اے خدا!
مجھ سے مفلس کو زرِ نعتِ نبی تو نے دی
شامِ غربت میں دیارِ روشنی تو نے دی
نقش فریادی نہیں، لکھتا ہے توصیفِ رسول
آدمی کو پیرہنِ ہر کاغذی تو نے دی
عافیت کے سائباں کی قافلوں کو ہے تلاش
ہادی عالم کو امنِ دائمی تو نے دی
منفرد لہجہ دیا مدحت نگاری کا مجھے
مجھ سے بے مایہ کو اسلوبِ جلی تو نے دی
مجھ کو لکھنے کا ہنر مولا! عطا کرنے کے بعد
اذنِ تحسینِ پیمبر آج بھی تو نے دی
پھول رکھتا ہے صبا کے ہاتھ پر میرا قلم
خوشبوؤں کو منصبِ نامہ بری تو نے دی
یاخدا! قرآن کی آیاتِ پر انوار میں
اپنے بندوں کو کلامِ آخری تو نے دی
چشمِ تر امت کی شامل ہے مرے اشعار میں
مصرعِ تر کو غمِ نوحہ گری تو نے دی
ایک اک لمحے پہ واجب شکر ہے تیرا خد
ایک خود سر کو مقامِ عاجزی تو نے دی
کس قدر تو مہرباں ہے اے خدائے آسماں
اپنے بندوں کو شعورِ بندگی تو نے دی
تو نے رکھے ہیں جبلت میں ثنا گوئی کے رنگ
طائرِ دل کو جمالِ شاعری تو نے دی
قریہ عشقِ نبی میں سانس لیتا ہے ریاض
جاں نثاروں کو حصارِ آہنی تو نے دی
{ ریاض حسین چودھری}
نعت بحضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نہیں لگتا مرا اب دل کہیں بھی یارسول اللہ
عطا ہو اپنے در پر زندگانی یارسول اللہ
چمن میں ہر کلی پر حبس کے موسم کا پہرا ہے
اندھیرے چھائے ہیں ہر سو اغثنی یارسول اللہ
بڑے طوفان میں ہم کو اتارا ناخدائوں نے
بھنور میں پھنس گئی ملت کی کشتی یارسول اللہ
نظر آتی نہیں صورت سنبھلنے کی کوئی آقا
ہوئی ہے جاں بلب اب ساری بستی یارسول اللہ
ہوائے نفس کی خاطر یہ ایماں بیچ دیتے ہیں
یہ قرآں بیچ دیتے ہیں دہائی یارسول اللہ
جو ممکن ہو تو یہ شمس و قمر بھی بیچ کھائیں گے
متاعِ آخرت تو لوٹ کھائی یارسول اللہ
تمازت، نفسانفسی، بے حسی، اک حشر برپا ہے
غلاموں کے سروں پر کالی کملی یارسول اللہ
جھلس جاتے ہیں غنچے بادِ صر صر کے تھپیڑوں سے
مؤدت، رحمت و الفت کی خنکی یارسول اللہ
دعا ہے آپ کے در پر پہنچ جاؤں کسی صورت
مشقت ہے دل مضطر پہ اتری یارسول اللہ
{شیخ عبدالعزیز دباغ}