شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری گذشتہ تیس سال سے انتہاپسندی ،تنگ نظری اور فرقہ واریت کے خلاف علمی وفکری جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔ دہشتگردی و انتہا پسندی کے خلاف آپ کے تاریخی فتوی کا ایک عالم معترف ہے۔ علاوہ ازیں انتہا پسندانہ تصورات ونظریات کے خلاف اور اسلام کے محبت ،امن،رواداری اور عدم تشدد کی تعلیمات پر مبنی شیخ الاسلام کی 100کے قریب کتب منظرعام پر آچکی ہیں۔ حال ہی میں معاشرے سے انتہاپسندی اور تنگ نظری کے عفریت کے ہمیشہ کے لئے خاتمہ اور معاشرہ کو امن وسلامتی ،تحمل وبرداشت،رواداری اور ہم آہنگی کاگہوارہ بنانے کی غرض سے شیخ الاسلام نے درج ذیل طبقات زندگی کے لئے ’’قومی نصاب برائے فروغ امن و انسداد دہشت گردی‘‘ مرتب کیا ہے:
- فوج
- اساتذہ
- آئمہ و خطباء
- طلباء
- وکلاء و ججز
- صحافی
ان کورسز کے تشکیل دینے کا مقصد یہ ہے کہ معاشرے کے ہر فرد کوعملی طور پر اتنا تیار کردیا جائے کہ وہ کسی بھی سطح پر انتہاپسندانہ نظریات وتصورات سے نہ صرف خود محفوظ رہیں بلکہ اپنے حلقہ میں اسلام کے امن، محبت اور برداشت پر مبنی افکار و کردارکو عام کرسکیں۔
دہشت گردی، انتہا پسندی کے خاتمے، امن اور بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے مرتب کیے گئے امن نصاب کی تقریب رونمائی 23 جون کو ویسٹ منسٹر ہال لندن میں ہوئی۔۔ تقریب میں برطانیہ کے پارلیمنٹرینز، سیاسی و سماجی تنظیموں کے رہنماء ، قانون نافذ کرنے والے اداروں، پالیسی ساز اداروں، کالجوں اور یونیورسٹی کے نمائندگان، انٹرفیتھ ریلیشنز کے راہنماؤں ، عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن کی یورپی تنظیموں کے عہدیداران اور پاکستانی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی ممتاز شخصیات نے شرکت کی۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس تقریب سے خصوصی خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’دہشت گردی اور انتہا پسندی ایک عالمی برائی ہے، اسے صرف بندوق کے زور پر ختم نہیں کیا جا سکتا، اس کیلئے نوجوان نسل کی فکری اصلاح اورہر سطح پر پڑھائے جانیوالے نصاب کی ایک ایک سطر پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اس عظیم مقصد کے حصول کے لئے پرعزم، درد مند اور محب وطن قیادت کی ضرورت ہے۔ پاکستان عوامی تحریک اور منہاج القرآن انٹرنیشنل دہشت گردی کے خاتمے اور عالمی امن کے پائیدار قیام کیلئے ہر سطح پر جدوجہد کر رہی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف 600 صفحات پر مشتمل فتویٰ کے بعد امن نصاب کی تیاری اسی جدوجہد کا حصہ ہے۔
فروغ امن اور انسانیت کو قتل و غارت گری سے بچانے کے لیے میں نے چند سال قبل چھ سو صفحات پر مشتمل جامع تحریری فتویٰ جاری کیا تھا، مگر اس کے بعد عالمی برادری سمیت تمام اسلامی ممالک نے کبھی کوشش نہیں کی کہ نوجوانوں کو ایسا جامع نصاب مہیا کیا جائے جس کے ذریعے وہ نام نہاد جہادیوں کے فکری حملوں سے محفوظ ہو سکیں۔ نصاب مدرسہ کا ہو یا سکول کا۔۔۔ کالج کا یا یونیورسٹی کا۔۔۔ افسوس کسی سطح کے نصاب میں امن نام کا کوئی باب شامل نہیں ہے۔ جہاد کیا ہے اور فساد کیا ہے؟ اس پر بھی کوئی وضاحت نہیں ہے۔۔۔ انسانیت سے محبت، عدم تشدد، اور برداشت پر کوئی باب نہیں ہے۔۔۔ جھگڑے اختلافات ہوں تو پر امن طریقے سے حل کیسے کریں؟ اس پر کوئی باب نہیں ہے۔۔۔ اسی طرح غیر مسلموں کے حقوق پر کوئی باب نہیں ہے۔۔۔ قتل و غارت گری اور دہشتگردی کی مذمت پر کوئی باب نہیں ہے۔۔۔
لہذا اسی ضرورت کے پیش نظر میں نے 25 کتابوں پر مشتمل امن نصاب کو انگلش، اردو اور عربی زبانوں میں تشکیل دیا ہے۔ یہ نصاب اس قدر جامع اور مضبوط بنیادوں پر قائم ہے کہ دنیا بھر کی علمی درسگاہوں میں اس نصاب کو نافذ کر کے نوجوان نسل کو نام نہاد جہادیوں کے حملوں کے خلاف علمی اسلحہ فراہم کیا جاسکتا ہے۔
ISIS اور اس نوع کی دیگر تنظیمیں دہشتگرد اور خارجی ہیں ان کی تعلیمات کا اسلام اور قرآن سے کوئی تعلق نہیں۔ بے گناہ انسانوں کا خون بہانا اسلام اور قرآن کے بنیادی نظریہ کے خلاف ہے۔ جہاد کے نام پر فساد کرنے والوں اور نوجوانوں کی برین واشنگ کرنے والوں کے خلاف پوری قوت سے ٹکرانے کا وقت آ گیا ہے۔ ایسے دہشتگرد اور بے دین عناصر اسلام اور امت مسلمہ کو کمزور کررہے ہیں جبکہ حقیقت میں اسلام امن اور محبت کا دین ہے۔
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ’’ایک وقت آئے گا کہ نوجوان اور کم عمر احمق، اسلام اور میری سنت کا حوالہ دیکر شر انگیزی کرینگے، معصوم لوگوں کا خون بہائیں گے، غلبہ حق کی بات کرینگے لیکن ان کا اسلام اور سنت سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ یہ قابل گردن زدنی ہونگے، اس فتنے کو پوری طاقت سے کچل دینا‘‘۔ دہشتگرد تنظیمیں نوجوانوں کی برین واشنگ کررہی ہیں، انہیں گمراہ کررہی ہیں۔ میں اپنے اسلامی بچوں، بچیوں، طالبعلموں سے کہوں گا اس فتنے سے دور رہیں۔ ایسی دہشتگرد تنظیموں کیلئے اپنا ملک، اپنے والدین اور اپنی شناخت کو ترک مت کریں۔ یہ تنظیمیں جہالت اور گمراہی کے راستے پر ہیں۔ ایسے دہشتگرد گروپس ان ممالک اور معاشروں میں آسانی سے پروان چڑھتے ہیں جہاں سیاسی و معاشی عدم استحکام ہو، ناانصافی اور استحصال ہو۔
جہاد کے نام پر بے گناہوں کا خون بہانے والے دہشتگرد اسلام کو بدنام اور امت مسلمہ کو کمزور اور تقسیم کررہے ہیں۔ اپنے نفس کے خلاف لڑنے اور حیوانی خواہشات پر غلبہ پانے کو افضل جہاد کہا گیا ہے۔ جہاد کیلئے یا دفاع کیلئے ہتھیار اٹھانے کی اجازت دینا صرف قانونی وجود رکھنے والی ریاست کا اختیار اور استحقاق ہے۔ کسی سنگل فرد یا نامعلوم تنظیم کو ہتھیار اٹھانے کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ یہ تعلیم قرآن اور پیغمبر اسلام صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے اور دین اسلام میں ان سے بڑی اتھارٹیز اور کوئی نہیں۔
اسلام تو ایک بے گناہ کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل سے تعبیر کرتا ہے۔ اسلام امن، برداشت، بھائی چارہ کا دین ہے۔ امن اور برداشت کے مظاہرے کی مثال فتح مکہ کے واقعات ہیں۔ امن اور برداشت کے مظاہرے کی ایسی مثال پوری انسانی تاریخ سے نہیں ملے گی۔ پیغمبر اسلام صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر امن اور تحفظ مانگنے والے دشمنان اسلام کو امن اور تحفظ دیا اور اپنے سپہ سالاروں کو حکم دیا کہ جو نہ لڑے اس سے نہ لڑو، جو مزاحمت نہ کرے اسے قتل مت کرو۔
آج عراق، شام، افغانستان میں بہت سارے دہشتگرد گروپ معصوم بچوں، بچیوں، خواتین کو ورغلا رہے ہیں، شر انگیزی کررہے ہیں، ان کا نہ کوئی دین ہے نہ کوئی وطن اور نہ کوئی قانونی شناخت، یہ ایک خاص مائنڈ سیٹ ہے۔ یہ نام بدل بدل کر حملہ آور ہورہے ہیں لیکن ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پیغمبر اسلام نے اپنی زندگی اور بعدازاں صحابہ کرام نے بھی وقتاً فوقتاً ایسے خوارج کے خلاف تلوار اٹھائی اور سختی سے اس فتنہ کو رد کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ تقریباً 700 برطانوی شام اور عراق جاچکے ہیں۔ چند دن قبل شمالی انگلینڈ کے ایک 17 سالہ لڑکے نے عراق میں داعش کی جانب سے خودکش حملہ کیا جبکہ تین برٹش پاکستانی بہنیں اپنے نو بچوں کے ساتھ شام جاچکی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انٹرنیٹ پر اور برطانوی اور دیگر معاشروں میں نوجوانوں کے انتہا پسند بننے کا مسئلہ کس قدر شدت کے ساتھ موجود ہے، اس مسئلے کو اسلام کی درست تعلیمات کے فروغ ہی سے شکست دی جاسکتی ہے۔ داعش جیسے گروپوں کی ریکروٹنگ کو جوابی امن مہم سے روکنا ہوگا۔ داعش یا کسی دوسرے دہشت گرد انتہا پسند گروپ کی سرگرمیاں خواہ خدا کے نام پر ہوتی ہوں یا مذہب کے نام پر یا تشدد سے کسی بھی قسم کی اسلامی ریاست کے قیام کے ذریعے، دہشت گردی کی یہ تمام سرگرمیاں قرآن اور اسلام کی تعلیمات کے صریحاً خلاف ہیں۔ یہ لوگ اپنے ایجنڈے کے مطابق اسلامی تعلیمات کو مسخ کررہے ہیں، اس لئے انہیں ہر حال میں شکست دینا ہوگی۔ ان گمراہ لوگوں میں شمولیت اختیار کرنے کے لئے نوجوان اپنے عیش و آرام کی زندگی کو اس لئے چھوڑ رہے ہیں، کیونکہ ان کے سامنے اسلام کی حقیقی تعلیمات پیش نہیں کی گئیں‘‘۔
اس تقریب رونمائی سے سعیدہ وارثی، خالد محمود (MP)، ڈاکٹر کرامت چیمہ، علامہ نثار بیگ قادری، بریگیڈئیر پال ہارکنز، بیرسٹر فیض الاقطاب، شیخ محمد سعید، قاری محمد عاصم MBE، ڈاکٹر اقتدار چیمہ، عاصم رشید اور ڈاکٹر زاہد اقبال نے اظہار خیال کرتے ہوئے اس امن نصاب کو سراہا اور اسے وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے مرتب کردہ اس امن نصاب کو برطانیہ بھر میں خوب پذیرائی حاصل ہوئی۔ بی بی سی، CNN سمیت تمام عالمی میڈیا نے اسے ایک اہم تقریب کے طور پر نشر کیا اور فروغ امن کے لئے اسے اہم ترین قدم قرار دیا۔ اس امن نصاب کی برطانیہ کے سینکڑوں امام مساجد اور مسلم تنظیمیں توثیق کرچکی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مذہبی علماء اور والدین اپنی ذمے داری کا احساس کریں اور اپنے بچوں کو انتہاء پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جوابی دلائل سے روشناس کرائیں، جس کی تفصیل اس امن نصاب میں شامل ہے تاکہ مسلم نوجوانوں کو دہشت گردوں اور انتہاء پسندوں کے آلہ کار بننے کے عمل کو روکا جاسکے۔