اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں لوگ اپنی بیویوں پر ظلم کرتے۔ نہ بیوی بناکر عزت سے ان کو بساتے، نہ طلاق دے کر ان کو قیدِ نکاح سے آزاد کرتے۔ پوچھا جاتا کہ ان کو اپنے ساتھ بساتے کیوں نہیں؟ جواب دیتے: ہم نے طلاق دے دی ہے۔ پوچھا جاتا کہ پھر ان کو دوسری جگہ پسند کی شادی کیوں نہیں کرنے دیتے؟ جواب ہوتا: ہم نے عدت کے اندر رجوع کرلیا تھا، لہٰذا نکاح بحال رہا۔ عمر بھر یہی ظلم روا رکھتے۔ زمانہ جاہلیت کی طرح آج بعض مسلمان کہلانے والے ببانگ دہل کہتے ہیں کہ ’’نہ رکھیں گے اور نہ چھوڑیں گے‘‘۔ یہ عورت پر بدترین ظلم ہے۔ قرآن کریم نے سورۃ البقرہ کی آیات 229 تا 231 میں واضح انداز میں اس کا خاتمہ کیا اور طلاق کی حد مقرر کردی۔ اگر کوئی ایک طلاق دے دے تو عدت کے اندر نیک نیتی سے رجوع کرلے اور اگر دو طلاقیں دی ہیں تو تجدید نکاح کرلے اور آئندہ بیوی کو تنگ نہ کرے، بیوی بناکر پاس رکھے یا مدت گزرنے دے تاکہ عورت اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرے۔ اگر کسی نے تیسری طلاق دے دی تو اب رجوع نہیں کرسکتا جب تک وہ عورت کسی اور سے شادی و قربت نہ کرلے۔ br> تنسیخ نکاح
تنسیخ نکاح کے جواز کے اسباب یہ ہیں:
- مرد قوت مردانگی سے محروم ہے (نامرد ہے)
- نان نفقہ و سکنیٰ نہیں دیتا
- ظلم و زیادتی کرتا ہے
- چار سال سے مفقود الخبرہے، معلوم نہیں کہاں ہے؟ زندہ ہے یا مرگیا ہے؟
ان صورتوں میں عورت کو اسلام یہ حق دیتا ہے کہ وہ بذریعہ عدالت تنسیخ نکاح کروالے۔ عدالت تحقیق و ثبوت کے بعد تنسیخ کرسکتی ہے۔ تنسیخ کے چار ماہ دس دن بعد وہ جہاں چاہے مرضی سے شرعی نکاح کرسکتی ہے۔ یہ تو وہ صورت ہے جہاں تنسیخ ضروری ہوگیا تھا۔ اگر ان وجوہات کے بغیر کوئی عدالت بلاوجہ تنسیخ نکاح کرے تو وہ تنسیخ غلط ہے اور غیر قانونی ہے۔
- جب عورت کو اس کے حقوق سے محروم کیا جائے۔ شوہر ظلم کرے، نہ بیوی بناکر رکھے اور نہ طلاق دے تو پھر کوئی طریقہ تو ہو جو اس کو ظلم کی چکی میں پسنے سے بچائے۔ پس اس صورت میں حکومت اور اس کی قائم کردہ عدلیہ کا فرض ہے کہ اس عورت کو انصاف دلائے۔ چنانچہ مظلوم عورت عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے۔ عدالت کا فرض ہے کہ پوری تحقیق کے بعد اگر یہ ظلم ثابت ہوجائے لیکن خاوند پھر بھی عدل و انصاف کا راستہ نہ اپنائے اور عورت کو طلاق بھی نہ دے تو قاضی یعنی عدالت فوراً یا طلاق دلوائے یا تنسیخ نکاح کردے تاکہ ظلم کا خاتمہ ہو۔ یہ اسلام ہے اور یہی عدل و انصاف۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کی: یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں ثابت بن قیس کے دین یا اخلاق پر کوئی اعتراض نہیں کرتی، نہ عیب لگاتی ہوں لیکن مجھے اسلام میں رہ کر کفرانِ نعمت پسند نہیں۔ (یعنی خاوند پسند نہیں) رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اتردین علیه حدیقه؟
اس سے جو باغ تم نے حق مہر میں لیا ہے وہ اسے واپس کردوگی؟
بولیں جی حضور، رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے خاوند سے فرمایا: اپنا باغ قبول کرو اور اسے ایک طلاق دے دو.
بخاری، الصحیح، 5: 2021، رقم: 4971
- دور جاہلیت میں خاوند اپنی بیوی کو طلاق دے کر عدت کے اندر رجوع کرلیتا۔ چاہے ہزار بار طلاق دیتا، اسے رجوع کرنے کا اختیار حاصل ہوتا۔ ایک عورت نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے پاس شکایت کی کہ اس کا خاوند اسے طلاق دیتا اور عدت گزرنے سے پہلے رجوع کرکے اسے ایذاء دیتا ہے۔ سیدہ سلام اللہ علیہا نے اس کا ذکر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کردیا تو سورۃ البقرۃ کی آیت 229 نازل ہوئی کہ
اَلطَّلاَقُ مَرَّتٰنِ فَاِمْسَاکٌم بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌمبِاِحْسَانٍ ط وَلاَ یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْئًا اِلآَّ اَنْ یَّخَافَآ اَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اﷲِط فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اﷲِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْهمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖ ط تِلْکَ حُدُوْدُ اﷲِ فَلاَ تَعْتَدُوْهاج وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اﷲِ فَاُولٰٓـئِکَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ۔
طلاق (صرف) دو بار (تک) ہے، پھر یا تو (بیوی کو) اچھے طریقے سے (زوجیت میں) روک لینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے، اور تمہارے لیے جائز نہیں کہ جو چیزیں تم انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ واپس لو سوائے اس کے کہ دونوں کو اندیشہ ہو کہ (اب رشتہء زوجیت برقرار رکھتے ہوئے) دونوں اﷲ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے، پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ دونوں اﷲ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے، سو (اندریں صورت) ان پر کوئی گناہ نہیں کہ بیوی (خود) کچھ بدلہ دے کر (اس تکلیف دہ بندھن سے) آزادی لے لے، یہ اﷲ کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں، پس تم ان سے آگے مت بڑھو اور جو لوگ اﷲ کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں سو وہی لوگ ظالم ہیں۔
طلاق کی حد دوبار تک ہے۔ پھر ’فامساک بمعروف او تسریح باحسان‘ یا تو صلح کرکے بیوی کو روک لو، یا عدت گزرنے دو اور اسے بھلائی سے آزاد کرد۔
الرازی، تفسیر کبیر، 6: 96
فقہائے اُمت کے اقوال:
قرآن و سنت کی رو سے کوئی انسان دوسری کسی بھی مخلوق کو ایذاء دینے کا مجاز نہیں۔ عورت کو بیوی بناکر نہ رکھنا اور طلاق دے کر بھی نہ چھوڑنا ظلم ہے، جس کی اسلام میں قطعاً گنجائش نہیں۔ اسلام کیا دنیا کے کسی نظریہ و دھرم میں اس کی ہرگز اجازت نہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کا خاتمہ حکومت ہی کرسکتی ہے۔ لہٰذا قاضی یا عدالت کے پاس جیسے ہر مظلوم داد رسی کے لئے رجوع کرسکتا ہے، اسی طرح ایسی مظلومہ بھی عدالت کے ذریعہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا خاتمہ کرواسکتی ہے چونکہ عدالتی فیصلہ حکومتی فیصلہ ہے۔ جس پر عملدرآمد کروانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ عدالت کا بھی یہ کام ہے کہ جو عورت داد رسی کے لئے اس کی طرف رجوع کرے، یہ تمام حالات و کوائف کی چھان پھٹک کرے، منصفانہ وغیر جانبدارانہ تحقیقات سے خاوند کا ظلم ثابت ہو، یا وہ بیوی کے حقوق پورے نہ کرے یا نہ کرسکے اور قاضی عادل کو اطمینان ہو کہ خاوند، بیوی کے حقوق پامال کررہا ہے، عدالت فوراً اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے میاں بیوی میں تنسیخ نکاح کردے۔ یہ عدالتی تنسیخ شرعاً جائز ہے بلکہ ضروری ہے تاکہ ظلم ختم ہو۔ یہ تنسیخ عدالت طلاق بائن ہوگی۔ نکاح فوراً ٹوٹ جائے گا۔
- اگر خاوند نامرد ہو، بیوی بذریعہ عدالت اس سے آزادی کا مطالبہ کرے، حاکم اسے ایک سال کی مہلت دے۔ اگر سال میں قربت کے قابل ہوگیا تو نکاح برقرار رہے گا۔ ورنہ عدالت عورت کے مطالبہ پر تفریق کردے۔ عورت کو بذریعہ عدالت تفریق کا حق حاصل ہے۔ حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود ث سے یہی روایت ہے۔ یہی فتویٰ ہے دنیا بھر کے فقہائے کرام کا۔ امام ابو حنیفہؒ اور آپ کے اصحاب، امام شافعی اور ان کے اصحاب، امام مالک اور ان کے اصحاب، امام احمد اور ان کے اصحاب کا یہی حکم ہے۔
-
ابن همام، فتح القدیر، 4: 130،
-
عالمگیری ،1: 524
عدم نفقہ سے تفریق عدالت ضروری ہوجاتی ہے
جان لیجئے کہ ہمارے مشائخ نے اس بات کو مستحق سمجھا ہے کہ حنفی قاضی اپنا کوئی ایسا نائب مقرر کرے جس کے مذہب میں میاں بیوی میں اس وقت تفریق جائز ہو جب خاوند کا اتہ پتہ نہ ہو یا خاوند موجود ہو اور نان نفقہ بھی نہ دیتا ہو اور اس سے بیوی کو تکلیف ہورہی ہے۔ ظاہری بات ہے کہ ہمیشہ قرض لے کر ضرورت پوری نہیں کی جا سکتی۔ لہذا فالتفریق ضروری اذا طلبتہ۔’’ پس ان مجبوریوں کی بنا پر اگر عورت تنسیخ کا مطالبہ کرے تو تنسیخ نکاح ضروری ہے‘‘۔
شامی، ردالمختار، 3: 590
اگر خاوند جو بیوی کے حقوق پورے نہیں کرتا یا نہیں کرسکتا یا اس پر ظلم کرتا ہے اور اگر طلاق دینے سے بھی انکار کرتا ہے، بھلائی سے آزاد نہیں کرتا۔ تو وہ خاوند ظالم ہے۔ پس حاکم اس کا نائب بن کر تفریق کردے۔ یہ تفریق طلاق بائن ہوگی۔ اور خاوند پر مکمل حق مہر بھی لازم ہوگا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ عورت خود اپنے آپ کو اس کے چنگل سے آزاد کرسکتی ہے۔ عدالتی فیصلہ کی بھی ضرورت نہیں جسے خیار عتق کہا گیا، یہی بات صحیح تر ہے۔
( شامی، ردالمختار ، 3: 498)
خاوند کا لاپتہ ہوجان
جس عورت کا خاوند چار سال تک مفقود الخبر رہے اور اس کے زندہ یا مردہ ہونے کا کوئی پتہ نہ ہو، ایسی عورت امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک چار سال تک انتظار کرے۔ اس کے بعد عدالت کے ذریعہ تنسیخ کروائے اور موت کی عدت چار ماہ دس دن گزارے پھر وہ آزاد ہے جہاں چاہے شرعی نکاح کر سکتی ہے۔ یہی امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول قدیم ہے۔ احناف کے نزدیک:
لوافتی به فی موضع الضروری لا باس به
’’ بوقت ضرورت اس امام مالک کے قول پر فتویٰ دینے میں حرج نہیں‘‘۔
فتاویٰ بزازیہ میں ہے:
الفتوی فی زماننا علی قول مالک
’’ ہمارے زمانہ میں فتوی امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے قول پر ہے‘‘۔
ابن همام، فتح القدیر شرح هدایه، 5: 371
اذا أقامت بینة علی ذلک و طلبت فسخ النکاح من قاض یراه ففسخ نفذ وهو قضاء علی الغائب وفی نفاذ القضاء علی الغائب رواتیان عندنا فعلی القول بنفاذه یسوغ للحنفی أن یزوجها من الغیر بعد العدة وإذا حضر الزوج الأول وبرهن علی خلاف ماادعت من ترکها بلانفقه لا تقبل ببنته لان البینة الأولی ترجحت بالقضاء فلا تبطل بالثانیة۔
شامی، ردالمختار، 3: 591
’’جب عورت نے خاوند کے غائب ہونے پر ثبوت (گواہ) پیش کردیا اور اس قاضی سے نکاح فسخ کرنے کا مطالبہ کیا جس کی رائے میں فسخ کی وجہ معقول تھی۔ پھر اس قاضی نے نکاح فسخ کردیا تو یہ فیصلہ نافذ ہوجائے گا۔ یہ غائب کے خلاف فیصلہ ہے اور غیر حاضر شخص پر فیصلہ نافذ ہونے میں ہمارے نزدیک دو قول ہیں۔ تو جس قول میں فیصلہ نافذ ہونے کی تصریح ہے حنفی مذہب کے پیرو کار کے لئے گنجائش ہے کہ عدت گزرنے کے بعد اس عورت کا کسی اور سے نکاح کردے اور اگر پہلا خاوند حاضر ہوگیا اور اس نے عورت کے اس دعویٰ کے خلاف ثبوت پیش کردیا کہ خاوند نے اسے بغیر خرچہ کے چھوڑے رکھا تو پہلے خاوند کا ثبوت تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ پہلے ثبوت کو عدالتی فیصلہ نے ترجیح دے دی ہے۔ لہٰذا دوسرے ثبوت سے وہ باطل نہ ہوگا۔ ‘‘
خلاصہ بحث
اسلام کسی کو کسی پر ظلم کرنے اور اس کے حقوق پامال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ اگر بیوی حقوق زوجیت سے خاوند کو محروم کرے تو خاوند کے پاس حق طلاق ہے اور دیگر حاکمانہ حقوق ہیں جنہیں احسن طریقے سے بروئے کار لاکر وہ اپنے حقوق وصول کرسکتا ہے۔ بصورت دیگر حق طلاق استعمال کرکے اس سے جان چھڑا سکتا ہے۔ اور اگر خاوند بیوی کے حقوق پامال کرے، نان نفقہ نہ دے، حقوق زوجیت سے اسے محروم کرے۔ امساک بمعروف اوتسریح باحسان پر عمل نہ کرے اور ساری عمر نہ بیوی بنا کر رکھے، نہ آزاد کرے تو بیوی پر ظلم ہوا، قرآن کریم نہ کسی کو ظالم بننے کی اجازت دیتا ہے اور نہ مظلوم۔ ’لاتظلمون ولا تظلمون‘ نہ تم ظالم بنو نہ تم پر ظلم ہو۔
البقره ،2: 279
لہٰذا عورت ہو یا مرد دونوں کے حقوق ہیں۔ ایک فریق کے حقوق دوسرے فریق کے فرائض میں شامل ہیں مرد کے حقوق عورت پورے کرے اور عورت کے حقوق مرد پورے کرے۔