انسان کی سرشت میں بہت سے مثبت اور منفی جذبات واحساسات موجود ہیں۔ یہی جذبات و احساسات اس کی انفرادیت بھی ہیں اور انہی میں سے بعض کے ہاتھوں اس کی ہلاکت بھی ہوتی ہے۔ انسان چونکہ محبت کے خمیر سے پیدا کیا گیا اس لئے اس میں محبت اور چاہت کا جذبہ تمام شخصی اور طبعی جذبوں پر حاوی ہوتا ہے۔ محبت کے غلبے کا کمال یہ ہے کہ انسان اپنی تمام چاہتوں کو اپنے خالق و مالک کے لئے مختص کردے۔ چونکہ یہ بندگی اور عبادت کا سب سے اونچا درجہ ہے اس لئے عام طور پر اس معراج انسانیت پر اللہ تعالیٰ کی بہت عظیم و جلیل شخصیات ہی پہنچتی رہی ہیں۔
جذبہِ محبت کی طرح انسانی شخصیت کے اندر نفرت اور تعصب کا جذبہ بھی بہت گہرا ہوتا ہے۔ یہ دراصل انسانی کمزوریوں کے شخصی عیوب و نقائص کے اظہار کی علامت ہوتا ہے۔ یوں کہہ لیجئے کہ محبت انسان کے اندر رحمانی صفات پیدا کرتی ہے اور نفرت و عداوت انسان کو شیطانی دائروں میں مقید رکھ کر معاشرے میں بدامنی اور بے چینی کی راہ ہموار کرتی ہے۔ ماہرین نفسیات نے اگرچہ ’’عصبیت‘‘ کو بھی ایک بڑی قوت قرار دیا ہے کیونکہ انسان عام حالت میں بعض کام نہیں کرسکتا لیکن غیرت اور عصبیت کے زیر اثر اس کی رفتار کار تیز ہوجاتی ہے۔ لیکن اسلام نے منفی عصبیت کی کسی بھی شکل کو نہیں سراہا۔ چونکہ اس سے انسان کے اندر دوسروں کے خلاف حسد، بغض اور عداوت جنم لیتی ہے اس لئے اسے روحانی بیماری قرار دیتے ہوئے اس سے نجات پانے کی تلقین کی ہے۔ تاریخ انسانی کا سب سے پہلا قتل بھی اسی عصبیت اور عداوت کی وجہ سے ہوا تھا۔ جب سیدنا آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں قابیل اور ہابیل دونوں نے قربانی کی۔ ہابیل کی قربانی کو شرف قبولیت مل گیا اور قابیل کی قربانی رد ہوگئی تو اس نے ہابیل کو قتل کردیا۔ شیطان نے وہیں سے انسانوں کے ہاتھوں انسانوں کے قتل کا سلسلہ شروع کردیا اور اس قتل کا سبب بھی عصبیت اور حسد ہی تھا۔
یہ عصبیت تاریخ میں مختلف رنگ بدلتی رہی ہے۔ اسی نے اقوام کو ترقی کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے میں مدد فراہم کی اور اسی کے ہاتھوں قتل و غارت گری کے جنگی معرکے برپا ہوئے۔ انسانی رویوں میں شدت اور انتہا پسندی کے محرکات کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ لسانی، جغرافیائی اور سیاسی عصبیت کے مقابلے میں اعتقادی اور مذہبی تعصبات کے رویے سب سے زیادہ شدید ہوتے ہیں۔ اس شدت کی ویسے تو بے شمار وجوہات ہیں مگر سب سے زیادہ خطرناک سبب جہالت اور ہٹ دھرمی ہے۔ چونکہ جہالت انسان کو اندھا بنائے رکھتی ہے اس لئے وہ کسی مکالمے اور مباحثے پر یقین نہیں رکھتا اور اگر بدقسمتی سے مذہبی عصبیت کے ساتھ اسلحہ بھی جمع ہوجائے توانسانی خون سب سے ارزاں ہوجاتا ہے۔ تاریخ ایسے خونی واقعات سے بھری پڑی ہے۔
اس عمومی جائزے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ ہمارے ہاں جو صورت حال پیدا ہوچکی ہے وہ اسی مذہبی عصبیت کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے اور ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اس عصبیت کو ہتھیار جہاں ہمارے دشمن فراہم کررہے ہیں وہاں ان کو فکری قوت ہمارے بعض دینی مدارس اور مذہبی رہنما مہیا کررہے ہیں۔ وہ بظاہر تو دہشت گردی کی بھرپور مذمت بھی کرتے نظر آتے ہیں مگر ساتھ ہی انتہاء پسندوں کی صفائیاں بھی دیتے ہیں اور ان کے عمل کو حکومت کی ’’زیادتیوں‘‘ کا ردعمل گردانتے ہوئے انہیں بے قصور ثابت کرتے ہیں۔ اس کھلے تضاد کی حقیقت اب عوام و خواص پر کھل چکی ہے۔ اب وہ وقت چلے گئے جب گردنیں اڑا کر حکومتیں کی جاتی تھیں۔ میڈیا، انتظامیہ، عدلیہ اور سب سے بڑھ کر باشعور عوام اب کسی گروہ کی تخریبی کاروائیوں سے ڈر کر پورے ملک کے نظام کو چوپٹ نہیں ہونے دیں گے۔ ہم کسی گروہ کی نہ حمایت کرتے ہیں اور نہ مخالفت برائے مخالفت۔ ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ دین کانام لینے والوں کو دین کی واضح تعلیمات کا احترام بہر صورت کرنا چاہئے۔ قرآن و سنت کے اصولوں سے راہنمائی لینے والے قرآن و سنت کے احکامات سے بغاوت کس دلیل پر کرتے ہیں۔ بے قصور، بے گناہ اور معصوم بچوں، عورتوں اور عوام الناس کو خودکش بم حملوں کے ذریعے لقمہ اجل بناکران واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے والے ملک و ملت کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔ رہ گئے ان کے ساتھ امن مذاکرات۔۔۔ مذاکرات ضرور کریں دلائل دیں، منطق لڑائیں مگر یہ سب ان لوگوں کے لئے کارگر ہوگا جو اس طرح کی زبان سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہوں گے۔ دلیل کی زبان تعصب سے پاک اہل فکرو تدبر اور صاحب علم و شعور سمجھتے ہیں۔ مکالمہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک دونوں فریق ملک و ملت اور امت مسلمہ کے اجتماعی مفاد کو اپنے انفرادی اور گروہی مفادات پر ترجیح نہ دیں۔ طالبان کا یہ مسئلہ ہے کہ وہ پہلے دن سے اپنے خاص نظریات کو اکثریت پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہیں۔ خوارج کی طرح ان کے مطالبات بھی غیر لچکدار ہیں اور ان کے اعتقادات میں بھی توازن اور اعتدال کا عنصر نہیں۔ اگر توازن ہوتا اور ان کی نظر قرآن و سنت پر گہری ہوتی تو وہ کبھی بھی قبروں سے مردوں کو نکال کر درختوں پر نہ لٹکاتے۔ اپنے مخالفوں کی مساجد اور عبادت گاہوں پر حملے کرکے بے گناہ نمازیوں کو شہید نہ کرتے۔ وہ کبھی بھی اپنے وطن کی سرحدوں کے محافظوں اور سیکورٹی اہلکاروں کی گردنیں اڑا کر ان کی کھوپڑیوں سے فٹ بال نہ کھیلتے، وہ کبھی بھی معصوم بچوں کو آلہ کار بناکر خودکش بمباروں کے ذریعے بے گناہ لوگوں کا قتل عام نہ کرتے۔ اگر انہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی اعتقادی نسبت اور حبی تعلق ہوتا تو وہ ضرور سوچتے کہ جس نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کافر جنگی قیدیوں کے ذریعے مدینہ منورہ کے بچوں کو پڑھانے کا اہتمام کیا اُن کی امت فروغ علم کے ادارے قائم کرتی ہے ان کو بارود اور بموں سے مسمار نہیں کرتی۔
اصل مسئلہ ان طالبان کا نہیں جو جہالت اور تعصب کا شکار ہیں بلکہ اصل مسئلہ ان دینی مدارس اور مذہبی راہنمائوں کا ہے جو ان کی فکری آبیاری کرتے ہیں۔ ان کی وکالت کرتے ہیں اور بہر صورت ان کے اس ایجنڈے کو بروئے کار لانے کے لئے بے تاب رہتے ہیں جس سے انہیں اپنے افکار اور مذہبی عصبیت کے غلبے کی راہ ہموار ہوتی نظر آتی ہے۔ جو لوگ ان ظالم قاتلوں کے سرغنوں کو شہید قرار دیتے ہیں ان کی فکری اصلاح کی ضرورت ہے۔ یہ لوگ مغالطے، ابہام اور غلط فہمیاں پھیلا کرکس دین ، مذہب اور ملک و ملت کی پاسبانی کررہے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ اگر ہماری مخصوص مذہبی قیادتیں اور ان کے زیر اثر چلنے والے مدارس عصبیت کے ان مہلک رویوں سے پاک ہوجائیں تو ملک امن و سلامتی کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ بصورت دیگر جب تک تعصب پھیلانے والی یہ فیکٹریاں (ادارے و شخصیات) موجود ہیں تب تک پرامن بقائے باہمی، خیر سگالی، برداشت، تحمل اور محبت و مودت جیسی اعلیٰ انسانی خوبیاں معاشرے میں برگ و بار نہیں لاسکتیں۔
تھرپارکر میں تھرتھراتی موت ۔۔۔ ذمہ دار کون؟
گذشتہ ماہ صحرائے تھل اور صوبہ سندھ کے مضافاتی علاقہ تھرپارکر سے خطرناک اور افسوسناک خبریں میڈیا کے ذریعے سامنے آئیں جس سے اس انسانی المیے سے دنیا آگاہ ہوئی ورنہ ہمارے مقتدر طبقوں کو تو عوامی مسائل کے ساتھ کوئی سروکار ہی نہیں رہا۔ ان علاقوں میں بارشوں کی کمی سے پانی میں جو کمی واقع ہوئی ہے وہ تو ایک قدرتی آفت ہے مگر ان غریب لوگوں کے روزمرہ کے مسائل کو کب کسی اسمبلی میں موضوع بحث بنایا گیا ہے؟ اب اگر میڈیا نے علاقے کی کشیدہ صورت حال سے پردہ اٹھایا ہے تو سب خیراتی ادارے، این جی اوز اور حکومتوں کا رخ اسی علاقے کی طرف ہوگیا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ قحط سالی کے اثرات صرف تھرپارکر میں نہیں رکے ہوں گے بلکہ اس سے دیگر علاقوں میں بھی اموات ہورہی ہوں گی، اس لئے نہ صرف سندھ بلکہ جنوبی پنجاب کے دیہاتوں میں بھی سروے ہونا چاہئے اور جہاں جہاں موت کے سائے منڈلا رہے ہیں وہاں احتیاطی تدابیر اختیار کی جانی چاہئیں۔ خشک سالی سے فصلیں تباہ ہوتیں اور جانور تلف ہو جاتے ہیں اور لوگوں کی معیشت برباد ہوجاتی ہے۔ ان کی مناسب مالی امداد کے ساتھ ساتھ انہیں زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کی منصوبہ بندی ہونی چاہئے تاکہ جو آفت چند مہینوں یا سالوں کے بعد آئے گی اس کا سدِّباب ابھی کردیا جائے۔
ڈاکٹر علی اکبر قادری