پھول کچھ میں نے چُنے ہیں ان (ص) کے دامن کیلئے

منیر احمد ملک (مظفر گڑھ)

محبتِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  دل کے شبستاں میں کھِلا ہوا ایک ایسا پھول ہے جس کی بہار بے خزاں ہے۔ یہ ایک ایسی حسیں سحر ہے جس کی شام ہوتی ہی نہیں۔ یہ ایک ایسی بادہ انگبیں ہے جس کے سُرور کے بغیر روح کو چین آتا ہی نہیں۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی محبت ایک ایسا پھول ہے جو اگر کسی کے دل میں ایک بار کھِل اٹھے تو پھر کبھی نہیں مرجھاتا۔۔۔ یہ وہ مقدس جذبہ ہے جو کبھی ماند نہیں پڑتا۔۔۔ یہ وہ نایاب پھول ہے جس کی خوشبو روح کو لطافت اور امن کو بالیدگی بخشتی ہے۔۔۔ ہماری زندگی کی بقاء کا راز آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے دامنِ کرم سے وابستگی میں پنہاں ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اس گم گشتہ میراث سے اک نئے ولولے کے ساتھ رشتہ جوڑیں۔ اگر ہم آج بھی اپنے اجڑے ہوئے قلب و جگر کو مئے الفتِ رسول سے آباد کرلیں تو ہماری عظمتِ رفتہ گردشِ ایام کی طرح لوٹ سکتی ہے۔

زیر نظر سلسلہ تحریر جو وقتاً فوقتاً آپ ماہنامہ منہاج القرآن میں ملاحظہ فرماتے رہتے ہیں، درحقیقت عشاقانِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی طرف سے تاجدارِ کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے عشق کا اظہار ہیں۔ میں ان پُرمہک پھولوں کو حسنِ ترتیب کی لڑی میں پروکر اِن کے ہار اور گجرے بناکر آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں، اس امید کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دامن کو بھی محبت و عشقِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی خیرات سے معمور فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم 

وہ محبت ہی محبت ہیں محبت کی قسم
اُن کی محبت کے سوا کچھ نہ خدارا مانگو

 

حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  آپ کی چشمِ کرم کا متوالا

میانے قد اور گھنی ریش کا حامل یہ رہنما سادہ شیروانی اور شرعی پاجامہ زیب تن کرتا تھا، سر پر ہمیشہ ترکی ٹوپی ہوا کرتی تھی، وہ ہمیشہ کھردری چارپائی پر سوتا، سادہ کھانا کھاتا اور قانون ساز اسمبلی کا ممبر ہونے کے باوجود ریل گاڑی کے تیسرے درجے میں سفر کرتا ۔

سوال یہ ہے کہ وہ عوام میں اس قدر مقبول کیوں کر ہوا؟ اس لئے کہ وہ سچا عاشق رسول تھا۔ اس کا سر صرف اسی چوکھٹ پر جھکتا جس پر جھکانے کے لئے قرآن اور صاحب قرآن نے تلقین کی ہے۔ 1880ء میں جلیانوالہ باغ امرتسر کے سانحے میں اس کی جرات رندانہ کا عجب منظر دیکھنے میں آیا۔ پہلے جنرل ڈائر نے وحشیانہ انداز میں گولی چلاکر آزادی کے ہزاروں متوالوں کو شہید کردیا پھر حکم دیا کہ زندہ بچ جانے والے پیٹ کے بل رینگ کر باغ سے باہر نکلیں۔ جب لوگ اس ذلت سے ساتھ باہر نکل رہے تھے تو ایک شخص سینہ تانے باوقار انداز میں چلتا ہوا باہر آیا۔ پہرے پر کھڑے انگریز فوجی نے بندوق تان کر اسے لیٹنے کاحکم دیا لیکن اس نے حکم کی پرواہ نہ کی اور فوجی کو اپنی بندوق جھکا لینی پڑی۔ شانِ بے نیازی سے باہر آنے والا یہی شخص سچا عاشقِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  تھا۔ بعد میں اس انگریز سارجنٹ کا کورٹ مارشل ہوا تو اس نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’اگر میں اس شخص پر گولی چلادیتا تو اسی دن ہندوستان میںہزاروں انگریزوں کا خون بہہ جاتا‘‘۔

جرات رندانہ سے سرشار یہ متوالا شخص، حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے دیوانہ وار محبت کرتا تھا۔ یہ گیارہ بار حج کی سعادت سے شرف یاب ہوا اور بارہ مرتبہ روضہ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی زیارت کی اور تین بار اِسے خواب میں نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا دیدار نصب ہوا۔

جولائی 1946ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا تاریخی جلسہ بمبئی میں منعقد ہوا تووہ بھی اس میں شریک تھا۔ اسے پاکستان کے قائم ہونے کا پختہ یقین تھا، اس لئے اس نے جلسے میں برملا کہا کہ پاکستان تو مل جائے گا اب ہمیں بعد کی فکر کرنی چاہئے۔ لوگوں نے حیران ہوکر پوچھا ’’آپ کو اس قدر پختہ یقین کیسے ہے کہ پاکستان مل جائے گا‘‘ اس نے جواب دیا: ’’میں نے خواب میں نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی زیارت کی ہے اور مجھے پاکستان بننے کی بشارت دی گئی ہے‘‘۔

اس درویش صفت اور سچے عاشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا نام مولانا فضل الحسن حسرت موہانی تھا۔ انہوں نے اپنے دیس کی آزادی کے لئے قید و بند کی صعوبتیں خندہ پیشانی سے برداشت کیں مشقت کے علاوہ فرصت کے جو لمحے ملتے وہ شعر کہنے میں گزار دیتے۔ اسی زمانے میں انہوں نے ایک شعر کہا جو بہت مشہور ہوا:

ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشہ ہے حسرت کی طبیعت بھی

اس مشکل وقت میں وہ مشق سخن کے علاوہ دین کی باتوں پر بھی پوری طرح عمل پیرا رہے۔ ادھورے کپڑوں میں بھی پانچوں وقت نماز پڑھتے اور ہر وقت اللہ کی یاد میں مگن رہتے۔ ماہ رمضان آیا تو پورے روزے رکھے۔ اس کا حال وہ اپنے ایک شعر میں بیان کرتے ہیں۔

کٹ گیا قید میں ماہ رمضان بھی حسرت
گرچہ سامان سحر کا تھا نہ افطاری کا

جب بھارتی حکومت نے اردو کی جگہ ہندی کو ملک بھر میں سرکاری زبان بنایا تو مولانا حسرت موہانی نے اس فیصلے کی سخت مخالفت کی۔ انہوں نے پارلیمان میں بڑی پرجوش تقریر کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ ’’اگر تم اردو زبان کو اس کا حق نہیں دیتے تو میں مقدمہ اقوام متحدہ میںلے جائوں گا‘‘ اردو زبان کے علاوہ ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت میں سینہ سپر رہے۔ یہاں تک کہ 13 مئی 1951ء کو یہ عاشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اللہ کی بارگاہ میں پہنچ گیا۔ اللہ انہیں غریقِ رحمت کرے اور اُن کی لحد پہ مغفرت کے پھول برسائے۔

محبت تجھ کو آدابِ محبت خود سکھادے گی

ہزاروں طلبہ کا مجمع تھا امام شافعی رحمہ اللہ عنہ درس قرآن میں منہمک تھے کہ ایک جانب سے ایک نحیف و نزار شخص آتا نظر آیا۔ امام صاحب خاموش ہوگئے اور اُن کے استقبال کے لئے بڑھے۔ جوں ہی وہ قریب آئے تو معانقہ فرمایا، تقریر بند کردی اور اُن کی طرف ہمہ تن متوجہ رہے۔ پھر جب وہ رخصت ہوئے تو امام صاحب نے اپنا سلسلہ تقریر پھر سے جوڑ دیا۔ طلبہ نے حیرت سے پوچھا: حضرت! یہ کوئی بہت بڑے مفسر ہیں؟ فرمایا: ’’نہیں‘‘۔۔۔ پوچھا یہ محدث ہیں؟ فرمایا: ’’نہیں‘‘ طلبہ بصورتِ سوال تھے کہ پھر اس قدر عزت و پذیرائی کیوں؟ امام صاحب نے اُن کے دل کی بات پالی اور فرمایا: ’’میں قرآن کو اِس بزرگ سے زیادہ جانتا ہوں لیکن یہ صاحب قرآن (حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے مجھ سے زیادہ واقف ہیں‘‘۔

محبت کی نشانی

یہ 1824ء کی بات ہے کہ ہند میں مرزا قتیل فارسی کا ایک مشہور شاعر گزرا ہے۔ اس کے اکثر اشعار میں تصوف کا رنگ جھلکتا تھا۔ ایران کے ایک شخص نے اس کے اشعار دیکھ کر خیال کیا کہ یہ کوئی بڑا بزرگ شخص ہے۔ وہ زیارت کے لئے ایران سے چل کر اس کے پاس ہندوستان پہنچا۔

اتفاقاً مرزا قتیل حجامت بنوارہا تھا، حجام اس کی داڑھی مونڈھ رہا تھا۔ یہ دیکھ کر اس شخص کے دل کو بڑی ٹھیس لگی، وہ حیران ہوکر بولا ’’آغا! ریش می تراشی؟‘‘ (آقا! داڑھی چھیل رہے ہیں آپ؟) مرزا نے جواب دیا:

بلے ریش مے تراشم۔۔۔ ولے دلے کسے رانمی خراشم

’’ہاں میں داڑھی ضرور مونڈھ رہا ہوں لیکن کسی کا دل تو نہیں دکھا رہا‘‘۔ وہ شخص بولا

’’آرے دلِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  اللہ مے تراشی‘‘

’’ہاں ہاں! تم رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے دل کو تو ضرور دکھا رہے ہو‘‘۔

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔ یہ الفاظ تیروسناں کی طرح مرزا کے دل میں پیوست ہوگئے۔ مرزا قتیل واقعی قتیل ہوگئے، وہ آہ بھر کر بیہوش ہوگئے، جب ہوش آیا تو بولے:

جزاک اللہ کہ چشم باز کردی
مرا بہ جان جاں ہمراز کردی

’’اللہ تجھے جزائے خیر دے کہ تو نے میری آنکھ کھول دی اور میرا تعلق میرے محبوب سے جوڑ دیا‘‘۔

وہ شخص بولا ’’تو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی محبت کا اظہار بھی کرتا ہے اور ان کی نافرمانی بھی کرتا ہے۔ میری جان کی قسم! تیرا یہ فعل بڑا ہی عجیب ہے۔ اگر تیری محبت سچی ہوتی تو تُو اُن کی اطاعت کرتا، اس لئے کہ ہر محب اپنے محبوب کا مطیع ہوتا ہے۔

کوئی تصویر نہ ابھری تری تصویر کے بعد
ذہن خالی ہی رہا کاسہ سائل کی طرح

انسان کو رہتی ہے محبت کی زباں یاد

غزوہ حنین و طائف کا معرکہ فتح پر منتج ہوا تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے مکہ کے نو مسلم رؤس مکہ کو مال غنیمت سے نواز دیا اور غنیمت میں ہاتھ آئے ہوئے مویشی سب کے سب ان ہی نومسلموں میں بانٹ دیئے۔ انصار مدینہ کو یہ بات گراں گزری اور چند زبانیں شکوہ سنج ہوئیں کہ جنگ کی سختیاں اور صعوبتیں تو ہم جھیلیں مگر جب تقسیم غنیمت کا وقت ہو تو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  اپنے قبیلہ قریش کا لحاظ کریں اور انصار کو نظر انداز کردیں۔

حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی حسن سماعت تک یہ تبصرے پہنچے تو آپ نے انصار کو جمع فرمایا۔ پہلے ان برکتوں کو شمارکرایا جو اسلام کے دست عطا سے انصار کے ہاتھ لگیں پھر فرمایا کہ ’’ہاں تم بھی کہہ سکتے ہو کہ جب آپ بے یارو مددگار آئے تھے تو ہم نے مدد کی، آپ کا ساتھ دیا، ہمرکاب رہ کر جنگ کی۔ تم اگر یہ کہو تو سچ کہو گے۔ اسکے بعد حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے صرف ایک جملہ فرمایا مگر وہ جملہ ایسا تھا جس نے انصار کے جذبات میں تلاطم پیدا کردیا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے نہایت رقت آمیز لہجے میں فرمایا: ’’گروہ انصار! کیا تم کو یہ پسند نہیں کہ لوگ تو اونٹ اور بھیڑ بکریاں لے جائیں اور تم محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو لے کر اپنے گھروں کو جائو۔ یہ جملہ سننا تھا کہ انصار کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ دھاڑیں مارمار کر رو رہے تھے۔ روتے روتے آنسوئوں سے ان کی داڑھیاں تر ہوگئیں اور وہ پکار اٹھے: آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہمیں صرف آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہی درکار ہیں۔

کلام خلق محمد کا دیکھئے اعجاز
ہے لفظ لفظ محبت سمن سمن خوشبو

محمد (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم)  ملے گھرکا گھر بیچتا ہوں

1860ء کی دہائی میں جب یوپی کے انگریز گورنر سرولیم مور نے لائف آف محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  لکھی تو اس میں بہت سی قابل اعتراض اور من گھڑت باتیں شامل تھیں۔ ہندوستان بھر سے اس کتاب کے سوقیانہ پن کا جواب دینے کے لئے صرف ایک عاشق رسول اٹھا۔ اسے آج صاحب نظر مسلمان سر سید احمد خان کے نام نامی سے یاد کرتے ہیں۔ کتنی جگر خراش اور اندوہ گیں بات ہے کہ سرسید کو ولیم میور کی کتاب کا شافی جواب دینے کے لئے برصغیر میں مطلوبہ کتابیں دستیاب نہ ہوسکیں۔ چنانچہ انہیں گھر کا سامان بیچ کر انگلستان آنا پڑا۔ وہاں لائبریریوں میں شب و روز محنت کرکے آپ نے ایسا زبردست جوابی شاہکار لکھا کہ ولیم میور کی زبان گنگ ہوکر رہ گئی۔

یہ سوچ کر آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں کہ برصغیر کے عظیم دانشور کو مطلوبہ کتب کی تلاش میں برطانیہ آنا پڑا اور وہ بھی سرکار دو عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی سیرت پاک پر ریسرچ کرنے کے لئے۔ یہ بھی لمحہ فکریہ ہے کہ ملک کے بیس کروڑ مسلمانوں میں بڑے بڑے نواب، جاگیردار اور رئیس موجود تھے لیکن سرسید جیسے عاشق رسول کو اپنے اس مقدس مشن کے لئے گھر کے برتن تک بیچنے پڑے، تعاون کرنے کی بجائے بعض اپنوں نے ہی انہیں طعنے دیئے۔ سرسید یہ کہہ کر خاموش ہوگئے کہ ’’میرے لئے یہ اعزاز ہی کافی ہے کہ آخرت میں فرشتے اعلان کریں کہ یہ ہے وہ سید احمد خاں جو اپنے نانا کی عزت و ناموس پر کنگال ہوگیا‘‘۔ فی الواقعی اس گئی گزری حالت میں امت مسلمہ کے پاس کچھ سرمایہ اگر بچا ہے تو وہ عشق صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  رسول ہے۔

مرا ایماں تری ذات سے اظہارِ محبت

علامہ اقبال رحمہ اللہ عنہ حضور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو ہر شعبہ زندگی میں مرکزو محور سمجھتے ہیں۔ جس طرح اس کائنات رنگ و بو کی بنا اُن سے ہے، اسی طرح جہانِ تگ و تاز میں جو بھی عمل صالح ہورہا ہے نبی پاک صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے عطائے کرم سے ہورہا ہے۔ جیسا کہ وہ فرماتے ہیں:

شوکتِ سنجر و سلیم تیرے جلال سے نمود
فقرِ جنید و بایزید تیرا جمال بے نقاب

علامہ اقبال رحمہ اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’کوئی عمل چاہے کتنا ہی خلوص نیت سے کیا جائے اُس کی قبولیت کی سند نہیں جب تک کہ اُس کا تعلق میرے آقا دو جہاں صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے نہ ہو‘‘۔

کسی نے پوچھا علامہ صاحب! آپ نماز کیوں پڑھتے ہیں؟ ہمارا نظریہ تو یہ ہے کہ جب نماز پڑھنی ہے تو پھر پڑھنی چاہئے۔ یہ دین کا ستون ہے اگر چھوڑی تو کفر وارد ہوجائے گا۔ یہ فحاشی سے بچاتی ہے، یہ مومن کی معراج ہے جبکہ علامہ اقبال رحمہ اللہ عنہ یہ فرماتے ہیں کہ

’’میں نماز اس لئے پڑھتا ہوں کہ شاید میرے کسی سجدہ سے میرے نبی پاک صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچے‘‘۔

شوق تیرا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب