پاکستان کا قیام تاریخ انسانی کا ایک عظیم واقعہ ہے۔ مسلمانان ہند کی سالہا سال کی قربانیوں اور قائداعظم کی ولولہ انگیز بصیرت کا ثمر تھا کہ ہندو اور انگریز کے تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود بہت کم عرصہ کی جدوجہد کے بدلے میں ریاست مدینہ کے بعد دنیا کی پہلی نظریاتی اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔ قائد اعظم نے فرمایا کہ ’’ہر بڑی تحریک کا ایک مفکر ہوتا ہے، ہماری تحریک کا مفکر اقبال رحمہ اللہ علیہ ہے‘‘۔ علامہ اقبال رحمہ اللہ علیہ نے زندگی کے ہر مرحلے پر عملی،فکری دونوں لحاظ سے جاندار کردار ادا کیا اور قوم کی ایک واضح سمت میں رہنمائی کی ۔علامہ نے مسلمانان ہند کے مستقبل کیلئے راہ عمل متعین کرتے ہوئے فرمایا کہ
’’میں زندگی بھر کے مطالعے کے بعد اسلام کو بطور ایک عالمگیر حقیقت کے دیکھنے کی استعداد حاصل کر چکا ہوں لہذا جب بھی مسلمانان ہند کیلئے کوئی سیاسی راہ متعین ہوگی تو وہ اسلام ہی کے اصولوں سے ماخوذہو گی‘‘۔
ایک دوسرے مقام پر نظام سیاست و ریاست کے احیاء کی ضرورت کو یوں بیان کرتے ہیں:
’’جب ملت اسلامیہ وحی سے حاصل ہونے والے عالمگیر نظام ریاست و سیاست کی امین ہے تو یہ ضروری ہے کہ ریاست و سیاست کی دور نو کے مطابق از سر نو تشکیل اور تدوین کرے‘‘۔
قائد اعظم نے اسلام اور پاکستان کو کبھی ایک دوسرے سے الگ نہیں سمجھا۔ آپ نے فرمایا:
’’قیام پاکستان کے بغیر یہاں اسلام کا کوئی مستقبل نہیں ہوگا‘‘۔
4فرروری 1935ء کو مرکزی قانون ساز اسمبلی سے خطاب میں فرمایا:
’’ہمیں ہندوستان میں اپنے مذہب ، زبان اور کلچر کا تحفظ چاہیے‘‘۔
10مارچ 1940ء کو علی گڑھ یونیورسٹی میں فرمایا:
’’ اگر ہم اسلام کو ہندوستان میں فنائیت سے بچانا چاہتے ہیں تو اس کا واحد حل صرف پاکستان کا قیام ہے‘‘۔
15نومبر 1942کو آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس میں قائد اعظم نے ایک ایسا بصیرت افروز اور چشم کشا خطاب کیا کہ جس کی روشنی سے آج بھی تاریخ پاکستان منور ہے ،آپ نے فرمایا:
’’مجھ سے اکثرپوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہو گا ؟پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔ مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے 13سو سال قبل قرآن کریم نے بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔ الحمد للہ قرآن مجید ہماری دینی رہنمائی کیلئے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا‘‘۔
یہ وہ پاکستان تھا جو علامہ اقبال رحمہ اللہ علیہ اور قائداعظمرحمہ اللہ علیہ چاہتے تھے مگر آج پاکستان کے عوام اپنے ہی وطن عزیز کو سنگین بحرانوں میں گھرا دیکھ رہے ہیں۔قیادت کے دعویداروں کے دامن پر کرپشن کے داغ نظر آرہے ہیں۔۔۔ معاشرہ اخلاقی انحطاط اور فکری پستی میں ڈوبا ہوا ہے۔۔۔ ذاتی مفادات قومی مفادات پر غالب آئے ہوئے ہیں۔۔۔
آج ہم دل کی گہرائیوں سے یہ سمجھتے ہیں کہ صرف قائد اعظم کے افکار اور انکے طرز سیاست پر عمل پیرا ہو کر ہی پاکستان بحرانوں سے نکل سکتا ہے۔قائداعظمرحمہ اللہ علیہ نے پاکستان کے قیام کا ایک ایسا مقصد پیش کیا کہ اس کو عملی شکل دے کر ہی آج ہم نہ صرف جملہ چیلنجز سے عہدہ برا ہو سکتے ہیں بلکہ ایک باوقار اور ترقی یافتہ قوم کی صورت میں دنیا میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔
قوم کی بیداری ناگزیر ہے
قائد اعظم صرف 10سالہ جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان بنانے میں کیسے کامیاب ہو گئے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ سر سید احمد خان ان سے قبل دو قومی نظریے کی بنیاد ڈال چکے تھے اور قائد اعظم سے قبل کئی مسلمان رہنماء مسلم قوم کا شعور اجاگر کر چکے تھے۔ وہ مسلمانوں کو نہ صرف مقصد بلکہ مقصد کے حصول کی واضحیت بھی عطا کر چکے تھے ۔اس لئے قوم ایک نئے ملک کیلئے تیار بیٹھی تھی۔ایسے وقت میں انہیں ایک ایسے لیڈر کی ضرورت تھی جو سچا ہو،دھن کا پکا ہو۔ جو ہندو اور انگریز کو بیک وقت ہینڈل کر سکے ۔یہ ساری صفات محمد علی جناح میں موجود تھیں۔ سو جب انہوں نے مسلم لیگ کی باگ ڈور سنبھالی تو قوم اپنے مقصد میں بہت کلیئر تھی لہذا جب انہیں مطلوبہ قیادت ملی تو منزل کا حصول آسان ہوگیا۔
آج پاکستان کو بچانا اس لئے مشکل ہے کہ قوم کواپنے حقوق کا شعور ہی نہیں۔آج پاکستانی قوم پاکستان کے حصول کا مقصد ہی بھول چکی ہے۔قائد اعظم کے فرمودات کو فراموش کرچکے ہیں اور شو مئی قسمت کہ بد معاش حکمرانوں نے ایک مخصوص مذہبی طبقے کے ذریعے عوام کو اس بات پر راضی کر لیا ہے کہ آزادی سے عبادت کرنا،نمازیں پڑھنا،روزے رکھنا یہی ہمارا مقصد تھااور آج پاکستان میں مساجد ،مدارس کثرت سے ہیں اور لوگ آزادی کے ساتھ دین پر عمل پیرا ہیں بلکہ دین کے معاملے میں اتنے آزاد ہیں کہ قرآن و حدیث کی اپنی مرضی سے تاویلات کرتے ہیں، فرقہ بندی کو پروان چڑھانے میں ماہر ہیں اور اپنے مخالف فرقوں کو کافر قرار دینے میں تو گویا مادر پدر آزاد ہیں۔
کیا ہمیں یہی آزادی درکار تھی۔۔۔؟ اگر ہمارا اصل مقصد یہ تھا تو یہ مقصد جو ہندوستان میں رہ کر بھی پورا ہو سکتا تھا توپھر قیام پاکستان کا مطلب کیا تھا۔۔۔؟ قیام پاکستان کا مقصد یہ تھا کہ جہاں اسلامی تعلیمات کی جزوی تعمیل نہ ہو بلکہ اسلام کو بطور نظام نافذ کیا جائے ۔ذرا سوچیں ہمیں اس مقصد سے دور کیسے کیا گیا۔۔۔؟ جب بھی کسی قوم کو تباہ و برباد کرنا ہو تو اسے اسکے اصل مقصد سے دور کر دو اور اُسے دیگر الجھنوں اور فکرو غم کا شکار کردو۔ اسی بناء پر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت آج پاکستانی قوم کو معاشی مشکلات میں الجھا دیا گیا۔ سو آج ہماری قوم مقصدِ حقیقی سے بے خبر دو وقت کی روٹی کیلئے دربدر ہے اور اس مقصد کے حصول کیلئے ہر طرح کے آداب کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کو حاصل کرتے وقت کی گئی جدوجہد کے دوران اسلامیان بر صغیر کو یہ باور کروایا گیا کہ آزادی کے فیوض و برکات میں معاشی آزادی بھی شامل ہے۔ برصغیر کے غریب مسلمانوں کیلئے معاشی آزادی کے نعرے نے ایک خاص کشش پیدا کر دی تھی۔معاشی آزادی کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ کے قانون ساز اراکین کے ایک اہم اجلاس (اپریل 1946ئ) میں بانی پاکستان نے مجوزہ اسلامی ریاست پاکستان کا خاکہ پیش کیا۔ اس کمیٹی نے جو قراردادمرتب کی اس میں یہ بات شامل تھی کہ اگر کانگریس کی اجارہ داری کو قبول کر لیا گیا تو پھر مسلمان اور دیگر اقلیتیں معاشرتی اور معاشی حیثیت سے ایسی غلامی میں مبتلا ہو جائیں گی جس سے کبھی نجات نہیں ملے گی۔
سوال یہ ہے کہ کیا جسمانی طور پر آزادی حاصل کرنے کے باوجود ہمیں معاشی آزادی نصیب ہو سکی۔۔۔؟ 1947سے قبل مسلمان ہندو بنیے کا غلام تھا، آج ہر پاکستانی آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کا اس حد تک غلام ہے کہ ہر پاکستانی ایک لاکھ روپے تک کا مقروض ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بجلی،پانی تیل ،گیس کے ساتھ ساتھ اشیائے خوردو نوش کی قیمتوں کا تعین بھی آئی ایم ایف کرتا ہے۔ الغرض عام پاکستانی کا معاشی استحصال جو 1947ء سے قبل ہوتا تھا وہ آج بھی جاری ہے۔ قائداعظم نے ہمیں ایک مکمل آزادی کا تحفہ دیا تھا جو نا اہل،کرپٹ بد عنوان لیڈر شپ کی وجہ سے صرف جغرافیائی حد تک تو قائم ہے مگر ذہنی، فکری، معاشی طور پر غلامی کی زنجیریں ہمیں ابھی بھی جکڑے ہوئے ہیں۔
کیا آج ہم ایک قوم ہیں۔۔۔؟
افسوس! آج ہم ایک قوم بھی نہ رہے، ہم ایک ہجوم کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ مختلف سوچوں اور فکروں میں بٹ چکے ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت ہم ایک قوم تھے، آج ہم قوم نہیں بلکہ ایک ہجوم ہیں کیونکہ قومیں مشترکہ سوچ اورمشترکہ مفادات سے جنم لیتی ہیں جبکہ آج ہمارے ملک کی 18کروڑ آبادی مختلف مذہبی، اخلاقی، سیاسی، گروہی، نسلی، معاشی گروہوں میں بٹ چکی ہے اور انہی مقاصد کو موجودہ حکمران طبقہ اپنے مفادات کی خاطر پروان چڑھا رہا ہے، اس لئے کہ موجودہ حکمرانوں کے مفادات کا تحفظ قوم کے تقسیم ہونے میں ہی مضمر ہیں۔
آج اپنے مقصد سے ہٹی ہوئی عوام کو مقصد کی طرف لانا اور پھر تمام نسلی ،گروہی،لسانی اور صوبائی تعصبات کو بالائے طاق رکھ کر کسی ایک مقصد ،کسی ایک سوچ کی لڑی میں پرو کر ظالم اور ملک دشمن حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ پاکستان بنانا آسان تھا اور اسکی وجہ یہ تھی کہ اس وقت مسلمانوں کا دشمن بڑا واضح تھا مگر آج پاکستان بچانا اس لیے مشکل ہے کہ اس کا دشمن غیر نہیں بلکہ اپنا ہے۔اپنے اغیار سے کئی گنا بڑھ کر ملک کے دشمن ہیں اور وہ اپنے آپ کو اس ملک کا خیر خواہ بھی کہتے ہیں جبکہ حقیقت میں یہی لوگ اس ملک کے اصل دشمن ہیں۔ ان کا دین اور کعبہ صرف مال و زر ہے اور آج ان زر پسندوں اور مطلبی ٹولے سے ٹکر لینا اپنی جان و مال اور عزت کو دائو پر لگانے کے مترادف ہے۔
کردارِ حسینی کی ضرورت
ان تمام تر حالات کی سنگینی اور ملکی نائو ڈوبتی دیکھ کر اپنے جان و مال اور عزت کی پرواہ کئے بغیر جس شخصیت نے جرات و بہادری کا مظاہرہ کیا اور امام حسین علیہ السلام کے اسوہ کی پیروی میں تمام خطرات کو بالائے طاق رکھ کر حق و سچ کا نعرہ بلند کیا اور حکمرانوں کو للکارا، وہ قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہیں۔ آپ ایک طرف عرصہ 30 سال سے زائد عوام کو ان کے حقیقی مقصد سے آشنا کررہے ہیں تو دوسری طرف وقت کے فرعونوں اور یزیدوں کے کالے کرتوت اور ملک و قوم کو نقصان پہنچانے کے ان کے منصوبوں کو بے نقاب کررہے ہیں۔ گذشتہ سال اگست 2014ء میں پوری دنیا نے اس مردِ قلندر کے ملک و قوم کی بہتری کے لئے Vision، عزم و ارادہ کی پختگی اور بے مثال جرات و بہادری کا نظارہ کیا۔ کسی بھی قسم کے نتائج سے بے پرواہ ہوکر ظالم اور جابر درندہ صفت حکمرانوں کے خلاف اس طرح کی استقامت کا مظاہرہ پاکستان کی 68 سال کی تاریخ میں نظر نہیں آتا۔
آپ نے دس نکاتی عوامی حقوق کا ایجنڈا دے کر باطل کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کر دیا اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی تحریک نے عوامی حقوق کی بحالی کی ایسی جنگ لڑی کہ قدم قدم پر ہر ایک نہ صرف اس کا معترف ہوا بلکہ یہ بھی کہنے پر مجبور ہوا کہ ’’ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ٹھیک کہتے تھے‘‘۔
اس ملک کو چلانے کیلئے ایک آئین ہے جس میں عوام اور عوامی نمائندوں پر مشتمل حکومت کے حقوق و فرائض بیان ہیں مگر آج تک حکمرانوں نے ان آرٹیکلز سے صرفِ نظر کیا اور عوام پر ریاستی دہشت گردی کرتے رہے۔ پہلی بار قائد انقلاب نے عوام کو آئین کا حقیقی چہرہ دکھایا اور عوامی حقوق والے آرٹیکلز عوام کو ازبر کروا دئیے۔ پھر یہیں نہیں رکے بلکہ ظالمانہ ،فرسود، جاگیردارانہ کرپٹ نظام سے عوامی حقوق کی بحالی کیلئے براہ راست ٹکر لیکر میدان میں کود پڑے۔ عرصہ دراز سے جو سیاسی شعبدہ باز ایک دوسرے کو گالیاں دے کر عوام کو بیوقوف بنا کر قومی خزانہ لوٹنے میں مصروف تھے، انہیں جب اپنے محلات میں زلزلہ برپا ہوتا نظر آیا اور اپنا اقتدار ہمیشہ کے لئے ختم ہوتا نظر آیا تو اپنے جھوٹے شیطانی اقتدار کو بچانے کیلئے اکٹھے ہوگئے۔ اس موقع پر قائد انقلاب نے سیاست دانوں کے چہرے بھی عوام کے سامنے بے نقاب کیے کہ یہ بظاہر تو آپس میں مخالف ہیں مگر اندر سے ایک ہیں، ان کا آپس میں مک مکا ہے۔
انقلابی جدوجہد کا ماحصل
عوامی حقوق، عوامی جمہوریت اور آئین کے حقیقی نفاذ کیلئے قائد انقلاب ڈاکٹر طاہر القادری کی انقلابی جدوجہد سے 68 سال میں پہلی بار عوامی حقوق کی بحالی اور کرپشن کے خاتمے کی تحریک کا آغاز ہوچکا ہے۔
قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے گذشتہ سال دھرنے کے اختتام پر اس انقلابی جدوجہد کے ماحصل کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’جہاں تک ہماری قربانیوں، جدوجہد اور صبرو استقامت کا تعلق ہے اس میں نہ کوئی کمی رہی اور نہ پاکستان کی تاریخ اس کی مثال پیش کرسکتی ہے اور نہ دنیا کی اقوام کی تاریخ میں اتنا طویل ترین پرعزم عظیم دھرنا نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو مہلت دینے کا فیصلہ کیا، فوری طور پر یہ حکومت نہ گئی مگر اللہ رب العزت نے ہمیں اس کا نعم البدل عطا کردیا اور وہ یہ کہ کائنات کے رب نے ملک کے کروڑوں عواموں کے ذہن کو بدل ڈالا۔ لوگوں کی فکر میں انقلاب آگیا، پوری قوم کو فکری انقلاب ملا جو 1947ء سے لے کر 1970ء تک نہیں ملا تھا۔ 71,70ء میں ایک بار جب ذوالفقار علی بھٹو کی تحریک چلی تو لوگوں کی سوچیں بدلی تھیں مگر اس کے بعد پھر 2014ء تک جمود آگیا۔ ہماری جدوجہد سے اللہ رب العزت نے 43 سال کے بعد دوبارہ قوم کو ذہنی انقلاب عطا کیا۔ قوم اٹھ کھڑی ہوئی اور قوم نے باطل نظام کے خلاف بغاوت کا فیصلہ کرلیا۔ حکومت کے ظلم و ستم، جبرو تشدد اور قتل و غارت گری کے باوجود جب ہم 14 اگست کو نکلے تھے تو لوگوں کی ہمدردیاں ہمارے ساتھ تھیں مگر عوام کروڑوں کی تعداد میں ہمارے ساتھ نہ تھے، انقلاب کے ساتھ صرف کارکن تھے، جب دو مہینے گزرے، کارکنان کی قربانیاں پھل لائیں اور آج کروڑوں لوگوں کی صرف ہمدردیاں نہیں بلکہ ان کے ذہن بھی ہمارے ساتھ ہوگئے ہیں۔
ہماری جدوجہد سے کمزور اور مایوس لوگوں کو ہمت اور جرات ملی۔انقلاب کی آرزو زور پکڑ گئی ہے، سٹیٹس کو کے خلاف نفرت بھڑک اُٹھی ہے۔ وہ لاکھوں لوگ جو ذہنی طور پر بدل گئے تھے اور انقلاب کے ساتھ ہوگئے تھے مگر اپنی مجبوریوں اور کمزوریوں کی وجہ سے گھروں سے نکل کر دھرنے میں نہیں پہنچ سکے مگر اپنے گھروں میں بیٹھے بیٹھے ذہنی طور پر بدل گئے اور انہوں نے ہمارے انقلاب کی فکر کو قبول کیا‘‘۔
ماهنامه منهاج القرآن ماه دسمبر2014ء ص:75
پاکستان عوامی تحریک اور اس کے کارکنان نے خلوص نیت اور استقامت کے ساتھ ریاستی دہشت گردی کا مقابلہ کیا، جانوں کا نذرانہ پیش کیا، مالی نقصانات اٹھائے، لوگ اپاہج ہوئے اور کئی کارکنان ملازمتوں اور کاروبار سے ہاتھ دھو بیٹھے، افسوس! وہ لوگ جو اس تحریک کا حصہ نہیں تھے آج وہ سوالات کرتے ہیں کہ کیا دھرنا کامیاب ہوا۔۔؟ دھرنے کا نتیجہ کیا نکلا۔۔؟ اصل میں یہ سوالات بڑی سوچی سمجھی سازش کے تحت تیار کر کے عوام کے ذہنوں میں ڈالے جارہے ہیں تاکہ اس تحریک کے بعد اس ظالمانہ کرپٹ استحصالی نظام سے ٹکر لینے کی کوئی جرات نہ کر سکے کہ اگر اتنی بڑی جدوجہد کا بظاہر کوئی نتیجہ نہیں نکلا تو آئندہ تو اس طرح کی جدوجہد کی ہی نہیں جاسکتی۔ اس طرح کی منفی سوچ کے حاملین یہ بھول جاتے ہیں کہ حق و باطل میں تمیز برقرار رکھنے کیلئے اس طرح کی تحریکیں اللہ کی طرف سے چلتی ہیں اور جس چراغ کو اللہ جلائے اسے کون بجھا سکتا ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کی قربانیاں ہرگز رائیگاں نہیں جائیں گی اور نہ ہی ہم ناکام ہوئے۔ ہماری جدوجہد جاری ہے بقول قائد انقلاب یہ انقلابی جدوجہد ایک باب تھا، ابھی کتاب جدوجہد کے اور ابواب باقی ہیں۔ بارش کا پہلا قطرہ جب زمین کی طرف سفر کرتا ہے تو وہ یہ نہیں سمجھتا کہ زمین میری وجہ سے سیراب ہو گی مگر وہ اپنے بعد میں آنے والے ان ڈھیروں قطروں کی ہمت باندھتا ہے جس کی وجہ سے زمین سیراب ہوتی ہے۔ گویا باعث فخر وہ پہلی کاوش ہوتی ہے جو بعد میں کسی حقیقی تبدیلی کا باعث بنتی ہے۔
انقلاب کے مراحل کی وضاحت کرتے ہوئے قائد انقلاب نے فرمایا:
’’دھرنوں سے جو حاصل کرنا تھا وہ کرلیا۔ انتہا تک پہنچ جانے کے بعد دانشور لیڈروں اور کارکنوں کا کام یہ نہیں ہوتا کہ اسے جمود میں بدل دیں بلکہ پھر دوبارہ تحرک بنایا جاتا ہے۔ انبیاء کرام کی سنت بھی یہ ہے۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 13 سال مکہ مکرمہ میں رہ کر جدوجہد کی اور پھر مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ کیا کوئی مسلمان معاذ اللہ یہ کہہ سکتا ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ میں ناکام ہوگئے تب مکہ چھوڑ کر مدینہ چلے گئے۔ کوئی ایمان والا یہ نہیں کہہ سکتا۔مکہ میں رہ کر دعوت دینا بھی ایک حکمت عملی تھی اور مدینہ کی طرف ہجرت کرنا بھی ایک حکمت عملی ہے۔ انقلاب میں کبھی حضر آتا ہے۔۔۔ کبھی سفر آتا ہے۔۔۔ کبھی قیام آتا ہے۔۔۔ کبھی ہجرت آتی ہے۔۔۔ کبھی یہاں پڑائو ہوتا ہے اور کبھی وہاں پڑائو ہوتا ہے۔۔۔ انقلاب سفر میں رہتا ہے، جامد ہوکر ایک جگہ نہیں رہتا۔ اسی طرح فوجیں جب محاذ پر لڑتی ہیں توکمانڈر ان چیف جب دیکھتا ہے کہ اس محاذ پر مزید پیش رفت ممکن نہیں تووہ فیصلہ کرتا ہے کہ اب دوسرے محاذ پر حملہ کردیا جائے۔ اسی طرح وہ جب ضرورت محسوس کرتا ہے تو تیسرے محاذ پر حملہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ انقلاب کو آگے بڑھانے کے لئے محاذ در محاذ آگے بڑھنے کی ضرورت تھی، سو ہم نے محاذ بدلا ہے، مرحلہ بدلا ہے مگر سفر انقلاب نہ روکا تھا نہ روکا ہے اور نہ کبھی رکے گا‘‘۔
(ماهنامه منهاج القرآن ماه دسمبر2014ء، ص:76)
قائد انقلاب کے پیش کردہ 10 نکاتی عوامی ایجنڈے کی مقبولیت ،قائد کا وژن اور مشن میں لگن اور تحریک کیلئے جان قربان کرنے ولے کارکنان یہ تین ایسے عناصر ہیں جن کی وجہ سے روایتی سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ اگر ان لوگوں کو کامیابی مل گئی تو پھر ہمارا کوئی پرسان حال نہ ہوگا۔ لہٰذا سب نے یک جان ہو کر مختلف جہتوں سے اس تحریک پر حملے شروع کر دئیے تاکہ قائداعظم کی فکر پروان چڑھانے والی اس تحریک کے متعلق عوام الناس میں اس تحریک کے مشن اور مقصد کے بارے منفی پروپیگنڈا کرکے اس کی ساکھ کو مجروح کیا جائے۔
قائد انقلاب نے اس ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لئے اور آئین کے حقیقی نفاذ کے لئے اس عظیم جدوجہد کے ذریعے اپنا حق ادا کردیا۔ جو اپنا حق ادا کردے وہ کبھی شکست خوردہ نہیں ہوتا بلکہ وہ فتح یاب ہوتا ہے۔ نتیجہ خیزی تو اللہ رب العزت نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے۔ اگر ظاہری اور دنیاوی نتیجہ خیزی کامیابی کا معیار ہوتی تو پھر (نعوذ با اللہ)حضرت امام حسین علیہ السلام کی کربلا کی کاوش ناکام تھی کیونکہ یزید کی فوج سے انہیں ظاہری شکست ہوئی، اگرچہ یہ ظاہری ناکامی تھی مگر رہتی دنیا کی کامیابیاں بھی اس ظاہری ناکامی پر ناز کرتی رہیں گی اور واقعہ کربلا قیامت تک کیلئے ظلم نہ سہنے اور ظالم حکمرانوں کے سامنے ڈٹ جانے کی ایک مثال بن گیا ۔اصل میں کوشش ،کاوش،انسانی بس میں ہے اور الحمدللہ پاکستان عوامی تحریک نے قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قیادت میں اس ملک میں جبر و استبداد کے سامنے ڈٹ جانے کی وہ مثال قائم کی جو پاکستان میں بحالی جمہوریت کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھی جائیگی۔
پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان ہر سطح پر اور ہر ممکن طریقے سے اس جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔ حق کے غلبہ اور عوامی حقوق کی بحالی کی صورت میں ہمیں اپنے مشن مصطفوی انقلاب کے حصول کا پختہ یقین ہے۔ ان شاء اللہ انقلاب آئے گا اور ہم قیام پاکستان کے حقیقی مقاصد کو حاصل کرکے عوام پاکستان کے لئے معاشرتی و معاشی امن و سکون کے خواب کو شرمندہ تعبیر کریں گے۔