، شکر، دعوت اور رفاقت کی اہمیت‘‘ کے موضوع پر خصوصی تربیتی خطاب فرمایا جو ایڈیٹنگ کے بعد نذرِ قارئین کیا جارہا ہے۔ منجانب: ادارہ دختران اسلام
عظیم مقصد محنت اور مشقت سے حاصل ہوتا ہے:
یہ بات یاد رکھیں کہ جتنا مقصد عظیم ہوتاہے وہ عظیم مقصد اُتنی ہی تکلیف سے حاصل ہوتا ہے اور جو چیز آسانی سے حاصل ہو جائے وہ چیز بڑی نہیں ہوتی۔ جتنی تکلیف ہو اُتنی ہی وہ شے بڑی ہوتی ہے۔ لہذا جو چیز جتنی تکلیف کے بعدملے وہ اُتنی محبوب اور عظیم ہوتی ہے۔لہذا اللہ سے لو لگانا بھی آسان نہیں۔ اس لئے اس سے عشق و محبت کرنا ہے تو کربلا والوں سے جا کے سیکھو۔ اس سے پیار کرنا ہے تو حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ سے سیکھو، اس سے پیار کرنا ہے تو حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ سے سیکھو جن کو بادشاہ نے طلب کر لیا تھا اور پاؤں میں موٹے موٹے زنجیروں کے ساتھ مصر سے چلے تھے بغداد آئے تھے اور پوری ٹانگیں خون خون ہو گئیں تھیں۔ لہذا مجھ سے پیار کرنا ہے تو ان اللہ کے پیاروں سے پوچھو۔ یا اِتنی بڑی بات نہ کرو کہ اللہ سے لو لگانے آئے ہیں، یہ چاہت نہ رکھو۔ چھوٹی چاہتیں رکھیں۔ وہ آسانی سے مل جاتی ہیں۔ آپ محاورۃًبھی کہتے ہیں۔ ’’اونٹوں سے دوستی ہو تو دروازے اونچے رکھنے پڑتے ہیں‘‘۔ پھر اونٹوں سے دوستی نہ کرو اگر دروازہ چھوٹا رکھنا ہے تو بکری سے دوستی کر لو اور اگر حوصلے کی اور صبرکی کھڑکی چھوٹی سی رکھنی ہے تو مرغی سے دوستی کر لو، وہ تو اِتنی جگہ سے گزر جاتی ہے، چڑیا سے دوستی کر لو۔ لہذا یہ سمجھ لیں کہ جتنی تکلیف اُتنا زیادہ اجر، جتنی تکلیف اُتنی بڑی دوستی، جتنی بے آرامی اُتنا زیادہ کرم، جتنی مشقت اُتنا بڑا انعام، جتنی مشکلات، اُتنی بڑی سنگت۔
اللہ اور فرشتوں کی نگاہ آپ کی طرف ہے:
اللہ تبارک وتعالیٰ دیکھتا ہے کہ یہ میری بندیاں، میری محبت میں، میرے عشق میں، مجھ سے لو لگانے کے لیے آ تو گئی ہیں۔ اللہ کی نگاہ اُس کے در پر بیٹھے ہوئے معتکفین اور معتکفات پر ہے۔ آپ کی طرف ہے اور ملائکہ کی نگاہ بھی آپ کی طرف ہے اور فرشتے بھی آئے ہوئے ہیں جو آپ کے ساتھ ذکر کی مجلس میں سارا دن چوبیس گھنٹے بیٹھے رہتے ہیں۔ اُنہوں نے جاکے رپورٹ بھی کرنی ہوتی ہے۔ اب فرشتہ جاکے رپورٹ کرے گا۔سوچیں ایک فرشتہ اگر جاکے کسی کی رپورٹ کرے کہ باری تعالیٰ آئی تو تھی یہ تیری بندی، تیرے عشق میں، تیری محبت میں، تجھ سے لو لگانے مگر یہ شکوہ اور شکایت بھی کررہی تھی۔
اب آپ سوچیں۔ اگر دس، پندرہ ، بیس ، پچاس، سو، دو سو فرشتے ہر روز جاکے رپورٹ دیتے ہیں اور جو فرشتے صبح آتے ہیں وہ نماز مغرب کے وقت چلے جاتے ہیں۔ نماز مغرب کے وقت فرشتوں کی نئی جماعت آجاتی ہے ابھی پہلے فرشتوں کی ڈیوٹی تھوڑی دیر بعد ختم ہو جائے گی۔ وہ بیٹھے ہوئے ہیں مجھے پتہ ہے وہ بیٹھے ہیں آپ کے ارد گرد، دائیں بائیں سب بیٹھے ہیں۔ وہ میری یہ باتیں بھی لکھ رہے ہیں کہ میں یہ سمجھا رہا ہوں۔ اُنہوں نے یہ رپورٹ بھی دینی ہے اور اُنہوں نے فجرکے وقت جانا ہے اور پوری رپورٹ دینی ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور بشر الحافی رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ:
حضرت امام احمدبن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں ایک بہت بڑے ولی اللہ، عارف، عاشق اور اللہ کے دوست تھے۔ ہمارے بھی دوست ہوتے ہیں۔ آپ کی بھی دوست ہوتی ہیں۔ مگر کچھ ایسے لوگ ہیں جن کا دوست اللہ ہوتا ہے۔
اور پھر اللہ سے پوچھتے ہیں کہ باری تعالیٰ تیرے بھی کوئی دوست ہیں؟وہ کہتا ہے ہاں، میرے بھی دوست ہیں۔ ہم نے سنا ہے تیرے صرف بندے ہوتے ہیں۔ وہ کہتا ہے نہیں بندوں میں سے کچھ دوست بھی ہوتے ہیں۔ کیسے؟ اللہ پاک نے قرآن مجید میں فرمایا:
اَﷲُ وَلِیُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا.
(البقرة، 2: 257)
’’اﷲ ایمان والوں کا دوست ہے‘‘۔
دوسرے مقام پر یوں ارشاد فرمایا:
اَ لَآ اِنَّ اَوْلِيَآءَ اﷲِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَo
(يونس، 10: 62)
’’خبردار! بے شک اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے‘‘۔
معلوم ہوا کہ کچھ بندے اللہ کے دوست ہوتے ہیں اور کچھ بندوں کا اللہ دوست ہوتاہے۔ لہذا اُدھر بھی دوستی کا رشتہ ہے۔
اللہ کی باتیں سننے بشرا لحافی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس جاتا ہوں:
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں شہرِ بغداد میں اللہ کا ایک بڑا پیارا دوست تھا۔ اُن کا نام بشرالحافی رحمۃ اللہ علیہ تھا، وہ اللہ کے عشق میں ننگے پاؤں پھرتا تھا۔ امام احمدبن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اُن کی مجلس میں جاکے بیٹھتے تھے اور ان کی باتیں سنتے تھے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کو اُن کے شاگردوں، علمائ، فقہاء اور بڑے بڑے لوگوں نے کہا کہ ساری دنیاآپ کے پاس آتی ہے اور آپ جا کر بشر الحافی رحمۃ اللہ علیہ ننگے پاؤں پھرنے والے فقیر کے پاس جا کے بیٹھتے ہیں۔ آپ کیوں جاتے ہیں؟تو امام احمدبن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے بتایا۔ ساری دنیا میرے پاس اِس لیے آتی ہے کہ وہ مجھ سے شریعت کی باتیں سنتے ہیں اور میں اُن کے پاس اللہ کی باتیں سننے جاتا ہوں۔
اعتکاف میں بھی آپ اسی لئے آئی ہیں کہ کسی بندے سے اللہ تعالیٰ کی باتیں سنیں تاکہ اس کی باتیں سن سن کر ہمیں بھی کچھ اُس سے پیار ہو جائے۔ کیونکہ جس کی بات کثرت سے کرتے رہو کہ وہ اتنا خوبصورت ہے، اِتنا حسین وجمیل ہے، اِتنا اچھا ہے، اِتنا خلیق ہے، اِتنا سخی ہے، اِتنے اُس کے اچھے انداز ہیں۔ (جیسے ہر روز میرے خطاب میں تعریف سن رہی ہیں)۔ اس طرح ہر روز اس کی تعریف سن کے اور باتیں سن سن کے مانوس ہو جاتے ہیں۔ یعنی پہلے آپ کو اجنبیت ہوتی ہے پھر آہستہ آہستہ اُنس پیدا ہوتا ہے، پھرپیار ہوتا ہے، محبت ہوتی ہے۔ جانور بھی اِسی طرح مانوس ہوتے ہیں۔ پہلے بھاگتے ہیں۔ پھر آپ اُس پہ ہاتھ پھیرتے ہیں آہستہ آہستہ، اُن کو کھانا دیتے ہیں۔ پھر وہ قریب آتے ہیں۔ پرندے بھی اِسی طرح کرتے ہیں۔ یہ فطرت ہے ۔ کبوتر، چڑیا جس کو لے لو۔ پہلے وہ آپ سے بھاگتے ہیں پھر آپ اُن کو دانہ ڈالیں گے، اُن کو کھانا دیں گے، جو اُن کو پسند ہے، پہلے مانوس کریں گے پھر وہ آپ کے پاس آنے لگیں گے۔
چھوٹے بچوں کو مانوس کرنے کا طریقہ:
یہ چھوٹے بچے بھی ایسے ہوتے ہیں۔ یہ میری بیٹی ہے مروہ باجی تو جب میں آتا ہوں تو میری گود میں نہیں آئے گی۔ پھر اِس کو گود میں بٹھانے کے لیے میں ٹافی دکھاتا ہوں۔ چاکلیٹ دکھاتا ہوں۔ تو فضہ باجی مجھے چاکلیٹ لاکے پیچھے سے دے دیتی ہیں۔ جب اس کو چاکلیٹ دکھاتا ہوں تو پھر دوڑ کے آتی ہے کہ میںنے آپ کی گود میں بیٹھنا ہے اور گود میں بیٹھ کے تو پھر میری کرسی چیک کرتی ہے کہ اور چاکلیٹ بھی ہے؟ جب پتہ چل جائے کہ اور چاکلیٹ کوئی نہیں تو پھر بھاگ جاتی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ کسی کو بلانے کا کوئی بہانہ ہوتا ہے۔ یہ انسان کی فطرت ہے۔ بچوں کی، جانوروں کی، پرندوں کی،ہر ایک کی فطرت ہے۔ بلانا ایک سبب ہوتا ہے۔ آپ کو بلایا اور آپ آئے۔ ایک سبب سے کہ آؤ آپ کو اللہ کی اور اللہ والوں کی کچھ باتیں بتاتے ہیں۔ جو ہر رات آپ بیٹھ کر سنتے ہیں، اللہ والوں کی باتیں بتاتے ہیں۔ تو یہ سننے آئے تھے تاکہ سن سن کے مولا تجھ سے پیار ہوجائے۔
صبر اور شکر میں سے کس کا درجہ اونچا ہے:
لوگ اولیاء اور عرفاء سے پوچھا کرتے تھے کہ شکر کا درجہ اونچاہے یا صبر کا۔ تو اولیاء کہتے تھے صبر کا درجہ اونچا ہے شکرسے، وہ اُن سے پوچھتے کیوں؟صبر کا درجہ شکر سے کیوں اونچا ہے۔ یہ بات بڑی پیاری ہے۔ اِس کو اپنے من میں اتار لیں۔ صبرکا درجہ شکر سے اونچا کیوں ہے؟ اولیاء ، عرفاء اور عشاق کہتے اِس لیے کہ شکر والے اللہ کی نعمتوں میں مشغول رہتے ہیں۔ اللہ آرام دیتا ہے،صحت دیتا ہے، تندرستی دیتا ہے، مال دیتا ہے، سکھ دیتا ہے نعمتیں دیتا ہے۔ شکر والے نعمتوں میںمشغول رہتے ہیں اور صبروالے اللہ کے ساتھ مشغول رہتے ہیں۔ اُن کے پاس اُنہیں نعمتیں آرام تو ملتا نہیں۔ وہ محبوب کے ساتھ مصروف رہتے ہیں۔ اِس لیے عاشق لوگ شکر نہیں صبر مانگتے ہیں۔
شکر کرنے سے نعمت میں اضافہ ہو جاتاہے:
لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّکُمْ.
(ابراهيم، 14: 7)
’’اگر تم شکر کرو گے تو میں اپنی نعمتیں اور بڑھا دوں گا‘‘۔
قرآن مجید کی مذکورہ آیت کے مطابق اللہ کا شکر ادا کرنے سے اس کی نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے یعنی وہ فرمارہا ہے کہ اگر شکر کرو گے تو صحت اور دے دوں گا، مال اور دے دوں گا، عزت اور دے دوں گا، درجے اور دے دوں گا، جنت اور دے دوں گا، رتبے اور دے دوں گا، اولاد اور دے دوں گا، خوشیاں اور راحتیں اور دے دوں گا، نعمتیں بڑھا دوں گا۔ عاشق لوگ کہتے ہیں۔ مولا ہم تیری نعمتوں کے لیے نہیں آئے بلکہ تیرے لیے آئے ہیں۔ تو ہمیں نعمتوں میں مشغول نہ کر ہمیں اپنے ساتھ مشغول فرما۔
صبر اللہ سے عشق والوں کیلئے ہے:
آپ کو بات سمجھ آگئی ہوگی کہ اگر یہ انتظامات عالی شان ہو جائیں اور کسی کو تکلیف نہ ہو، توآپ شکر والی بن جائیں گی اور اگر ایسا ہو کہ کبھی کوئی چیزبہتر ہوئی، کبھی کوئی کمی ہوئی، کبھی تکلیف ہوئی، کبھی آرام ہوا اور ایسا معاملہ چلا توآپ شکر والی نہیں بلکہ صبر والی ہونگی۔ توآپ کیا چاہتی ہیں دس دن صبر میں گزریں کہ شکر میں؟ شکر نعمتوں والوں کے لیے ہے اور صبر اللہ سے عشق والوں کے لیے ہے۔ اللہ پاک آپ کو برکت دے۔
رفاقت کو بڑھائیں:
ایک چیزاور important ہے اور وہ مشن کے حوالے سے ہے کہ اس تحریک کی فکر اور اس کی رفاقت کو بڑھانا ہے۔اِن دو چیزوں پر concentrate کریں۔ یہ جو تکلیفیں ہوتیں ہیںاُس کا بھی ایک سبب ہے کہ ہم جو کام کرتے ہیں اُس کام کی اصل فکر کو نہیںسمجھ رہے ہوتے بس ہم اُس میں رسمی طور پر شامل ہو جاتے ہیں۔ اگر فکر سمجھ میں آجائے تو وہ تکلیف بھلا دے گا۔ میں نے آپ کو فکر دیا ہے کہ مشن کی فکر کو سمجھیں کہ مشن کی Thought کیا ہے؟مشن کی ideology کیا ہے؟اِس مشن کا امتیاز، خصوصیت کیا ہے۔ اِس مشن میں ہم کیوں ہیں؟ اِس کو مختلف angle کے ساتھ پڑھیں اور پڑھائیں۔ کیا چیز ہے جو یہاں ملتی ہے اور جگہ میسر نہیں ہے۔ کون کون سی چیزیں ہیں جو یہاں اللہ نے ہمیں عطا کی ہیں جبکہ کہیں اور دنیا میں چلے جائیں تو وہاں وہ میسر نہیں۔ مشن کا مقصد کیا ہے؟ ہم مشن سے کیا لے رہے ہیں اور کیا سوسائٹی کو دینا چاہتے ہیں؟ جب مشن کو پڑھیں گی اور خطابات کے ذریعے مشن کو سنیں گی اور اسے سمجھیں گی اور پھر آگے پہنچانے سے مشن کی فکر خود پختہ ہوگی۔
اپنی حیثیت کے مطابق دعوت دیں:
انسانی معاشرے کی فطرت یہ ہے کہ پانچ ہزار روپے والے شخص کی بات پانچ لاکھ روپے مہینہ کمانے والا شخص نہیں سنتا اور پانچ لاکھ کمانے والاہو اُس کی بات پانچ ہزار کمانے والا نہیں سنتا۔ یہ complexes ہیں۔ آپ اپنی جیسی بہنیں تلاش کریں، اپنی گلی میں، اپنے محلے میں، اپنے شہر میں، رشتے داروں میں، میں آپ کو پابند کر رہا ہوں اوپر نہیں جانا،اپنی جیسی بہنوں کو target کرکے ، اپنے ہی جیسی ایک بہن کو مہینے میں ایک رفیقہ بنا دیں۔ individually ذمہ داری ہے۔ آپ خود رفیقہ نہیں ہیں تو بنیں اور پھر کوشش کریں کہ آپ ہی جیسی ایک بہن اور ایک بیٹی اُس کی سہیلی، اُس کی کوئی friend، اُس کو کیسٹ دیں، خطابات سنائیں، کتابیں دیں، زبانی بات کریں۔ مہینے میں تیس دن ہیں ایک رفیقہ اور بنا دیں۔ اگر ایک مہینہ کوشش کر کے نہ بنا سکیں تو دوسرا مہینہ لگا لیں اور individually اپنی progress اپنی یو سی کی تنظیم کو یا شہری تنظیم کو لکھوائیں۔ اُن کے فارم پر آپ کے دستخط ہوں کہ آپ نے بنائی ہے اور وہ ریکارڈ سارا تنظیمی چینل سے مرکز پہ آئے۔ آپ کا نام درج ہو، یہ آپ کے نامہ اعمال میں لکھا جائے اور ذہن میں یہ رکھیں کہ جو نعمت اللہ نے مجھے دی ہے اِس نعمت میں، میں ایک اور بہن کو شریک کرتی ہوں تو مشن کی جو سمجھ بوجھ، فہم آپ کے اندر پیدا ہوا ہے اُس سمجھ بوجھ کو منتقل کریں۔ اگر وہ آپ جیسی ہو گی یا دو درجے کم ہو گی وہ آپ کی بات سمجھ لے گی اور آپ سے زیادہ پڑھی لکھی یا زیادہ طاقتور، مالدار گھرانے سے ہو گی تو وہ آپ کی بات کو توجہ نہیں دے گی۔ اس پر آپ وقت ہی ضائع نہ کریں، ہر کوئی اپنی مالی اور تعلیمی حیثیت کے مطابق اپنا target بنائے توآپ دیکھیں کہ ہر وقت بات کرتے کرتے مشن کی فکر آپ کے اندر بھی پختہ ہوجائے گا۔
رفاقت کا معنی و مفہوم:
رفاقت کا معنی بھی سمجھ لیں۔ اِس کے بہت سارے پہلو ہیں۔ صرف ایک نکتہ بتادیتا ہوں۔ اللہ رب العزت نے قرآن مجید کی سورۃ نساء میں ارشاد فرمایا:
وَمَنْ يُّطِعِ اﷲَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اﷲُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَآءِ وَالصّٰلِحِيْنَج وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِيْقًاo
(النساء، 4: 69)
’’اور جو کوئی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) ان (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیائ، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیں‘‘۔
یہ بات سمجھ لیں کہ جہاں تک انبیاء کا تعلق ہے تو اب قیامت تک آقا علیہ السلام کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں آئے گا۔ نبوت و رسالت کا تو دروازہ بند ہو گیا۔ صدیقین آتے رہے گے ۔ کیونکہ انبیاء کے بعد اولیاء کے تین طبقات ہیں۔ سب سے اونچا طبقہ صدیقین ہیں۔ جو تصدیق کرتے ہیں اور اللہ کے دین کی سچائی دلوں میں ثبت کرتے ہیں اور اپنے عمل سے اللہ کے دین کی سچائی کی گواہی دیتے ہیں۔ دوسرے شہداء ہونگے۔ وہ جو اللہ پر، اللہ کے دین پر، حضور علیہ السلام کی سنت پر، اُس پر اپنی زندگی سے، اپنے عمل سے، اپنی دعوت سے، اپنے کر دار سے ، اپنی جدوجہد سے حق کی گواہی مہیا کرتے ہیں۔ تیسرے صالحین ہیں جو نیک، صالح اور پاک باز لوگ ہیں۔
آیت کے آخر میں فرمایا:
وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِيْقًاo
(النساء، 4: 69)
’’یہ کتنے اچھے رفیق ہیں‘‘۔
یعنی اللہ پاک نے فرمایا کہ جو اِن کے رفیق بن جائیں، جو اِن کی سنگت میں اپنے آپ کو جوڑ لیں۔ اِن کی کاوشوں کا حصہ بن جائیں۔ اِن کی پوری struggle، محنت، صبح وشام کاوش کا part and parcel بن جائیں، اِن کے ساتھ جڑ جائیں تو وہ بڑے پیارے رفیق ہیں۔ جہاں یہ جائیں گے وہ رفقاء اُسی جگہ جائیں گے ۔
جو جس کے ساتھ محبت کرے گا قیامت کے دن اُسی کے ساتھ ہوگا:
بخاری شریف اور مسلم شریف کی متفق علیہ حدیث ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! کئی ایسے لوگ بھی ہیں کہ ہم اُن جیسے عمل نہیں کرسکتے۔ یعنی اللہ کے ایسے محبوب، مقرب بندے ہیں جن کے عمل بڑے اُونچے ہونگے، اُن کے درجے اور مقامات بڑے اُونچے ہونگے۔ ہم اُن جیسے عمل نہیں کرسکتے، اُن جیسا تقویٰ ہمارے پاس نہیں ہو گا، اُن جیسی ریاضت ہمارے پاس نہیں ہو گی، اُن جیسا صدق واخلاص ہمارے پاس نہیں ہوگا، اُن جیسے اخلاق ہمارے نہیں ہونگے۔ ہماری کمیاں ہیں جبکہ اُن کے اونچے اعمال اور درجات ہیں۔ تو کیا ہم اُن کے ساتھ مل سکتے ہیں جبکہ ہمارے اور ان کے اعمال میں بڑا فرق ہے؟ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ وَلَهُ مَا اکْتَسَبَ.
(أخرجه الترمذی فی السنن، باب ما جاء أن المرء مع من أحب، 4: 595، الرقم: 2385)
’’(روزِ قیامت) ہر شخص اُس کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت کرتا ہے، اور اُس کا عمل اُس کے ساتھ ہو گا‘‘۔
یعنی وہ جس کے عمل اُونچے ہیں اُس کے ساتھ، جس کے عمل نیچے ہیں محبت کرے گا اور اُن کی سنگت میں، محبت میں جڑ جائے گا۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ اُن سنگت رکھنے والوں کو اُن کے ساتھ جنت میں لے جائے گا۔
وَلَهُ مَا اکْتَسَبَ
اور جو عمل ہیں۔ عمل اُن کے ساتھ رہیں گے۔ اللہ پاک اُن کی سنگت، رفاقت اور محبت کی وجہ سے اُن کے اعمال کی کمی کو پورا کرکے اُن کی جگہوں پر پہنچا دے گا۔
آیت کا شان نزول:
میں نے جو قرآن مجید کی آیت تلاوت کی۔ جس میں ارشاد فرمایا گیا کہ اچھے رفیق ہیں۔ وہ آیت کب نازل ہوئی اس کا شان نزول بھی سن لیں۔
نَزَلَتْ فِي ثَوْبَانَ مَوْلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، وَکَانَ شَدِيْدَ الْحُبِّ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، قَلِيْلَ الصَّبْرِ عَنْهُ، فَأَتَاهُ ذَاتَ يَوْمٍ وَقَدْ تَغَيَّرَ لَوْنُهُ، يُعْرَفُ الْحُزْنُ فِي وَجْهِهِ، فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم: مَا غَيَّرَ لَوْنَکَ؟ فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَا بِي مَرَضٌ وَلَا وَجَعٌ غَيْرَ أَنِّي إِنْ لَمْ أَرَکَ اسْتَوْحَشْتُ وَحْشَةً شَدِيدَةً حَتّٰی أَلْقَاکَ، ثُمَّ ذَکَرْتُ الْآخِرَۃَ فَأَخَافُ أَنْ لَا أَرَاکَ لِأَنَّکَ تُرْفَعُ مَعَ النَّبِيِّيْنَ، وَإِنِّي إِنْ دَخَلْتُ الْجَنَّةَ کُنْتُ فِي مَنْزِلَةٍ أَدْنٰی مِنْ مَنْزِلَتِکَ، وَإِنْ لَمْ أَدْخُلِ الْجَنَّةَ لَا أَرَاکَ أَبَدًا، فَنَزَلَتْ هٰذِهِ الآيَةُ.
(أخرجه البغوي في معالم التنزيل، 1: 450، والقرطبي في جامع لأحکام القرآن، 5: 271)
ایک صحابی تھے وہ گھر میں روتے رہتے تھے۔ آقا e تک خبر پہنچی، بلوا بھیجا، وہ آئے رونے لگے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا: کیوں رو رہے ہو؟ اُس نے کہا۔ یارسول اللہ ! میں بھی اور میرے جیسے کئی اور بھی ہم یہ سوچ سوچ کر روتے ہیں کہ آج تو آپ ہمارے ساتھ ہیں۔ ہم جب ادا س ہوتے ہیں۔ گھر سے نکلتے ہیں۔ مسجد نبوی میں آتے ہیں۔ آپ کا چہرہ دیکھ لیتے ہیں تو اداسی دور ہو جاتی ہے۔ جب اداسی ہوتی ہے آپ کو آکر مل جاتے ہیں۔ جب جی چاہتا ہے آپ کی مجلس میں بیٹھ جاتے ہیں۔آپ کی باتیں سن لیتے ہیں۔ یا رسول اللہ ! روتا اِس لیے ہوں میرے ساتھ اور بھی کئی بیٹھ کے روتے ہیں کہ جب آپ دنیا میں نہیں ہوں گے اورہم بھی نہیں رہیں گے تو آپ تو اللہ کے نبی ہیں، خاتم الرسل ہیں، اُس کے محبوب ہیں آپ کو تو اللہ پاک آپ کے درجے پر پہنچا دے گا۔ آپ تو جنت میں وہاں رہتے ہونگے جہاں کوئی بھی نہیں رہے گا۔ آپ کی منزل تو اونچی ہو گی۔پھراُس کے بعداور انبیاء کی منزلیں ہونگی۔ پھر اُس کے بعد اور صدیقین اور اولیاء کی منزلیں ہونگی۔ پھر شہداء و صالحین کی منزلیں ہونگی۔ہر کوئی اپنی اپنی منزل کے مطابق ٹھہرا ہو گا جنت میں خدا جانے ہم کس جگہ پہ جاکے ٹھہریں گے توجب وہاں ہم اداس ہونگے، آپ سے ملنا چاہیں گے توآقا علیہ السلام کون جانے دے گا ہمیں آپ کے پاس ملنے؟ یہاں تو مل لیتے ہیں کوئی روکتا نہیں تو وہاں تو فرشتے روک دیں گے کہ نہیں اُس جگہ آپ نہیں جاسکتے۔ ہم وہاں کیا کریں گے اور کیسے پہنچیں گے؟ یہ سوچ کر روتے ہیں۔ آقا علیہ السلام نے بات سن لی۔ تھوڑی دیر بعد جبریل امین علیہ السلام وحی لے کر آگئے اور اللہ کا پیغام پہنچایا کہ میرے محبوب اِن کو یہ آیت بتا دو کہ جنت میں درجے ہونگے پہلے درجے میں انبیاء ہونگے، اُن کے نیچے صدیقین اولیاء ہونگے، اُن کے نیچے شہداء اولیاء ہونگے، اُن کے نیچے صالحین اولیاء ہونگے۔ چونکہ اِن سب کی سنگت و محبت آقا علیہ السلام سے ہوگی اور ہر ایک کا رابطہ اوپر والوں سے ہو گا، اُن کا رابطہ اُس سے اوپر والوں سے ہو گا۔ ان کا رابطہ اُن سے اونچے درجے والوں سے ہو گا۔ لہذا تم بھی اگر محبت اور اطاعت اوراتباع میں اِن کی رفاقت میں آجاؤ، اِن سے جڑ جاؤ، اِن کی سنگت میں آجاؤ، تو تمہارے اعمال کم درجے کے ہی سہی مگر محبت اور رفاقت کی وجہ سے اللہ ہر ایک سے ملنے دے گا۔ جنت میں تم ہر ایک کے پاس جاسکو گے۔
سنگت اور رفاقت کے درجات۔ حدیث کی روشنی میں:
ایک حدیث پاک کے مطابق اِس دنیا میں جو ایک دوسرے کے رفیق ہونگے۔ساتھی اور سنگتی ہونگے، ایک دوسرے کی صحبت اور رفاقت رکھنے والے ہونگے، جنت میں ہر کوئی اپنے اپنے مرتبے کے مطابق جگہوں پر رہے گا۔بعض جگہیں ایسی ہونگی کہ چھوٹے درجے والے اوپر والے درجوں پر نہیں جاسکیں گے۔ مگر اوپر کے درجوں پر رہنے والوں کو اجازت ہوگی کہ دنیا میں جو اُن کے رفقاء تھے ، دوست تھے، احباب تھے، سنگتی تھی، جو اِس کے ساتھ پیار کرتے تھے، اُنہیں اجازات ہو گی کہ وہ بھلے سو درجہ نیچے بھی جنت میں رہتے ہونگے وہ ہر جگہ جا سکیں گے ۔تو کہیں آپ اوپر جاسکیں گے، کہیں وہ نیچے آ سکیں گے۔ لیکن رفاقت کی وجہ سے اللہ جنت میں جوڑ دے گا۔
اللہ کا دیدار کسی کسی کو نصیب ہوگا:
اور پھر حدیث پاک میں یہ بھی ہے کہ کئی بندے جنت میں ایسے جائیں گے، جن کے درجے اور اعمال اِتنے اونچے نہیں ہونگے کہ وہ اللہ کی زیارت کر سکیں۔ حور عین ہونگی، قصور ہونگے، باغات ہونگے، چشمے ہونگے،نہریں ہونگی، محلات ہونگے۔ یہاں تک تو نعمتیں ہونگی۔ مگر درجے اِتنے اونچے نہیں ہونگے کہ اللہ کا دیداربھی کر سکیں۔ وہ دیدار کسی کسی کو نصیب ہوگا۔ ہر ایک کو نہیں ۔ مگراِن لوگوں کی رفاقت، سنگت، دوستی اور تعلق بڑا پختہ اُن لوگوں کے ساتھ ہو گا جو اللہ کے دیدار کے حق دار ہونگے۔ یعنی یہ خود اللہ کے دیدار کے قابل نہیں ہونگے، جنت میں پہنچ جائیں گے مگر اِن کا تعلق اُن لوگوں کے ساتھ ہو گا جن کو اللہ اپنا دیدار کرائے گا۔ حدیث پاک میں ہے پھر وہ لوگ کیا کریں گے جن کو اللہ دیدار کرائے گا؟ وہ چل کے خود اپنے اُن رفقاء اور اپنے اُن ساتھیوں کے پاس آجائیں گے جن کے حصے میں دیدار الٰہی نہیں ہے وہ آکے اُن کی مجلس میں بیٹھیں گے اور پورا اجتماع بنائیں گے اور اُن کے ساتھ جڑ کے بیٹھیں گے کہ اللہ نے دیدار کروانا ہے، اللہ تعالیٰ جب ان کی خاطر اپنا جلوہ کرائے گا تو ان کو فرمائے گا کہ چونکہ یہ تمہارے رفقاء ہیں، ساتھی ہیں، اہل مجلس ہیں اِنہیں کہو کہ تمہاری وجہ سے وہ بھی میرا دیدار کر لیں۔ لہذا سارے ہی دیدار کر لیں گے۔
اولیاء اپنے ساتھیوںکو جنت میں لے کر جائیں گے:
بخاری اور مسلم کی متفق علیہ حدیث ہے کہ جب اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعے اپنے مقرب اور نیک بندوں اور اولیاء کو فرمائے گا کہ جنت میں تشریف لے جائیں۔ جنت کے دروازے کھلے ہیں۔ آپ کا انتظار ہو رہا ہے تو وہ کہیں گے ہم نہیں جاتے، وہ فرشتے عرض کریں گے۔ باری تعالیٰ یہ توکہتے ہیں کہ ہم نہیں جاتے۔ باری تعالیٰ اُن سے پوچھیں گے کہ تم جنت میں کیوں نہیںجا رہے ؟ جب تمہارے لئے جنت کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ وہ کہیں گے کہ باری تعالیٰ اِس لیے نہیں جاتے کہ ہمیں کچھ لوگ نظر آرہے ہیں جو ہماری سنگت اور رفاقت میں رہتے تھے۔ ہمارے ساتھ مل کر اعتکاف بھی کرتے تھے ، حج بھی کرتے تھے۔ انہوں نے ہمارے ساتھ مل کر کچھ نمازیں بھی پڑھیں ہیں،کبھی روزے بھی ہمارے ساتھ مل کے رکھے ہیں۔ کچھ عبادات ہمارے ساتھ مل کے کیں ہیں، حلقات اور مجالس میں ہمارے ساتھ بیٹھتے تھے۔ وہ دوزخ بھیج دیئے گے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ اب کیا چاہتے ہو؟وہ کہیں گے ہم نے اُن کو ساتھ جنت میںلے کے جانا ہے کیونکہ یہ دنیا میں ہمارے رفیق تھے۔ اللہ پاک فرمائے گا آپ اُنہیں پہنچانتے ہیں؟ وہ کہیں گے جی ہاں پہنچانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا جاؤ جن جن کو پہنچانتے ہو نکال کے جنت میں لے جاؤ۔ پہلے فیصلے منسوخ ہو جائیں گے اور یہ لوگ اپنے ساتھیوں کو، سنگت والوں کو، سب کو نکال کے جنت میں لے جائیں گے۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیثِ مبارکہ مروی ہے جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَمَا أَنْتُمْ بِأَشَدَّ لِي مُنَاشَدَةً فِي الْحَقِّ، قَدْ تَبَيَّنَ لَکُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِ يَوْمَئِذٍ لِلْجَبَّارِ، وَإِذَا رَأَوْا أَنَّهُمْ قَدْ نَجَوْا، فِي إِخْوَانِهِمْ يَقُوْلُوْنَ: رَبَّنَا إِخْوَانُنَا، کَانُوْا يُصَلُّوْنَ مَعَنَا، وَيَصُوْمُوْنَ مَعَنَا، وَيَعْمَلُوْنَ مَعَنَا، فَيَقُوْلُ اﷲُ تَعَالَی: اذْهَبُوْا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ دِيْنَارٍ مِنْ إِيْمَانٍ فَأَخْرِجُوْهُ، وَيُحَرِّمُ اﷲُ صُوَرَهُمْ عَلَی النَّارِ، فَيَأْتُوْنَهُمْ وَبَعْضُهُمْ قَدْ غَابَ فِي النَّارِ إِلٰی قَدَمِهِ وَإِلٰی أَنْصَافِ سَاقَيْهِ، فَيُخْرِجُوْنَ مَنْ عَرَفُوْا، ثُمَّ يَعُوْدُوْنَ، فَيَقُوْلُ: اذْهَبُوْا، فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ نِصْفِ دِيْنَارٍ فَأَخْرِجُوْهُ، فَيُخْرِجُوْنَ مَنْ عَرَفُوْا، ثُمَّ يَعُوْدُوْنَ، فَيَقُوْلُ: اذْهَبُوْا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ مِنْ إِيْمَانٍ فَأَخْرِجُوْهُ، فَيُخْرِجُوْنَ مَنْ عَرَفُوْا. قَالَ أَبُوْ سَعِيْدٍ: فَإِنْ لَمْ تُصَدِّقُوْنِي فَاقْرَئُوْا: {اِنَّ اﷲَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍج وَاِنْ تَکُ حَسَنَةً يُّضٰعِفْهَا} [النساء، 4/40]. فَيَشْفَعُ النَّبِيُّوْنَ وَالْمَلَائِکَةُ وَالْمُؤْمِنُوْنَ.
(أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب التوحيد، باب قول اﷲ تعالی: وجوه يومئذ ناضرة إلی ربها ناظرة، 6/2707، الرقم/7001، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/16، الرقم/11143، وابن حبان في الصحيح، 16/379، الرقم/7377)
’’تم مجھ سے حق کا مطالبہ کرنے میں جو تمہارے لیے واضح ہوچکا ہے آج اس قدر سخت نہیں ہو جس قدر شدت کے ساتھ مومن اس روز اللہ تعالیٰ سے مطالبہ کریں گے جس وقت وہ دیکھیں گے کہ وہ نجات پا گئے ہیں۔ اپنے بھائیوں کے حق میں مطالبہ کرتے ہوئے وہ عرض کریں گے: اے ہمارے رب! (یہ) ہمارے بھائی (جن کو تو نے دوزخ میں ڈال دیا ہے دنیا میں وہ ہماری سنگت اختیار کیے ہوئے تھے یہ) ہمارے ساتھ نمازیں پڑھتے تھے، ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے اور ہمارے ساتھ (نیک) عمل کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جاؤ، جس کے دل میں دینار کے وزن کے برابر ایمان پاؤ اُسے (دوزخ سے) نکال لو۔ اللہ تعالیٰ اُن کی صورتوں کو آگ پر حرام کر دے گا (تا کہ پہچان ہو سکے)۔ پس وہ اُن کے پاس آئیں گے جبکہ بعض قدموں تک اور بعض پنڈلیوں تک آگ میں ڈوبے ہوئے ہوں گے چنانچہ وہ جن جن کو پہچانیں گے، اُنہیں نکال لیں گے۔ پھر واپس لوٹیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جس کے دل میں نصف دینار کے برابر ایمان پاؤ اُسے بھی نکال لو، لہٰذا وہ جسے پہچانیں گے نکال لیں گے۔ پھر وہ واپس لوٹیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان پاؤ اُسے بھی نکال لو، چنانچہ وہ جسے پہچانیں گے جہنم سے نکال لیں گے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جسے یقین نہ آتا ہو وہ یہ آیت پڑھ لے:’بے شک اللہ ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا، اوراگر کوئی نیکی ہو تو اسے دوگنا کر دیتا ہے‘ (تو صحبتِ صالحین بھی عظیم نیکی ہے)۔ پس انبیاء، فرشتے اور مؤمنین شفاعت کریں گے‘‘۔
وہ جنت میں زنجیر بنا کے جائیں گے:
آقا علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا: جب وہ جنت میں جائیں گے توزنجیر کی طرح ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ لیں گے۔ جیسے زنجیر جکڑا ہوا ہوتا ہے، ہاتھوں سے ہاتھ پکڑ کے کھڑے ہوں گے۔ (آپ کھڑی ہوتی ہیں نہ جیسے بعض اوقات ہاتھ پکڑ کر) یہ بخاری شریف میں ہے۔ زنجیر بنا لیں گے اور وہ کھڑے رہیں گے جنت کے دروازے پر جن کے یہ ساتھی ہیں۔ حدیث میں ستر ہزار کا بھی ذکر آیا ہے۔ حدیث میں تین لاکھ کا بھی ذکر آیا ہے، حدیث میں سات لاکھ کا بھی ذکر آیا ہے اور بے حساب کا بھی ذکر آیا ہے۔ وہ کھڑے رہیں گے۔
آقا علیہ السلام نے فرمایا: کہ وہ جو پہلا شخص جس کے وہ سارے ساتھی تھے وہ جنت میں نہیں جائے گا جب تک اُس کی سار ی قطار اُس کے ہوتے ہوئے جنت میںداخل نہ ہوجائے اور آخر پر خود جنت میں جائے گا۔
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعُوْنَ أَلْفًا أَوْ سَبْعُ مِائَةِ أَلْفٍ، شَکَّ فِي أَحَدِهِمَا، مُتَمَاسِکِيْنَ آخِذٌ بَعْضُهُمْ بِبَعْضٍ، حَتّٰی يَدْخُلَ أَوَّلُهُمْ وَآخِرُهُمُ الْجَنَّةَ، وَوُجُوْهُهُمْ عَلٰی ضَوْئِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ.
(أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الرقاق، باب يدخل الجنة سبعون ألفا بغير حساب، 5/2396، الرقم/6177، وأيضاً في کتاب بدء الخلق، باب ما جاء في صفة الجنة وأنها مخلوقة، 3/1186،الرقم/3075، وأيضاً في کتاب الرقاق، باب صفة الجنة والنار، 5/2399، الرقم/6187، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب الدليل علی دخول طوائف من المسلمين الجنة بغير حساب ولا عذاب، 1/198، الرقم/219، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/335، الرقم/22890، وذکره ابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1/394)
’’میری اُمت کے ستر ہزار یا سات لاکھ افراد (بغیر حساب و کتاب کے) جنت میں داخل ہوں گے (راوی کو دونوں میں سے ایک کا شک ہے)۔ اِس حال میں کہ وہ ایک دوسرے کو (نسبت کی وجہ سے باہم) تھامے ہوئے ہوں گے یہاں تک کہ ان کا پہلا (قیادت کرنے والا) اور آخری شخص جنت میں داخل ہوجائے گا۔ ان کے چہرے چودہویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے‘‘۔
اب آپ سمجھے ہیں رفاقت کی اہمیت اور اِس مشن کے اندر اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نوکری کرنے کی اہمیت کیا ہے؟ اِس پر محنت کریں۔ اللہ سب کو جنت میں اِسی طرح اکٹھا رکھے ، جیسے اللہ تعالیٰ نے یہاں آپ کو اکٹھا رکھا ہے۔