چشم کشا حقائق
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین ناقل: محمد خلیق عامر
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے گذشتہ ماہ جنوری و فروری 2014ء میں ملکی میڈیا پر متعدد انٹرویوز کے ذریعے پاکستان کے وسائل، اثاثہ جات اور قومی امانت کی ’’نجکاری‘‘ کے نام پر دن دھاڑے لوٹ مار کا پردہ چاک کیا۔ ان انٹرویوز میں آپ نے نجکاری کے علاوہ بھی متعدد اہم قومی ایشوز پر اظہار خیال فرمایا۔ ان صفحات پر ہم ’’نجکاری‘‘ سے متعلق مباحث پر مشتمل اقتباسات کو ایک آرٹیکل کی شکل میں پیش کررہے ہیں۔ ان حقائق کو منظر عام پر لانے کا مقصد بیداری شعور کے ساتھ ساتھ عوام و خواص کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلانا بھی ہے۔ شیخ الاسلام کے جن انٹرویوز سے اقتباسات کو اس آرٹیکل میں شامل کیا گیا ہے وہ ARY نیوز، ایکسپریس نیوز اور سماء TV پر نشرکئے گئے۔ ان انٹرویوز میں شامل دیگر اہم قومی ایشوز پر شیخ الاسلام کے بیان کردہ حقائق کی تفصیلات جاننے کیلئے درج ذیل CD'sسماعت فرمائیں:
(CD#:1956, 1957,1958,1963,1961,1965, 1968,1969)
وطن عزیز اس وقت مختلف سیاسی، سماجی، معاشی اور بدامنی سے متعلق سنگین ترین حالات کا شکار ہے۔ ایسے میں مخلص سیاسی قیادت کا فرض ہے کہ وہ غیر معمولی احتیاط، محنت اور اخلاص سے کام لیتے ہوئے ملک کو ان بحرانوں سے نکالے مگر شومئی قسمت! کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ملک کو مزید انارکی اور تباہی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ موجودہ حکمران اپنی کرپشن، نااہلیت اور آمرانہ رویوں کی وجہ سے اس قوم کو ایک بڑے بھیانک مستقبل کی طرف لے جا رہے ہیں۔
ان حالات کو سدھارنے میں حکمران غیر سنجیدہ ہیں اور لوگوں کی جان، مال، عزت و آبرو کا تحفظ ان کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ مہنگائی، بیروزگاری، بدامنی، لاقانونیت پر کنٹرول کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔ میں نے 11 مئی کے الیکشن سے پہلے اور 23 دسمبر 2012 کے مینار پاکستان کے جلسے میں اور جنوری 2013 کے لانگ مارچ میںدو ٹوک انداز میں قوم سے کہہ دیا تھا کہ یہ لوگ نا اہل ہیں، ان کی مہارت صرف لوٹ مار ہے۔ یہ تجارت اور سیاست کو اکٹھا کریں گے تو پورا ملک لُوٹ سیل اور کلیئرنس سیل پہ لگ جائے گا۔
جب کوئی بڑا سٹور بند ہونے لگتا ہے تو اُس کے اندر موجود اشیاء کو نہایت ہی سستے داموں فروخت کردیا جاتا ہے۔ اس کو closing sale کہتے ہیں۔ اس طرح لگ رہا ہے کہ یہ حکمران ملک کو لوٹ سیل سے بھی آگے closing sale پر لگانے والے ہیں اور سب کچھ لُوٹ مار کر کے بھاگنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں عوام کہاں جائیں؟ قانون کی کوئی پاسداری نہیں حتی کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کو بھی پاؤں تلے روندا جا رہا ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلہ کی پامالی
سپریم کورٹ آف پاکستان نے 22 جولائی 2013ء کو ملک کے بڑے 58 اداروں کے سربراہان کی میرٹس اور شفافیت کے ساتھ تقرری کے لئے تین رکنی اعلیٰ اختیاراتی کمیشن بنانے کا حکم دیا تھا۔ اس کمیشن کی تشکیل کی خبر 12 نومبر 2013ء کو تمام اخبارات میں شائع ہوئی۔ ابھی اُس کمیشن کو چارج لیے 2 مہینے ہی ہوئے تھے کہ وزیراعظم پاکستان نے اُن اداروں میں سے 35 اداروں کے سربراہوں کی تقرری کا اختیار 14جنوری 2014ء کو کمیشن سے واپس لے کر ان اداروں کی ذمہ داریاں اپنے دوستوں، یاروں، نالائق وزیروں اور فیملی کے لوگوں کو دے دیں اور آج انہی قومی اداروں کو جو ملک کا اثاثہ ہیں، بیچا جارہا ہے اور سپریم کورٹ کے آرڈرز کو بھی پاؤں تلے روند دیا گیا ہے۔
کوئی ان سے پوچھنے والا اور ان کی گرفت کرنے والا نہیں، کوئی سوموٹو ایکشن بھی نہیں لیا گیا۔ یہاں توہین عدالت لگنی چاہیے تھی۔ اگر گذشتہ ادوار کے وزراء اعظم کو چیف جسٹس نے بطور وزیراعظم طلب کرکے توہین عدالت پر سزا دی تو موجودہ وزیراعظم کو سپریم کورٹ میں توہین عدالت کے ارتکاب پر طلب کر کے نااہل کیوں نہیں کیا گیا؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس ملک میں سپریم کورٹ کے فیصلوں سمیت آئین کی پاسداری نہ ہو، جہاں ہر شخص مارا جا رہا ہو اور انسان کا خون پانی کی طرح ارزاں ہو۔ صرف غیر ملکی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے اور اپنی کرسی پہ براجمان رہنے کے لیے پورا ملک تباہی کے دھانے پہ کھڑا کردیا گیا ہو، وہاں عوام بیچاری کہاں جائے؟
نجکاری اور موجودہ حکمرانوں کا سابقہ طرز عمل
معاشی طور پر ہم پہلے ہی بہت تباہ ہو چکے ہیں۔ ایک طرف بیرونی دنیا اور اپنے بینکوں سے قرضے لے لے کر حکومت چلا رہے ہیں اور دوسری طرف اپنے ملکی اثاثوں اور اہم اداروں کی نجکاری کر رہے ہیں۔نجکاری کے نام پر اس ملک کے کم و بیش تمام بڑے ادارے اور اثاثے clearance sale پر لگا دئیے گئے۔ یہ المیہ پاکستان میں موجودہ حکومت ہی کے گزشتہ ادوار میں بھی ہوا اور اب یہ انہی کے ہاتھوں تیسری بار ہونے کو ہے۔ اس نجکاری کی تفصیلات درج ذیل ہیں:
1۔ ان حکمرانوں کے ہاتھوں نجکاری کا پہلا دور 1991 سے 1993ء تک کا تھا۔ جس میں ریاست پاکستان کے 40 بڑے اداروں کی نجکاری کی گئی۔ موجودہ حکمرانوں نے یہ ادارے اپنے رشتہ داروں، سیاسی سپورٹرز، اپنے کاروباری شراکت داروں اور اپنے دوستوں یاروں کو بانٹ دئیے۔ جن لوگوں کو یہ ادارے بیچے گئے وہ ان کے مالیاتی معاون بھی تھے، سیاسی مددگار بھی تھے اور کاروباری شراکت دار بھی۔ اس دور میں 40 میں سے 10 ادارے ایسے بھی بیچے گئے جو واضح طور پر نفع میں تھے اور اُن کے بیچنے کا کوئی جواز نہیں تھا مگر صرف اپنی فیملی اور اپنے دوستوں کو نوازنے کے لیے یہ قومی جرم کیا گیا کہ ریاست سے نفع کھینچ کر اپنے خواص کی جھولی میں ڈالا گیا۔
سوداگر لوگ برسراقتدار آتے ہیں تو فوری طور پہ ان کی نگاہ قومی اثاثوں کی خریدو فروخت پر ہوتی ہے۔ یہ حکمران اور سیاست دان بن کر قومی اثاثے بیچتے ہیں اور تاجر اور کاروباری بن کر بلواسطہ طور پر خود ہی خریدتے ہیں۔ ان کے front man اور ہوتے ہیں۔ اس دور میں جن 40 قومی اداروں کو بیچا گیا ان میں مسلم کمرشل بینک، سیمنٹ فیکٹریز، آئل ریفائنریز، سٹیل انڈسٹریز، کیمیکل پلانٹس وغیرہ شامل تھے۔ مکمل طور پر غیر شفاف اور کرپشن پر مشتمل نجکاری کا یہ پہلا مرحلہ تھا جو موجودہ حکمرانوں نے اپنے پہلے دور حکومت 1991ء تا 1993ء میں مکمل کیا۔
2۔ نجکاری کا دوسرا مرحلہ 1997-99ء کا ہے جب یہ دوبارہ برسراقتدار آئے۔ اس دوران انہوں نے ایک درجن کے قریب قومی اثاثے اپنے فیملی ممبرز، دوستوں اور سیاسی پارٹنرز کو بیچے۔ ایسی اندھیر نگری دنیا میں کہیں نہیں ہوتی۔
3۔ نجکاری کا تیسرا دور اب ان کے تیسری مرتبہ حکومت میں آنے کے بعد جاری و ساری ہے۔ اس کا آغاز انہوں نے ستمبر 2013ء میں کردیا ہے۔ اب کی بار ان کی للچائی ہوئی نظریں ملک پاکستان کے بڑے بڑے قومی اثاثوں پر ہیں ان میں درج ذیل ادارے قابل ذکر ہیں:
- پاکستان سٹیٹ آئل
- آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی
- سوئی ناردرن گیس کمپنی
- پاکستان ریلوے
- سول ایوی ایشن اتھارٹی (CAA)
- پاکستان سٹیٹ لائف
- پاک عرب ریفائنری
- نیشنل ہائی وے اتھارٹی (NHA)
- نیشنل انشورنش
- پاکستان سٹیل مل
- ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن
- کراچی پورٹ ٹرسٹ
- اسلام آباد الیکٹرک
- فیصل آباد الیکٹرک
- لاہور الیکٹرک
- گوجرانوالہ الیکٹرک
- نیشنل انویسٹمنٹ ٹرسٹ (NIT)
- نیشنل پاورکنسٹرکشن کمپنی
- نیشنل بینک آف پاکستان
- فرسٹ وویمن بینک
- حبیب بینک لمیٹڈ
- یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ
- مسلم کمرشل بینک
- پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ
نیز کئی ایسی corporations جو اس وقت بھی نفع دے رہی ہیں اُن نفع حاصل کرنے والے اداروں کو بھی بیچ رہے ہیں۔ اسی طرح چھوٹے banking sectors،power station، tourism، building and construction companies اور electrical & mechanical industry کو بھی بیچ رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب اس فیز کے بعد پاکستان کی ریاست کے ہاتھ میں کچھ نہیں بچے گا۔
الغرض ملک کے سارے اثاثے اب clearance & closing sale پر ہیں۔ نجکاری کی ساری معلومات اور اس کی جزئیات عوام کو فراہم کرنا حکمرانوں کی ذمہ داری تھی، اگر ان کی نیت میں فتور نہ ہوتا، کرپشن کا منصوبہ نہ ہوتاتو شفاف طریقے سے نجکاری ہوتی۔ یاد رکھیں! نجکاری کا مطلب ویسے تو ملک کو ترقی دینا ہوتا ہے۔ اس میں ان اداروں کو بیچا جاتا ہے جو نقصان میں جارہے ہوتے ہیں اور حکومت اگر حتی الوسع کاوشوں کے باوجود اس کے خسارے کو پورا نہ کرپائے تو نجکاری کے ذریعے ان اداروں کو نفع بخش بنانا اور اُس کے ورکرز اور عوام کو خوشحال کرنا مقصود ہوتا ہے۔ مگر افسوس کہ یہاں نقصان اور خسارے کا باعث اداروں کے بجائے نفع بخش اداروں کو ہی بیچا جارہا ہے۔
موجودہ نجکاری کمیشن۔۔ ذاتی دوستوں کا ٹولہ
نجکاری کے عمل کو مکمل کرنے کے لئے موجودہ حکمرانوں نے نجکاری کمیشن کا ایک بورڈ بنایا ہے۔ قابل اور اہلیت والے لوگوں کو یکسر نظر انداز کرکے خاموشی کے ساتھ وزیراعظم نے اپنے دوستوں، یاروں، بزنس پارٹنرز اور مسلم لیگ (ن) کے لوگوں پر مشتمل ایک بورڈ بنا دیا ہے تاکہ خاموشی سے ملکی دولت پر ڈاکہ زنی ہو سکے۔ کوئی نہ جانے، نہ دیکھے اور نہ پوچھے۔
ظلم کی حد یہ ہے کہ نجکاری کمیشن کے چیئرمین سمیت اس کے دیگر تمام پانچ اراکین میں سے ایک بھی نجکاری کے عمل کے لئے پیشہ وارانہ اہلیت و صلاحیت کا حامل نہیں ہے۔ میں یہ واضح کر دوں کہ مجھے ان ممبران نجکاری کمیشن سے ذاتی طور پر نہ کوئی عداوت ہے، نہ دوستی اور نہ دشمنی۔ بھلے آدمی ہوں گے، مجھے اس سے غرض نہیں، اُن کی ذات پر کوئی تنقید نہیں ہے۔ مجھے تو نجکاری کے لئے اختیار کردہ طریقہ پر اعتراض ہے۔ اتنے بڑے کام کے لئے مجھے اُن احباب کی اہلیت پر اعتراض ہے۔ اپنے میدان میں وہ اپنی جگہ جتنے بھی اچھے ہوں مگر ان کا پیشہ وارانہ پس منظر اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس کام کے لئے موزوں اور اہل نہیں۔ موجودہ نجکاری کمیشن کے ممبرز میں زبیر عمر (چیئرمین)، فاروق خان، چوہدری عارف سعید، ظفر اقبال سبحانی، ارسلہ خان ہوتی اور نصیرالدین احمد شامل ہیں۔ اگر ان افراد کے پس منظر، تعلیمی کوائف، رشتہ داریوں، دوستیوں کے چارٹ پر ایک نظر ڈالی جائے تو نجکاری کمیشن کی شفافیت اور میرٹ کی اصلیت قوم کے سامنے خود آجاتی ہے۔
اس کمیشن کے چیئرمین زبیر عمر وہی شخصیت ہیں جن کے ایک بھائی اسد عمر اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے اہم رہنما ہیں۔ ان کے دوسرے بھائی طارق عمر کا تعلق پیپلز پارٹی کے ساتھ ہے اور تیسرے بھائی منیر کمال کو موجودہ حکومت نے نیشنل بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹر کا چیئرمین مقرر کیا ہے تاکہ نجکاری کے عمل کے دوران بینک سے پیسوں کے لین دین میں ان کو کسی قسم کا کوئی مسئلہ درپیش نہ ہو اور بات اپنے ہی دوستوں کے درمیان رہے۔ زبیر عمر صاحب خود مسلم لیگ (ن) کی منشورکمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں، وزیراعظم کے قریب ترین ساتھی ہیں اور ن لیگ کی کئی اہم مالیاتی کمیٹیوں کی سربراہی بھی ان کے پاس ہے۔ گویا اپنے خاص الخاص، آدمی کو اس بورڈ کا چیئرمین لگایا ہے۔ ہمیں اعتراض نہ ہوتا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ اُن کی 26 سال کی پوری ملازمت (1981 سے 2007ء) ایک ہی کمپنی IBM میں ہے۔ پہلے وہاں پڑھایا اور پھر وہاں نوکری کی ہے۔جس ملک میں بھی رہے accounts, treasury, finance کے شعبے ہی ان کے پاس رہے۔ دنیا کے کسی اور شعبے، ڈیپارٹمنٹ اور بزنس کا کوئی تجربہ اور ویژن نہیں ہے۔ اب ایک شخص جس نے ساری زندگی IBM کے مالیاتی شعبے میں نوکری کی ہے، وہ اپنے شعبے میں جتنا بھی لائق ہو مگر اُسے PIA، سٹیل، ریلوے، آئل اینڈ گیس انڈسٹری سمیت تمام ملک کے قومی اثاثے بیچنے اور نجکاری کرنے کے اختیارات کے حامل کمیشن کا سربراہ نہیں بناسکتے۔ اس میدان میں جس شخص کا تجربہ نہیں ہے، اسے صرف اس لیے نوازا جارہا ہے کہ وہ ان کے خواص میں ہیں اور پارٹی کے اہم عہدیدار ہیں۔
یہی حال دوسرے ممبر فاروق خان کا ہے۔ یہ پنجاب کے ایک بہت بڑے صنعتکار ہیں اور ان کی شوگر ملز ہیں۔ موجودہ وزیراعظم صاحب کے ذاتی دوست ہیں۔۔۔ تیسرے ممبر چوہدری عارف سعید ہیں۔ یہ بھی صنعتکار اور سروس انڈسٹریز کے مالک ہیں۔ یہ پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری احمد مختار صاحب کے بھائی ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی میں ہیں، یہ نون لیگ میں ہیں۔ ان بڑے کاروباری لوگوں کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ہر پارٹی میں ایک ایک بھائی چلا جاتا ہے۔ ایک پیپلز پارٹی میں، ایک نون لیگ میں، ایک کسی اور پارٹی میں تا کہ جس کا بھی اقتدار آئے ان کی پانچوں انگلیاں گھی میںرہیں۔ آپ اندازہ کریں کہ اس صورت حال میں کیسے شفافیت، امانت داری، میرٹ اور عدل کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔۔۔؟ چوتھے ممبر ظفر اقبال سبحانی ہیں۔ وہ Hub Power کمپنی کے ساتھ associate رہے ہیں۔ اُن کو اس لیے لگایا ہے کہ نجکاری کے دوران کوٹ ادو پاور کمپنی، اسلام آباد الیکٹرک سٹی سپلائی کمپنی، حیدر آباد الیکٹرک سٹی سپلائی کمپنی، جام شورو پاور جنریشن لمیٹڈ اور نادرن پاور جنریشن بھی بِک رہی ہیں۔ ان صاحب کا تعلق چونکہ الیکٹرک سپلائی سے ہے لہذا ان کو ساتھ رکھ لیا، یہ بھی وزیراعظم کے دوست ہیں۔۔۔ پانچویں ممبر ارسلہ خان ہوتی بھی مسلم لیگ (ن) کے عہدیدار ہیں۔ ان کو موجودہ وزیراعظم نے مردان2 سے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دیا تھا، الیکشن ہار گئے۔ نون لیگ مردان ضلع کے جنرل سیکرٹری بھی ہیں۔ آپ حیثیت کا اندازہ کر لیں کہ جو صوبائی اسمبلی کا الیکشن ہار گیا اور ضلع کا سیکرٹری جنرل ہے اُسے پورا ملک بیچنے کے بورڈ میں ڈائریکٹر بنا دیا ہے۔ افسوس یہ حکمران کتنے نیچے گر گئے ہیں۔۔۔ اور کیوں نہ گریں، اُن کو پتہ ہے کہ یہ قوم نہیں نکلے گی اس لیے جو کچھ ہوتا ہے کرلو، ان کے کفن بھی چرا لو اور ان کے جسم بھی کاٹ دو۔۔۔ چھٹے ممبر نصیر الدین احمد ہیں اور یہ بھی وزیراعظم صاحب کے ذاتی دوست ہیں۔
یہ نجکاری کمیشن کے چیئرمین سمیت تمام ممبران کا پس منظر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا نجکاری کا تجربہ ہی نہیں ہے۔ ان میں سے ایک شخص بھی اس قابل نہیں کہ وہ پوری دنیا کے خریداروں کے ساتھ بات چیت کرسکے،bargaining کر سکے، قیمتیں طے کر سکے، پاکستانی اثاثہ جات کے تحفظ کے لئے لڑ سکے۔ اپنے لوگوں، قریبی پارٹنر کو محض کرپشن کو چھپانے اور کرنے کے لیے لگایا گیا ہے۔ یہی حال وزارت خزانہ کا ہے کہ یہ وزارت بھی ایک منشی صاحب کے پاس ہے اُنہوں نے کل منشی جمع کر لیے ہیں۔ اسی طرح یہ نجکاری کمیشن بھی منشیوں کا ایک گروپ ہے۔ جس میں chaterd accountant ہیں، charaterd accountant کا کام books maintain کرنا ہوتا ہے، accounts تیار کرنا ہوتا ہے، یہ پورے پاکستان کے قومی اثاثوں کو بیچنا، کاروبار کرنا، bargaining کرنا، billing کرنا، اس کا حساب کرنا، شفافیت کو یقینی بنانا ان کا موضوع ہی نہیں ہے۔
نجکاری کے بین الاقوامی معیارات
دنیا بھر میں نجکاری ہوتی ہے مگر میرٹ اور شفافیت کو بہر صورت یقینی بنایا جاتا ہے۔ لہذا اگر ان حکمرانوں نے نجکاری کرنی ہے تو اس کے لئے بین الاقوامی معیار کو ملحوظ رکھا جائے۔ ہم اُس بین الاقوامی شفافیت کے پیمانے پر ہی پاکستان میں صاف و شفاف نجکاری دیکھنا چاہتے ہیں۔
اس موقع پر ایک تاریخی واقعہ بھی آپ کے علم میں لاتا چلوں کہ 1996ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں PTCL کی نجکاری کی گئی اور PTCL کے شیئرز کو فی شیئرز 30 روپے کے حساب سے بیچا گیا۔ اس کام کے لیے انہوں نے Union Bank of Switzerland کی ایک سکیورٹی کمپنی کے ذریعے یہ کام کروایا۔ ابھی یہ مرحلہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ تاجروں اور بیوروکریٹس میں سے پاکستان کے کچھ درد مند محب وطن لوگ درمیان میں آئے اور اُنہوں نے محترمہ کو قائل کیا کہ یہ پاکستان کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہو رہا ہے اور ایک بہت بڑا قومی اثاثہ کوڑیوں کے بھاؤ بِک رہا ہے۔ بہر صورت محترمہ قائل ہوئیں اور PTCL کی شفاف نجکاری کو ممکن بنانے کے لئے اُس وقت مسلم کمرشل بینک کے صدر حسین لوائی کے سپرد یہ کام کیا گیا۔ حسین لوائی نے پہلی مرتبہ یہ سسٹم پاکستان میں متعارف کروایا کہ اُنہوں نے PTCL کی نجکاری میں شفافیت پیدا کرنے کے لیے لندن کی ایک بین الاقوامی فرم کی خدمات حاصل کیں جو کہ شفافیت کے حوالے سے معروف تھی۔ اس انٹرنیشنل فرم کی زیر نگرانی PTCL کی نجکاری کے لئے پوری دنیا میں تشہیر کی گئی۔ بعد ازاں میرٹ پر فیصلہ کیا گیا تو وہ شیئر جو 30 روپے کے حساب سے بِک رہا تھا وہ 56 روپے کا بِکا اور 500 ملین سے لے کر 800 ملین ڈالر تک کا پاکستان کو فائدہ پہنچا۔ اُس ایک شخص نے اتنے بڑے نقصان اور بحران سے پاکستان کو بچایا اور پاکستان کو نفع ملا۔ جونہی 1997ء میں مسلم لیگ (ن) کی گورنمنٹ آئی انہوں نے حسین لوائی کو اس دیانتداری پر سزا دی اور اُسے پاکستان سے بھگا دیا گیا کہ پاکستان میں ایسے دیانتدار لوگ نہیں چاہئیں جو کرپشن کو روکیں اور ملک کو فائدہ پہنچائیں بلکہ ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ہماری کرپشن کو ہماری خواہشات کے مطابق تحفظ فراہم کریں۔
آج ایسے دیانتدار اور اہل لوگوں پر مشتمل کمیشن بنانے کے بجائے ایک ایسا بورڈ بنایا گیا ہے جس بورڈ کے ذریعے یہ حکمران اپنی کرپشن کو 100% تحفظ دیں گے۔ میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ قومی اثاثے کسی حکمران یا کسی سیاسی لیڈر کے خاندان کی جائیداد نہیں ہے، یہ کسی کی وراثت نہیں کہ جسے چاہے جس بھاؤ بیچ دے۔ یہ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کا ورثہ ہے۔ یہ ریاست پاکستان کی ملکیت ہے، ہماری اگلی نسلوں کی ملکیت ہے۔ بین الاقوامی شفافیت کے معیار کو سامنے رکھا جائے اور جن اداروں کی نجکاری لازمی ہے اُنہیں بین الاقوامی شفافیت کے معیار کے مطابق بیچیں۔
میں آپ کے سامنے چند دیگر ممالک کی مثالیں بیان کرتا ہوں کہ وہ لوگ اپنے قومی اداروں کی نجکاری کے ضمن میں کن کن اصول و ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے شفافیت اور میرٹ کو ممکن بناتے ہیں۔
٭ 1980ء میں برطانیہ میں نجکاری ہوئی اور معاشرے کے اچھی شہرت کے حامل لوگوں اور سارے جماعتوں نے مل کر نگرانی کی اور سو فیصد شفافیت کو یقینی بنایا۔ یار دوستوں کو اور اپنے سیاسی ورکروں کو ملا کر برطانیہ نے کمیشن نہیں بنانے دیا اور پھر ان اداروں کے ملازموں کو stake holder بنایا گیا۔ اس عمل میں انہیں دس سال لگے۔
٭ اسی طرح فرانس میں بھی نجکاری ہوئی۔ ساری پارٹیوں کے لیڈر اس کی نگرانی کرنے والے تھے۔ 20 لاکھ ملازموں کو stake holder بنایا گیا۔ ملازمین اور اس پروڈکٹ کو خریدنے والے عام صارفین کی رائے بھی شامل کی گئی اور پھر فیصلے کئے گئے۔
٭ جرمنی میں 1970ء میں نجکاری ہوئی۔ وہاں کے چانسلر اور اچھی شہرت کے حامل افراد نے بطور کمیشن نگرانی کی اور سو فیصد شفافیت کو یقینی بنایا۔ مالکان اور ملازمین دونوں پر مشتمل بورڈ بنایا گیا۔ اسی ماڈل کو بعد میں فرانس اور برطانیہ نے بھی اختیار کیا۔
٭ آسٹریلیا میں بھی 1980ء میں نجکاری ہوئی۔ اُس کی نگرانی کرنے والے وہ لوگ تھے جن کی امانت و دیانت پر قوم فخر کرتی تھی۔ انہوں نے شرط لگا دی کہ سیاستدانوں کو نجکاری کے عمل کے قریب بھی نہیں آنے دیا جائے گا۔ اس لئے کہ سیاست اور تجارت اکٹھی نہیں ہو گی کہ بیچنے والے سیاستدان ہوں اور خریدنے والے بھی یہ خود تاجر بن کر سامنے آجائیں۔ ان لیڈروں نے پورے آسٹریلیا میں اس بات کو یقینی بنایا کہ جو لوگ بیچ رہے ہیں، درپردہ خریدنے والے وہ خود نہ ہوں۔ اگر ایسا کوئی شخص ملا تو اس کو باہر نکال دیا گیا۔
٭ کینیڈا میں بھی 80ء کے زمانے میں نجکاری ہوئی۔ قوم کے اعتماد کے حامل افراد نے شفافیت کو ممکن بنانے کے لئے نگرانی کی۔ انہوں نے اپنے ویژن اور انتظامی اہلیت کے ذریعے اس پورے عمل کو شفاف بنایا اور شفافیت کا ایک معیار قائم کیا۔
٭ اسی طرح ساؤتھ کوریا، ملائشیا، برازیل اور ارجنٹائن میں بھی نجکاریاں ہوئیں مگر بہر صورت شفافیت کو یقینی بنایا گیا۔
٭ انڈیا میں بھی نجکاری ہوئی تھی اور50 قومی ادارے بیچے گئے تھے۔ جواہر لال نہرو نے اس کے لئے 1961ء میں کمیشن قائم کیا تھا اور لوگوں کی ملازمتوں اور شفافیت کو یقینی بنایا گیا تھا۔ بعد ازاں 1998ء میں نجکاری کی گئی اور ان اداروں میں موجود 10 لاکھ ملازمین کو stake holder بنایا گیا۔ فیصلہ کرنے کے لیے ملازمین اور انتظامیہ کا مشترکہ بورڈ بنایا گیا جو شفافیت کو یقینی بنائے۔ نیز حکومت و اپوزیشن کی طرف سے کوئی سیاسی دباؤ قبول نہ کیا۔
٭ ٹورانٹو میں گذشتہ ماہ جنوری2013ء سے ڈیٹرھ ہزار کے قریب ایک خاص کمپنی کے ٹیکسی ڈرائیور کو مالکانہ حقوق دئیے جا رہے ہیں۔ پچیس ہزار ڈالر کی ٹیکسی ہوتی ہے اور حقوق مالکانہ ملنے کے بعد وہ ٹیکسی تین لاکھ ڈالر کی ہو جائے گی، ایک سال ہو گیا ہے Toronto کونسل کے لوگ علی الاعلان سماعت کر رہے ہیں۔ چھ چھ سو ٹیکسی ڈرائیور بیٹھتے ہیں، سماعت ہوتی ہے، اپنے اپنے موقف کے حق میں بحث ہوتی ہے۔ صاف و شفاف طریقے سے فیصلہ کر رہے ہیں۔ ایک پیسے کی کرپشن اور حرام خوری کی کسی کو جرات نہیں۔ اس طرح غریب ٹیکسی ڈارئیور کروڑوں کے مالک بن جائیں گے۔ پاکستان میں اگر ایسی نجکاری ہو جائے جس میں ہمارے حکمرانوں کو کمیشن نہ ملے اور غریب کو اتنے پیسے مل جائیں تو ان لیڈروں کو تو ہارٹ اٹیک ہو جائے گا کہ غریبوں کے گھر کروڑوں روپے چلے گئے اور ہمیں حصہ ہی نہیں ملا۔
پاکستان کا اختیار کردہ نجکاری کے لئے موجودہ طرز عمل دنیا کے کسی 3rd class ملک کے معیار شفافیت پر بھی پورا نہیں اترتا۔ الیکشن کے بعد تو ایسا لگتا ہے جیسے ان کو سارا ملک بیچ کے خود کھا جانے کا مینڈیٹ مل گیا ہے۔ کہاں گئے سیاسی جماعتوں کے لیڈر۔۔۔؟ پارلیمنٹ کے فلور پہ بحث کیوں نہیں کرتے۔۔۔؟ اُن کی زبانیں کیوں بند ہیں۔۔۔؟ قومی اثاثے بِک رہے ہیں، ملک بِک رہا ہے۔ اگلی نسلوں کا کیا ہو گا۔۔۔؟ یہ کھا پی کے بھاگ جائیں گے۔ مگر ہم انہیں بھاگنے نہیں دیں گے۔ اگر ان سیاسی جماعتوں میں دم خم نہیں تو کوئی پرواہ نہیں، عوامی انقلاب آنے کو ہے۔ ان شاء اللہ عوام پرامن انقلاب لا کر عوامی طاقت سے یہ سارے اثاثے واپس ریاست پاکستان کو دلا دیں گے اور شفاف طریقے سے تمام امور کو سرانجام دیں گے۔
15 نکاتی فارمولا
نجکاری کے عمل میں شفافیت لانے کیلئے15 نکاتی فارمولا تجویز کر رہا ہوں تاکہ مسئلہ کا حل بھی قوم کے سامنے آسکے۔
1۔ نجکاری میں مہارت رکھنے والی بین الاقوامی شہرت کی حامل امانت، دیانت اور شفافیت کو یقینی بنانے والی کسی فرم کی نگرانی میں نجکاری کے لئے اقدامات کئے جائیں جیسے حسین لوائی نے کیا تھا۔
2۔ نجکاری بورڈ میں شامل تمام ممبرز اور اندرون ملک سے آنے والے تمام خریدار اپنے ذمہ واجب الادا ٹیکس باقاعدگی سے ادا کرتے ہوں۔
3۔ صاف اور شفاف پس منظر اور پیشہ وارانہ امور میں ماہر افراد ہی کو نجکاری بورڈ کا ممبر بنایا جائے۔
4۔ کسی سیاسی جماعت کے کارکنوں کا کمیشن قبول نہیں بلکہ غیر متنازعہ، اچھی شہرت کے حامل سپریم کورٹ، ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ ججز پر مشتمل کمیشن بنایا جائے۔
5۔ نجکاری پر میڈیا پر کھلی بحث ہونی چاہیے۔ جس میں نجکاری بورڈ کے لئے مجوزہ ممبرز کے مکمل پس منظر، اُن کی تعلیم، اُن کا تجربہ، اُن کا خاندان، سیاسی تعلق، مہارت، قابلیت سب کچھ قوم کو بتایا جائے کہ کیا یہ اس ذمہ داری کے اہل ہیں یا نہیں؟
6۔ جس ادارے کو خریدنے کی جسے دلچسپی ہے وہ اپنی بولی بھی خفیہ طریقہ سے نہیں دے گا بلکہ TV چینلز کے ذریعے اس کی بولی عوام کے سامنے آئے تاکہ شفافیت کو یقینی بنایا جاسکے۔ بند کمرے میں خفیہ تجارت نہیں ہو گی۔ منشاء گروپ اور اس جیسے دیگر افراد اور گروپ جن کے پردے کے پیچھے خریدنے والے خود حکمران ہیں، ایسا نہیں ہو گا۔ خریدار اپنے نام، اپنی کمپنیوں کا نام، اپنے خاندان کا نام، اپنے تمام اثاثے، آمدن، بزنس، پاکستان کے اندر اور پاکستان سے باہر سب کچھ بیان کریں گے۔ وہ بتائیں گے کہ اُن کے اثاثے کیا ہیں؟ کیا وہ کوئی ادارہ خرید کر سو فیصد ادائیگی کریں گے؟ یا پاکستانی بینک ہی اُن کو قرض دیں گے اور ملک کے بینکوں سے لئے گئے قرضے سے ہی پاکستانی ادارہ خرید کر اپنی جیب میں ڈال لیں گے۔ ہمارے ہی اثاثے، ہمارے ہی پیسے اور منافع خریدار کا، ایسا نہ ہو۔
7۔ کسی ادارہ کو خریدنے میں دلچسپی رکھنے والا اپنا کم سے کم 10 سال کا ریکارڈ دے گا کہ وہ یہ کاروبار یا اسی طرح کے کاروبار کو چلارہا ہے یعنی انہیں اس کام میں مہارت ہو، ایسا نہ ہو کہ شعبے کا بیڑا غرق ہو جائے اور پیسے نکال کے وہ ملک سے باہر لے جائیں۔
8۔ خریداری میں دلچسپی رکھنے والے کے پچھلے 10 سال کے ٹیکس ادائیگی کے ریکارڈ کو دیکھا جائے کہ کہیں وہ ٹیکس چور تو نہیں ہے۔
9۔ اسی طرح چیک کیا جائے کہ وہ ملکی قرضے کا نادہندہ/ ڈیفالٹر تو نہیں ہے۔ نیز کیا اُن کے خلاف فراڈ کا کوئی کیس کسی عدالت میں تو نہیں چل رہا۔
10۔ ان سوالات کے جوابات کے لیے یہ لوگ عوام کے سامنے بذریعہ میڈیا پیش کئے جائیں۔ اس لئے کہ قوم کو پتہ چلے کہ ان کے ادارے خریدنے والے کون ہیں؟ یہ ملکی و قومی اثاثے وزیراعظم کی ذاتی جاگیر نہیں ہے کہ رات کے اندھیرے میں اللے تللے کریں جس کو چاہیں بیچ دیں اور اپنے ہی نام سے اوروں کے ذریعے خرید لیں۔ نہیں، یہ قوم کی ملکیت ہے، قوم کو اس جانچ پڑتال کا حق ملنا چاہیے۔
11۔ خریدار کا ریکارڈ دیکھا جائے کہ یہ امانت و دیانت کا معاملہ کرنے والے ہیں۔ ان کی اپنی فرم اور انڈسٹری میں ان کے ریکارڈ کی تصدیق کی جائے کہ وہاں گھپلہ اور کرپشن تو نہیں۔ عوام کو حقوق دیتے ہیں، مزدوروں کو حقوق دیتے ہیں، ملازمین کی ملازمت کو تحفظ دیں گے یا نہیں۔
12۔ ملازمین کو stake holder تسلیم کیا جائے اور ان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔
13۔ کسی بھی ادارے کو خریدنے میں دلچسپی رکھنے والے جملہ خریداروں کی بولیوں کا میڈیا پر موازنہ کروایا جائے اور پھر جو ملک و قوم کے مفاد میں ہو اسے مکمل جانچ پڑتال کے بعد قبول کیا جائے۔
14۔ اس پورے مرحلہ کے لیے قانونی ڈھانچہ ہونا چاہیے۔ متعلقہ فرد/ پارٹی سے معاملات طے پاجانے کے بعد تمام اصول و ضوابط کو پارلیمنٹ کی قرار داد کے ذریعے تحفظ دیا جائے۔ ہمارے ہاں تو بدقسمتی سے اتنے بڑے اقدامات کے لئے پارلیمنٹ کا قانون بھی نہیں بنایا گیا۔ گھر میں بیٹھ کر بس چار آدمیوں نے پورے ملک کو بیچنے کا فیصلہ کر دیا۔ ممبران پارلیمنٹ کیوں خاموش ہیں۔۔۔؟ لہذا نجکاری کے لئے act of parliament ہونا چاہیے۔ ایک ایک باریک شق پارلیمنٹ میں پاس ہونی چاہیے۔
15۔اگر خریدار خریداری کے معاہدہ کو پورا نہ کرے، سو فیصد پیسے ادا نہ کرے یا کوئی اور خلاف ورزی کرے تو اس سے معاہدہ ختم کیا جا سکے۔
میں نے یہ 15 نکاتی فارمولا نجکاری کے عمل کو 100 فیصد شفاف بنانے کے لیے دے دیا۔ اب یہ میڈیا، سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ اس موضوع کو اجاگر کریں۔ قوم میں اس حوالے سے شعور بیدار کریں۔ اپنے ملک اور قوم کے اثاثے جس پر ڈاکہ زنی ہونے جا رہی ہے اُس کو روکا جائے۔ یہ ہماری نسلوں کا حق ہے، اٹھارہ کروڑ کا حق ہے۔
خریدار ہوشیار!
ان حقائق کو منظر عام پر لانے اور قوم اور مقتدر حلقوں تک اس حقیقت کو پہنچانے کا میرا مقصد صرف یہ ہے کہ یہ سارے اثاثے ان حکمرانوں کے خاندان کی جائیداد نہیں ہیں بلکہ اس کے مالک اٹھارہ کروڑ عوام ہیں جن کا حال یہ ہے کہ وہ بھوکے مر رہے ہیں۔ افسوس کہ اس کا جواب دینے والا کوئی نہیں۔ قوم کب تک سوتی رہے گی؟ قوم انقلاب کے لیے باہر نکلنے کا فیصلہ کیا اس وقت کرے گی جب کچھ نہیں بچے گا اور سب کچھ لُٹ جائے گا۔ قومی اداروں کو بھی مخاطب ہوں کہ وہ کب تک سوتے رہیں گے؟ ملک ہے تو ہم بھی ہیں تم بھی ہو۔ اگر ملک نہیں بچا تو کچھ نہیں بچے گا۔ موجودہ حکمرانوں نے تو چند لوگوں کے ہاتھوں پورا ملک بیچنے اور خود ہی خریدنے پر لگا دیا ہے۔
میں موجودہ حکمرانوں اور ان اثاثہ جات کے خریدنے والوں کو آگاہ کررہا ہوں کہ یہ قوم کا اثاثہ ہے اور اٹھارہ کروڑ عوام اس کے مالک ہیں۔ ہم اس میں لوٹ مار نہیں ہونے دیں گے۔ اگر شفاف طریقے سے بین الاقوامی معیارات اور درج بالا اصولوں کے مطابق کامل دیانتداری کے ساتھ نجکاری نہ ہوئی تو عنقریب عوامی انقلاب آ رہا ہے۔ ہم عوام کی طاقت لے کر پرامن طریقے سے اس فراڈ، بددیانت، کرپشن پر مبنی نجکاری کو cancleکر دیں گے۔ عوامی انقلاب کے بعد اس کو منسوخ کر کے ان اثاثوں/ اداروں کو دوبارہ قومی تحویل میں لے لیں گے۔ اگر ضرورت محسوس ہوئی تو بین الاقوامی شفافیت کے پیمانے کے مطابق اُس کی نجکاری کرائیں گے۔ لہذا بیچنے والے اور خریدنے والے خبردار رہیں۔
نجکاری کب ناگزیر ہوتی ہے؟
میں بنیادی طور پر نجکاری کے تصور کے خلاف نہیں ہوں، میرا مقصد و مدعا نجکاری میں شفافیت کو یقینی بنانا ہے۔ شفافیت میں یہ بھی شامل ہے کہ پہلے بین الاقوامی شفافیت کی ماہر فرم ان متعلقہ اداروں کا حساب کتاب اور ریکارڈ دیکھ کر فیصلہ کرے کہ کون کون سے ادارے ریاست کو حقیقی معنوں میں منافع دے رہے ہیں اور کون سے ادارے خسارے میں ہیں؟ کیا ان خسارے والے اداروں کی نجکاری کی ضرورت ہے یا نہیں؟
نجکاری سے پہلے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کرپشن کو ختم کر کے، مینجمنٹ کو صاف شفاف بنا کر اور اُس کے انتظامات کو بہتر بناکر اس نقصان میں جانے والے ادارے کو قابل منافع بنایا جائے۔ جب منافع کے حصول کے تمام امکانات ادارے سے ختم ہو جائیں، سو فیصد شفافیت، دیانتداری لا کر بھی کسی ادارے کو ریاست کی ملکیت میں قابل منافع نہ بنایا جاسکے تو اُس کو نجکاری کے لئے پیش کرتے ہیں۔
افسوس! یہاں تو یہ بھی کسی کو نہیں پتہ کہ کون سے ادارے نفع میں جا رہے ہیں اور کون سے نہیں۔ ان حکمرانوں نے تو ان اداروں کو اپنی ملکیت میں لانے کے لئے یہی کہنا ہے کہ یہ ادارے نقصان میں ہیں لیکن جونہی نجکاری کے پردے میں ان اداروں کو یہ خود حاصل کرتے ہیں تو یہ ادارے نفع بخش ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ ادارے حقیقی معنوں میں خسارے میں تھے ہی نہیں بلکہ انہوں نے اپنی ملکیت میں لینے کے لئے ان کو نقصان و خسارہ میں ظاہر کیا تھا۔ اس سقم اور نقص کو دور کرنے کے لئے دنیا کے کئی ممالک غیر جانبدار فرم کو نجکاری کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیتے ہیں۔
چونکہ یہ حکومت اور سیاسی لیڈرز کرپٹ ہیں اور یہاں تجارت اور سیاست جمع ہے۔ یہ جو بھی اقدام کرتے ہیں نجکاری کا یا کسی بھی قسم کے لین دین کا یا کسی بھی ملک کے ساتھ معاہدہ کرتے ہیں تو اُس میں ان کی شراکت، حصہ اور کمیشن ہوتا ہے۔ یہ شفاف لین دین کرتے ہی نہیں ہیں۔ ان کے ہاں امانت و دیانت حرام ہے۔ لہٰذا میں تو ان حکمرانوں کو یہ حق ہی نہیں دیتا کہ یہ فیصلہ کریں کہ کون کون سے ادارے نجکاری کے قابل ہیں۔ اس کے لیے دیانتدار، ایماندار، غیر جانبدار، غیر سیاسی کمیشن ہو جو جائزہ لے اور فیصلہ کرے کہ یہ یہ ادارے اس حد تک نقصان میں ہیں کہ سوائے نجکاری کے کوئی اور علاج نہیں رہا نیزیہ ادارے وہ ہیں کہ جن کی انتظامیہ تبدیل کرنے اور انتظامی اقدامات کے ذریعے نقصان کو روکا جا سکتا ہے۔ مگر یہ فیصلہ وہ کمیشن کر سکتا ہے جو غیر سیاسی ہو، جس کا اپنا ذاتی مفاد اور کاروبار اس نجکاری سے وابستہ نہ ہو۔
افسوس کہ کچھ ایسے ادارے بھی بیچے جارہے ہیں جو فائدے میں ہیں۔ جو ادارہ نفع میں جانے والا ہو اُس کو تو کبھی دنیا کی کوئی ریاست بیچنے کا نام نہیں لیتی۔ اس لئے کہ وہ کما کر حکومت و ریاست کو دے رہا ہے۔ یہاں ظلم کی حد ہے کہ وہ ادارے بھی بیچے جا رہے ہیں جو اربوں کما کر دے رہے ہیں۔
علاوہ ازیں جن خسارے والے اداروں کی نجکاری کی جارہی ہے ان پر میرا سوال یہ ہے کہ کیا اُس کے خسارے کے اسباب معلوم کر لیے گئے۔۔۔؟ غیر جانبدار، دیانتدار، ماہر، تجربہ کار لوگوں پر مشتمل کمیٹی نے پہلے اُس کے خسارے کے اسباب کا تجزیہ کر دیا ہے۔۔۔؟ افسوس کہ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوا۔
یہ نہیں کہ جو سیاسی لیڈر آئے اور وہ خود تاجر بھی ہو اور اُس کے ساتھی تاجر ہوں، خاندان تاجر ہوں اور اپنا نیا بزنس ایونیو کھولنے کے لیے اُس خسارے کو ختم کرنے کی کوشش ہی نہ کریں اور براہ راست نجکاری کر دیں، اس لیے کہ خود خریدنا ہے۔ ایسا ظلم دنیا کی کسی ریاست میں نہیں ہوتا۔
پہلے کمیٹی تعین کرے کہ خسارے کے اسباب کیا ہیں؟ جب اسباب کا تعین ہو جائے پھر اگلا مرحلہ ہوتا ہے کہ اُن کے ازالے کی کاوشیں ہوئی ہیں یا نہیں؟ ان حکمرانوں نے تو اقتدار میں آنے کے بعد اُن اسباب کو ختم کرنے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ فوراً نجکاری کا فیصلہ کرلیا۔ ایک زمانہ میں PIA کما کے دیتا رہا ہے، دنیا کی بہترین airlines میں سے تھا۔ یہ کمانے والا ادارہ تھا یہ کیوں خسارے میں گیا ہے۔۔۔؟ اُن اسباب کا خاتمہ کریں۔ جب سارے اسباب کا خاتمہ کرنے کی ہر ممکن کوشش ہو چکے اور پھر بھی وہ ادارہ خسارے سے نہ نکلے اور کمیٹی یہ کہہ دے کہ نجکاری کے سوا کوئی اور چارہ کار نہیں پھر آپ اُس کی نجکاری کی طرف جاتے ہیں۔ یہ دونوں کام نہیں ہوئے، براہ راست نجکاری اور نجکاری برائے حرام خوری۔
پاکستان کی سیاسی قیادت کو قیادت کہنا ہی ناجائز ہے۔ ان حکمرانوں کا ایجنڈا صرف کرپشن، کمیشن، اور لوٹ مار ہے۔ پاکستان کی سالمیت، آزادی، اقتصادی ترقی اور پاکستان کے مفادات کے تحفظ کے ساتھ انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ سو یہ سب کچھ اپنے ذاتی اور وسیع تر مفاد کے لیے کرتے ہیں۔
ملکی سالمیت یا ذاتی مفادات کا تحفظ
معدنیات سے لبریز زمین بلوچستان کے وسائل کو اونے پونے داموں بیچا جارہا ہے۔ پنجاب، سندھ، بلوچستان کی اہم جگہیں ایکڑوں کے حساب سے خلیجی شہزادوں کو گالف کھیلنے اور بطور شکارگاہ دی جارہی ہیں۔ شمسی ایئر بیس تک اوروں کے سپرد کردیئے گئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن ممالک کو یہ اس طرح کے فوائد پہنچاتے ہیں اُن ملکوں میں ان کی جائیدادیں، محلات، بہت بڑے بزنس پلازے، shopping centers اور business empires ہیں، یہ ذاتی مفادات ہیں جو پاکستان کے حصے بیچ کر اُس کے عوض اپنے خاندان کے لیے اُن سے وصول کرتے ہیں۔ یہ پاکستان کے ساتھ یہ سلوک کیوں نہ کریں، انہوں نے اس کے بدلے میں اپنی رہائش گاہیں، محلات، نوکریاں، بزنس اور مفادات لینے ہیں۔ یہ پاکستان کی سالمیت کا تحفظ اس لیے نہیں کر سکتے کہ جو آدمی خود کرپٹ ہو وہ دوسرے کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات نہیں کرسکتا۔ لہٰذا یہ اپنے مستقبل، business empire اور مالی مفادات کو تحفظ دینے کے لیے پورے پاکستان کے مفادات کا ستیا ناس کرتے ہیں۔ یہ ملک شکار گاہ بنتا رہے گا، اس ملک کی سرزمین شکار گاہیں بنتی رہیں گی جب تک ان شکاریوں سے اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کو نجات نہیں مل جاتی۔ یہ حکمران اس ملک اور عوام کے شکاری ہیں۔
قدرتی وسائل سے بھرپور سرزمین کی بدقسمتی
پاکستان میں معدنی وسائل بے پناہ ہیں۔ اس میں شک نہیں ہے کہ صرف معدنی ذخائر کے اعتبار سے پاکستان دنیا کے نویں درجے پر آتا ہے۔ اس سر زمیں میں اللہ نے بے حد خزانہ رکھا ہے۔ اس کی کچھ مثالیں آپ کو دیتا ہوں:
٭ تھرکول کے ذخائر سے ایک لاکھ میگاواٹ تک اگر ایک سو سال بھی مسلسل توانائی لی جائے، تب بھی تھرکول کے ذخائر کا صرف چوتھا حصہ استعمال ہو گا۔یعنی صرف تھرکول کے ذخائر ہماری صدیوں تک توانائی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اسی طرح بلوچستان کی سرزمین کا معدنی ذخائر کے ساتھ سینہ بھرا پڑا ہے مگر بدقسمتی کہ کرپشن اس ملک کو کھا گئی۔ ملک کو مہیا کرنے کے بجائے ان کی نظر اپنی جیبیں، خاندانوں کی جیبیں، نسلوں کی جیبیں بھرنے پرہے اس لیے ملک میں غربت ہے اور عوام بھوک سے مر رہے ہیں۔
٭ بلوچستان پاکستان کے کل رقبے کا 44% ہے، رقبہ کے اعتبار سے سب سے بڑا اور آبادی میں سب سے چھوٹا صوبہ ہے۔ معدنی ذخائر کے اعتبار سے دنیا کے بڑے قیمتی اور نایاب ترین خطوں میں سے ایک ہے۔ صرف بلوچستان کے ذخائر کو دیانتداری کے ساتھ منظر عام پر لایا جائے تو پاکستان کے سارے معاشی مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ سرزمین بلوچستان میں سونا، تانبا، کرومائیٹ، معدنی تیل، قدرتی گیس، لوہا، زنک، جپسم اور کوئلے کے علاوہ کثیر تعداد میں قیمتی معدنیات ہیں۔
٭ بلوچستان کی سمندری تجارت اربوں روپے دے سکتی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں جن کمپنیوں کے ساتھ معدنیات نکالنے کی بات ہوتی ہے تو سب سے پہلے کمیشن کی بات ہوتی ہے کہ ہمیں ذاتی حیثیت میں اس ٹھیکے سے کتنا حصہ ملے گا۔
٭ اسی طرح مکران اور گوادر کی جغرافیائی صورت حال پاکستان کی ٹریڈ اور معیشت کو بے پناہ فائدہ پہنچاسکتی ہے۔
٭ سرزمین بلوچستان ریکوڈک، سینڈک، پلاٹینیم، یورینیم، گیس، تیل اور سونے کے کھربوں ڈالر کی مالیت کے ذخائر سے معمور ہے۔
مگر ان تمام قدرتی نعمتوں سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے ایک سیاسی ویژن کی ضرورت ہے۔ ایک دیانتدار قیادت کی ضرورت ہے۔ میں سمجھتا ہوں تنہا بلوچستان اٹھارہ کروڑ عوام کی غربت کا ازالہ کر سکتا ہے بشرطیکہ اگر یہاں دہشتگردی ختم کر دی جائے اور لوٹ مار ختم کر دی جائے۔ ان لیڈروں کی آنکھیں شکاریوں کی طرح ایک ایک چیز سے کمیشن لینے، کرپشن کے حصے لینے پہ لگی ہوئی ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہمارے حصے ملیں تو پھر ہم ان معدنیات کو نکالنے کے لیے ٹھیکہ دیں۔ اگر ہمیں ہمارا حصہ نہیں ملتا تو قوم جائے جہنم میں، سو سال اسی طرح یہ ذخائر پڑے رہیں ہمیں کوئی پرواہ نہیں۔
اب یہ بلوچستان میں موجود ریکوڈک کے ذخائر کے سودے بھی کر رہے ہیں۔ ایسا کرنا پوری پاکستانی معیشت کا سودا ہو گا۔ پاکستان کی معیشت کی شہ رگ کاٹی جائیگی۔ اس سلسلے میں نیویارک اور واشنگٹن ڈی سی میں موجودہ حکمرانوں کی میٹنگز دنیا کی 8 کمپنیوں کے ساتھ شروع ہو چکی ہیں اور 10 ارب ڈالر advance میں معاہدہ کرنے کے لیے رشوت مانگی جا رہی ہے۔ اُس کمپنی سے بات ہو گی جو 10 ارب ڈالر advance دے گا۔ اس کے بعد بین الاقوامی دھوکے کے ٹینڈر ہوں گے اور نام نہاد مرضی کی قیمت ظاہر کر کے یہ عظیم ذخیرہ بیچ دیا جائے گا۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر دو سال کی بنیاد پر بلوچستان پر محنت کی جائے۔ وفاقی حکومت ملکی و قومی مفاد کے لئے دلچسپی لے۔ کچھ وزارتوں اور وزراء کو صرف بلوچستان سپرد کردیا جائے کہ وہ پائلیٹ پروجیکٹ کے طور پہ وہاں بیٹھیں، بلوچ قوم کے اعتماد کو بحال کریں۔ وہاں دہشتگردی کا خاتمہ کریں، وہاں ترقی، امن، استحکام اور معاشی خوشحالی لائیں تو وہاں موجود ذخائر سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دو سال میں پاکستان کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے۔
مگر افسوس کہ ان کی دلچسپی سیاست اور تجارت سے ہے، ان کی کوئی دلچسپی ریاست سے نہیں ہے۔ میں نے قوم کو نعرہ دیا تھا ’’سیاست نہیں، ریاست بچاؤ‘‘ اس نعرہ کے پیچھے یہی سوچ کار فرما تھی کہ یہ لوگ اپنی سیاست بچانے کی فکر کرتے ہیں، ریاست بچانے کی کبھی فکر ان کے ذہن میں نہیں ہوتی۔
جن دو پارٹیوں نے اقتدار کے لئے باریاں لگا رکھی ہیں ان جانے والوں اور آنے والوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ موجودہ حکمرانوں کی انتخابی مہم کی تقریریں نکال کے دیکھیں جو نام لے کر کہتے تھے کہ ان کو سڑکوں پر گھسیٹیں گے اور پائی پائی ان کی سوئٹرزر لینڈ کے بینکوں سے نکلوائیں گے۔ آج ان کو اقتدار پر آئے ہوئے ایک سال کا عرصہ ہونے کو ہے، اس کے لئے انہوں نے کیا کیا؟ یہ کچھ نہیں کریں گے اس لئے کہ سوئٹزر لینڈ کے بینک دونوں گھروں کے پیسوں سے بھرے پڑے ہیں۔ یہاں 13 بینک ہیں جن میں ایک سو ارب ڈالر سے زیادہ ان کرپٹ سیاسی لیڈرز کے پیسے پڑے ہیں۔ پاکستان کے ان کرپٹ سیاسی لیڈرز کی کرپشن، لوٹ مار کے پیسوں کو تحفظ دینے والوں اور انہیں اس حوالے سے ماہر بنانے والوں میں ان بینکوں کے آفیسرز بھی شامل ہیں۔ یہ سارے وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ ہمارے حکمرانوں کی ذاتی دوستیاں اور گہرے تعلقات ہیں۔ پھر ان دو جماعتوں کے ہی نہیں، سوئس بنکوں کے آفیسرز بعض مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کے بھی ذاتی دوست ہیں جو بشکل مذہب مولانا ہیں، ان کی ساری رقوم وہاں پڑی ہیں۔ میں کہتا ہوں جس شخص کے پیسے سوئس بینکوں میں ہیں وہ کرپٹ اور حرام خور ہے۔ اس لئے کہ یہی بینکس پوری دنیا کی کرپشن کو تحفظ دیتے ہیں۔ سوئس بینکوں کے آفیسرز کے ساتھ ان کی ذاتی دوستیاں اور تعلقات کرپشن کو چھپانے اور لوٹ مار کی دولت کو تحفظ دینے کی بناء پر قائم ہیں۔
ان حکمرانوں کی پوری دنیا میں بے شمار ممالک کے ساتھ شراکت داری ہے۔ مختلف ناموں کے ساتھ پوری دنیا میں کاروبار کرتے ہیں۔ ان کا مقصد اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر مشرق و مغرب کے آخری کناروں تک اپنے کاروبار کو پھیلانا ہے۔
90ء کی دہائی میں ایک دفعہ میں نیوزی لینڈ گیا۔ Lord Mayor of Auckland نے میرے اعزاز میں عشائیہ دیا۔ اس تقریب میں نیوزی لینڈ کے سابق وزیراعظم David Lange (اب فوت ہو گئے ہیں) بھی موجود تھے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ ہماری نیوزی لینڈ کی ریاستی ملکیت میں موجود سٹیل مل کے 49% کے مالک آپ کے ملک کے حکمران ہیں۔ اندازہ لگائیں کہ جو لوگ ریاستی سٹیل مل کے نصف کے مالک ہوں، بتائیے دنیا کا کون سا کنارہ انہوں نے چھوڑا ہو گا جہاں انہوں نے کرپشن کے ذریعے اپنے کاروبار کو پھیلایا نہ ہوگا۔ یہی تو سیاست اور اقتدار کے ذریعے یہ لوگ کرتے ہیں۔
دو سال قبل میں آسٹریلیا کے دورے پر تھا، یہاں سابق وزیراعظم آسٹریلیا Bob Hawke سے میری ملاقات ہوئی۔ یہ مسلسل 3 دورانیہ تک وزیراعظم رہے ہیں۔ وہ مجھے ملنے کے لیے آئے اور کہنے لگے کہ میں وزیراعظم آسٹریلیا کی حیثیت سے ایک بار پاکستان گیا تھا اور کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے پلان پر بات کرنا چاہتا تھا مگر اُس وقت کے آپ کے حکمران نے مجھ سے 30% ہر ایک معاہدہ پر کمیشن مانگا۔ میں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا اور وہاں سرمایہ کاری کا منصوبہ شروع نہ ہوسکا۔ انہوں نے کہا پاکستان میں بڑے وسائل اور بڑی صلاحیت ہے مگر اس کو کرپٹ حکمران کھا گئے ہیں۔
فرسودہ سیاسی نظام سے توقع عبث ہے
اس وقت ملک میں دو گروہ ہیں۔ ایک گروہ اٹھارہ کروڑ مظلوم و مجبور عوام کی شکل میں ہے اور دوسرا گروہ چند سو گھرانے ہیں جو انتخابات کے جھرلو کے ذریعے منتخب ہونے کا skill اور فن جانتے ہیں اور دھن، دھونس اور دھاندلی کے ذریعے جیت کر اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوتے ہیں۔ حرام کے کروڑوں اربوں روپے پانچ چار سال میں کماتے ہیں، اُس کا ایک حصہ اگلے الیکشن پہ لگاتے ہیں، تھانے خریدتے ہیں، برادریاں خریدتے ہیں، غنڈہ گردی، دہشتگردی کرتے ہیں شرافت کو پامال کرتے ہیں اور DC سے لے کر SHO، پٹواری، DSP تک سب اپنی مرضی سے لگواتے ہیں۔ موجودہ فرسودہ انتخابی نظام کے ذریعے یہ ہمیشہ جیت کر آئیں گے اور سو سال بھی یہی جیت کر آئیں گے۔ کسی غریب اور سفید پوش کا بچہ خواہ کتنا ہی قابل کیوں نہ ہو اگر اس کے پاس دس بیس کروڑ روپے حرام کے نہیں، لٹیروں کے ساتھ گٹھ جوڑ نہیں تو وہ اگلے سو سال میں بھی MNA منتخب نہیں ہوسکتا۔
لہٰذا جو لوگ تبدیلی چاہتے ہیں انہیں ایک فیصلہ کرنا ہو گا۔ دو رنگی چھوڑدے یک رنگ ہو جا۔۔۔سراسر موم یا پھر سنگ ہو جا۔ یا لٹیروں کے نظام کا حصہ رہیں یا اُنہیں لات مار کر عوام کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔ تبدیلی کے علمبردار اگر ہر روز یہ کہتے ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے اور جو کچھ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا تھا سچ کہا تھا تو پھر اس دھاندلی کے نتیجے میں بننے والی اسمبلی میں وہ بیٹھے کیوں ہیں۔۔۔؟ انہیں چاہئے کہ اگر وہ حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں تو پھر اس تمام نظام کو ٹھکرا دیں۔ یاد رکھیں! اس نظام نے انہیں بھی کچھ نہیں دینا اور یہ بھی بالآخر مایوس ہوں گے۔شکاری اسی طرح لوٹتے رہیں گے اور عوام شکار ہوتی رہے گی۔
مسائل کا حل صرف انقلاب میں ہے
صورت حال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب ہم صرف احتجاج نہیں کریں گے بلکہ انقلاب لائیں گے اور ہم پرامن عوامی انقلاب کے ذریعے ان شاء اللہ ملک سے لوٹ مار کا سارا راج ختم کریں گے اور ان سے قبضہ چھین کر پرامن طریقے سے عوام کو منتقل کریں گے اور یہ وقت اب قریب آ رہا ہے۔ میں دو ٹوک انداز میں بتارہا ہوں کہ یہ حکمران اپنے ان اعمال اور کرتوتوں کی وجہ سے انقلاب کے دن کو قریب لا رہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے لیڈر اس اندھیر نگری، لوٹ مار، دھاندلی، کرپشن پر کیوں خاموش ہیں۔۔۔؟ کرپشن کے خاتمے کی بات کرنے والوں کو کیا یہ سب کچھ نظر نہیں آرہا جو میں بتا رہا ہوں؟ ان حکمرانوں کے عزائم اقتدار پر بیٹھتے ہی امن کی بحالی، غربت و بیروزگاری کا خاتمہ، مہنگائی پر کنٹرول اور ملک کی معاشی ترقی ہرگز نہ تھا۔ ان کا ایجنڈا صرف اپنی business empire کو پوری دنیا میں مضبوط کرنا، لوٹ مار کرنا اور اگلے سو سال تک اپنی نسلوں کو مالی طور پر مضبوط کرنا ہے یعنی لوٹ مار اور صرف لوٹ مار۔
ان حالات میں قوم مجبوریوں اور ضروریات زندگی کے نہ ہونے کی بناء پر گھر میں نہ مرے بلکہ ان حکمرانوں کے خلاف بغاوت کے لیے باہر نکلے جنہوں نے انہیں اس حال تک پہنچایا ہے۔ ایک کروڑ نمازیوں کی جماعت انقلاب کے لئے اذان ’’لانگ مارچ‘‘ کی صورت میں دی جاچکی ہے اب جماعت کھڑی ہونے والی ہے۔ عوام کو اس جماعت کے ساتھ قیام کرنا ہوگا۔ وہ وقت دور نہیں جب میں کال دینے والا ہوں۔ غیر مسلح ہوکر اپنے جذبے کی قوت کے ساتھ، امن کی قوت کے ساتھ، ریاست کی محبت کی قوت کے ساتھ، کرپشن، لوٹ مار کے خلاف ایمانی قوت سے لبریز ہوکر، لوگوں کے روزگار کے لیے، عدل و انصاف کی بحالی کے لیے، شفافیت کے لیے باہر نکلیں۔ گھروں میں بیٹھے رہیں گے تو مرتے رہیں گے، ملک لٹ جائے گا اور یہ حکمران ملک بیچ کر کوڑی کوڑی کھا جائیں گے اور اگلی نسلوں کے لیے کچھ نہیں بچے گا۔ دہشتگردی کو بڑھا کر یہ پاکستان کی نیوکلیئر حیثیت کو برباد کر دیں گے۔ یہ لائے ہی اس لیے گئے ہیں کہ پاکستان کی سا لمیت ان کے ہاتھوں بک جائے۔ ان کی غرض صرف پیسہ کمانے سے ہے۔ لہذا ایک پرامن انقلاب کے لیے، سبز انقلاب کے لیے، کرپشن کے خلاف، حقیقی جمہوریت کے لیے، اس ملک کو خلافت راشدہ کا نمونہ بنانے کے لیے قوم کو نکلنا ہو گا۔ میں ان شاء اللہ اُن کے ساتھ ہوں گا۔ یہ ہی حل ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں۔
عبث ہے شکوہِ تقدیر یزداں
تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں