القرآن: علامات فتن اور موجودہ حالات

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا خصوصی خطاب

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین معاون: محمد طاہر معین

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَ.

’’لوگوں کے لیے ان کے حساب کا وقت قریب آ پہنچا مگر وہ غفلت میں (پڑے طاعت سے) منہ پھیرے ہوئے ہیں‘‘۔

(الانبياء:1)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:

بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ کَهَاتَيْنِ. قَالَ: وَضَمَّ السَّبَابَةَ وَالْوُسْطٰی.

(اخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الرقاق، باب قول النبی صلی الله عليه وآله وسلم بعثت انا والساعة کهاتين، 5/2385، الرقم: 6139)

’’میں اس وقت میں مبعوث ہوا ہوں کہ میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح قریب ہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے ان دو انگلیوں (درمیانی اور شہادت والی انگلی) کو باہم جوڑ دیا‘‘۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس فرمان میں قرب قیامت کے آثار کے نمودار ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ ان آثارِ قیامت کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنوں سے تعبیر فرمایا۔ آج اگر ہم اپنے معاشرہ کا جائزہ لیں اور انفرادی و اجتماعی حال پر غور و فکر کریں تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جن آثار کو فتنوں سے تعبیر فرمایا، ان فتنوں کا دور شروع ہوچکا ہے۔ آج جو کچھ ہو رہا ہے اس کو آنکھوں کے سامنے رکھئے اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک ایک لفظ کو غور سے سنتے جائیے تو معلوم ہوگا کہ کوئی ایک بھی چیز ایسی نہیں جو فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مختلف ہو یا جس کی آقا علیہ السلام نے پیشگی خبر نہ دے دی ہو۔

آیئے! کلام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے براہ راست پورے فتنوں کے تصور کو سنتے ہیں اور آج کے دور میں ان فتنوں کے عملی اظہار کی مختلف شکلوں کو دیکھتے ہیں۔

وارثانِ علمِ حق کی رخصتی اور جہلاء کی امارت

حضرت عبد اﷲ بن عمرو بن العاصk بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ اﷲَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ وَلٰـکِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَائِ حَتّٰی إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُئُوْسًا جُهَّالًا فَسُئِلُوْا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوْا وَأَضَلُّوْا.

(اخرجه البخاري في الصحيح، کتاب العلم، باب کيف يقبض العلم، 1/50، الرقم/100)

’’اﷲ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ لوگوں کے سینے سے نکال لے، بلکہ علماء کو ایک ایک کرکے اٹھاتا رہے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم نہیں رہے گا تو لوگ جہلاء کو اپنا راہنما بنا لیں گے۔ ان سے مسائل پوچھے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے، وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے‘‘۔

یعنی قرب قیامت کی ایک علامت یہ ہے کہ علماء ربانیین، سچے حاملان و وارثان علم یکے بعد دیگرے دنیا سے اٹھتے چلے جائیں گے۔ ان علماء ربانیین کے دنیا سے اٹھ جانے سے علمِ حق بھی اٹھ جائے گا۔

ان علماء ربانیین کے جانے کے بعد یہ فتنہ رونما ہوگا کہ جس شہر، قریے، خطے، علاقے سے عالمِ حق اٹھ جائے گا وہاں لوگ جاہلوں کو اپنا سردار بنالیں گے جو علم حق سے خالی اور اس کے صحیح وارث و حامل نہیں ہوں گے۔ لوگ ان سے دین کے سوال کرنے لگ جائیں گے اور وہ علم حق کے بغیر فتوے دیں گے۔ وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔

یہ وہ فتنہ ہے جسے ہم ہر روز کثرت کے ساتھ دیکھتے ہیں کہ دنیا علمائے ربانیین سے خالی ہوتی جا رہی ہے اور ان کی جگہ علماء سوء لیتے چلے جارہے ہیں جو جھوٹے فتوے دے کر لوگوں کو گمراہ اور ان کے ذہنوں کو پراگندہ کررہے ہیں۔ آج علماء سوء امت کو تفرقہ میں مبتلا کرنے اور اپنی بداعمالیوں اور بے عملیوں کی وجہ سے امت کو راہ حق سے پھسلانے اور دین کو بدنام کرنے کی مذموم کاوشیں کررہے ہیں۔ معاشرے کی نگاہ میں وہ اپنے بے کردار ہونے کے باعث دین کے وقار کو ختم کرتے چلے جا رہے ہیں۔

جہلاء کو سردار و رہنما بنانے کے فتنہ کے نتیجہ کے طور پر ہر طرف جہالت ہو گی۔۔۔ علم، شعور، آگہی، دانش، عقل اور بصیرت کم ہو جائے گی۔۔۔ لوگوں کو عقل و دانش کی بات سمجھ بھی نہیں آئے گی چونکہ جہالت بیچنے والے بہت ہوںگے۔۔۔ جھوٹ کا سودا دینے والے بہت ہوں گے۔۔۔ گمراہی پھیلانے والے بہت ہوں گے۔ آج اگر ہم سوسائٹی پر ایک نظر ڈالیں تو گمراہی پھیلانے والے آج الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا، منبر و محراب مسجد، سیاست، معاشرہ، مذہب سمیت ہر ذریعہ کو استعمال کررہے ہیں۔ الغرض گمراہی، جہالت اور بے شعوری پھیلانے والوں کی کثرت ہو جائے گی۔۔۔ حق اور صحیح شعور کی بات کرنے والے کم ہوں گے اور ان کی بات جہلاء کی نسبت زیادہ نہیں سنی جائے گی۔

جہالت و دہشت گردی کا دور دورہ

حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:

إِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ لَأَيَامًا يَنْزِلُ فِيْهَا الْجَهْلُ، وَيُرْفَعُ فِيْهَا الْعِلْمُ، وَيَکْثُرُ فِيْهَا الْهَرْجُ، وَالْهَرْجُ اَلْقَتْلُ.

(اخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الفتن، باب ظهور الفتن، 6/2590، الرقم/6653-6654)

’’قیامت سے کچھ عرصہ پہلے کا زمانہ ایسا ہو گا کہ اُس میں (چہار سو) جہالت اُترے گی، علم اُٹھا لیا جائے گا اور ہرج زیادہ ہوگا اور ہرج قتل (و غارت) کو کہتے ہیں‘‘۔

آج اگر ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ لوگوں میں اچھے برے کی تمیز تک نہیں رہی۔ ڈاکو و چور اور امانتدار و محافظ کا امتیاز ختم ہو گیا ہے۔ جو لوگ عوام کو لُوٹتے ہیں، ان کا مال حرام کے طور پر کھاتے ہیں، خیانت کرتے ہیں، قوم کا خزانہ ڈاکوؤں کی طرح لُوٹتے ہیں اور بار بار لوٹتے ہیں، جہالت و بے شعوری اتنی چھا گئی ہے کہ عوام پانچ سال ان کو گالیاں بھی دیتے ہیں اور پھر ووٹ بھی انہی کو دیتے ہیں۔ قربِ قیامت ظاہر ہونے والا یہ فتنہ اس قدر شدید ہوگا کہ شعور اتنا کم ہو جائے گا کہ اپنے لٹنے کا احساس بھی نہ ہوگا۔

جہالت کی کثرت اور بے شعوری کے غلبہ کے فتنہ کا ذکر کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قربِ قیامت قتل و غارت گری اور دہشتگردی بڑھ جائے گی یہ قتل و غارت گری اور خون خرابہ کس حد تک ہوگا، اس کی بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:

وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتّٰی يَأْتِيَ عَلَی النَّاسِ يَوْمٌ لَا يَدْرِي الْقَاتِلُ فِيْمَ قَتَلَ وَلَا الْمَقْتُوْلُ فِيْمَ قُتِلَ فَقِيْلَ: کَيْفَ يَکُوْنَ ذٰلِکَ؟ قَالَ: الْهَرْجُ، اَلْقَاتِلُ وَالْمَقْتُوْلُ فِي النَّارِ.

(اخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الفتن واشراط الساعة، باب لا تقوم الساعة..4/2231، الرقم/2908)

’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہو گی جب تک کہ لوگوں پر ایسا دن نہ آجائے، جس میں نہ قاتل کو یہ علم ہو گا کہ اس نے کیوں قتل کیا اور نہ مقتول کو یہ خبر ہو گی کہ وہ کیوں قتل کیا گیا۔ عرض کیا گیا: (یارسول اﷲ!) یہ کیسے ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بکثرت کشت و خون ہو گا، قاتل اور مقتول دونوں (اپنی بدنیتی اور ارادے کی وجہ سے) دوزخ میں ہوں گے‘‘۔

نہ قاتل کو معلوم ہو گا کہ میں اس کو قتل کیوں کر رہا ہوں، نہ مرنے والے کو پتہ ہو گا کہ مجھے قتل کیوں کیا گیا۔ نہ اس کے ورثاء کو پتہ ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اجرتی قاتل ہوں گے، پیسے دے کر قاتلوں کے ٹولے خریدے جائیں گے جو اجرت لے کر لوگوں کو قتل کریں گے۔ الغرض ملک، معاشرے اور عوام میں بدامنی پھیلانے کے لیے قتل عام ہوگا۔ آج یہ سارا سلسلہ ہمارے سامنے ہے اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین کے مطابق آج یہ فتنے اور قتل و غارت گری ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکی ہے۔

بے عمل معاشرہ

حضرت زیاد بن لبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی چیز (یعنی قیامت) کا تذکرہ کیا اور فرمایا:

ذَاکَ عِنْدَ أَوَانِ ذَهَابِ الْعِلْمِ قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، وَکَيْفَ يَذْهَبُ الْعِلْمُ وَنَحْنُ نَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَنُقْرِئُهُ أَبْنَائَنَا وَيُقْرِئُهُ أَبْنَاؤنَا أَبْنَائَهُمْ إِلٰی يَوْمِ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ: ثَکِلَتْکَ أُمُّکَ زِيَادُ إِنْ کُنْتُ لَأَرَاکَ مِنْ أَفْقَهِ رَجُلٍ بِالْمَدِيْنَةِ أَوَ لَيْسَ هٰذِهِ الْيَهُوْدُ وَالنَّصَارٰی يَقْرَئُوْنَ التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيْلَ لَا يَعْمَلُوْنَ بِشَيئٍ مِمَّا فِيْهِمَا.

(اخرجه احمد بن حنبل في المسند، 4/ 160، الرقم/17508)

’’یہ اُس وقت ہوگا جب علم جاتا رہے گا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! علم کیسے جاتا رہے گا جبکہ ہم خود قرآن پڑھتے ہیں اور اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں اور ہماری اولاد اپنی اولاد کو پڑھائے گی اور تا قیامت یہ سلسلہ جاری رہے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے زیاد! تیری ماں تجھے گم پائے، میں تو تجھے مدینہ کے فقیہ تر لوگوں میں سے سمجھتا تھا، کیا یہ یہود و نصاری تورات و انجیل نہیں پڑھتے، لیکن اُن کی کسی بات پر عمل نہیں کرتے (اسی بد عملی اور زبانی جمع خرچ کے نتیجہ میں یہ اُمت بھی وحی کی برکات سے محروم ہوجائے گی، بس قیل و قال باقی رہ جائے گا)‘‘۔

یعنی یہودو نصاریٰ بھی تو نسل در نسل اپنی کتب پڑھتے آئے ہیں مگر اس کے باوجود وہ گمراہ ہو گئے۔۔۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہ تورات و زبور کو رسماً پڑھتے ہیں جو پیغام تورات و انجیل نے دیا تھا اس پر عمل نہیں کرتے۔ جب امت قرآن کو فقط پڑھے اور سنے گی۔۔۔ قرآن کو فقط چومے گی۔۔۔ قرآن کو فقط بیٹیوں کے جہیز میں دے گی۔۔۔ قرآن کو فقط غلاف میں ڈال کر برکت کے لیے رکھے گی۔۔۔ قرآن پر صرف قسمیں کھائے گی اور ان کا کوئی حقیقی تعلق قرآن سے نہیں رہ جائے گا، وہ قرآن کے پیغام کو نہیں سمجھیں گے۔۔۔ قرآن کی تعلیمات پر عمل نہیں کریں گے۔۔۔ قرآن ان کی زندگی میں نہیں اترے گا تو پھر قرآن کا امت میں موجود ہونے سے اور رسماً اس کی تعلیم سے انہیں کوئی عملی نفع نہیں پہنچے گا۔ قرآن کا حقیقی علم ان سے اٹھ جائے گا چونکہ ان کا تعلق قرآن کے علم سے عملاً کٹ چکا ہو گا۔ وہ امت اس وحی کی برکات سے محروم ہو چکی ہو گی۔۔۔ قرآن ان کے لیے صرف قیل و قال کے لیے رہ جائے گا۔۔۔ صرف تقریروں کے لیے رہ جائے گا۔۔۔ صرف مناظروں کے لیے رہ جائے گا۔۔۔ فتویٰ بازوں کے لیے رہ جائے گا۔۔۔ قرآن کی روح لوگوں کے دلوں، سینوں اور زندگیوں سے نکل جائے گی۔ افسوس آج ہم اس مقام تک پہنچ گئے۔

معاشرتی زوال کی انتہاء

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِذَا اتُّخِذَ الْفَيئُ دُوَلًا وَالأَمَانَةُ مَغْنَمًا وَالزَّکَاةُ مَغْرَمًا وَتُعُلِّمَ لِغَيْرِ الدِّيْنِ وَأَطَاعَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ وَعَقَّ أُمَّهُ وَأَدْنَی صَدِيْقَهُ وَأَقْصَی أَبَاهُ، وَظَهَرَتِ الأَصْوَاتُ فِي الْمَسَاجِدِ، وَسَادَ الْقَبِيْلَةَ فَاسِقُهُمْ وَکَانَ زَعِيْمُ الْقَوْمِ أَرْذَلَهُمْ، وَأُکْرِمَ الرَّجُلُ مَخَافَةَ شَرِّهِ وَظَهَرَتِ الْقَيْنَاتُ وَالْمَعَازِفُ وَشُرِبَتِ الْخُمُوْرُ وَلَعَنَ آخِرُ هٰذِهِ الأُمَّةِ أَوَّلَهَا فَلْيَرْتَقِبُوْا عِنْدَ ذَالِکَ رِيْحًا حَمْرَائَ وَزَلْزَلَةً وَخَسْفًا وَمَسْخًا وَقَذْفًا وَآيَاتٍ تَتَابَعُ کَنِظَامٍ بَالٍ قُطِعَ سِلْکُهُ فَتَتَابَعَ.

(اخرجه الترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في علامة حلول المسخ والخسف، 4/495، الرقم/2211، 2210)

’’جب محصولات کو ذاتی دولت، امانت کو غنیمت اور زکوٰۃ کو تاوان سمجھا جانے لگے گا، غیر دینی کاموں کے لیے علم حاصل کیا جائے گا، مرد اپنی بیوی کی فرمانبرداری کرے گا اور اپنی ماں کی نافرمانی، اپنے دوست کو قریب کرے گا اور باپ کو دور، مسجدوں میں آوازیں بلند ہونے لگیں گی، قبیلے کا بدکار شخص اُن کا سردار بن بیٹھے گا اور ذلیل آدمی قوم کا لیڈر (یعنی حکمران) بن جائے گا اور آدمی کی عزت محض اُس کے شر سے بچنے کے لیے کی جائے گی، گانے والی عورتیں اور گانے بجانے کا سامان عام ہو جائے گا، (کھلے عام اور کثرت سے) شرابیں پی جانے لگیں گی اور بعد والے لوگ، پہلے لوگوں کو لعن طعن سے یاد کریں گے، اُس وقت سرخ آندھی، زلزلے، زمین میں دھنس جانے، شکلیں بگڑ جانے، آسمان سے پتھر برسنے اور طرح طرح کے لگاتار عذابوں کا انتظار کرو۔ یہ نشانیاں یکے بعد دیگرے یوں ظاہر ہوں گی جس طرح کسی ہار کا دھاگہ ٹوٹ جانے سے گرتے موتیوں کا تانتا بندھ جاتا ہے‘‘۔

میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک ایک کلمہ کا بغور جائزہ لیں اور دلوں میں جھانک کر اپنے اور اس معاشرے کے احوال کا تجزیہ کرتے جائیں۔ پندرہ سو سال پہلے میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ کی عزت کی قسم یوں لگتا ہے کہ آج کا زمانہ، مصطفی علیہ السلام کی آنکھوں کے سامنے تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے احوال کو دیکھ رہے تھے۔ہمارے اعمال کو دیکھ رہے تھے، ہماری قلبی کیفیات کو دیکھ رہے تھے، ہماری خیانتوں، بددیانتی کو دیکھ رہے تھے۔ ہماری لوٹ مار، کرپشن کو دیکھ رہے تھے۔

قومی امانت میں خیانت

ارشاد فرمایا:

إِذَا اتُّخِذَ الْفَيئُ دُوَلًا وَالأَمَانَةُ مَغْنَمًا وَالزَّکَاةُ مَغْرَمًا.

آج کے حالات سامنے رکھ کے آقا علیہ السلام کے علم کا اندازہ کیجئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکمرانوں اور امراء کے عوام کے ساتھ جس سلوک کی طرف اشارہ فرمایا آج ہمارے معاشرے میں بعینہ وہی کردار ادا کیا جارہا ہے۔ آج وہ امانت جو قوم کی امانت ہے، پاکستان کے اٹھارہ کروڑ غریبوں کی امانت ہے، اسے ہمارے حکمران مال غنیمت سمجھ کے کھارہے ہیں۔ معاشرے کے لوگ زکوٰۃ کو تاوان سمجھ کر دینے سے کترا رہے ہیں۔ اسے جرمانہ سمجھتے ہیں، کوشش کرتے ہیں کہ کم زکوٰۃ دینی پڑے۔ جس کی وجہ سے معاشرتی تفریق میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہوتا چلا جارہا ہے۔

حصولِ علم دین سے بے اعتنائی

پھر فرمایا:

وَتُعُلِّمَ لِغَيْرِ الدِّيْنِِ

علم دین حاصل کرنے سے لوگ کترائیں گے اور دنیوی علم کی طرف رغبت بڑھ جائے گی۔ سمجھیں گے کہ علم دین کے حاصل کرنے کا فائدہ کوئی نہیں۔ سوسائٹی میں دینی علم کی قدروقیمت اور اس کی طرف لوگوں کی رغبت نہیں رہے گی۔ لوگ کہیں گے کہ دینی علوم پڑھا کر کیا کرنا ہے، یہ دینی علوم پڑھ کر ہمارا بچہ زیادہ سے زیادہ مولوی بنے گا، امام و خطیب بنے گا، جس میں نہ کوئی پیسہ، نہ عزت، نہ کوئی طاقت۔ الغرض علم دین کی قدر سوسائٹی میں ختم ہو جائے گی۔ آج یہ فتنہ ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ دین کو لوگ نیچا دیکھتے ہیں، علم دین کو بے قدر دیکھتے ہیں اور دنیوی علم کی رغبت و اہمیت دینی علوم کی نسبت کئی گنا بڑھ چکی ہے۔

والدین کی نافرمانی

پھر ارشاد فرمایا: ایسا وقت آئے گا کہ لوگ بیوی کی اطاعت کریں گے اور ماں باپ کی بات نہیں مانیں گے۔ ایسا وقت آئے گا کہ اولاد اپنے دوستوں سے زیادہ محبت کرے گی اور باپ کو دور رکھے گی۔ راز کی بات دوست، دوست سے تو کرے گا لیکن بیٹا، باپ کو نہیں بتائے گا، گویا باپ سے دور ہو جائے گا اور دوستوں کے قریب ہو گا۔ آج اگر ہم جھانک کر اپنی اولادوں کے احوال پہ غور کریں تو صورت حال کی یہی تصویر ہمارے سامنے آتی ہے۔ آج اکثر والدین کو اپنی اولاد سے یہی شکوہ ہے۔

بدکرداروں کا معاشرتی غلبہ

پھر آقا علیہ السلام نے فرمایا:

وَسَادَ الْقَبِيْلَةَ فَاسِقُهُمْ.

یعنی وہ دور آئے گا کہ مختلف طبقات اور برادریوں میں سے فاسق، فاجر، شرابی، بدکار، رسہ گیر، غنڈے، کرپٹ لوگ ان برادریوں اور علاقوں کے لیڈر اور ان کے سربراہ بن جائیں گے۔

وَکَانَ زَعِيْمُ الْقَوْمِ أَرْذَلَهُمْ.

اور پھر وہ لوگ جو اپنے کردار میں گھٹیا ہوں گے، جن کے کردار میں دین، امانت، دیانت نہ ہو گی ایسے خائن، جھوٹے، بدکردار، لٹیرے قوم کے حکمران اور لیڈر بن جائیں گے۔ قوم نیک کردار والوں کو اور اچھے متقی لوگوں کو اپنا رہبر نہیں بنائے گی۔

وَأُکْرِمَ الرَّجُلُ مَخَافَةَ شَرِّهِ.

طاقتور لوگوں سے لوگ ان کے کردار کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے شر کے خوف کی وجہ سے ڈریں گے اور ان کی عزت کریں گے کہ کہیں یہ نقصان نہ پہنچادیں۔ اس لئے کہ یہ طاقتور لوگ اپنی طاقت اور عہدہ و منصب کی وجہ سے لوگوں کو بلاوجہ تھانے میں لے جائیں گے، جیل بھجوا دیں گے، ڈاکہ ڈلوا دیں گے، غنڈہ گردی کروائیں گے۔ لہذا لوگ ان کے شر کے خوف سے ان وڈیروں کی عزت کریں گے۔

اللہ کو حاضرو ناظر جان کر ذرا غور کریں اور سوچیں کہ کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک ایک لفظ اپنی آنکھوں کے ساتھ ہم اس معاشرے میں سچا ہوتا نہیں دیکھ رہے۔۔۔؟ سب کچھ اسی طرح ہی نہیں ہو رہا۔۔۔؟ پندرہ صدیاں پہلے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بتا دیا تھا مگر افسوس کہ ہم نے ان سے بچنے کی انفرادی و اجتماعی سطح پر کوئی تدبیر نہ کی۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ کیوں ہے۔۔۔؟ یاد رکھیں جب قوم کے لیڈر ایسے ہوں گے تو پھر نیچے تک پوری قوم اخلاقی طور پر برباد ہو جائے گی۔ ان برائیوں کو جب روکنے والا کوئی نہیں ہو گا، جن کے پاس طاقت ہے وہ ان برائیوں کے سد باب کے لئے کوئی قانون سازی نہ کریں گے، عملی اقدامات نہ کریں گے تو یہ برائیاں اس معاشرے کا نظام بن جائیں گی۔

آقا علیہ السلام نے فرمایا: جب ایسا زمانہ آ جائے تو انتظار کرو اس وقت کا جب متعدد طرح کے آسمانی عذاب لگاتار اس قوم پر اتریں گے جس طرح کسی ہار کا دھاگہ ٹوٹ جائے تو گرتے ہوئے موتیوں کا تانتا بندھ جاتا ہے، اس طرح اللہ کے عذاب اس سوسائٹی پر یکے بعد دیگرے اترنے لگ جائیں گے۔

٭ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰی يُجْعَلَ کِتَابُ اﷲِ عَارًا وَيَکُوْنَ الإِسْلَامُ غَرِيْبًا حَتّٰی يُنْقَصَ الْعِلْمُ وَيُهْرَمَ الزَّمَانُ وَيُنْقَصَ عُمَرَ الْبَشَرِ وَيُنْقَصَ السِّنُوْنُ وَالثَّمَرَاتُ وَيُؤتَمِنُ التُّهَمَاءُ وَيُتَّهَمُ الأَمْنَاءُ وَيُصَدِّقُ الْکَاذِبُ وَيُکَذِّبَ الصَّادِقُ وَيَکْثُرُ الْهَرْجُ، قَالُوْا: مَا الْهَرْجُ يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ قَالَ: الْقَتْلُ، اَلْقَتْلُ وَحَتّٰی تُبْنَی الْغُرُفُ فَتَطَاوَلُ وَحَتّٰی تَحْزَنَ ذَوَاتَ الأَوْلَادِ وَتَفْرَحَ الْعَوَاقِرُ وَيُظْهَرَ الْبَغْيُّ وَالْحَسَدُ وَالشُّحُ وَيُغِيْضَ الْعِلْمُ غَيْضًا وَيُفِيْضَ الْجَهْلُ فَيْضًا وَيَکُوْنَ الْوَلَدُ غَيْضًا وَالشِّتَاءُ قَيْضًا وَحَتّٰی يُجْهَرَ بِالْفَحْشَائِ وَتَزُوْلُ الأَرْضُ زَوَالًا.

(اخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 21/ 274.)

’’قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ اﷲ کی کتاب (پر عمل کرنے) کو عار ٹھہرایا جائے گا اور اسلام اجنبی ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ علم اٹھا لیا جائے گا اور زمانہ بوڑھا ہو جائے گا، انسان کی عمر کم ہو جائے گی، ماہ و سال اور غلہ و ثمرات میں (بے برکتی اور) کمی رونما ہو گی، ناقابل اعتماد لوگوں کو امین اور امانت دار لوگوں کو ناقابل اعتماد سمجھا جائے گا، جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا قرار دیا جائے گا، ہرج عام ہو گا۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! ہرج کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قتل، قتل۔ اور یہاں تک کہ اونچی اونچی عمارتیں تعمیر کی جائیں گی اور ان پر فخر کیا جائے گا، یہاں تک کہ صاحب اولاد عورتیں غمزدہ ہوں گی اور بے اولاد خوش ہوں گی، ظلم، حسد اور لالچ کا دور دورہ ہو گا، علم کے سوتے خشک ہوتے جائیں گے اور جہالت کا سیلاب اُمنڈ آئے گا، اولاد غم و غصہ کا موجب ہو گی اور موسم سرما میں گرمی ہو گی۔ یہاں تک کہ بدکاری اعلانیہ ہونے لگے گی۔ ان حالات میں زمین کی طنابیں کھینچ دی جائیں گی‘‘۔

آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمایا ہوا ہر ایک لفظ سچا ثابت ہورہا ہے۔ یہ فتنے آج ہمارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں۔ اللہ کی کتاب قرآن کا ذکر کرنا، اس کے علم، دعوت اور تبلیغ کو لوگ باعث عار سمجھتے ہیں۔۔۔ مسلمان ملکوں میں اسلام اجنبی نظر آرہا ہے۔۔۔ ثمرات، غلہ اور کاروبار میں بے برکتی موجود ہے۔۔۔ جو آرٹیکل 63, 62 پر پورے نہیں اترتے، ایسے بدنام، خائن اور کرپٹ لوگوں کو قومی امانت سونپی جاتی ہے۔ جنہیں ہمارا آئین خائن، بددیانت، چور، لٹیرا کہتا ہے ملکی اقتدار، شرافت اور حکومت کی امانت ان کو ہی دی جاتی ہے۔ اور جو لوگ امانتدار، نیک و متقی، صداقت و امانت کے حامل ہیں، ان پر تہمت لگائی جاتی ہے، الزام لگائے جاتے ہیں۔ جو جھوٹے ہیں انہیں سچا قرار دیا جاتا ہے۔ آج ہمارا میڈیا یہی سب کچھ کر رہا ہے۔ یہ سب پیسے کا کھیل ہے، جھوٹوں کو سچا بنا کر کروڑوں لوگوں کے سامنے دکھایا جا رہا ہے اور جو سچے ہیں انہیں جھوٹا بنا کر دکھایا جارہا ہے۔

الغرض آقا علیہ السلام کے فرامین کے مطابق معاشرے میں نافرمانی، سرکشی، حسد، بخل یہ سب کچھ عام ہوچکا ہے، علم کے چشمے سوکھتے جا رہے ہیں اور جہالت کا سیلاب پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔

دین پر ذاتی رائے کو ترجیح

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:

لَا يَأْتِي عَلَيْکُمْ عَامٌ إِلاَّ وَهُوَ شَرٌّ مِنَ الَّذِي کَانَ قَبْلَهُ، أَمَا إِنِّي لَسْتُ أَعْنِي عَاماً أَخْصَبَ مِنْ عَامٍ وَلَا أَمِيْرًا خَيْرًا مِنْ أَمِيْرٍ، وَلٰـکِنْ عُلَمَاؤُکُمْ وَخِيَارُکُمْ وَفُقَهَاؤُکُمْ يَذْهَبُوْنَ، ثُمَّ لَا تَجِدُوْنَ مِنْهُمْ خَلَفًا وَيَجِيئُ قَوْمٌ يَقِيْسُوْنَ الأُمُوْرَ بِرَأْيِهِمْ.

(اخرجه الدارمي في السنن، المقدمة، باب تغير الزمان وما يحدث فيه، 1/ 76، الرقم/188.)

’’تم پر ہر آئندہ سال پہلے سے برا آئے گا میری مراد یہ نہیں کہ پہلا سال دوسرے سال سے غلہ کی فراوانی میں اچھا ہوگا یا ایک امیر دوسرے امیر سے بہتر ہو گا، بلکہ میری مراد یہ ہے کہ تمہارے علمائ، صالحین اور فقیہ ایک ایک کرکے اُٹھتے جائیں گے اور تم اُن کا بدل نہیں پاؤ گے اور (قحط الرجال کے اس زمانہ میں) بعض ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دینی مسائل کو محض اپنی ذاتی قیاس آرائی سے حل کریں گے‘‘۔

جب قرآن و حدیث کے کامل علمائ، فقہائ، ربانیین، عرفاء نہیں رہیں گے تو پھر ایسے لوگ معاشرے میں چھا جائیں گے جو قرآن و سنت کی بات نہیں کریں گے بلکہ اپنی عقل، دانش اور ذاتی رائے سے لوگوں کو دین کی تشریح کر کے بتائیں گے اور لوگ ان کی باتوں پر چلیں گے۔ دین ہٹا دیا جائے گا اور دین کی تشریح و تعبیر ذاتی رائے سے ہو گی۔

آج ہمارے معاشرے میں ایسا ہو رہا ہے کہ ہر شخص کہتا ہے میری رائے میں یہ ہے۔۔۔ میں یہ سمجھتا ہوں۔۔۔ میرے خیال میں یہ ہے۔۔۔ ارے نادان! دین میں تیری رائے کی حیثیت کیا ہے۔۔۔؟ ارے بدبخت! دین میں تیرے خیال اور قیاس آرائی کی حیثیت کیا ہے۔۔۔؟ آقا علیہ السلام نے فرمایا: جب لوگ دین کا فیصلہ اپنی ذاتی رائے اور قیاس سے کرنے لگیں اور قرآن و حدیث و سنت کو ترک کر دیں تو سمجھو گمراہی چھا گئی ہے اور معاشرے سے حق رخصت ہوگیا ہے۔

مذموم مفادات کا باہمی تحفظ

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

يَکُوْنُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ أَقْوَامٌ إِخْوَانُ الْعَـلَانِيَةِ أَعْدَاءُ السَّرِيْرَةِ فَقِيْلَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، فَکَيْفَ يَکُوْنُ ذٰلِکَ؟ قَالَ: ذٰلِکَ بِرَغْبَةِ بَعْضِهِمْ إِلٰی بَعْضٍ وَرَهْبَةِ بَعْضِهِمْ إِلٰی بَعْضٍ.

(اخرجه احمد بن حنبل في المسند، 5 / 235، الرقم/22108)

’’آخری زمانہ میں ایسے طبقات اور گروہ ہوں گے جو ظاہری طور پر (ایک دوسرے کے لیے) خیر سگالی کا مظاہرہ کریں گے اور اندر سے ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔ عرض کیا گیا: یا رسول اﷲ! ایسا کیونکر ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک دوسرے سے (شدید نفرت رکھنے کے باوجود صرف) خوف اور لالچ کی وجہ سے (بظاہر دوستی وخیر خواہی کا مظاہرہ کریں گے)‘‘۔

اس حدیث میں بیان کردہ مظاہر بھی آج ہم معاشرے میں موجود سیاسی جماعتوں اور گروہوں کے درمیان دیکھتے ہیں کہ ایک دوسرے کے دشمن اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ سیاسی مفادات، اقتدار، لالچ، پیسہ، لوٹ مار اور دنیا کے ظاہری مفادات نے دلوں کے دشمنوں کو اوپر سے دوست بنادیا ہے۔ یہ لوگ اندر سے ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں مگر اوپر سے چونکہ لوٹ مار ان کا مشترکہ ایجنڈا ہے اس لیے آپس میں بظاہر جڑے بھی ہوئے ہیں۔

آج کا سارا سیاسی نظام تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث پاک کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ لوگوں کے منشور آپس میں نہیں ملتے، خیالات آپس میں نہیں ملتے، رائے نہیں ملتی، فکر نہیں ملتی، ایک دوسرے سے نفرت ہے، دشمن ہیں، گالیاں دیتے ہیں، مگر اسمبلی میں ایک ہوتے ہیں۔ کرپشن، حکومت و اقتدار اور مفادات پر ان کا گٹھ جوڑ ہے۔ نیز یہ بھی کہ دنیا کا مفاد یا ایک دوسرے کا خوف و خطرہ انہیں ایک دوسرے سے جوڑے ہوئے ہے۔

مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے

عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضی الله عنه قَالَ: يَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ يَجْتَمِعُوْنَ وَيُصَلُّوْنَ فِي الْمَسَاجِدِ وَلَيْسَ فِيْهِمْ مُؤْمِنٌ.

(أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6/163، الرقم/30355)

حضرت عبد اﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگوں پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ وہ مساجد میں اکٹھے ہوں گے اور باجماعت نمازیں پڑھیں گے، لیکن ان میں کوئی ایک بھی (صحیح) مؤمن نہیں ہوگا۔

لوگو! دین فقط مسجدوں میں آکر نماز پڑھ لینے کا نام نہیں ہے۔۔۔ دین ماہ رمضان المبارک میں فقط روزے رکھ لینے کا نام نہیں ہے۔۔۔ دین صرف حج اور عمرے پر چلے جانے کا نام نہیں ہے۔۔۔ اگر دین قلب و باطن میں نہیں اترا، اگر دین فکر اور سوچ میں نہیں اترا، اگر دین سینوں میں آباد نہیں، اگر دین زندگی پر نافذ نہیں ہے اور ہمارے ظاہر و باطن کے احوال دین کے تابع نہیں ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ دین ہم سے دور اور ہم دین سے دور۔ افسوس ہم دین کی رسموں پرمطمئن ہو گئے اور دین کی حقیقت سے کلیتاً دور ہو چکے ہیں۔ اگر دین کی حقیقت کو معاشرے میں راسخ کرنے کی بات کی جاتی ہے تو ہمارے ذہن اتنے پراگندہ و فرسودہ ہوگئے کہ کہا جاتا ہے کہ یہ تو سیاست ہو گئی۔

اگر فقط رسم نماز اور فقط مساجد میں آ جانے اور جمع ہو جانے کا نام دین ہوتا تو آقا علیہ السلام یہ نہ فرماتے کہ ان نماز پڑھنے والوں میں اور مسجدوں میں جمع ہونے والوں میں کوئی مومن نہیں۔ آقا علیہ السلام سے بڑھ کر کوئی ایمان کی حقیقت کو جاننے والا نہیں۔ آپ کے ارشاد مبارکہ سے عیاں ہے کہ دین فقط رسم کا نام نہیں اور رسماً نماز پڑھ لینے کا نام نہیں، فقط جمعہ اور عید کے دن مساجدوں کو بھر دینے کا نام نہیں۔ کیوں فرمایا کہ ان میں مومن ایک بھی نہیں ہو گا، وجہ یہ ہے کہ نماز پڑھیں گے مگر ان کے دلوں میں منافقت، بداعتقادی، دنیا پرستی، کردار میں دھوکہ دہی ہو گی۔۔۔ وہ کرپٹ، ظالم، امانت میں خیانت کرنے والے اور قوم سے جھوٹ بولنے والے ہوں گے۔۔۔ گویا ان کے اندر سے حقیقی دین نکل گیا ہو گا۔ دین جس کردار کا تقاضا کرتا ہے، وہ اس کردار سے خالی ہوں گے۔۔۔ دین جس امانت و صداقت کا تقاضا کرتا ہے ان کی زندگیاں اس امانت و صداقت سے محروم ہوں گی۔۔۔ دین قوم اور لوگوں کے ساتھ جس عدل و انصاف کا تقاضا کرتا ہے ان کی زندگیوں میں ایسا عدل و انصاف نہیں رہے گا۔۔۔ دین جس وعدہ کو پورا کرنے کا تقاضا کرتا ہے وہ ایفائے عہد ان میں موجود نہ ہوگا۔۔۔ لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالیں گے اور لوگوں کے مال لوٹ کر امیر کبیر ہوتے چلے جائیں گے۔ جب ان کے اندر اس طرح خونخوار بھیڑئیے کا عمل کار فرما ہو گا تو خواہ وہ مسجدوں کو بھر دیں مگر ایک شخص بھی ایمان والا نہیں ہو گا۔

اقبال نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا:

مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحب اوصافِ حجازی نہ رہے

یہ دور اتنی جہالت و لا علمی اور اتنی بے شعوری کا دور ہے کہ اکثر لوگوں کے اندر دین کا صحیح فہم اور صحیح معرفت نہیں رہی۔ میں عرصہ دراز سے اس قوم کو دین کی رسم کی بجائے دین کی حقیقت کا شعور دینے پر لگا ہوں اور یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ اس حقیقی دین کو اپنی زندگیوں میں زندہ کرو۔۔۔ اس حقیقی ایمان کو اپنے شعور، علم، فکر، عمل اور سیرت و کردار میں جاگزیں کرو۔۔۔ چلتا پھرتا دین تمہاری زندگیوں میں نظر آئے۔۔۔ تب تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ میں مومن بنو گے۔ حیف! ہمارا معاشرہ منافقت کی آماجگاہ ہے۔۔۔ کفر سے بدتر ہو چکا ہے۔۔۔ کافروں سے بدتر مسلمانوں کا حال ہو چکا ہے۔۔۔ جھوٹ، مکر، فریب، ظلم و بددیانتی، خیانت، رشتہ داروں سے زیادتی، پڑوسیوں سے زیادتی، غریبوں کے حقوق پہ ڈاکہ ڈالنا الغرض ہم ہرلحاظ سے بدتر ہو چکے ہیں اور دعوی کرتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔۔۔ مسلمانوں کے لیڈر ہیں۔۔۔ مسلمانوں کے نمائندے ہیں۔۔۔ میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر کردار میں دین نہ ہو تو بھلے تم مسجدوں کو نماز کے سجدوں سے بھر دو پھر بھی تم میں ایک شخص بھی مومن نہیں ہو گا۔ ایمان دعوؤں سے نہیں آتا بلکہ ایمان حقیقی کردار سے آتا ہے۔

٭ خطاب برموقع شہر اعتکاف 2013ء (31 جولائی 2013ء) ناقل: محمد خلیق عامر

(جاری ہے)